سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت نہیں

سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت نہیں

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن یَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَانکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَیْْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ، یُرِیْدُ اللّہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ وَیَتُوبَ عَلَیْْکُمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ، وَاللّہُ یُرِیْدُ أَن یَتُوبَ عَلَیْْکُمْ وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الشَّہَوَاتِ أَن تَمِیْلُواْ مَیْْلاً عَظِیْماً، یُرِیْدُ اللّہُ أَن یُخَفِّفَ عَنکُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِیْفاً﴾․ (سورة النساء، آیت:28-25)

اور جو کوئی نہ رکھے تم میں مقدور اس کا کہ نکاح میں لائے بیبیاں مسلمان تو نکاح کر لے ان سے جو تمہارے ہاتھ کا مال ہیں،جو تمہارے آپس کی لونڈیاں ہیں مسلمان اور اللہ کو خوب معلوم ہے تمہاری مسلمانی، تم آپس میں ایک ہو، سو ان سے نکاح کرو، ان کے مالکوں کی اجازت سے اور دو ان کو مہر موافق دستور کے، قید میں آنے والیاں ہوں نہ مستی نکالنے والیاں ہوں اور نہ چھپی یاریاں کرنے والیاں، پھر جب وہ قید نکاح میں آچکیں تو اگر کریں بے حیائی کا کام تو ان پر آدھی سزا ہے، بیبیوں کی سزا سے، یہ اس کے واسطے ہے جو کوئی تم میں ڈرے تکلیف میں پڑنے سے اور صبر کرو تو بہتر ہے تمہارے حق میں اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہےO۔اللہ چاہتا ہے کہ بیان کرے تمہارے واسطے اور چلائے تم کو پہلوں کی راہ اور معاف کرے تم کو اوراللہ جاننے والا ہے، حکمت والا ہےO اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر متوجہ ہووے اور چاہتے ہیں وہ لوگ جو لگے ہوئے ہیں اپنے مزوں کے پیچھے کہ تم پھر جاؤ راہ سے بہت دورO اور اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان بنا ہے کمزورO ۔

مالی وسعت نہ ہونے کی صورت میں باندیوں سے نکاح کی ترغیب
نکاح انسانی فطرت کا تقاضا ہے، لیکن اگر کسی انسان کے پاس ایک آزاد عورت کا مہر اور نان و نفقہ کی گنجائش نہ ہواور زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے چاہیے کہ کسی باندی سے نکاح کرلے، باندی معاشرے میں آزاد عورت کی طرح عزت و وقعت نہیں رکھتی، اس لیے انسانی طبیعت اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتی، مگر زنا میں پڑ جانے کے مقابلے میں یہ ایک جائز نعمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے، باندی سے نکاح کرنا اس لیے آسان ہے کہ اس میں مہر اور نان و نفقہ کم ہوتا ہے اور عام آدمی کے لیے قابلِ برداشت ہوتا ہے اور باندی کا مالک بھی اس کا نکاح کسی غریب سے کرنے میں عار نہیں سمجھتا، بنیادی طور پر باندی سے نکاح کرنے میں دو چیزیں آڑے آتی ہیں، فضیلت دین، فضیلت نسب،اللہ تعالیٰ نے ان دونوں وساوس کی تردید فرمائی، فضیلت دین کا مدار ایمان باللہ اور تعلق مع اللہ پر ہے، یہ ایک قلبی کیفیت ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے، ممکن ہے یہ مومنہ باندی اپنے آزاد شوہر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب رکھتی ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کی تردید ﴿وَاللّہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ﴾ سے فرمائی اور جہاں تک فضیلت نسب کی بات ہے، انسانی نسل میں کثرت کی وجہ سے نسب محض باہمی تعارفی حیثیت رکھتا ہے، اس سے زائد کچھ بھی نہیں۔ اصلاً تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی ہی اولاد ہیں، جسے اللہ تعالیٰ :﴿بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ﴾ سے تعبیر فرمایا ہے، لیکن اگر کوئی شخص نا مساعد حالات کی وجہ سے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے باندی سے نکاح کرنے کی بجائے صبر کر لے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ باندی سے نکاح کرلینے کی صورت میں وقتی طور پر جنسی خواہش کی جائز تکمیل تو ہو جاتی ہے، مگر مستقبل کے پیش آنے والے واقعات اس کے لیے تکلیف کا سامان بھی بن سکتے ہیں، مثلاً اگر آقا اپنی باندی کو فروخت کردے اور وہ دسری جگہ منتقل ہو جائے تو اسے بھی نقل مکانی کی دقت پیش آئے گی، نیز باندی دن بھر اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے اپنے شوہر کی خدمت نہیں کر سکے گی، باندی جب بیوی بن جائے تو شوہر کے دل میں اس کے لیے یک گونہ غیرت بھی پیدا ہوجاتی ہے، وہ اسے آقا کی خدمت میں مصروف دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے، پھر اس سے پیدا ہونے والی اولاد بھی اس آقا کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے باپ کو رنج و غم کا ایک روگ پالنا پڑتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿أَن تَصْبِرُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ﴾ (اگر تم صبر کرو تو وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے)۔

