لین دین سے متعلق چند اجمالی اصول و ضوابط

لین دین سے متعلق چند اجمالی اصول و ضوابط

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

ناجائز طریقوں سے مال ہتھیانے کی ممانعت
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ…﴾ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی معاشی تگ و دو اور حصولِ آمدنی کے متعلق ایک بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے کہ:

”باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ، مال کھانے کا ہر وہ ڈھنگ جو شریعت کے بتائے ہوئے احکام اور شرائط و ضوابط کے موافق نہ ہو وہ طریقہ باطل اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام ہے،البتہ باہمی رضا مندی سے ہونے والی تجارت سے جو نفع حاصل ہو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں، حصولِ مال کے جائز ذرائع تجارت کے علاوہ اور بھی ہیں، مثلاً: ملازمت، ہبہ، صدقہ، وصیت، میراث، یہ سارے طریقے نصوص شریعت سے ثابت ہیں، باطل نہیں ہیں، مگر قرآن کریم میں صرف تجارت کا ذکر اس کے کثیر الوقوع ہونے کی وجہ سے ہے“ ۔(أحکام القرآن للتھانوی: النساء، ذیل آیت:29)
تجارت حصول معاش کا فطری اور خود مختارانہ طریقہ ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے ایک سائل نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! سب سے بہترین اورپاکیزہ ذریعہ معاش کون سا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:”عمل الرجل بیدہ وکل بیع مبرور“․(مسند أحمد بن حنبل، رقم الحدیث: 17265) (سب سے بہترین ذریعہ معاش) آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ خریدو فروخت کرنا ہے جو شریعت کی رو سے درست ہو۔

ایک دوسری حدیث میں آپ علیہ السلام سے مروی ہے: امانت دار، سچا مسلمان تاجر روزِ قیامت انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا (اور عرشِ الٰہی کے سائے تلے ہو گا اور اسے جنت میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا)۔(جامع ترمذی، رقم الحدیث:1209)

لین دین سے متعلق چند اجمالی اصول و ضوابط
∗…”حصولِ مال کی کوششوں میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ صحیح بخاری میں ہے ،لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا انسان کو اس بات کی پروا نہیں ہوگی کہ اس نے حلال کمایا یا حرام۔“(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2059)

∗…سچائی سے کام لینا اور جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے، حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ سے مروی ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بیچنے والے کو اور خریدنے والے کو سودا واپس کرنے کا اختیار ہے، جب تک وہ الگ نہ ہو جائیں، اگر وہ سچائی سے کام لیں تو ان کی خریدو فروخت میں برکت نازل ہوتی ہے، اگر وہ جھوٹ سے کام لیں تو ان کی تجارت کی برکت ختم ہو جاتی ہے“۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 2079)

∗… سودی لین دین کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے ، حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے سود کھانے والے پر ،سود کھلانے والے پر، اس کے لکھنے والے پر اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا یہ سب برابر کے شریک ہیں۔

∗…مشتبہ چیزوں سے دور رہنا چاہیے، حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں : میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو مشتبہ چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال چرواہے کی سی ہے، جو شخص کسی کی باڑ کے گرداپنے جانوروں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ باڑ میں جا گھسیں، سن لو!ہر بادشاہ کی ایک باڑ ہوتی ہے، سن لو! اللہ کی باڑ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں“۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:52)

∗…ہر معاملہ دھوکہ دہی سے پاک ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”من غش فلیس منا“جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:164)

∗… بیع سلم کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔
اگر کوئی پیشگی ادائیگی کرتا ہے اس چیز کا ناپ تول اور ادائیگی کی مدت معلوم ہونی چاہیے۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2079)

∗… لین دین باہمی رضا مندی سے ہو، اس میں کوئی جبر اور دباؤ نہ ہو، حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:بیچنے والا اور خریدنے والا اس حالت میں جدا ہوں کہ وہ ایک دوسرے سے راضی ہوں۔(جامع ترمذی، رقم الحدیث:1248)

∗…فروخت کنندہ اور خریدار میں سے کوئی کسی کی حق تلفی نہ کرے۔ حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ سے مروی ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق ماردیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ کو واجب کر دیتا ہے اور جنت اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے“۔ کسی نے آپ سے عرض کیا:اگرچہ یہ حق تلفی بالکل معمولی قسم کی ہو؟ آپ نے فرمایا:”اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو“۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 218)

∗…ناپ تول میں کمی بیشی کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:بلا شبہ تم ایسے دو کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو، جس کی پاداش میں تم سے پہلے قومیں ہلاک ہوئیں“۔ (جامع ترمذی، رقم الحدیث: 1217، أبواب البیوع، باب ما جاء فی المکیال والمیزان) ایک بار آپ بازار تشریف لے گئے، وہاں ایک تولنے والا کوئی جنس تول رہاتھا، آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا:”تولو اور کچھ جھکتا ہوا تولو“۔(سنن نسائی، رقم الحدیث: 4592)

∗…حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، بتوں اور خنزیر کو حرام قرار دیا ہے“۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:2236)

∗…حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص تصویریں بناتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے اب اس میں جان بھی ڈالو، مگر وہ یہ کام نہ کر سکے گا“۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:5951)

∗…آپ صلی الله علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2237)

∗… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”بازار میں غلہ لانے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے“۔(سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث:6153)

∗…حضرت واثلہ بن الاسقع فرماتے ہیں:میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”جس نے اپنی عیب دار چیز، عیب بتائے بغیر، بیچی وہ ہمیشہ الله کے غضب میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:2247)

∗…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم میں سے کوئی شخص اونٹنی یا بکری خریدے، جس کا دودھ روک کر زیادہ دکھایا گیا ہو تو دودھ دوہنے کے بعد خریدنے والے کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے، چاہے تو اسے رکھ لے، چاہے تو واپس کر لے اور ایک صاع کھجور بھی اس کے ساتھ دے“۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1524)

∗…حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجبور آدمی کی سودا بازی سے فائدہ اٹھانے اور دھوکہ کی خریدوفروخت سے اور پھلوں کو پکنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا۔( سنن أبی داؤد، رقم الحدیث)

∗…حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:”بیع عربان“(یعنی بیعانہ کی ضبطی والے سودے) سے منع فرمایا ہے۔(موطا امام مالک، رقم الحدیث:2257)۔

∗…آپ علیہ السلام نے فرمایا:”جب مال بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت کا اختلاف ہو جائے اور ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہی یا ثبوت موجود نہ ہو تو اس شخص کی بات معتبر ہو گی، جو مال کا مالک ہے یا پھر وہ سودا چھوڑ دیں“۔(جامع ترمذی، رقم الحدیث: 1270)

∗…ہر چیز حلال ہے، سوائے اس کے جس کا حرام ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہو۔

∗…مالی معاملات میں ہر قسم کی شرط درست ہے، سوائے ایسی شرط کے جس کا حرام ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہو، اس لیے آپ علیہ السلام نے فرمایا:”المسلمون علی شروطہم، إلا شرطا أحل حراماً أو حرم حلالاً․“(جامع ترمذی، رقم الحدیث:1325) مسلمان باہمی طے کردہ شروط پر عمل کرنے کے پابند ہیں، سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے۔

∗…لین دین ہر طرح کے دھوکے سے پاک ہو، کیوں کہ آپ علیہ السلام نے ”بیع غرر“دھوکے کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1513)

∗…لین دین ہر طرح کے جوئے اور قمار سے پاک ہو، خواہ یہ جوا کھیلوں اور مقابلوں میں ہو یا لاٹریوں اور بانڈزمیں ہو، خواہ جوا کی رقم تھوڑی ہو یا زیادہ، ہر صورت حرام ہے۔
یہ لین دین اور معاملات کے متعلق اجمالی اصول و ضوابط ہیں، تفصیل محدثین اور فقہائے کرام نے اپنی کتابوں میں کی ہے۔

خود کشی کی ممانعت اور اس پر وعید
آیت کریمہ میں دوسرا حکم خود کشی سے ممانعت کے متعلق ہے: ﴿ولا تقتلوا أنفسکم﴾پنی جانوں کو قتل مت کرو۔
خود کشی کی بنیادی وجہ ”مایوسی“ہے، انسان اپنے نا موافق حالات، اپنے مستقبل سے نا امید ہو کر، بزدلی کا شکار ہو جاتا ہے اور خود کشی کا قدم اٹھاتا ہے، نا امید ہونا کافروں کا وصف ہے، چناں چہ قرآن کریم میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا وعظ موجود ہے، جو انہوں نے اپنے صاحب زادوں کی کو کیا، اس میں فرمایا:﴿وَلاَ تَیْْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ﴾(یوسف:87) (اور نا امید مت ہو اللہ کے فیض سے، بے شک نا امید نہیں ہوتے اللہ کے فیض سے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں)۔

سورة زمر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعا﴾(الزمر:53) (آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے، بے شک اللہ بخشتا ہے سب گناہ)۔

سورة حجر میں ارشاد فرمایا: نا امید رہنا گمراہوں کی صفت ہے، ﴿وَمَن یَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ﴾ (الحجر:56) (اور کون آس توڑے اپنے رب کی رحمت سے مگر وہی جو گمراہ ہیں)

مومن کبھی حالات کے جبر سے نا امید نہیں ہوتا، اسے یقین ہوتا ہے کہ رب کریم رنج و غم کے اندھیروں سے امید کی صبح نو پیدا کرتا ہے، مومن ہر حال میں آخرت پر نظر رکھتا ہے، مسرت اور خوشی کی کیفیت میں نعمائے الہی پر شکر ادا کر کے اور رنج و غم میں صبر کر کے ذخیرہ آخرت بناتا رہتا ہے، اس کے لیے دونوں صورتوں میں بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں، اس لیے مومن سے اقدام خود کشی کی توقع صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے، جب وہ ایمان سے محروم ہو چکا ہو یا ایمان کے بہت کمزور درجے پر ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا:”جس کسی نے لوہے کے اسلحہ سے خود کو قتل کیا، یہی اسلحہ اس کے ہاتھ میں ہو گا، قیامت کے دن جہنم کی آگ میں اسی اسلحہ سے اپنے پیٹ کو چیرتا رہے گا، اور جس نے زہر کھا کر خود کو مار ڈالا، یہی زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا، جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی زہر کومنھ میں پھانکتا رہے گا، جس نے پہاڑ کی بلندی سے خود کو گرا کر خود کو قتل کیا، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گرایا جاتا رہے گا“۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:5778)

حضرت ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جس شخص نے جس چیز سے خود کو قتل کیا اسی کے ذریعے اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا“۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:1363)
آپ علیہ السلام کی خدمت میں ایک ایسا جنازہ لایا گیا جس نے خودکشی کی تھی، آپ نے جنازہ نہیں پڑھایا۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2262)

﴿إِن تَجْتَنِبُواْ کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مُّدْخَلاً کَرِیْماً، وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّہَ مِن فَضْلِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْماً﴾․ (سورة النساء:32-31)

اگر بچتے رہوگے ان چیزوں سے جو گناہوں میں بڑی ہیں تو ہم معاف کریں گے تم سے چھوٹے گناہ تمہارے اور داخل کریں گے تم کو عزت کے مقام میں O اور ہوس مت کرو جس چیز میں بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر، مردوں کا حصہ ہے اپنی کمائی سے اور عورتوں کا حصہ ہے اپنی کمائی سے اور مانگو اللہ سے اس کا فضل، بے شک اللہ کو ہر چیز معلوم ہےO

گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ کی حقیقت
آیت کریمہ میں گناہوں سے دور رہنے اور چھوٹے گناہوں کی بخشش اور جنت کے عمدہ ٹھکانے کی خوش خبری دی گئی ہے، گناہ بڑا اور چھوٹا ہوتا ہے یا نہیں؟ بعض اہلِ علم کے نزدیک ہر گناہ بڑا ہی ہوتا ہے، مگر وہ اپنے سے بڑے گناہ کی نسبت سے صغیرہ اور اپنے سے چھوٹے گناہ کی نسبت سے کبیرہ کہلاتا ہے، گویا گناہوں کے کبیرہ اور صغیرہ کی نسبت ، نسبت حقیقی نہیں نسبت اضافی ہے، مگر جمہورِ اہلِ علم کے نزدیک گناہوں کی یہ تقسیم حقیقی، ہے،اگر اس تقسیم کو قبول نہ کیا جائے تو آیت کریمہ میں بیان کردہ تقسیم بے معنی رہ جائے گی، اس لیے گناہ حقیقتاً کبیرہ اور صغیرہ میں بٹے ہوئے ہیں۔

گناہ کبیرہ اور صغیرہ کی تعریف
گناہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جس پر قرآن و سنت سے کوئی وعید یاغضب کی یا حد یا لعنت وارد ہو،(کتاب الفروع، شمس الدین مقدسی محمد بن مفلح:6/565، مزید دیکھئے احکام القرآن للتھانوی ذیل آیت:31، جامع البیان:النساء، ذیل آیت:31) اور صغیرہ اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے ارتکاب سے منع کیا گیا ہواور بس، چناں چہ شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں، تقصیر وہ کہ منع فرمایااور کچھ زیادہ نہیں۔(موضح القرآن، شاہ عبدالقادر محدث دہلوی، النساء، ذیل آیت:37)

گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ کی تعداد
جمہورِ اہلِ علم جو گناہ کبیرہ اور صغیرہ کی تقسیم کے قائل ہیں، ان میں کبیرہ کی تعداد میں اختلاف ہے، ایک جماعت کے نزدیک کبائر محدود ہیں، دوسری جماعت کے نزدیک کبائر کو کسی عددو شمار میں محدود نہیں کیا جاسکتا ہے، پھر اول الذکر گروہ میں اس کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کا مدار روایات کے اختلاف پر ہے۔

ایک گروہ کے نزدیک کبائر تین ہیں، جنہیں عمران بن حصین نے آپ علیہ السلام سے روایت کیا ہے۔ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹی گواہی دینا۔ (مجمع الزوائد للہیثمی:1/103)

دوسرے گروہ کے نزدیک کبائر چار ہیں، جنہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ نے آپ علیہ السلام سے نقل کیا ہے، شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا ناحق قتل کرنا جھوٹی قسم کھانا۔(صحیح بخاری ،رقم الحدیث:687)

تیسرے گروہ کے نزدیک کبائر سات ہیں، جنہیں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے آپ علیہ السلام سے نقل فرمایا ہے، چناں چہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو! صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کون سی ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: شرک کرنا جادو کرنا جس انسانی جان کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا اسے قتل کرنا سود کھانا یتیم کا مال کھانا میدانِ جنگ سے فرار ہونا عفیفہ بھولی بھالی مومنہ پر تہمت لگانا۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2766)

ایک روایت میں جادو کا تذکرہ نہیں ہے، اس کی جگہ ساتواں گناہ ہجرت کے بعد بدویت اختیار کرنا مذکور ہے۔(مجمع الزوائد:1/103)

چوتھے گروہ کے نزدیک کبائر نو ہیں، جنہیں عبید بن عمیر نے اپنے والد سے اور انہوں نے صحابہ سے روایت کیا کہ آپ علیہ السلام سے کبائر کے متعلق پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا: نو ہیں، ان میں سب سے بڑا گناہ شرک کرنا ہے ناحق مسلمان کو قتل کرنا میدانِ جنگ سے فرار ہونا یتیم کا مال کھانا جادو کرنا سود کھاناعفیفہ پاک باز خاتون پر تہمت لگانا مسلمان والدین پر تہمت لگانابیت اللہ کی بے حرمتی کرنا، جو تمہارا زندگی میں بھی قبلہ ہے اور مردنی میں بھی( یعنی زندگی میں اللہ کی طرف منھ کر کے نماز پڑھتے ہو اور مرنے کے بعد اس کی طرف منھ کر کے قبر میں لٹائے جاتے ہو(۔(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 2875)

پانچویں گروہ کے نزدیک کبائر کی تعداد گیارہ ہے، جنہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے آپ سے روایت فرمایا:شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا جھوٹی قسم کھانا انسانی جان کو قتل کرنا یتیم کا مال کھانا سود کھانا میدانِ جنگ سے فرار ہونا پاک باز خاتون پر تہمت لگانا جھوٹی گواہی دینا جادو کرنا11 خیانت کرنا۔(زاد المسیر فی علم التفسیر: النساء ذیل آیت 31)

چھٹے گروہ کے نزدیک اس سورت کی اکتیس نمبر آیت تک جن گناہوں کا تذکرہ ہے وہ کبائر ہیں۔ (زاد المسیر، النساء: ذیل آیت31)

حضرت ابو طالب مکی فرماتے ہیں کبائر کی صحیح تعداد سترہ ہے، ان میں سے چار کا تعلق دل سے ہے، شرک کرنا گناہ پر اصرار کرنا رحمتِ الٰہی سے محروم ہونا اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف ہونا۔

چار کا تعلق زبا ن سے ہے:کسی پاک دامن پر تہمت لگانا جھوٹی گواہی دینا جادو کرنا جھوٹی قسم کھانا۔

تین کا تعلق پیٹ سے ہے: یتیم کا مال ظلماً کھانا سود کھانا نشے کی چیز کا پینا۔

دو کا تعلق شرم گاہ سے ۔ زنا کرنا ہم جنس پرستی۔

دو کا تعلق ہاتھ سے ہے، چوری کرنا کسی کو بے گناہ قتل کرنا۔

ایک کا تعلق پاؤں سے ہے۔ میدانِ جہاد سے فرار ہونا

ایک کا تعلق پورے جسم سے ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔( روح المعانی، النساء: ذیل آیت31)

اہل ِعلم کی جس جماعت کے نزدیک کبائر کی تعداد متعین نہیں ہے، ان کے نزدیک احادیثِ شریفہ میں اقتضائے حال کے موافق مختلف مواقع پر مختلف گناہوں کو کبیرہ کہہ کر ان کی قباحت کو نمایاں کیا گیا، اس سے کبائر کی تعداد شمار کرانا مقصود نہیں تھا، اس لیے چند گناہوں کو کبائر قرار دینے سے دیگر کبائر کی نفی نہیں ہوتی، اس کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کے اس قول سے بھی ہوئی ہے، جب ایک شخص نے آپ کے سامنے کہا کہ کبیرہ سات ہیں، آپ نے فرمایا ستر سے زیادہ قریب ہیں اور دوسری روایت میں ہے سات سو سے زیادہ قریب ہیں اور اس پر بھی اہلِ علم کا اتفاق ہے، صغیرہ پر اصرار کرنے سے وہ کبیرہ ہو جاتا ہے، (تفسیر ابنِ کثیر النساء: ذیل آیت31 ) اس لیے درست بات یہی ہے کہ کبائر کا حصر مشکل ہے۔ (جاری)