حالت ِجنابت .. مسجد میں حاضری سے ممانعت

حالت ِجنابت .. مسجد میں حاضری سے ممانعت

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
زمانہٴ اباحت میں شراب پینے سے کسی پر حرف نہیں آتا
چوں کہ شانِ نزول کی روایات میں حضرت علی رضی الله عنہ کے شراب پینے کا تذکرہ آتا ہے، جس پر شیعہ حضرات ناک منھ چڑھاتے ہیں، اور ان روایات پر غیر علمی اور جاہلانہ گفت گو شروع کردیتے ہیں، اس لیے اول تو یہ جان لینا چاہیے کہ اہلِ سنت کے ذخیرہ کتب میں یہ روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے، چوں کہ یہ حرمت شراب سے پہلے کا واقعہ ہے، اس وقت شراب پینا مباح تھا، اس لیے کسی صحابی کے شراب پینے سے ان کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا اور نہ ہی یہ عمل ان کے مقام و مرتبہ کے منافی تھا۔ ہاں! جب اس کی حرمت نازل ہوئی تو یہی صحابہ کرام تھے جنہوں نے حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے شراب کے مٹکے الٹ دیے اور مدینہ کی گلیوں میں بارش کے پانی کی طرح شراب بہہ رہی تھی، صحابہ کرام کے مختلف واقعات احکامِ اسلام کی معرفت کا ذریعہ بنتے تھے اور تاقیامت مسلمان ان کے لیے دعا خیر کرتے ہیں، قرآن فہمی کے لیے ان کے واقعات کو محفوظ رکھنا اور اسے بیان کرنا بھی ضروری ہے، ورنہ ہر شخص بے پر کی اڑا کر قرآن کریم کی من مانی تفسیر کرتا پھرے گا، شیعہ حضرات کے ان روایات پر غیض و غضب کرنے کی صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت علی رضی الله عنہ امامت کے مرتبے پر فائز ہیں اور امامت ان کے نزدیک منصب نبوت سے بالاتر ہے اور امام بھی نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے، ان سے کبھی گناہ صادر ہی نہیں ہوتا، اس لیے شراب کی نسبت حضرت علی رضی الله عنہ کی طرف کرنے سے ان کے عقیدہ امامت کو ٹھیس پہنچتی ہے، اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی الله عنہ صحابی رسول ہیں، حضرت عثمان رضی الله عنہ کی طرح داماد رسول ہیں، مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ برحق ہیں، انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں، لیکن صحابہ کرام معصوم نہیں ہوتے، ان سے غلطی صادر ہو سکتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق دے دیتے ہیں، اس لیے صحابہ کرام رضی الله عنہم مغفور ہیں، لیکن معصوم نہیں ہے۔

حرمت شراب سے پہلے شراب پینا تو ممنوع ہی نہیں تھا، اس لیے اس بنا پر کسی صحابی کو گناگار کہنا بھی جائز نہیں، بلکہ اسے گناہ سمجھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

حالتِ جنابت میں نماز پڑھنے اور مسجد میں حاضری سے ممانعت
﴿وَلاَ جُنُباً إِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ﴾․اس آیت میں جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر کوئی مسافر ہے تب بھی جنابت کی حالت میں غسل کر کے نماز ادا کرے، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھے۔

بعض مفسرین نے تو ﴿لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ﴾ میں لفظ ”صلوة“ سے پہلے ”مواضع“محذوف مانا ہے، اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہو گاکہ نشہ کی حالت اور جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کی جگہوں ، یعنی مساجد کے قریب مت جاؤ، سوائے یہ کہ مجبوری ہو اور وہاں سے گزرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔ ابتدا میں مسجد نبوی کے صحن کی طرف مختلف صحابہ کرام کے دروازے کھلتے تھے، جنابت کی صورت میں طہارت کے حصول کے لیے مسجد سے گزر کر ہی جانا پڑتا تھا، بعد میں آپ علیہ السلام نے تمام صحابہ کرام کو جن کے دروازے مسجد نبوی کی طرف کھلتے تھے انہیں دروازے بند کرنے اوردوسری طرف دروازے کھولنے کا حکم دیا، سوائے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے دروازے کے، انہیں آپ علیہ السلام کی طرف سے استثنا دیا گیا، ان کی وفاداری، دینی خدمات اور آپ کے رفیق حضروسفر، مشیرو وزیر ہونے کی وجہ سے خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔(سُدُّوا کل خوخة فی المسجد إلا خوخة أبي بکر․ صحیح البخاری، رقم الحدیث:213)

بعض لوگوں نے یہ روایت کیا ہے کہ سب دروازے بند کرنے کا حکم دیا، سوائے حضرت علی رضی الله عنہ کے دروازے کے، علامہ ابنِ کثیر رحمة الله علیہ فرماتے ہیں یہ غلط ہے اور صحیح روایت وہی ہے جو صحیح بخاری میں درج ہے۔(تفسیر ابن کثیر، النساء، ذیل آیت:43)

علامہ ابن جوزی رحمة الله علیہ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے دروازے کو باقی رکھنے کی تمام روایات کو موضوع قرار دیا ہے، ان کے نزدیک تمام روایات رافضیوں نے حضرت ابو بکر صدیق کی فضیلت کے مقابلے میں گھڑی ہیں۔(کتاب الموضوعات لابن الجوزی، باب فضائل علی:1/273، 275، دار الکتب العلمیہ بیروت) لیکن حافظ ابنِ حجر رحمة الله علیہ نے علامہ ابنِ جوزی رحمة الله علیہ کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایاکہ ابن جوزی رحمة الله علیہ سے اس مسئلے میں بری طرح چوک ہوئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں بعض روایات میں کلام ہے، مگر یہ کلام تمام طرق میں نہیں ہے، ان روایات کو بالکلیہ مسترد نہیں کیا جا سکتا، اگر ان روایات کا ظاہری تعارض حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے متعلق روایات سے ہو رہا ہے تو اس میں تطبیق ممکن ہے اور جہاں کہیں تطبیق ممکن ہو وہاں اس کو ترجیح ہو گی۔(فتح الباری:7/20، دار السلام)

چناں چہ علامہ ابنِ حجر رحمة الله علیہ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے دروازے کو باقی رکھنے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے دروازے کو باقی رکھنے کے متعلق روایات میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا:مسجدِ نبوی کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دو مرتبہ دیا گیا، پہلی مرتبہ کے حکم میں حضرت علی رضی الله عنہ کے دروازے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا، اس لیے کہ ان کے گھر کا راستہ مسجد ہی سے گزر کر جاتا تھا، اس کے علاوہ باہر آنے جانے کا راستہ نہیں تھا، دوسری مرتبہ جب دروازے بند کرنے کا حکم دیا گیا تو اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے دروازے کو مستثنیٰ قرار دیا، لیکن اس تطبیق کی صورت میں اس بات کا بھی اضافہ کرنا ہوگاکہ پہلی بار جب دروازے بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو تمام صحابہ کرام نے جن کے گھر کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے بند کر دیے، البتہ مسجدِ نبوی میں عبادت کی غرض سے آنے جانے کے لیے کھڑکیاں رکھ لیں، دوسری بار ان کھڑکیوں کو بھی بندکرنے کا حکم دیا گیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کو کھڑکی کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی، اس لیے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے متعلق روایات میں جہاں”باب“کا لفظ آتا ہے وہ اپنے حقیقی معنی میں نہیں، بلکہ مجازاً اس سے ”خوخة“کھڑکی مراد ہے۔(فتح الباری: 7/20، دار السلام)

حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمة الله علیہ نے بھی ان روایات کی تطبیق میں فرمایا:اس کا حکم دو مرتبہ دیا گیا ہے، پہلی مرتبہ اس سے حضرت علی رضی الله عنہ کا استثنا ہوا اور دوسری مرتبہ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کا۔ (التعلیق الصبیح:7/365)

پانی کے نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم
﴿وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ…﴾: آیت کریمہ کے اس حصے سے تیمم کی اجازت دی جا رہی ہے، اگر کوئی مریض پانی کے استعمال سے مزید بیمار ہو سکتا ہے یا سفر میں ہے جہاں پانی مفقود ہے یا اتنا کم ہے کہ جس سے صرف پیاس بجھائی جا سکتی ہے یا کسی کو حدث لاحق ہو گیا ہو اور وضو کی ضرورت پیش آگئی ہو، یا بیوی سے مباشرت کی وجہ سے جنابت لاحق ہو گئی، مگر پاکی حاصل کرنے کے لیے پانی موجود نہیں، تو اس صورت میں تیمم کرنے کا حکم دیا گیا۔

تیمم کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
تیمم لغت میں قصد وارادہ کو کہتے ہیں (تاج االعروس، مادہ: أمم:8/189) اور اصطلاح شریعت میں:”القصد إلی الصعید الطاہر للتطھیر“(فتح القدیر:1/125) پاک مٹی سے نجاست کو جسم سے پاک کرنے کا نام تیمم ہے۔

تیمم امتِ محمدیہ کی خصوصیت ہے ، سابقہ امتوں کو مٹی سے پاکی حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس خصوصیت پر ملا علی قاری نے اجماع نقل کیا ہے۔ (مرقاة المفاتیح، کتاب الطہارہ، باب التیمم:2/225) صحیحین میں حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”أعطیت خمسًا لم یعطھن أحدٌ قبلی: نصرت بالرعب مسیرة شھر، وجعلت لی الأرض مسجدًا وطھوراً…“․ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:335، صحیح مسلم، رقم الحدیث:521)

”مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں دی گئیں …ان میں سے ایک یہ کہ ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور یہ کہ ساری زمین میرے لیے نماز کی جگہ اورپاک کرنے والی بنا دی گئی ہے“۔

تیمم کی مشروعیت
تیمم کے سنِ مشروعیت میں اہلِ علم کا ااختلاف ہے، ابن سعد، (الطبقات الکبریٰ لابن سعد:2/65) ابن حبان،(کتاب الثقات لابن حبان:1/98) ابنِ عبدالبر، ( التمہید لابن عبد البر:1/165) اور دیگر محدثین فرماتے ہیں کہ تیمم کی مشروعیت غزوہ بنی مصطلق میں ہوئی تھی، اس غزوہ کو غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں، یہ غزوہ کس سن میں ہوا تھا؟ اس میں تین اقوال ہیں: 4ھ ء، 5ھ ء، 6ھ ء، ابن کثیر (البدایة والنھایة:4/169) ابن خلدون(تاریخ طبری:2/109)حافظ ذہبی (تاریخ الإسلام للذھبی: 1/189)طبری(تاریخ طبری:2/109)ابن ہشام (السیرة النبویة لابن ہشام:2/241) ابن الاثیر جزری (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر الجزری:2/173) نے اس غزوے کا سن وقوع 6ھء شمار کیا ہے۔

تیمم کے فرائض
تیمم میں تین فرائض ہیں:
1.. نیت کرنا، چوں کہ تیمم کے لغوی معنی میں قصدو ارادہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، اسی بنا پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمة الله علیہ و دیگر فقہائے کرام کے ہاں تیمم میں نیت شرط ہے، اس کے بغیر پاکی حاصل نہ ہوگی۔

نیت سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسی عبادت کے لیے تیمم کی نیت کی جائے جو بذات خود مقصود ہو اور اس کے لیے وضو کرنا بھی ضروری ہو، مثلاً: نماز، سجدہ تلاوت، اگر کسی ایسی چیز کے لیے تیمم کیا جو خود مقصود نہیں، بلکہ محض دوسری عبادتوں کے لیے وسیلہ ہے، مثلاً قرآن کا چھونا، قبروں کی زیارت، مردہ کی تدفین وغیرہ تو اس نیت سے کیے گئے تیمم سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی، اسی طرح ایسی عبادتیں جو مقصود تو ہیں مگر ان کے لیے وضو ضروری نہیں ہوتا، جیسے زبانی قرآن مجید پڑھنا، اس کی نیت سے کیے گئے تیمم سے بھی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔(أوجز المسالک:1/552)

2.. دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر چہرے پر اس طرح پھیرنا کہ کہیں بال برابر بھی جگہ باقی نہ رہے۔

3.. دوسری بار ہاتھ مٹی پر مار کر دونوں ہاتھوں کو بازوؤں پر (ہاتھوں سے لے کر کہنیوں سمیت) اس طرح پھیرنا کہ بال برابر جگہ بھی باقی نہ رہے۔(قاموس الفقہ، مولانا خالد سیف الله رحمانی، جلد:2، ص:349)
یہ تیمم کے تین فرائض ہیں۔

تیمم کی شرائط
تیمم کے صحیح ہونے کی یہ شرائط ہیں:

1.. پاکی حاصل کرنے کی نیت ہو۔

2.. پانی موجود نہ ہو یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو،مثلاً بیمار ہو جانے یا بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا پانی ایسی جگہ ہو جہاں سے دشمن یا درندوں کے نقصان پہنچانے کااندیشہ ہو، یا خود کو مالی و جانی ضرر پہنچنے کا خطرہ ہو۔ پانی موجود نہ ہونے کا اعتبار اس وقت ہو گا جب پانی ایک میل یا اس سے زیادہ دوری پر ہو یاقریب ہو، مگر اس کے استعمال پر اختیار نہ ہو،ایسی تمام صورتوں میں تیمم کرنا درست ہے۔

کن چیزوں سے تیمم کرنا درست ہے؟
احناف کے نزدیک تیمم پاک مٹی کے علاوہ ہر ایسی چیز سے کیا جا سکتا ہے جو جلانے کی صورت میں نہ پگھلے اور نہ ہی خاکستر بنے، جیسے ریت، پتھر، چونا، کنکر، خام یا پختہ اینٹ ،ان سب سے تیمم کرنا درست ہے۔

تیمم کے چند اہم مسائل
حدث اصغر، یعنی وضو ٹوٹنے کی صورت میں اور حدث اکبر، یعنی جنابت لاحق ہونے کی صورت میں تیمم کرنا جائز ہے۔

جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا جنابت کا غسل فرض ہوتا ہے، ان صورتوں میں تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

اگر بیماری کی وجہ سے تیمم کیا یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے کیا، پھر جب شفا یابی ملے گی یا پانی مل جائے گا، تب تیمم بھی خود بخود ختم ہو جائے گا۔

نزول تیمم کا سبب اور مسئلہ علم غیب
اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سے صرف انبیا علیہم السلام کو سب سے زیادہ علوم غیبیہ سے نوازا، پھر ان میں سرورِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کو خاص الخاص منتخب فرما کر انہیں علم الاوّلین والآخرین سے نوازا، یعنی جس قدر علوم مبارکہ تمام انبیا علیہم السلام کو دیے گئے ان سب کو ملا کر اور ان سب سے بھی زیادہ علوم مبارکہ آپ علیہ السلام کے قلب ِ مصفی میں القا کیے گئے، ذاتِ الٰہیہ، صفاتِ الٰہیہ، احکام شرعیہ، ان کی ماہیت حقیقیہ اور اسرارِ مخفیہ سے متعلقہ علوم کے جو در آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے وا کیے گئے،اس تک کوئی مقرب فرشتہ پہنچ سکتا ہے، نہ نبی مرسل، یہ بلند مرتبہ سرور کونین صلی الله علیہ وسلم کا خاصہ ہے، البتہ علمِ ذاتی کُلّی صرف اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، وہ بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، ایسے علم کو حقیقت میں عِلمِ غیب کہتے ہیں۔

سرورِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم کا علم ”عطائی“ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے اور علمِ الٰہی کے مقابلے میں بہت محدود بھی ہے اور جزوی بھی ہے۔ نیز وہ علم سبب اور ذریعے سے حاصل ہوا ہے، یعنی وحی کے ذریعہ سے یا مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے غیبی علم کو انبائے غیب، اظہارِ غیب، اَخبارِ غیب کہتے ہیں۔

جس چیز کے علم پر قرآن وحدیث کی نص موجود ہو اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور جس کے متعلق نص موجود نہ ہو وہاں سکوت لازم ہے۔

علوم نبوت کے متعلق بعض مُفرِطین نے یہاں تک دعوی کر ڈالا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا علم عطائی ہے، مگر وہ علم قیامت تک کے ذرے ذرے تک کو محیط ہے، اتنے بڑے دعوے پر تو اتنی صریح دلیل بھی ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں!اجمالی روایات اور خبرِ واحد کے قبیل کی روایات عقائد کے باب میں حجت نہیں بن سکتی، بلکہ ان مفرطین کے دعوے کے ابطال کے لیے یہی آیت تیمم کافی ہے، ہار اونٹ کے نیچے پڑا تھا، نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا، صحابہ کرام اس ہار کی تلاش میں سرگرداں تھے، پریشانی کے عالم میں قافلہ رکا ہوا تھا، پانی نہیں تھا کہ وضو کر کے نماز پڑ ھ سکیں، اس پریشانی میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا۔ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کو ذرے ذرے کا علم دیا گیا ہوتا تو اہل قافلہ کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہوتی، ہار بھی فوری مل جاتا، صحابہ حضور صلی الله علیہ وسلمسے التجا کرتے یا رسول اللہ، اللہ کے دیے گئے علم میں سے ہار کے متعلق آگاہ فرما دیجیے،جب کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔

ایسے موقعوں پر مفرطین کی بیچارگی عیاں ہو جاتی ہے، چناں چہ مولوی غلام رسول سعید ی اپنی تفسیر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے:
”رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ابتداً نہیں بتایا یا اس طرف متوجہ نہیں کیاکہ ہار کہاں ہے، کیوں کہ اس میں متعدد حکمتیں تھیں اور آپ کی امت کو بہت سے مسائل کی تعلیم دینا تھی“۔(تبیان القرآن، النساء، ذیل آیت:43)

مولوی محمد قاسم قادری نے صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں لکھا:
”ہار گم ہونے اوررحمتِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے نہ بتانے میں بہت سی حکمتیں تھیں“۔(صراط الجنان فی تفسیر القرآن، النساء، ذیل آیت:43)

جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ہار کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کو علم نہیں تھا، تو پھر اس دعوے کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کہ”تاقیامت کائنات کے ذرے ذرے کا علم آپ علیہ السلام کو حاصل تھا“۔ اہلِ علم و عقل پر اسے مزید عیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(جاری)