باندی سے نکاح کرنے کی اجازت کب ہے؟
باندی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دو قیدوں کے ساتھ دی گئی ہے۔
1.. ایک وہ مسلمان آزاد مرد جو آزاد مومنہ خاتون سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔
2.. دوسری یہ کہ جس باندی سے نکاح کی خواہش ہو وہ مسلمان ہو۔

امام ابو حنیفہکے نزدیک یہ دونوں قیوداولیٰ اور بہتر کے مفہوم میں ہیں، یعنی بہتر یہ ہے کہ نکاح اسی وقت کیاجائے، جب آزادمسلمان خاتون سے نکاح کی استطاعت نہ ہو اور اسی طرح بہتر یہ ہے کہ مسلمان باندی سے نکاح کیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص صاحب استطاعت ہونے کے باوجود باندی سے نکاح کرنے کو ترجیح دیتا ہے یا مسلمان باندی کو چھوڑ کر اہلِ کتاب میں سے کسی باندی سے نکاح کرتا ہے، تب بھی اس کا نکاح منعقد ہو جائے گا، گویہ پسندیدہ نہیں ہے، سماج میں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، خوامخواہ اپنی ہونے والی اولاد کی گردن میں طوق پہنانا ہے، اس لیے یہ نکاح جائز ہونے کے باوجود پسندیدہ نہیں ہے۔(تفسیر روح المعانی ، النساء، ذیل آیت:25)

باندیوں کے لیے زنا کی حد
فَإِذَا أُحْصِنَّ …اس میں باندی کے متعلق زنا کی سزا بتلائی جا رہی ہے، اگر باندی زنا کی مرتکب ہو جائے تو اس پر آزاد کنواری لڑکی کی آدھی سزا جاری ہوگی، سورة نور میں کنواری زانیہ لڑکی کے لیے سو کوڑوں کی سزا رکھی گئی ہے، لہٰذا باندی کو زنا پر آدھی سزا، یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں۔

احادیث متواترہ سے شادی شدہ کے لیے زنا کی سزا سنگساری ہے، سنگساری میں انسانی روح نکل جانے کے بعد سزا مکمل ہوتی ہے، باندی کے لیے سنگساری نہیں ہے، کیوں کہ سنگساری میں آدھی روح کا نکل جانا اور آدھی کا باقی رہنا ناممکن ہے، اس لیے سنگساری کا نصف باندی پر جاری نہیں کیا جاسکتا، اس لیے مفسرین نے ﴿نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ﴾آزاد کنواری کی آدھی سزا مراد لی ہے۔( تفسیر ابنِ کثیر، النساء، آیت:25)

سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت ہیں یا نہیں؟
﴿یُرِیْدُ اللّہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ﴾
شریعت محمدیہ کامل و اکمل اور ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک ہے، اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں سابقہ امتوں کے طور طریقوں کی طرف راہ نمائی فرمائی۔اس سے کیا مراد ہے؟ مفسرین کرام نے اس سے سابقہ امتوں کے نیکی کے اطوار مراد لیے ہیں (تفسیر ابنِ کثیر، النساء، آیت:25) قرآن کریم میں ان کا تذکرہ امتِ محمدیہ کے لیے باعث ترغیب بنے گا۔ لیکن فقہائے کرام نے اس طرح کی آیات سے یہ بحث چھیڑی ہے کہ سابقہ امتوں کے شرعی احکام اور اعمال جو بطریق صحیح ثابت ہوں، وہ اس امتِ محمدیہ کے لیے بھی حجت ہیں یا نہیں؟

سابقہ شرائع کے احکام تین طرح کے ہیں، دو قسموں کے متعلق تو اہلِ علم کا اتفاق ہے اور ایک قسم میں اختلاف ہے۔

پہلی قسم
اللہ تعالیٰ نے سابقہ شرائع کے جو احکام قرآن و سنت میں بطورِ حکایت نقل فرمائے ہیں ،پھر انہیں امتِ محمدیہ کے حق میں قائم رکھا ہے اور اس کی دلیل بھی شریعتِ محمدیہ میں موجود ہے، سابقہ شرائع کے ایسے احکام ہمارے حق میں حجت ہوں گے اور ہم ان کے عمل کے پابند ہوں گے، اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔مگر ہم ان پر عمل اس لیے کریں گے کہ ہماری شریعت نے انہیں ہمارے لیے فرض قرار دیا ہے، جس طرح روزوں کی فرضیت سابقہ شرائع میں بھی تھی اور اس امت پر بھی روزے فرض کیے گئے۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․(البقرہ:183)

دوسری قسم
اللہ تعالیٰ نے سابقہ شرائع کے جو احکام قرآن و سنت میں ذکر کیے ہیں، پھر شریعتِ محمدیہ میں ان کا منسوخ ہونا بھی ذکر فرما دیا، سابقہ شرائع کے ایسے احکام بالاتفاق قابلِ عمل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اہلِ ایمان کے حق میں حجت ہیں، مثلاً: گناہ سے توبہ کے لیے اپنی جان کو قتل کرنا۔

تیسری قسم
سابقہ شرائع کے وہ احکام جن کا شریعتِ محمدیہ میں حجت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق کوئی دلیل نہیں ملتی، ایسے احکام کے متعلق فقہا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

حنفیہ، حنابلہ، بعض مالکیہ اور بعض شافعیہ کے نزدیک اس طرح کے احکام ہمارے حق میں حجت ہوں گے، اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ)۔(أصول الفقہ الإسلامی للزحیلی:283)

شافعیہ کا دوسرا راجح قول یہ ہے کہ سابقہ شرائع سابقہ امتوں کے ساتھ خاص تھیں، جب تک ہماری شریعت میں ہماری دلیل کسی حکم کو ہمارے لیے ثابت نہ کرے وہ ہمارے حق میں حجت نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔(أصول الفقہ الإسلامی للزحیلی:283)

اس اختلاف کی بنا پر فقہا میں چند معمولی احکام میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، مگر وہ لفظی نوعیت کا ہے، اس لیے دکتور عبدالکریم زیدان اصولیین کے اس اختلاف کے متعلق فرماتے ہیں۔

”والحق أن ھذاالخلاف غیر مھم؛ لأنہ لا یترتب علیہ اختلاف فی العمل، فما من حکم من أحکام الشرائع السابقة قصہ اللّٰہ علینا، أو بینہ الرسول لنا إلا وفی شریعتنا ما یدل علی نسخہ أو بقائہ فی حقنا سواء جاء دلیل الإبقاء أو النسخ فی سیاق النص الذی حکی لنا حکم الشرائع السابقة، أو جاء ذلک الدلیل فی مکان اٰخر من نصوص الکتاب والسنة․“ (الوجیز فی أصول الفقہ، عبدالکریم زیدان، ص:263)

”حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اختلاف اتنا اہم نہیں ہے، کیوں کہعملی طور پر اس مسئلے میں کوئی اختلاف برپا نہیں ہوتا،کیوں کہ سابقہ شرائع میں کوئی حکم ایسا نہیں ہے جسے اللہ تعالی نے ہمارے لیے قرآن کریم میں بیان نہ فرمایا ہو یا اللہ کے رسول نے اسے واضح نہ کیا ہو اور ہماری شریعت میں کوئی نہ کوئی ایسی دلیل نہ ملتی ہو، جو ہمیں یہ بتلاتی ہو کہ یہ حکم ہمارے حق میں منسوخ ہے یا باقی ہے اور بعض اوقات اس حکم کے متعلق اس کے منسوخ ہونے یا باقی رکھنے کی دلیل بھی ساتھ مذکور ہوتی ہے اور بعض اوقات کتاب و سنت کی نصوص میں کسی اور جگہ اس کا تذکرہ مل جاتا ہے۔“

سابقہ شرائع کے متعلق بعض جدت پسندوں کا موقف
بعض جدت پسندوں نے سابقہ شرائع کے ان احکامات کو بھی حجت قرار دیا جو ہماری شریعتِ محمدیہ میں سرے سے جائز نہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ:
”بائبل ، تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے، اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ ہی کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے، اس کے مختلف حاملین نے اپنے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزا کو ضائع کر دیا اور بعض میں تحریف کر دی، تاہم اس کے باوجود اس کے اندر پروردگار کی رشد و ہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں، اس کے مندرجات کو اگر اللہ کی آخری اور محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے اس سے بہت کچھ اخذو استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس کتابِ مقدس میں موسیقی اور آلاتِ موسیقی کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے، ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔(ماہ نامہ اشراق: مارج:2004، ص:16)

ایک اور صاحب تدبر قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب یہودو نصاری کی تاریخ ، انبیائے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے“۔( میزان: جاوید احمد غامدی، ص:52)

تنقیدی جائزہ
سابقہ شرائع کے متعلق سلف صالحین سے جو آراء منقول ہیں، ان میں سے کسی ایک رائے سے بھی یہ موقف میل نہیں کھاتا۔

نیز جدت پسند طبقے نے سابقہ شرائع کو پرکھنے کا معیار صرف قرآن کریم کو قرار دے کر احادیث رسول کو اس بحث سے خارج کر دیا ہے، اہل سنت میں سے کوئی امام اس کا قائل نہیں۔

جدت پسند طبقہ سابقہ شرائع کے جن احکام کو قرآن کریم کی روشنی اور اشاروں سے اس امت کے حق میں روا قرار دیتا ہے، ان احکام کے متعلق انہیں کیوں کر یقین ہے کہ وہ احکام سابقہ امتوں کی کتابوں میں اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہیں اور محرّف نہیں ہیں؟

سابقہ شرائع کو قرآن کریم کی روشنی اور اشاروں سے جاننے کی اصطلاح ایک مبہم اصطلاح ہے، اس طرح کے اشاروں سے تو تمام زنادقہ اور ملاحدہ کو اپنے موقف پر قرآن کریم سے دلیل مل سکتی ہے۔

اس طریقہ استدلال کی علمی حیثیت اور علمی تاریخ کیا ہے؟ اس طریقہ استدلال سے حاصل ہونے والے نتائج کے درست اور غلط ہونے کا معیار کیا ہے؟

لطیفہ تویہ ہے کہ:اس طبقے کے روح رواں جناب غامدی کے ہاں خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا، مگر سابقہ محرف اور غیر محفوظ کتابوں سے عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے اور احکام بھی۔

چناں چہ اس طبقے نے اپنے خود ساختہ اصول ”قرآنی اشارات” کی روشنی مین سابقہ شرائع سے مجسمے، تصاویر، (تصویر کا مسئلہ، مفتی محمد رفیع، ص:26، المورد لاہور) موسیقی کو جائز قرار دیا، (ماہنامہ اشراق مارچ،2004،ص:61،المورد لاہور) اور یاجوج ماجوج کے متعلق اسلامی نقطہ نظر، (قربِ قیامت آنے والی ایک خاص قسم کی مخلوق) کی بجائے مغربی اقوام کو یاجوج ماجوج قرار دیا۔(ماہنامہ اشراق جنوری، 1996، ص:61المورد لاہور)

اگر قرآنی اشارات کی روشنی میں سابقہ شرائع کے احکام کی تصدیق ہو سکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس طبقہ نے کئی احکام میں اس اصول سے انحراف کیا ہے؟! مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول شریعتِ محمدیہ میں بھی ثابت ہے، اور کتابِ مقدس سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، لیکن یہ طبقہ نزول حضرت عیسی علیہ السلام کا منکر ہے، شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا شریعتِ محمدیہ سے ثابت ہے اور اس کی تائید ”کتاب مقدس“سے ہو تی ہے ،مگر یہ جدّت پسند طبقہ اس سزا کا منکرہے، اسی طرح دجال شخص معین کی حیثیت سے اس کا تعارف موجود ہے، مگر یہ طبقہ اسے شخص معین کی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، یہ کیسا اصول ہے جو صرف من پسند احکام کو ثابت کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے؟!

اہلِ سنت الجماعت کے نزدیک دین اسلام کامل و اکمل دین ہے، ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک ہے، اپنی تشریع اور تائید کے لیے سابقہ شرائع کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے لیے ماخذ دین کی حیثیت رکھتا ہے جس پر مندرجہ ذیل نصوص حرفِ آخر ہیں۔

حضرت جابررضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ علیہ السلام سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی الله عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
”ہم یہود سے بہت سی ایسی باتیں سنتے ہیں جو ہمیں اچھی لگتی ہیں، آپ کی کیا رائے ہے اگر ہم ان میں سے کچھ باتوں کو لکھ دیں؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کیا تم اہلِ یہود کی طرح ہلاک ہونا چاہتے ہو؟ میں تمہارے پاس ایسی واضح اور روشن آیات لے کر آیا ہوں۔ اگر حضرت موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“(مشکوة المصابیح، رقم الحدیث:177)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل ِکتاب سے کچھ بھی نہ پوچھو، بے شک وہ تمہاری راہنمائی نہیں کر سکتے،کیوں کہ وہ خود راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں، ان سے راہ نمائی لے کر تم کسی باطل چیز کی تصدیق کر بیٹھو گے یا حق کو جھٹلا بیٹھو گے، اگر موسی علیہ السلام بھی تمہارے درمیان موجود ہوتے تو ان کے لیے بھی میری پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔(مسند احمد، رقم الحدیث:14631)

اس حدیث کا پہلا فقرہ ہے،”ولا تسئلوا أھل الکتاب عن شیء“ یہاں لفظ ”شیء“نکرہ ہے اور حرف ”نہی“لا کے بعد مذکور ہے، اصول فقہ کا قاعدہ ہے نکرہ تحت النفی ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے، تب اس کا ترجمہ یہ ہو گا”اہل ِکتاب سے کچھ بھی مت پوچھو“یعنی ان سے نہ ان کے احکام کے متعلق دریافت کرو، نہ عقیدہ کے متعلق، نہ تاریخی قصص کے متعلق۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
جب تمہارے پاس کوئی معاملہ پیش آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا میں اللہ کی کتاب (قرآن کریم) سے فیصلہ کروں گا، آ پ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تمہیں قرآن کریم میں نہ ملے؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، سنتِ رسول سے فیصلہ کروں گا، پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:وہ مسئلہ نہ قرآن کریم میں ملے نہ حدیثِ رسول میں پھر کیا کرو گے؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:3592)

آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی ا لله عنہ کے جواب کی تصویب فرمائی، انہیں سابقہ شرائع سے استفادے کی ہدایت نہیں فرمائی، اگر سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت ہوتیں تو آپ علیہ السلا م حضرت معاذ کو اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی اجازت نہ دیتے، انہیں کتب سابقہ سے راہنمائی لینے کا حکم دیتے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں:
اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے عربی زبان میں اس کی تفسیر کرتے تھے، یہ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تم اہلِ کتاب کی تصدیق کر و نہ تکذیب کرو، یہ کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:4485)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بلغوا عنی ولو اٰیة، وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج، ومن کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار․“(جامع ترمذی، رقم الحدیث:2669)
”میری طرف سے پہنچاؤ خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور بنی اسرائیل سے روایت کر لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے“۔

اس روایت کی بنا پر علمائے کرام نے بنی اسرائیل سے ایسی روایت نقل کرنے کی اجازت دی ہے، جو ہماری شریعت کی نصوص کے خلاف نہ ہوں، لیکن ہمارے حق میں وہ حجت پھر بھی نہیں ہے، آپ علیہ السلام کے الفاظ ”ولا حرج“سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے روایت نقل کرنا ضروری نہیں ہے، مباح ہے، اگر ہمارے حق میں سابقہ شرائع حجت ہوتیں تو پھر اس کا نقل روایت واجب ہوتا،کیوں کہ جو چیز شریعت ہوتی ہے، اس سے استدلال کرنا واجب ہوتا ہے۔

اس موضوع پر احادیث وآثار بکثرت وارد ہیں، مگر ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً، وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً ﴾․(سورہ النساء، آیت:30-29)

اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں نا حق، مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے اور نہ خون کرو آپس میں، بے شک اللہ تم پر مہربان ہےO اورجو کوئی یہ کام کرے تعدی اور ظلم سے تو ہم اس کو ڈالیں گے آگ میں اور یہ اللہ پر آسان ہےO۔ (جاری)