قتل کی اقسام اور ان کے احکام

idara letterhead universal2c

قتل کی اقسام اور ان کے احکام

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں، مغربی فکر سے متاثر ہوکر بعض لوگوں نے دین اسلام میں مرتد اور زندیق کی سزا پرشکوک وشبہات کا اظہار، بلکہ انکار کرنا شروع کردیا اور اپنے موقف پر ان آیات سے استدلال کیا جن میں صلح اور حلیف ہونے کی وجہ سے منافقین کے خلاف کسی قسم کا تعرض کرنے سے روکا گیا۔

… جس کی تفصیل دوسری اور تیسری قسم میں گزر چکی ہے۔

ان کے لیے عرض ہے کہ ان آیات کا مصداق کفار ہوں یا منافقین، دونوں صورتوں میں ان کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے، سورة توبہ کی آیت:﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُوا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ﴾․ (التوبہ:5)سے منسوخ ہوگئے(تفسیر روح المعانی)گویا عہد نبوی کے کفار یا منافقین ومرتدین جو دیگر کافر قوموں کے حلیف بن گئے تھے یا غیر جانب دار بن کر، امت سے الگ تھلک رہنے لگے تھے، ان کی جان ومال کے تحفظ کی ضمانت کو ختم کردیا گیا تھا، البتہ اہل اسلام کے لیے جزیرہ عرب سے باہر کے مشرکوں کے ساتھ عارضی امن اور صلح کا معاہد کرنا جائز ہے، مگر مستقل نہیں، جس کی زیادہ سے زیادہ مدت علما نے دس سال رکھی ہے، مگر مرتد اور زندیق کے لیے اب بھی اعلان نبوی ہے :”من بدل دینا فاقتلوہ․“(صحیح بخاری، رقم الحدیث:3017)

﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَأً وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰی اَہْلِہ اِلَّا اَنْ یَّصَّدَّقُوْا فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ، وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰی اَہْلِہ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا، وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ، جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہ، وَ اَعَدَّ لَہ، عَذَابًا عَظِیْمًا﴾․(سورة النساء:92 تا93)

اورمسلمان کا کام نہیں کہ قتل کرے مسلمان کو، مگر غلطی سے اور جو قتل کرے مسلمان کو غلطی سے تو آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی اور خون بہا پہنچائے اس کے گھر والوں کو، مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں ۔پھر اگر مقتول تھا ایسی قوم میں سے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور خود وہ مسلمان تھا تو آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی اور اگر وہ تھا ایسی قوم میں سے کہ تم میں اور ان میں عہد ہے تو خون بہا پہنچائے اس کے گھر والوں کو اور آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی، پھر جس کو میسر نہ ہو تو روزے رکھے دو مہینے کے برابر، گناہ بخشوانے کو اللہ سے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے0 اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے، پڑا رہے گا اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہوا اور اس کو لعنت کی اور اس کے واسطے تیار کیا بڑا عذاب0

قتل کی اقسام اور ان کے احکام

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس قتل کو حلال جاننا کفر ہے، کوئی معاشرہ جہاں جان ومال محفوظ نہ ہو وہاں انسانی نسل کی بقا اور ترقی خطرے میں پڑ جاتی ہے، اس لیے دنیا کی کوئی آبادی، گروہ، جماعت ایسی نہیں ہے جو جان ومال کے تحفظ کے لیے قانون وضع نہ کرے۔ کافروں نے اپنی رسم ورواج، پارلیمنٹ کی قرار داد، وغیرہ کے ذریعے ان جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف قوانین وضع کیے، لیکن ان کا خاطر خواہ فائدہ ان کے معاشرہ کو نہیں پہنچا اور یہ جرائم بلا کسی رکاوٹ کے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

اُمت محمدیہ پر خدا کا کرم ہے کہ خالق کائنات جو انسانوں کا بھی خالق ہے، ان کی نفسیات سے بھی واقف ہے، اپنے نبی کے واسطے سے ان جرائم کی سزا سے امت کو مطلع کیا ہے اور تاریخ گواہ ہے جہاں جہاں ان قوانین کو عملی طور پر نافذ کیا گیا وہاں امن وسکون کی بہار آگئی، عوام الناس کی جان ومال محفوظ ہوگئی ،اگرچہ بظاہر ناقص العقل انسان کو یہ سزائیں بہت سخت لگتی ہیں، لیکن معاشرے کے تحفظ کے لیے ان سخت اقدامات کو اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں، اگر ایک دو مجرموں پر سزا کے نفاذ سے ہر انسان کی جان ومال محفوظ ہو جائے تو یہ خسارے کا سودا نہیں ہے، اس لیے الله تعالیٰ کی بیان کردہ حدود وتعزیرات کو ”وحشی سزائیں” کہنے والا درحقیقت قاتلوں اور ڈاکوؤں کا پشتی بان ہے، جسے ایک فرد سے ہم دردی ہے، مگر معاشرے سے کوئی ہم دردی نہیں ہے۔ قتل کی تین صورتیں ہیں۔

قتل عمد

وہ قتل ہے جس میں جارح شخص کا ارادہ ہی قتل کا ہو، مگر ارادہ قتل ایک باطنی امر ہے، اس پر سوائے عالم الغیب کے کوئی مطلع نہیں ہوسکتا، اس لیے آلہ قتل کو ارادہ قتل کے قائم مقام کر کے ہر شخص کو قاتل عمد اور اس قتل کو قتل عمد کہا جائے گا جس میں کسی ایسے ہتھیار یا کسی ایسے اوزار کو استعمال کیا گیا ہو جو جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی استعداد رکھتا ہو اور اسے قتل کے لیے بطور آلہ استعمال کیا جاتا ہو۔ جیسے تلوار، گولیاں، آگ، وغیرہ ۔
اس کا دنیاوی حکم یہ ہے کہ قاتل سے قصاص لینا واجب ہے، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر178 میں مذکور ہے۔
اگر مقتول کے ورثا دیت لینے پر راضی ہوجائیں تو دیت لینا بھی جائز ہے۔ جس کی تفصیل حدیث وفقہ کی کتب میں مذکور ہے۔

اگر قاتل، مقتول کا وارث شرعی بن رہا ہو تو وراثت سے محروم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لا یرث القاتل“ قاتل وارث نہیں بنتا۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:2766)

یہ سزا دنیوی تھی، اخروی سزا آیت نمبر 93 میں بیان کی گئی ہے: ﴿ومن یقتل مومنًا متعمدًا فجزاء ہ جھنم خالدا فیہا وغضب اللّٰہ علیہ ولعنہ وأعد لہ عذابًا عظیمًا﴾․

قتل شبہ عمد

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قتل شبہ عمد وہ قتل ہے جس میں کوئی شخص کسی کو بالارادہ ایسی چیز سے قتل کرے جو نہ آلہ قتل ہو اور نہ آلہ قتل کے قائم مقام ہو۔ (الفتاوی الھندیة:6/3-2)

1.. قتل کی اس صورت میں قاتل گناہ گار ہے۔

2.. اس پر کفارہ بھی واجب ہے۔ اور کفارہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے اور اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر مسلسل دو ماہ روزے رکھنا۔ یہ کفارہ اصلا قتل خطا کے لیے ہے، چوں کہ شبہ عمد کی ایک گونہ مماثلت و مشابہت قتل خطا کے ساتھ بھی ہے، اس لیے قتل خطا کے کفارے کے حکم میں قتل شبہ عمد کو بھی شامل کیا گیا۔

3.. عاقلہ پر دیت مغلظہ ہوگئی۔ پچیس ایک سال کی اونٹنیاں، پچیس دوسال کی اونٹنیاں، پچیس تین سال کی اونٹنیاں، اور پچیس چار سال کی اونٹنیاں (الفتاوی الھندیة:6/24)

قتل خطا

وہ ہے جس میں قتل کا ارادہ نہ ہو، اس کی دو صورتیں ہیں۔

1.. خطا فی الفعل:گولی تو شکار پر چلائی ،مگر نشانہ چوک گیا اور گولی انسان کو جالگی۔

2.. خطا فی القصد:شکار سمجھ کر گولی چلائی، مگرپتہ چلا وہ شکار نہیں انسان تھا۔

اس کا حکم یہ ہے :
1.. اس پر کفارہ واجب ہے۔ ایک مومن غلام کو آزاد کرنا، اگر یہ ممکن نہ ہوتو دو ماہ مسلسل بلاناغہ روزے رکھنا۔

2.. اور اس پر دیت بھی واجب ہے۔ لیکن عام دیت، نہ کہ دیت مغلظہ، ساٹھ دن کفارے اور دیت کا تذکرہ اس سورت کی آیت :﴿ومن قتل مؤمنا خطأ فتحریر رقبة مؤمنة ودیة مسلمة إلی أھلہ…﴾ میں بیان کیا ہے۔ دیت کی تفصیل اس حدیث مبارکہ میں ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل خطا کی یہ دیت مقرر فرمائی:

”ایک سال کی بیس اونٹنیاں، ایک سال کے بیس اونٹ، دو سال کی بیس اونٹنیاں، تین سال کی بیس اونٹنیاں اور چار سال کی بیس اونٹنیاں۔“ (سنن ترمذی:1291، سنن أبی داؤد:4545)مشہور یہ ہے کہ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا اثر ہے۔)

3.. قاتل مقتول کے ترکہ سے، یعنی میراث میں محروم ہوگا۔

4.. قاتل کو قتل کا گناہ تو نہیں ہوگا، مگر غفلت و بے توجہی کا گناہ ہوگا۔

قتل قائم مقام خطا

قتل قائم مقام خطا وہ ہے جس میں قاتل کے اختیاری فعل کو کوئی دخل نہ ہو، جیسے سوتے شخص نے کروٹ لی اور غیر اختیاری طور پر دوسرے پر آپڑا ،جس کی وجہ سے دبنے ولا فوت ہوگیا۔ اس کے بھی قتل خطا والے احکام ہیں۔(الدر المختار:5/342)

قتل بہ سبب

قتل بہ سبب وہ قتل ہے جس میں کوئی شخص کسی کے قتل وہلاکت کا بالواسطہ سبب بناہو۔ مثلا کسی شخص نے دوسرے شخص کی زمین میں بلا اجازت کنواں کھود دیا یا راستے میں لکڑی رکھ دی جس کی وجہ سے کوئی شخص کنویں میں گر گیا یا لکڑی کی ٹھوکر سے فوت ہوگیا، اس صورت میں عاقلہ پر دیت واجب ہوگی۔(الدر المختار:5/342)

حربی کافروں میں رہنے والے مسلمان کا قتل

﴿فإن کان من قوم عدولکم وھو مؤمن …﴾

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آبادی میں بو دوباش رکھنے سے منع فرمایا ہے، کیوں کہ اس سے مومن کا دین بھی خطرے میں رہتا ہے، جان بھی، پھر ان کے ساتھ رہنے سے ان کی افرادی قوت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی نو مسلم ہے تو اسے چاہیے دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کر آئے، آپ علیہ السلام نے کافروں کی بستیوں سے اس قدر دوررہنے کا حکم فرمایا ہے کہ ایک جگہ کی آگ دوسری جگہ نظر نہ آسکے۔ زمانہ قدیم کے عرب رسم ورواج میں مہمان اور مسافروں کی آبادی کی طرف راہ نمائی کے لیے آبادی سے باہر آگ جلا کر رکھتے تھے۔
سنن ترمذی میں ہے۔

”میں ہر اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے ،صحابہ کرام نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! کیوں؟ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے مزید برات کے طور پر فرمایا)ایک کو دوسرے کی آگ بھی دکھائی نہ دے۔“(سنن الترمذی، رقم الحدیث:1604)

ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے۔

”لا تساکنوا المشرکین ولا تجامعوھم، فمن ساکنھم أو جامعھم فھو مثلھم“․

”مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار مت کرو اور نہ ان کے ساتھ مل کر رہو، جو کوئی ان کے ساتھ رہے گا وہ انہیں کی طرح ہوگا“۔(سنن الترمذی)

اس لیے کوئی مسلمان ان ہدایات نبوی کو نظر انداز کر کے کافروں پر مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے کسی حملے میں مارا جاتا ہے تو اس کی دیت نہیں ہے، کیوں کہ اس نے اسلام کے حکم کی عہد کی مخالفت کر کے خود ہی اپنی ذات کی وقعت ختم کی ہے۔ البتہ اس کے قاتل پر کفارہ واجب ہے۔

مسلمانوں کے درمیان رہنے والے معاہد کافر کا قتل

﴿وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ…﴾

اگر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ایسا کافر قتل ہوجائے جو ذمی یا مستامن کا معاہدہ لے کر مسلمانوں کے ساتھ رہ رہا تھا اور یہ قتل بھی خطا سے ہوا تو اس قاتل پر دیت واجب ہے اور کفارہ بھی واجب ہے۔

دیت اس کے اعزہ کو ادا کی جائے گی اور کفارے میں ایک ایک مومن غلام کو آزادکرنا ہو گا، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ مسلسل بلا ناغہ روزے رکھنا لازم ہے۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کرنا حق قتل کرنے پر وعید

﴿وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا …﴾

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا گناہ کبیرہ اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والا گناہ ہے۔ اس جرم کی قباحت وشناعت کابیان آیت قرآنی کے اسلوب سے عیاں ہے۔

ایک گناہ پر ایک ہی آیت میں پانچ سزائیں بیان کی گئی ہے۔ ﴿ فَجَزَآؤُہ، جَہَنَّمُ﴾اس کی سزا جہنم ہے۔﴿خٰلِدًا فِیْہَا﴾ وہ اس میں لمبی مدت رہے گا (اگر حلال سمجھ کر قتل کیا تو کفر کیا اور کفر کی وجہ سے کافر ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا)۔﴿وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ﴾ اللہ تعالی اس پر غضب ناک ہوگا۔ ﴿وَ لَعَنَہ﴾ اللہ تعالی کی طرف سے اس پر لعنت ہوگی۔ یعنی رحمت خداوندی سے محروم رہے گا۔ ﴿وَ اَعَدَّ لَہ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر کے رکھا ہے۔

احادیث شریفہ میں مومن کے ناحق قتل پر سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے کے مقابلے میں پوری دنیا کا فنا ہوجانا زیادہ آسان ہے“۔(سنن ترمذی، رقم الحدیث:1395)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور یہ فرماتے ہوئے سنا (اے کعبہ!) تو کس قدر عمدہ ہے اور تیری خوش بو کس قدر پیاری ہے، تو کس قدر عظیم مرتبے والا ہے، تیری حرمت کس قدر زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، مومن کے جان ومال کی حرمت اللہ تعالی کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے“۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:3932)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ بتائیے ایک شخص نے جان بوجھ کر قتل کیا ہے، اس کی سزا کیا ہوگی؟ انہوں نے جواب دیا اس کا سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اللہ تعالی نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کررکھا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہعنہما نے فرمایا یہ وہ آیت ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی،(النساء:93) یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ اور آپ علیہ السلام کے بعد وحی نازل نہیں ہوئی ۔ اس شخص نے کہا یہ بتائیے اگر وہ توبہ کرلے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے پھر وہ توبہ کاروں میں شمار ہوگا؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس کی توبہ کیسے ہوگی؟ جب کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس شخص کی ماں اس پر روئے جس نے کسی مسلمان کو عمدا قتل کردیا ہے، وہ مقتول اپنے قاتل کو دائیں یا بائیں جانب سے پکڑے ہوئے آئے گا اور دائیں یا بائیں ہاتھ سے اس نے اپنا سر پکڑا ہوا ہوگا اور عرش کے سامنے اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور وہ شخص فریاد کرے گا اے میرے رب! اپنے اس بندے سے پوچھ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟ (مسند احمد، رقم الحدیث :2142)

دیت کے متعلق چند اہم مسائل

1.. تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال ہے، ہر سال تہائی دیت وصول کی جائے گی اور قتل خطا کی دیت عاقلہ پر ہے۔والد کی طرف سے جو رشتہ دار ہیں وہ عاقلہ ہیں ۔ یہ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے اور بعض ائمہ نے فرمایا: دیت صرف ان مردوں پر ہے جو عصبات ہوں، عورتوں اور بچوں پر دیت نہیں ۔

2.. عاقلہ وہ لوگ ہیں جو قاتل کے رشتہ دار جو ا س کی وارث یا مورث بن سکیں۔ یعنی عصبات ہیں، جب کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اہل دیوان یعنی اس کے صنعت وحرفت کے شریک کار افراد ہیں۔(احکام القرآن للتھانوی، النساء ذیل آیت:92) جس طرح آج کل ہر حرفت وصنعت کی یونین بنی ہوتی ہے۔

3.. حنفیہ کے نزدیک ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔ کئی آثار اس پر دلالت کرتے ہیں۔

1…امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم نخعی نے فرمایا: ذمی مرد کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔(کتاب الآثار، رقم الحدیث:969)

2…زہری نے بیان کیا کہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اہل ذمہ کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔ (کتاب الآثار، رقم الحدیث:2/9)

3…امام محمد بن حسن شیبانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو الہیثم روایت کرتے ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے فرمایا۔

ذمی کی دیت آزاد مسلمان کے برابر ہے۔(کتاب الآثار، رقم الحدیث:587)

4…زہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے نصرانی کی دیت اور یہودی کی دیت کو آزاد مسلمان کے برابر قرار دیا۔ امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارا اسی حدیث پر عمل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔(کتاب الآثار، رقم الحدیث: 589)

﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَةٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا،لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا، دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَ مَغْفِرَةً وَّ رَحْمَةً وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾․(سورة النساء، آیت:94 تا96)

اے ایمان والو! جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس شخص کو جو تم سے سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں، تم چاہتے ہو اسباب دنیا کی زندگی کا، سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں، تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے پہلے، پھر اللہ نے تم پر فضل کیا، سو اب تحقیق کر لو، بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہےO برابر نہیں بیٹھے رہنے والے مسلمان، جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے، اللہ نے بڑھا دیا، لڑنے والوں کا مال اور جان سے بیٹھے رہنے والوں پر درجہ اور ہر ایک سے وعدہ کیا اللہ نے بھلائی کا اور زیادہ کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں سے اجر عظیم میں، جو کہ درجے ہیں اللہ کی طرف سے اور بخشش ہے اور مہربانی ہے اور اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔

احکام شرعیہ کا مدار ظاہری حالت پر ہے

﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا…﴾ اس آیت کریمہ کے شان نزول میں کئی روایات کتب تفسیر میں مذکور ہیں، ان سب کا مشترکہ مفہوم یہ ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت جہاد کے سفر میں پابہ رکاب تھی، راستے میں دشمن کا ایک شخص اپنے قیمتی سازوسامان کے ساتھ ملا، اس نے صحابہ کرام کو دیکھ کر سلام کیا ،گویا سلام کے ذریعے اپنے مومن ہونے کی طرف اشارہ کیا، لیکن مسلمانوں نے اسے دشمن کی چال سمجھ کر اس کے سلام کا اعتبار نہیں کیا بلکہ اسے قتل کردیا اور اس کے سازوسامان کو غنیمت بنا لیا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس میں مندرجہ ذیل ہدایات دی گئی ہیں ۔

1.. دشمن کا کوئی فرد اپنے اسلام کا اظہار کردے تو اس کی ظاہری حالت، یعنی اقرار ایمان پر اعتماد کرلو، کیوں کہ احکام شریعت کا مدار ظاہری حالت پر ہے، نیتوں کا علم خدا کے پاس ہے۔ اگر اس نے جان بچانے کے لیے چال چلی ہے تب بھی اللہ تعالی جانتا ہے۔

2.. اس کے سازوسامان کو مال غنیمت بنانے کا جذبہ تمہیں اس کی بے اعتباری پر نہ اکسائے، اللہ تعالی کے پاس بہت غنائم ہیں۔ وہ دوسرے راستوں سے تمہیں غنائم سے سرفراز فرمائے گا۔

3.. تم بھی پہلے اس طرح اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، تا کہ تمہارے عزیز واقارب جو کافر تھے وہ تمہیں ظلم کاشکار نہ کریں، اس طرح ممکن ہے مقتول شخص نے اپنے ایمان کو اپنے قبیلے سے چھپا رکھا ہو اور تمہیں دیکھ کر اپنے ایمان کا اظہار کردیا، مگر تم نے یہی سمجھ لیا کہ یہ جان بچانے کے لیے چال چل رہا ہے۔

4.. ﴿فتبینوا…﴾ جب اس طرح کا کوئی مشتبہ معاملہ پیش آئے تو اس کی خوب تحقیق کرو، اس تحقیق کے نتیجے میں حقیقت سامنے آجائے گی۔ بلا تحقیق قتل کردینا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔

اسلام کے تمام احکامات کا دار مدار ظاہری حالت کے ساتھ ہے، اگر اس کے خلاف قرائن ہوں تو پھر تحقیق کرنا لازمی ہے۔ بلا تحقیق الزام اور حکم لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ (جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق