خواتین اور یتیم بچوں کے حقوق

idara letterhead universal2c

خواتین اور یتیم بچوں کے حقوق

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿َیَسْتَفْتُونَکَ فِیْ النِّسَاء قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ وَمَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ فِیْ یَتَامَی النِّسَاء الَّلاتِیْ لاَ تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنکِحُوہُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُواْ لِلْیَتَامَی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہِ عَلِیْماً، وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزاً أَوْ إِعْرَاضاً فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً، وَلَن تَسْتَطِیْعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَیْْنَ النِّسَاء وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُواْ کُلَّ الْمَیْْلِ فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً، وَإِن یَتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّن سَعَتِہِ وَکَانَ اللّٰہُ وَاسِعاً حَکِیْماً، وَللّٰہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَلَقَدْ وَصَّیْْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَإِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّٰہَ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلّٰہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ غَنِیّاً حَمِیْداً، وَلِلّٰہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَفَی بِاللّہِ وَکِیْلاً، إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ عَلَی ذَلِکَ قَدِیْراً، مَّن کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِندَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعاً بَصِیْراً، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّٰہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّٰہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً﴾․ (سورة النساء، آیت:135-127)

اور تجھ سے رخصت مانگتے ہیں عورتوں کے نکاح کی۔ کہہ دے اللہ تم کو اجازت دیتا ہے ان کی اور وہ جو تم کو سنایا جاتا ہے قرآن میں سو حکم ہے ان یتیم عورتوں کا جن کو تم نہیں دیتے جو ان کے لیے مقرر کیا ہے اور چاہتے ہو کہ ان کو نکاح میں لے آؤ اور حکم ہے ناتواں لڑکوں کاا ور یہ کہ قائم رہو یتیموں کے حق میں انصاف پر اور جو کروگے بھلائی سو وہ اللہ کو معلوم ہےo اور اگر کوئی عورت ڈرے اپنے خاوند کے لڑنے سے یا جی پھر جانے سے تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر کہ کر لیں آپس میں کسی طرح صلح اور صلح خوب چیز ہے اور دلوں کے سامنے موجود ہے حرص اور اگر تم نیکی کرو اور پرہیز گاری کرو تو الله کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے اور تم ہر گز برابر نہ رکھ سکو گے عورتوں کو، اگر چہ اس کی حرص کرو، سو بالکل پھر بھی نہ جاؤ کہ ڈال رکھو ایک عورت کو جیسے ادھر میں لٹکتی، اور اگر اصلاح کرتے رہو اور پرہیز گاری کرتے رہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہےo اور اگر دونوں جدا ہو جاویں تو اللہ ہر ایک کو بے پروا کر دے گا اپنی کشایش سے اور اللہ کشایش والا، تدبیر جاننے والا ہےo اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمان میں اور جو کچھ ہے زمین میں اورہم نے حکم دیا ہے پہلے کتاب والوں کو اور تم کو کہ ڈرتے رہو اللہ سے اوراگر نہ مانو گے تو اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں اور اللہ ہے بے پروا، سب خوبیوں والاo اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں اور اللہ کافی ہے کارسازo اگر چاہیے توتم کو دور کر دے اے لوگو! اور لے آئے اور لوگوں کو اور اللہ کو یہ قدرت ہےo جو کوئی چاہتا ہو ثواب دنیا کا سو اللہ کے یہاں ہے ثواب دنیا اور آخرت کا اور اللہ سب کچھ سنتا دیکھتا ہےoاے ایمان والوں قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف ، اگرچہ نقصان ہو تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں اور اگر تم زبان ملو گے یا بچا جاؤ گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہےo

خواتین اور یتیم بچوں کے حقوق پر تنبیہ

اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوسکتا ہے کہ جس معاشرے میں نومولود بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا ہو، عورت ذات کو کسی معاشرتی حق کا سزاوار نہ سمجھا جاتا ہو، وہاں آپ علیہ السلام کی تعلیمات نے ایسا شعور اجاگر کیا کہ صحابہ کرام ان کے حقوق کے متعلق فکر مند ہو کر سوال کرتے نظر آتے ہیں، تاکہ آخرت کے مواخذے سے بچ کر اللہ اور اس کے رسول کی خوش نودی کا پروانہ پاسکیں۔ اسی طرح کے سوالات کے جواب میں آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ:
اللہ تعالی تمہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرتا اور کتاب اللہ کی آیتیں بھی تمہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرتی ہیں۔ مثلا آیت میراث، آیات نفقہ وسکنی ، آیات طلاق وعدت، آیات مہر وغیرہ، تم اس پر عمل کرو اور ان میں کوتاہی سے احتراز کرو۔

جو عورتیں تمہاری سرپرستی میں ہیں یا رشتہ دار خواتین جن کے تم شرعی ولی ہو، ان عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آو، مگر عموما مردوں کا رویہ ایسی عورتوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی یتیم بچی ان کی ولایت میں ہو مال داری اور حسن کے زیور سے آراستہ ہو تو اس سے بیاہ رچانے میں دل چسپی ظاہر کرتے ہیں، تاکہ مہر بھی زیادہ نہ دینا پڑے اور اس کا مال بھی ہمارے تصرف میں آجائے۔ لیکن اگروہ مال دار ہو مگر شکل واجبی ہو تو اس سے بیاہ کرنے میں دل چسپی نہیں لیتے اور دوسری جگہ اس کے نکاح پر راضی بھی نہیں ہوتے تا کہ اس کا مال ان کے تصرف سے نہ نکل سکے، یہ رویہ امانت، دیانت اور انصاف کے خلاف ہے تو اس راستے پر چلنے کی بجائے اپنے نفس پر کنٹرول کر کے ان احکام کے مطابق معاملات کو انجام دو جو اللہ تعالی نے کتاب اللہ میں ان کے لیے بیان فرمائے ہیں۔ تم ان کے کتنے خیر خواہ اور کتنے بد خواہ ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

میاں بیوی میں اختلاف اور صلح کی کوشش

﴿وإن امراة خافت…﴾
اگر میاں بیوں میں گھریلومعاملات میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اوّلا صلح کی کوشش کرنی چاہیے، اختلاف کی دو صورتیں ہیں:

ایک صورت یہ ہے کہ غفلت و کوتاہی مرد کی طرف سے ہواور وہ مرد عورت کو رکھنے میں دلچسپی بھی نہ رکھتا ہو، لیکن عورت کسی بھی وجہ سے جیسا تیسا اسی کے نکاح میں رہنے کی خواہش مند ہو تو اس صورت میں عورت اپنے نان ونفقہ کے حقوق سے دست بردار ہوجائے یا کم کردے، تا کہ جب شوہر دیکھے کہ میرا مال کم خرچ ہورہا ہے اور بیوی بھی موجود ہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں رکھنے پر بوجھ محسوس نہیں ہوگا۔

دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی کہ مرد کی عادات واطوار کی وجہ سے عورت طلاق وخلع کے مطالبے پر مصر ہے، لیکن مرد نہیں چھوڑنا چاہتا تو مرد کو چاہیے کہ بیوی کے نان ونفقہ کی مد میں اضافی مال دے کر اس کی شکایت کا مداوا کردے، ممکن ہے مالی پیش کش شوہر کی بے پروائی اور بداطواری کے غم کو قابل برداشت بنادے۔

مال کی محبت انسانی فطرت میں داخل ہے، اگر یہ جائز حدود میں ہوتو مذموم بھی نہیں ہے، انسان کی اس کم زوری کو بروئے کار ،لا کر نکاح کے بندھن کو قائم رکھا جاسکتا ہے، بظاہر یہ رشوت لگتی ہے، مگر یہ رشوت نہیں، بلکہ قابل عمل حل ہے، ”وأحضرت الأنفس الشح“سے اس تدبیر کو اختیار کرنے کی ترغیب ہے۔

