کیا امت ِمحمدیہ شرک میں مبتلا نہیں ہوگی؟

کیا امت ِمحمدیہ شرک میں مبتلا نہیں ہوگی؟

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَةَ وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْلَ، وَاللّہُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِکُمْ وَکَفَی بِاللّہِ وَلِیّاً وَکَفَی بِاللّہِ نَصِیْراً، مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُواْ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَیّاً بِأَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْناً فِیْ الدِّیْنِ وَلَوْ أَنَّہُمْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَکَانَ خَیْْراً لَّہُمْ وَأَقْوَمَ وَلَکِن لَّعَنَہُمُ اللّہُ بِکُفْرِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِیْلاً،یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ آمِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوہاً فَنَرُدَّہَا عَلَی أَدْبَارِہَا أَوْ نَلْعَنَہُمْ کَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ وَکَانَ أَمْرُ اللّہِ مَفْعُولاً، إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْماً عَظِیْماً﴾(سورة النساء:48-44)

کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب سے، خرید کرتے ہیں گم راہی اور چاہتے ہیں کہ تم بھی بہک جاؤ راہ سےOاور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے دشمنوں کو اور اللہ کافی ہے حمایتی اور اللہ کافی ہے مددگارO بعضے لوگ یہودی پھیرتے ہیں بات کو اس کے ٹھکانے سے اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اور کہتے ہیں سُن، نہ سنایا جائیو اور کہتے ہیں ”راعنا“ موڑ کر اپنی زبان کو اور عیب لگانے کو دین میں، اگر وہ کہتے ہم نے سنا اور مانا اور سن، ہم پر نظر کر تو بہتر ہوتا ان کے حق میں اور درست، لیکن لعنت کی ان پر اللہ نے ان کے کفر کے سبب، سو وہ ایمان نہیں لاتے، مگر بہت کمOاے ایمان والو!ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے نازل کیا، تصدیق کرتا ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے، پہلے اس سے کہ ہم مٹا ڈالیں بہت سے چہروں کو، پھر الٹ دیں ان کو پیٹھ کی طرف سے یا لعنت کریں ان پر، جیسے ہم نے لعنت کی ہفتہ کے دن والوں پر اور اللہ کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہےOبے شک اللہ نہیں بخشتا اس کو جو اس کا شریک کرے اور بخشتا ہے اس سے نیچے کے گناہ جس کے چاہے۔ اور جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا اس نے بڑاطوفان باندھاO۔
یہود کی بری خصلتیں اور عادات

﴿ٴَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوْتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ …﴾ ان آیات میں یہود کی عمومی خصلتیں بیان کی جارہی ہیں، یہ عادات اچانک پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ اس کے پیچھے نسلی تعصب، مذہبی انتہا پسندی، بے جا گھمنڈ، جاہ و مال کی محبت، مال و متاع کی لا متناہی حرص، انبیا و رسل کی تکذیب وگستاخی کی پوری ایک تاریخ ہے، جس سے گزر کر انسانیت کا یہ ناسور یہودیت کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے۔

انہیں ﴿أُوْتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ﴾ کا خطاب دیا گیا ہے، یعنی ان کے پاس حقیقی تورات محفوظ نہیں ہے، بلکہ حقیقی تعلیمات کا کچھ حصہ ان کے پاس محفوظ ہے۔

﴿یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَةَ﴾ یہود بہ حیثیت قوم حق کے مقابلے میں ہمیشہ باطل کے رفیق بنے رہتے ہیں، ان کی فکر، ان کا علم، ان کا قومی مزاج ہمیشہ کفر کے پلڑے کو جھکانے میں مدد گار رہتا ہے، بلکہ حق کو مغلوب کرنے کے لیے انہوں نے اپنی مذہبی روایات کا بھی پاس نہیں رکھا، اپنے مذہبی اصولوں کی روشنی میں کفرو ارتداد بھی اختیار کر لیا، صرف اس لیے کہ دین حق کے لیے راستہ بند کیا جاسکے۔

﴿وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْل﴾ یہ قوم ہدایت کی توفیق سے بھی محروم ہو چکی ہے، انہیں اپنے احوال و انجام کے متعلق ذرہ بھی فکر نہیں رہی، بلکہ انہیں ہر دم یہی فکر ستائے جا رہی ہے کہ اہل ایمان کو کس طرح راہ راست سے ہٹایا جائے ۔

﴿وَاللّہُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِکُمْ ﴾ یہ من حیث القوم اہلِ ایمان کی دشمن ہے اور ان کی دشمنی کے آگے اللہ تعالیٰ کی نصرت و ولایت کے ذریعے بندھ باندھا جا سکتا ہے۔

﴿إِّنَّ الَّذِیْنَ ہَادُواْ ﴾ آیت کریمہ میں ”من“جنس کے لیے ہے، تبعیض کے لیے نہیں ہے، یعنی یہودی قوم اس لیے جری ہے کہ یہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اللہ کی کتاب تورات میں بھی ردوبدل کر ڈالتی ہے، یہ تحریف اور ردوبدل لفظی نوعیت کی بھی ہوتی ہے اور معنوی نوعیت کی بھی ، مثلاً بعض اوقات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر کوئی بشارت مذکور ہوتی ہے تو اس میں لفظوں کے ذریعے کوئی ہیر پھیر کر کے دوسرا معنی پیدا کر دیتے ہیں، تاکہ یہ بشارت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر صادق نہ آئے یا بعض اوقات اس بشارت کے الفاظ میں ردوبدل نہیں کرتے، مگر باصرار اس کا مفہوم کسی دیگر فرد کے لیے ثابت کرتے ہیں، یہ سب جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔

مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمة الله علیہ نے ”اظہار الحق“ اور ”ازالة الأوہام“میں ان مباحث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، اصحابِ ذوق وہاں رجوع کریں۔

﴿وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا ﴾:انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ان کی گھٹی میں پڑی ہے، اپنی عادت بد کی وجہ سے خاتم الانبیا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی گستاخی سے باز نہ آئے، مجلسِ نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی الله علیہ و سلم کے ہر قول پر زبان سے کہتے ”سمعنا“ہم نے مان لیا، پھرآہستہ سے کہہ دیتے ”وعصینا“ہم تو نہیں مانتے، کبھی کہتے آپ فرمایئے، ہمیں آپ کی ہر بات بسروچشم قبول ہے، پھر آہستگی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے ﴿وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ﴾آپ کی بات پر کان نہ دھرے جائیں، یعنی آپ کی گفت گو کسی اہمیت کی حامل نہ ہو اور ﴿رَاعِنَا﴾ (جس کی تفصیل سورہٴ بقرہ میں گزر چکی ہے) ذومعنی جملوں کے ذریعے آپ کو مخاطب کر کے قصداً بے توقیری کا ماحول پیدا کرتے اور ہیر پھیر کے ذریعے مقام نبوت میں رخنہ پیدا کر کے اس میں طعنہ زنی کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، تا کہ مومنوں کے دل سے اس کی عظمت کا دبدبہ ختم ہو جائے ، آج تک یہودی اس مشن میں مصروف ہیں، تحقیق کے نام پر تشکیک کے کانٹے بو کر امت کے جوانوں میں غیرت و حمیت کا جذبہ سرد کیا جا رہا ہے۔

﴿وَلَکِن لَّعَنَہُمُ اللّہُ﴾یہودی قوم کفر عنادی کی بناپر لعنت الٰہی کی سزاوار بن چکی ہے، لعنت رحمتِ خداوندی سے دوری کو کہتے ہیں، یہ اس دوری کا نتیجہ ہے کہ ان میں احساس ہدایت اور طلب ہدایت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی، یہودیت میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو رحمتِ خداوندی پا کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔

ان کی سخت مزاجی اور قساوت قلبی کا یہ عالم ہے کہ انہیں اگر اس عذاب سے بھی ڈرایا جائے جو انہی کی قوم کے کچھ افراد پر نازل ہوا تھا، جس کے یہ خود شاہد ہیں ، اس کے باوجود ان کے دل و دماغ میں ارتعاش کی کوئی ایسی لہر پیدا نہیں ہوتی جو انہیں ہدایت کے ساحل سے لگا سکے۔آیتِ کریمہ میں دو عذابوں کی طرف اشارہ ہے۔

چہرے کو سپاٹ بنا دینا، نقش سے محروم کر کے الٹے پاؤں چلا دینا، جس طرح انسان آگے کی طرف فطری طور پر چلتا ہے اسی طرح اس چال کو غیر فطری بنادینا۔

دوسرا عذاب اصحاب سبت والا، جس کا تفصیلی قصہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، جنہوں نے ہفتہ کے دن باطل حیلے سے مچھلیوں کا شکار کر کے عذاب الٰہی کو دعوت دی، پھر نتیجے میں بندروخنزیر بنا دیے گئے۔

شرک تمام آسمانی مذاہب میں حرام رہا ہے ، ہر نبی اپنی امت کو شرک سے ڈراتا اور اس سے بچنے کی تاکید کرتا رہا، یہود کی مقدس کتاب خروج میں اللہ تعالیٰ کا فرمان مذکور ہے کہ:
میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔
تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔
تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ہی ان کی عبادت کرنا۔(خروج:20/3،4)

ان واضح احکام کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں اور حضرت ہارون علیہ السلام کی موجودگی میں یہود کے ایک گروہ نے بچھڑے کو معبود بنا لیا، یہود من حیث القوم کبھی توحید کے معاملے میں سنجیدہ نہیں رہے، تاریخ کے کئی مواقع پر انہوں نے اعلانیہ اور اجتماعی بت پرستی کا ارتکاب کیا، یہودی سلطنت کے دسیوں بادشاہوں میں سے صرف چھے بادشاہ توحید پر قائم رہے، ان کے علاوہ سارے بت پرست واقع ہوئے، ان کے نزدیک مغفرت کے لیے محض یعقوب کی نسل ہونا کافی ہے، کفروشرک کا ارتکاب مغفرت کے لیے مانع نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس باطل نظریے کی تردید کے لیے فرمایا:﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ ﴾ مشرک کے لیے مغفرت کی کوئی صورت نہیں، کفرو شرک کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے گا۔

شرک کی حقیقت
اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ میں یا صفات مبارکہ میں کسی کو شریک ٹھہراناشرک ہے، ذات مبارکہ میں شریک ٹھہرانے کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی طرح کسی کو مستقل بالذات معبو د ٹھہرا لیا جائے، جیسے نصاری نے تین خداؤں کا عقیدہ اپنا رکھا ہے۔

صفات مبارکہ میں شریک ٹھہرانے کا مطلب ہے کہ اللہ کی جو صفات خاصہ ہیں، جو اسی کی ذات کے ساتھ ازل سے ابد تک مخصوص ہیں، ان صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک فی الصفات ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات کی دو قسمیں ہیں:

صفات ذاتیہ:یہ وہ صفات کہلاتی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ذات متصف ہے، مگر ان کی اضداد سے متصف نہیں، مثلاً:حیات، قدرت، علم، سمع، بصر، کلام ، خلق، تکوین، وغیرہ، لیکن ان صفات کی ضد مثلاً:موت، عاجزی، جہل وغیرہ سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔

ایسی صفات کے علاوہ صفات کو صفات فعلیہ کہا جاتا ہے۔ ان تمام صفات میں کسی مخلوق کو شریک ٹھہراناشرک ہے، جیسے: زندہ کرنا، موت دینا، عزت و ذلت دینا، بے نیاز ہونا، بے مثل ہونا، ہر چیز کا مالک ہو نا، ہر جگہ موجود ہو نا، ہر کسی کی حاجت روائی کرنا، کسی کو مشکل میں ڈالنا، کسی سے مشکل ٹالنا، ہر کسی کی سننا، ہر کسی کی حالت سے واقف ہونا، ہر عیب سے پاک ہونا، عطا کرنا، محروم کرنا، شاہ و گدا بنانا، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خصوصیات ہیں، یہ اس کی ازلی ابدی صفات ہیں۔

ماتحت الاسباب حاجت روائی شرک نہیں ہے
جب کسی بھٹکے ہوئے مسلمان کو کسی صاحب مزار بزرگ سے حاجت روائی پر یا براہ راست ان سے مانگنے پر نکیر کر کے اسے توحید کی روشنی سے آگاہ کیا جاتا ہے، تو بعض کج فطرت اپنے مشرکانہ افعال کو سہارا دینے کے لیے یہ شبہ پیش کر دیتے ہیں کہ دنیا میں شب و روز ہم اپنے معاملات میں دوسروں سے استعانت اور مدد لیتے ہیں، لیکن کوئی ذی عقل اس پر غیر اللہ سے مدد مانگنے کا حکم لگا کر شرک کا فتوی نہیں دیتا۔

بیماری میں حصولِ شفا کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، کوئی اس پر غیر اللہ سے طلبِ شفا کا فتوی لگا کر گم راہ نہیں ٹھہراتا، تو پھر کسی اللہ والے ، کسی نیک صالح شہید کی قبر پر جا کر اس سے حاجت روائی شرک کیسے ہوگئی؟ اپنے کاموں میں کافرو مشرک فاسق و فاجر سے مدد لینا تو شرک نہ ہوا اور کسی صاحبِ مزار اللہ والے سے مدد لینا شرک ہو گیا، کیوں؟

یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے، جو مومن کو توحید کے راستے سے ہٹانے کے لیے شیطان بطورِہتھیار استعمال کرتا ہے، مخلوق سے حاجت روائی اور استعانت دو طرح سے ہوتی ہے۔

1.. ماتحت الاسباب۔ 2.. مافوق الاسباب
اسباب کے درجے میں مخلوق سے حاجت روائی، مشکل کشائی کروانا، ان سے مدد حاصل کرنا شرک نہیں کہلاتا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ایک دوسرے کی مدد کا سبب بنایاہے، اللہ تعالیٰ کو مؤثر حقیقی سمجھتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرنا اللہ کا حکم اور سنت رسول ہے، قرآن و سنت میں بے شمار نصوص اس کے جواز پر موجود ہیں، انبیا علیہم السلام کی حیات مبارکہ ان اسباب سے معمور ہے، اسے نہ اللہ تعالیٰ نے شرک کہا ہے ، نہ انبیاعلیہم السلام نے شرک سمجھا ہے، فتح و نصرت اورشکست و ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی مؤثر حقیقی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فتح و نصرت کے ظاہری اسباب اور آلات ضرب و حرب اختیار کرنے کا حکم دیا:
﴿وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ﴾(الأنفال:60) (اور تیار کرو ان کی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کرسکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے) موت دینا اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے، مگر موت کا سبب اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت میں شریک نہیں ٹھہرے گا اور نہ ہی اسے شرک کہاجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ ﴾․(الأنفال:39)

قتل کرنا موت کا سبب ہے، اسے اپنانے کا حکم ارشادفرمایا۔ حیات دینا اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے، مگر قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک مقتول کو گائے کا گوشت مس کرنے کا حکم دیا گیا ،جو اس مقتول کی حیات کا سبب بن گیا، اس سبب کواختیار کرنے سے نعوذباللہ کسی نے حضرت موسیٰ علیہ االسلام کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرایا، رزق دینا اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے، مگر قرآن کریم میں ﴿وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾(الذاریات:19) کا حکم دے کر انسانوں کو باہمی طور پر فراہمی رزق کا سبب بنادیا، اسے کوئی شرک نہیں کہتا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نصرت و دین کے لیے مخلوق میں اعلان فرمایا تھا:﴿مَنْ أَنصَارِیْ إِلَی اللّٰہِ﴾؟ (الصف:14)(کون ہے کہ مدد کرے میری اللہ کی راہ میں؟) دین کی نصرت کا ایک سبب انسان ہے، سبب ظاہری سے تعاون و مدد طلب کرنا نہ شرک ہے اور نہ ہی تعاون کرنے والے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرتے ہیں۔

کیوں کہ یہ سارے امور اسباب کے درجے میں آتے ہیں۔

مخلوق سے حاجت روائی کی دوسری قسم مافوق الاسباب کسی کو حاجت روا جاننا، مشکل کشا ماننا، متصرف الامور ماننا ہے ۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو اسباب کے درجے میں حاجت روا ، مشکل کشا نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے سبب ہونے پر کوئی دلیل کتاب وسنت سے موجو د ہے، اسے از خود سبب بنا لینا بھی عقیدہ توحید کے منافی ہے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق فرشتہ، نبی، ولی یا دیوی دیوتاکے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اگرچہ قادرِ مطلق اور کل اختیارات کا مالک اللہ تعالی ہی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اختیارات، اسی طرح اپنی قدرت کا کچھ حصہ ان مخلوقات میں سے کسی کو سونپ دیا ہے، اس عقیدے کے ساتھ ان سے کچھ مانگنا کہ ہماری فلاں حاجت پوری فرمادیجیے وغیرہ شرک ہے۔ ہاں! اگر کوئی مخلوق کو ندا کرتا ہے، مگر نہ اسے مستقل بالذات مشکل کشا سمجھتا ہے اور نہ ہی انہیں متصرف فی الامور خیال کرتا ہے وہ شرک نہیں کہلائے گا۔(علمائے دیوبند کے عقائد ونظریات، ص:143۔144)

چناں چہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں:
”یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ ندا غیر اللہ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے، ورنہ شرک نہیں، مثلاً یہ جانے کہ اللہ تعالی ان کو مطلع فرما دے گا یا باذنہ تعالی انکشاف ان کو ہو جائے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچادیویں گے، جیسا کہ درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو، محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں، لیکن ہر گز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ“۔(فتاوی رشیدیہ کامل مبوب، ص:68ط، محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل کراچی)

پس انہی اقسام سے کلماتِ مناجات و اشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ شرک نہ معصیت۔

حضرت مولانا محمدیوسف یوسف لدھیانوی شہیدرحمة الله علیہ لکھتے ہیں:”جو امور اسبابِ عادیہ سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً کسی بھوکے کا کسی سے روٹی مانگنا یہ تو شرک نہیں ،باقی انبیا و اولیا پر جو خلافِ عادت واقعات ظاہر ہوئے ہیں وہ معجزہ اور کرامت کہلاتے ہیں، اس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا ہے، مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا، یہ ان کی قدرت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا تھا، یہ بھی شرک نہیں، یہی حال ان فرشتوں کا ہے جو مختلف کاموں پر مامور ہیں، امور غیر عادیہ میں کسی نبی اور ولی کو متصرف ماننا شرک ہے“۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل، باب:کفر ، شرک اور ارتداد کی تعریف:1/43)

مشرکین عرب کس طرح کے شرک میں مبتلا تھے؟
مشرکین عرب کی اکثر یت شرک صفاتی میں مبتلا تھی، وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے متعلق مستقل بالذات اللہ کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق سمجھتے تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے خوش نودی کی بنا پر اپنی صفات مستقلہ میں شریک کر کے انہیں متصرف الامور بنا دیا تھا، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کو انہی کے الفاظ میں بیا ن فرمایا:

﴿مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللَّہِ زُلْفَی﴾ (الزمر:3) (ہم تو ان کو پوجتے ہیں اس واسطے کہ ہم کو پہنچا دیں اللہ کی طرف قریب)

جب مشرکین عرب بیت اللہ کاطواف کرتے تو تلبیہ میں کہتے: ”لبیک لا شریک لک إلا شریکاً ھولک تملکہ وما ملک“ (تفسیر ابن کثیر، الزمر، ذیل آیت:3) (تیرا شریک کوئی نہیں ہے سوائے اس شریک کے کہ اس کا اور جو کچھ اس کی ملک میں ہے، اس سب کا مالک تو ہے)

مشرکین عرب کے اسی نوع کے شرک کی وضاحت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ الله نے ”الفوز الکبیر“ میں کی ہے۔ اور ”خیر کثیر“میں شاہ صاحب نے صاف لفظوں میں لکھا ہے۔

”واعلم أن طلب الحوائج من الموتیٰ عالماًَ بأنہ سبب لانجاحھا کفر، یجب الاحتراز عنہ، والناس الیوم فیھا منھمکون․“ (خیر کثیر، ص:98)

یاد رکھو!مُردوں سے یہ خیال کر کے حاجتیں طلب کرنا کہ یہ کامیابی کا سبب ہے، یہ کفر ہے، اس سے احتراز لازم ہے، لیکن آج کل لوگ اسی میں منہمک ہیں۔“

شاہ صاحب نے بجا فرمایا،اگر یہ جہالت جاہلوں میں ہوتی تو اس قدر افسوس نہ ہوتا۔

افسوس تو یہ ہے کہ بعض علم کے دعوے دار اس شرک کی قباحت سے واقف ہونے کے باوجود، اس کے حق میں ایسی تعبیریں اختیار کرتے ہیں جس سے سوائے گم راہی کے کچھ نہیں نکلتا۔مولانا احمد رضا خان صاحب نے لکھا ہے :
”انبیا و مرسلین، اولیا، علماو صالحین سے ان کے وصل (فوت ہونے) کے بعد بھی استعانت (تعاون طلب کرنا) واستمداد (مدد مانگنا) جائز ہے، اولیا بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔(الامن والعلیٰ، احمد رضا خان ، ص:46)

مفتی احمد یار خان نے اپنی کتاب ”جاء الحق“میں لکھا ہے :
”انبیا وہ حضرات ہیں جن کو رب نے علوم و معارف اس قدر دیے ہیں جن سے مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح میں تصرف کر سکتے ہیں “۔(جاء الحق:196،197)

معلوم نہیں اس خلافِ حقیقت دعوے پر کون سی دلیل اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتاری ہے؟

کیا امتِ محمدیہ شرک میں مبتلا نہیں ہوگی؟
عموماً جب بھولے بھٹکے اور سادہ لوح مسلمانوں کو شرک کی قباحت اور اس سے بچنے کی تعلیم دی جاتی ہے تو اہلِ بدعت اس پر بھڑک اٹھتے ہیں اور احادیثِ مبارکہ کا حوالہ پیش کر کے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ امت تا قیامت کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتی، اس لیے کسی پر شرک کا فتوی یا کسی کومشرک ٹھہرانا دین میں غلو اور احادیثِ مبارکہ میں کی گئی پیشن گوئی کے منافی ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کی بیان کردہ حدیث کا ایک ٹکڑا یہ ہے۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”وإنی واللّٰہ،ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدی، ولکن أخاف علیکم أن تنافسوا فیہا“․ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، رقم الحدیث:1344)

”اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے،لیکن مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم (میرے بعد) ایک دوسرے کے مقابلے میں دنیا میں رغبت دکھاؤ گے“۔

اس حدیث سے تاقیامت امت محمدیہ سے شرک سرزد نہ ہونے کا استدلال کئی وجوہ سے درست نہیں ہے۔

اولاً:تواس لیے یہ حقیقت کے خلاف ہے، کئی بدبخت اسلام چھوڑ کر شرکیہ مذہب اختیار کر لیتے ہیں یا خود کو مسلمان کہتے ہوئے ہندوؤں کے ساتھ مل کر بتوں کے سامنے جھک کر ان کی عبادت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

ثانیا:اس لیے کہ محدثین کرام نے مذکورہ حدیث سے یہ نتیجہ نہیں نکالا، حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:”أی علی مجموعہ“ یعنی مجموعی طور پر امت مشرک میں مبتلا نہیں ہوگی۔(فتح الباری:3/211)

اسی طرح علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں:
”معناہ:علیٰ مجموعکم، لأن ذلک قد وقع من البعض والعیاذ باللّٰہ“ .(عمدة القاری شرح صحیح البخاری:8/157)

”اس کا مطلب یہ ہے تم مجموعی طورپر شرک نہیں کرو گے،اس لیے کہ امتِ محمدیہ کے بعض لوگوں سے شرک کا صادر ہونا واقع ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے“۔

یہی بات علامہ ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی رحمة الله علیہ نے ”ارشاد الساری“ میں بیان فرمائی کہ من حیث المجموع امت محمدیہ کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہو گی۔( إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری:2/440)

بعض لوگوں کا شرک میں مبتلا ہونا ایک حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ثالثا:آپ علیہ السلام نے بعض لوگوں اور قبائل کے مشرک ہو جانے کی خود پیشن گوئی فرمائی ہے، اس سے معلوم ہوا ہے کہ امت محمدیہ کا تاقیامت شرک میں مبتلا نہ ہونے کا دعوی بے سروپا ہے۔

”کتاب الفتن“کی ایک حدیث مبارکہ کا ٹکڑا ہے، حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری امت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں“۔(سنن أبی داود، کتاب الفتن:4252)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ دوس قبیلہ کی عورتوں کے سرین ذوالخلصہ پر حرکت نہ کریں گے“۔(صحیح البخاری، کتاب الفتن:7226)

ذوالخلصہ اس قبیلے کا بت تھا، زمانہ جاہلیت میں یہ اس کی عبادت کرتے تھے، سرین کی حرکت کا مطلب اس بت کی عبادت، طواف، دھمال وغیرہ ہے۔

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ امتِ محمدیہ کے بعض افراد شرک میں مبتلا ہوں گے، العیاذ باللہ من ذلک. لہٰذا امت کے تمام افراد کے شرک سے محفوظ رہنے کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ (جاری)