قرآن کریم میں انسانیت کی ہدایت کا پیغام ہی تو ہے

قرآن کریم میں انسانیت کی ہدایت کا پیغام ہی تو ہے

مولانا محمد نجیب قاسمی

21 جنوری کو سویڈن کے دارالسلطنت اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانہ کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے راسموس پالوڈان نے تقریباً 2 ارب مسلمانوں کی دل آزاری، اہانت اور نفرت پر مبنی شیطانی کام کرتے ہوئے اللہ کی عظیم کتاب کے نسخہ کو جلایا۔ اِس واقعہ کے بعد 27 جنوری جمعہ کے روز اِس ملعون شخص نے یورپ کے ایک دوسرے ملک ڈنمارک کے دارالسلطنت کوپن ہیگن میں ایک مسجد کے سامنے اور پھر ترکی کے سفارت خانہ کے سامنے جاکر مسلمانوں کی مقدس کتاب کو جلایا۔ راسموس پالوڈان ڈنمارک اور سویڈن دونوں ممالک کی بیک وقت شہریت رکھتا ہے۔ اس نوعیت کی انتہا پسندی کا ایک واقعہ نیدرلینڈ میں بھی پیش آیا۔ گزشتہ سال بھی یورپ کے ممالک میں قرآن سوزی کے قابل مذمت ولعنت واقعات پیش آئے تھے۔ اپنے ذاتی یا کسی بھی طرح کے مفادات کے لیے قرآن کریم یا کسی دوسرے مذہب کی مقدس کتاب کو جلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ظاہر ہے کہ یہ واقعات وہاں کی حکومت کی مرضی کے بغیر رونما نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے دنیا کے مختلف ممالک میں ان ممالک کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے۔

نہ صرف مسلمان بلکہ عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص اس طرح کے واقعات کی مذمت کررہا ہے۔ دنیا میں امن وسکون کے ظاہری ٹھیکے دار مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب کو نذرِ آتش کرنے کی مذموم کوششیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت وتعصب کی وجہ سے ہے ، اسلام مخالف طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نوعیت کے واقعات رونما کراتی ہیں۔ ہم اِن واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ کسی بھی مذہبی کتاب یا مذہبی رہنماکے خلاف اس نوعیت کے واقعات پر سزا کے لیے سخت قانون بنایا جائے، کیوں کہ اس طرح کے واقعات سے دنیا میں امن وامان کے بجائے افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا، جس سے لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوگی۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے موقع پر قرآن کریم کے متعلق اپنے قول وعمل سے عام لوگوں کو بتائے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے، جو صرف اور صرف انسانیت کی راہ نمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے، اس میں دہشت گردی کی نہیں، بلکہ امن وسکون کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن کریم کے اعلان کے مطابق کسی شخص کو مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا ہے۔

قرآن کیا ہے؟
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی راہ نمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ عربی زبان میں 23 سال کے عرصہ میں نازل فرمایا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں اور وہ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔

قرآن کے نزول کا مقصد؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ ذَٰلِکَ الْکِتَٰبُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِینَ﴾ (سورة البقرة آیت:2 )یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے (اللہ سے) ڈر رکھنے والوں کے لیے۔

قرآن کریم کس طرح اور کب نازل ہوا؟
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلة القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماءِ دنیا (زمین سے قریب والا آسمان) پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23 سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورہٴ علق کی ابتدائی آیات ہیں:﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ﴾پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سورة المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائیں:﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ﴾اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔

قرآن کریم کس طرح ہمارے پاس پہنچا؟
قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا، بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا، چناں چہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حافظ قرآن ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابہٴ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چناں چہ ہمیشہ صحابہٴ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔

قرآن کریم کی حفاظت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا، چناں چہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورة میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا، اس لیے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔

کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابت، خلفائے راشدین، حضرت ابی بن کعب، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے نام خاص طور پر ذکر کیے جاتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں، جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ابتدا میں اس کام کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لیے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔

حضرت زید بن ثابت خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا، بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت نے انہیں یکجا فرمایا،تاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔

جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی۔ صحابہٴ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لیے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا، جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا، حالاں کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چناں چہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چناں چہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا، تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردیے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لیے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لیے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔

مضامین قرآن
علماء کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:
1.. عقائد 2.. احکام 3.. قصص، قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیث نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیث نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

1.. عقائد: توحید ، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے بہت زور دیاہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزاوسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

2.. احکام…اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں:

عبادتی احکام…نماز، روزہ، زکاة اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکاة کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔

معاشرتی احکام… مثلاً حقوق العباد کی ساری تفصیلات۔

معاشی احکام… خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔

اخلاقی وسماجی احکام… انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔

سیاسی احکام…حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام ومسائل۔

عدالتی احکام: حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔

3.. قصص …گزشتہ ابنیائے کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔

قرآن کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟
تلاوت قرآن
احادیث میں تلاوت قرآن کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے قرآ ن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے او رایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ”ا“ایک حرف ہے، ”ل“ ایک حرف ہے اور” م“ ایک حرف ہے“۔( ترمذی)

حفظِ قرآن
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:” قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے“۔( صحیح مسلم)

قرآن فہمی
چوں کہ قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد بنی نوع انسان کی ہدایت ہے اور اگر سمجھے بغیر قرآن پڑھا جائے گا تو اس کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم علمائے کرام جنہوں نے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور سمجھانے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لگایا، ان کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس ذات عالی پر قرآن کریم نازل ہوا اس کے اقوال وافعال کے بغیر قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ایک آیت پیش ہے:﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾ (سورة النحل 44) یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ لہٰذا ہم روزانہ تلاوتِ قرآن کے اہتمام کے ساتھ کم از کم علماء کرام وائمہ مساجد کے درس قرآن میں پابندی سے شریک ہوں۔

العمل بالقرآن
یہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق ہے اور اسی میں بنی نوع انسانی کی دنیاوی واخروی سعادت مضمر ہے اور نزول قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو گویا ہم قرآن کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے رک جائیں۔

قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا
امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اپنی ذات سے قرآن وحدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش وفکر کی جائے کہ ہمارے بچے، خاندان والے، محلہ والے، شہر والے، بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ کو معبود حقیقی مان کر قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا) کی ذمہ داری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار بیان کیا ہے۔ سورہٴ العصر میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کام یابی کے لیے چار صفات میں سے ایک صفت دوسروں کو حق بات کی تلقین کرنا ضروری قرار دیا۔ لہٰذا ہم احکام الٰہی پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔

قرآن اور ہم
یہ کتاب مقدس حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعل راہ بنی رہے گی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں، ہاں ان کی تفصیلات احادیث نبویہ میں موجود ہیں۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے، نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:
          وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہوکر
          اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کی آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی ، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔

آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے، کیوں کہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ… یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو اس نے ہماری راہ نمائی کے لیے نازل فرمایا ہے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