واضح رہے کہ نفقہ میں بیوی کی تمام بنیادی ضروریات شامل ہیں اور اس کا دارومدار ہر زمانے کے حالات و عرف پر ہے۔ اس لیے ہر چیز کی قطعی طور تعیین نہیں کی جاسکتی، لیکن بعض بدیہی ضروریات پر تو سب کا اتفاق ہے۔ مثلا رہائش، خوراک، پوشاک، بستر ، آرائشی اشیا مثلا کنگھی، تیل، نہانے دھونے کا صابن، خوش بو، پوڈر، جس سے پسینہ کی بوکو دور کیاجاسکے۔

اگر بیوی ان حقوق میں سے کسی کو یا سب کو معاف کردے تو درست ہے۔ معاف کرنے کے بعد اگر دوبارہ اپنے حقوق کا مطالبہ کردے تب بھی درست ہے اور شوہر پر بقدر حیثیت اس کی ادائیگی واجب ہے۔

بیویوں کے درمیان دلی جذبات میں برابری ممکن نہیں

﴿ولن تستطیعوا…﴾

ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں ان کے درمیان عدل واجب ہے، نہ کہ تسویہ وبرابری۔

وقد علمت أن العدل فی کلامہ بمعنی عدل الجور لا بمعنی التسویة، فإنھا لاتلزم فی النفقة مطلقا․ قال فی البحر، قال فی البدائع یجب علیہ التسویة بین الحرتین والأمتین فی الماکول والمشروب والملبوس والسکنی والبیتوتة وھکذا ذکر الوالجی، والحق أنہ علی قول من اعتبر حال الرجل وحدہ فی النفقة، وأما علی القول المفتی بہ من اعتبار حالھما، فلا؛ فإن احدھما قد تکون غنیة والاخری فقیرة فلا یلزم التسویة بینھما مطلقا فی النفقة․(رد المحتار علی الدرالمختار:3/202)

عدل کا مطلب یہ ہے کہ ہر بیوی کے سماجی مرتبے کو سامنے رکھ کر، ایک حد تک کی رعایت کرتے ہوئے، اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا، یہ عدل کہلاتا ہے۔ خوش حال خاندان سے تعلق رکھنی والی بیوی کو نان ونفقہ میں اس کی رضا کے بغیر، سماجی طور پر اس سے کم مرتبہ والی بیوی کے نفقہ میں برابری کردینا عدل نہیں ہے، بلکہ تسویہ وبرابری ہے، جو درست نہیں ہے۔ ہاں! اس کے برعکس معاملہ کرے تو شوہر کا فضل واحسان ہے اور اسی طرز عمل میں احتیاط اور تہمت سے بچنے کا امکان بھی ہے۔

البتہ ضروری نان ونفقہ کے علاوہ اضافی کپڑوں میں، جیب خرچ اور تحفے تحائف میں برابری کرنا یا دوسری بیوی کو اس کی مالیت کے بقدر کوئی چیز دینا ضروری ہے، وگر نہ گناہ گار ہوگا۔

حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”عدل کے معنی (ظلم) کے مقابل ہیں، یعنی ہر چیز کے ساتھ اس کے مناسب اور حق واجب کے موافق برتاؤ کرنا، پس اگر زوجتین (دو بیویاں) یسار واعسار(یعنی خوش حالی اور تنگ دستی) میں مساوی ہیں تو نفقہ میں تسویہ (برابری)ورنہ حسب حیثیت عدل واجب ہے ،تعدد ازواج (ایک سے زائد بیویوں)کی صورت میں تسویہ صرف بیتوتہ (رات گزارنے میں اور) وصلات زائدہ (اضافی تحفے تحائف) میں واجب ہے… بقیہ امور میں عدل ہی واجب ہے، نہ کہ تسویہ (برابری)۔(امداد الاحکام:2/377)

اگر کوئی شخص ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل اور تسویہ پر قادر نہ ہو یا اپنے غیر معتدل مزاج کی وجہ سے، اسے یقین ہو کہ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل قائم نہیں کرسکے گا، اس کے لیے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا لازم ہے، چناں چہ سورة النساء کی ابتدا میں ہے :﴿فإن خفتم أن لا تعدلوا فواحدة…﴾( النساء:3)

لیکن اس کریمہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے تم ہرگز عدل قائم نہیں کرسکتے ﴿ولن تستطیعوا أن تعدلوا بین النساء﴾ (النساء:129) سوال اگر عدل قائم نہیں کرسکتے تو پھر ایک سے زائد نکاح کرنے اجازت ہی کیوں دی جارہی ہے؟ بظاہر ان دو آیتوں میں تعارض محسوس ہوتا ہے۔ علمائے مفسرین نے اس کا جواب دیا ہے کہ پہلی آیت میں عدل ان امور میں مطلوب ہے جو انسان کے اختیار میں ہے، جیسے تحفہ تحائف اور رات گزارنے میں عدل کرنا، اگر کسی کو ان امور میں عدل قائم کرنے کا یقین ہو تو وہ متعدد نکاح کرسکتا ہے، اگر یقین نہ ہو تو ایک پر اکتفا کرے۔ دوسری آیت میں جس عدل کی نفی کی گئی ہے وہ گویا ایک طرح کی پیشن گوئی کی گئی ہے کہ تم عدل نہ کرسکو گے، اس میں عدل کی نفی ان امور سے متعلق ہے جو انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔

جیسے دلی محبت، قلبی میلان کا ہونا اور جماع کرنا، اس آیت کی یہی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، عبیدہ السلمانی، مجاہد، حسن بصری، ضحاک سے منقول ہے۔(تفسیر ابن کثیر، النساء ذیل آیت:129) ابن أبی ملیکہ سے منقول ہے ،یہ آیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیگر ازواج مطہرات کی بہ نسبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت اور دلی لگاؤ رکھتے تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی ہیں: ”کان رسول اللّٰہ یقسم بین نسائہ فیعدل ثم یقول: اللّٰھم ھذا قسمی فیما أملک فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک․“(سنن أبی داود:رقم الحدیث2134)

”آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں تقسیم فرماتے تو عدل فرماتے تھے، پھر ارشاد فرماتے کہ اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے اس چیز میں جس کا میں مالک ہوں، پس جس چیز کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ہوں یعنی قلبی محبت، سو اس میں (اگر مجھ سے کچھ کمی بیشی ہوجائے) تو مجھے ملامت نہ فرمانا“۔ آپ علیہ السلام نے تملک سے محبت اور قلب کا غیر اختیاری میلان مراد لیا ہے۔

بہرحال محبت، دلی میلان اور جماع میں عدل کرنا انسانی اختیار میں نہیں ہے، اسی کے متعلق فرمایا گیا:﴿ولن تستطیعوا أن تعدلوا بین النساء ولو حرصتم﴾اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں ہے۔ مگر یہ میلان اس قدر نہ بڑھ جائے کہ ان امور میں نا انصافی ہونے لگے جو انسانی اختیار میں ہیں اور عورت بیچاری نہ ادھر کی رہی نہ ادھر کی، نہ شوہر اس کا خیال کرنے والا ہو اورنہ وہ کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہو۔ اور اگر باہمی حقوق ادا کرنے سے قاصر ہوں تو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے کے بجائے جدا ہوجانا چاہیں تو جدا ہوجائیں، اللہ تعالی اپنے فضل سے دونوں کو ایک دوسرے سے بے نیاز کردے گا۔

﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن یَکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً، إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ ثُمَّ کَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ کَفَرُواْ ثُمَّ ازْدَادُواْ کُفْراً لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً․(سورة النساء، آیت:137-136)

اے ایمان والو! یقین لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے اور جوکوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور قیامت کے دن پر وہ بہک کر دور جا پڑاo جو لوگ مسلمان ہوئے، پھر کافر ہوگئے، پھر مسلمان ہوئے، پھر کافر ہوگئے، پھر بڑھتے رہے کفر میں تو اللہ ان کو ہرگز بخشنے والا نہیں اور نہ دکھلاوے ان کو راہ۔

انصاف کے ساتھ گواہی دینے کا حکم

﴿یأیھا الذین آمنوا کونوا قوامین…﴾

اس آیت کریمہ میں عدل وانصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر چہ اس کا ظاہری نقصان خود پر یا اپنے قریبی اعزہ والدین وغیرہ پر براہ راست پڑ رہا ہو، اپنی ذات وقوم اور والدین ورشتہ داریوں کے مفاد میں یا جھوٹی انا کی خاطر عدل کے تقاضوں کو پس پشت ڈالنا بدنصیبی کے سوا کچھ نہیں، اس کے منفی اثرات سے پورا معاشرہ متاثر رہتا ہے۔ آخرت کا خسارہ تو یقینی ہے ،مگر دنیاوی خسارہ بھی کم نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مبالغہ کے ساتھ عدل قائم کرنے کا حکم فرمایا۔” قوامین“ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی خوب عدل قائم کرو۔

قیام عدل کی ذمہ داری معاشرے کے ہر فرد پر اس کے منصب کے اعتبار سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ گھر کا سربراہ ہو یا کسی ادارے، جماعت کا قائد ہو یا سماجی، معاشرتی رہنما ہو یا ریاست اور اس کی انتظامیہ ہو، ہر ایک اپنے اپنے دائرہ کار میں قیام عدل کے ذمہ دار ہیں، جس کا دائرہ اور اثر رسوخ جس قدر وسیع ہوگا، وہ اسی قدر اس کا مکلف ہوگا۔
ابن قتبیہ رحمہ اللہ نے عیون الاخبار میں لکھا ہے:

لا سلطان إلا برجال، ولا رجال إلا بمال، ولا مال إلا بعمارة، ولا عمارة إلا بعدل وحسن سیاسة․(عیون الاخبار. کتاب السلطان:1/9)

”حکومت وریاست عوام کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور عوام کا استحکام معیشت کے بغیر نہیں ہوسکتا اور معیشت مستحکم ہوتی ہے ملک آباد کرنے سے اورملک آباد ہوتا ہے عدل و انصاف سے اور حسن سیاست سے“۔

عدل انفرادی ہو یا اجتماعی، بہرصورت وہ شریعت کی عمل داری کا نام ہے،عدل کا ہر وہ ضابطہ جو شریعت محمدیہ سے متصادم ہو یا قید شریعت سے آزاد ہو وہ کبھی عدل نہیں ہوسکتا ، بلکہ سراسر ظلم شمار ہوگا، اگر چہ دنیا کے ماہرین نفسیات اور مصالحت مخاصمت کی پیچیدگیوں سے واقف کار ملک کے ارباب حکومت اسے ضابطہ عدل بنانے پر متفق ہوچکے ہوں۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا۔

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْْمِناً عَلَیْْہِ فَاحْکُم بَیْْنَہُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ عَمَّا جَاء کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَةً وَمِنْہَاجاً وَلَوْ شَاء اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَکِن لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُم فَاسْتَبِقُوا الخَیْْرَاتِ إِلَی اللّٰہ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُونَo وَأَنِ احْکُم بَیْْنَہُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَن یَفْتِنُوکَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّٰہُ إِلَیْْکَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیْدُ اللّہُ أَن یُصِیْبَہُم بِبَعْضِ ذُنُوبِہِمْ وَإِنَّ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَoأَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَo﴾․ (المائدہ:50-48)

اور تجھ پر اتاری ہم نے کتاب سچی تصدیق کرنے والی سابقہ کتابوں کی او ران کے مضامین پر نگہبان، سو تو حکم کر ان میں موافق اس کے جو کہ اتارا الله نے اور ان کی خوشی پر مت چل ،چھوڑ کر سیدھا راستہ ،جو تیرے پاس آیا ،ہر ایک کو تم میں سے دیا ہم نے ایک دستور اور راہ اور الله چاہتا تو تم کو ایک دین پر کر دیتا، لیکن تم کو آزمانا چاہتا ہے اپنے دے ہوئے حکموں میں، سو تم دوڑ کر لو خوبیاں، الله کے پاس تم سب کو پہنچنا ہے ،پھر جتا دے گا جس بات میں تم کو اختلاف تھا oاور یہ فرمایا کہ حکم کر ان میں موافق اس کے جو کہ اتارا الله نے او رمت چل ان کی خوشی پر اور بچتا رہ ان سے کہ تجھ کو بہکانہ دیں کسی ایسے حکم سے جو الله نے اتاراتجھ پر پھر اگرنہ مانیں تو جان لے کہ الله نے یہی چاہا ہے کہ پہنچائے ان کو کچھ سزا ان کے گناہوں کی اور لوگوں میں بہت ہیں نافرمان oاب کیا حکم چاہتے ہیں کفر کے وقت کا؟ اور الله سے بہتر کون ہے حکم کرنے والا یقین کرنے والوں کے واسطےo

جب کسی اسلامی ریاست اور ملک میں قرآن وسنت کو ماخذ قانون بنانے کی بجائے انسانی دماغ اور انسانی افکار کو ماخذ قانون بنادیا جائے تو پھر معاشرے میں عدل قائم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ظلم در ظلم کا ایک طویل سلسلہ پورے معاشرے کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کر دیتا ہے۔

آیت کریمہ میں عدل کرنے کا حکم دیا گیا۔ عدل کی ایک شاخ سچی گواہی دینا بھی ہے ، اس کے آداب بیان کیے گئے۔ گواہی دینا بعض اوقات واجب اور بعض اوقات استحباب کے درجے میں ہوتی ہے، جس کی تفصیل فقہائے کرام کتب فقہ میں بیان کرتے ہیں۔ سب سے بہترین گواہی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

”خیرالشھود مَنْ ادّی شھادتہ قبل أن یسألھا“․ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:2364)

سب سے بہترین گواہی وہ ہے جو مطالبے سے پہلے ادا کردی جائے۔ نیز مومن کو عدل اور خوف خدا کا اس قدر استحضار رہنا چاہیے کہ اگر گواہی اس کے اپنے یا والدین وعزیز واقارب کے خلاف اور فریق مخالف کے حق میں جاری ہے تب بھی اس کی ادائیگی میں حیل وحجت سے کام نہ لے۔ کسی رشتے کو یا کسی جذبے کو قیام عدل میں آڑے نہ آنے دے۔ رضائے الہی کو مقدم رکھے، ہر قدم پر اس کو پیش نظر رکھے۔

فقہائے کرام نے گواہی کی تین قسمیں لکھی ہیں۔

1.. حقوق اللہ میں بلا مطالبہ گواہی دینا واجب ہے، مثلا طلاق، وقف، رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحی کے چاند کے متعلق اور ظہار وایلاء وغیرہ میں۔

2.. اگر کسی معاملے میں گواہی کے لیے طلب کیا جائے تو گواہی کی ادائیگی واجب ہے، اگر کسی معاملہ کی تحقیق کسی ایک ہی شخص کی گواہی پر موقوف ہے اور وہ گواہی نہ دے تو گناہ گار ہوگا۔

3.. وہ جرائم جن پر حدود واجب ہوتی ہیں جیسے زنا، چوری، شراب نوشی، کسی با عزت پر تہمت وغیرہ، ان امور میں گواہی کے بجائے ستر پوشی کرنا زیادہ افضل وبہتر ہے۔(بدائع الصنائع:6/282، البحر الرائق: 7/59) (جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق