اللہ کی راہ میں قتال کرنے والوں کی فضلیت

idara letterhead universal2c

اللہ کی راہ میں قتال کرنے والوں کی فضلیت

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

ایک شخص محض قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت اور ضرورت واہمیت کی وجہ سے اس کا ارادہ رکھتا ہے ،جب کہ دوسرا شخص ارادے کے ساتھ ساتھ اس عہد وفا کو نبھانے کے لیے اپنی خواہشات اور ترجیحات کو نظر انداز کر کے عملی میدان میں اتر کر کافروں سے نبرد آزما ہوجاتا ہے۔ دونوں اللہ تعالی کے ہاں درجہ ومرتبہ میں برابر نہیں ہوسکتے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے شخص کو بھی ارادہ خیر کی وجہ سے انعام ملے گا، مگر وہ اس شخص کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا جو جان لٹانے کا جذبہ لے کر عملی میدان میں اتر جاتا ہے۔ ان کے لیے فضیلت ہے، اجر عظیم ہے، مراتب ہیں، پروانہ مغفرت ہے، سایہ رحمت ہے۔

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَةُ ظَالِمِیْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَةً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُولٰٓکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًا، اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآء ِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّ لَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا، فَاُولٰٓیکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا، وَ مَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَةً وَ مَنْ یَّخْرُ جْ مِنْ بَیْتِہ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُہ، عَلَی اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾․ (سورة النساء:100-97)

وہ لوگ جن کی جان نکالتے ہیں فرشتے اس حالت میں کہ وہ برا کر رہے ہیں اپنا، کہتے ہیں ان سے فرشتے تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں ہم تھے بے بس اس ملک میں، کہتے ہیں فرشتے: کیا نہ تھی زمین اللہ کی کشادہ جو چلے جاتے وطن چھوڑ کر وہاں؟! سو ایسوں کا ٹھکانا ہے دوزخ اور وہ بہت بری جگہ پہنچےo مگر جو ہیں بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے، نہیں کرسکتے کوئی تدبیر اور نہ جانتے ہیں کہیں کا راستہo سو ایسوں کو امید ہے کہ اللہ معاف کرے اور اللہ ہے معاف کرنے والا بخشنے والا، اور جو کوئی وطن چھوڑے اللہ کی راہ میں، پاوے گا اس کے مقابلے میں جگہ بہت اور کشایش اور جو کوئی نکلے اپنے گھر سے ہجرت کر کے اللہ اور رسول کی طرف، پھر آپکڑے اس کو موت تو مقرر ہوچکا اس کا ثواب اللہ کے ہاں اور ہے اللہ بخشنے والا ،مہربانo

ہجرت کی فرضیت اور اس کے ترک پر وعید
مکہ مکرمہ میں دین حق کی پھیلتی ہوئی کرن سے مشرکین مکہ سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے۔ انہوں نے دین حق کا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکنہ قدم اٹھایا، آپ صلی الله علیہ وسلم پر دیوانہ، شاعر، مجنون، ساحر، سحر زدہ جیسے طعنے کسے ، معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا، تین سال تک شعب ابی طالب میں اہل ایمان کو محصور کیا گیا، صرف ایمان کی بنیاد پر اہل ایمان کے قریبی رشتوں، مثلا میاں بیوی، ماں باپ، اور والدین واولاد کے درمیان میں زبردستی جدائیاں پیدا کی گئیں، صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ مسلمانوں کے جان ومال پر دست درازی شروع کردی گئی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے خفیہ منصوبے بننے لگے، اس صورت حال میں مسلمانوں کو اپنا ایمان اور اپنی جان ومال کے تحفظ کے لیے ہجرت کا حکم دیا گیا، اس وقت ہجرت فرض تھی، ایمان کی طرح اہل ایمان کو ایسے تمام علاقوں سے کوچ کرنے کا حکم دیاگیا۔ جہاں چاروں طرف خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر قد غنیں لگادی گئی تھیں۔ اس حکم سے صرف وہی مستثنی تھے جن کے پاس ہجرت کے اسباب نہیں تھے، یا وہ بچے اور خواتین جو راستہ سے بے خبر ہونے کی وجہ سے اکیلے سفر کرنے سے قاصر تھیں۔

ہجرت نہ کرنے پر وعید

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰیہُمُ الْمَلٰئکَةُ…﴾
مکہ مکرمہ سے جن مسلمانوں نے ہجرت نہیں کی ان کے لیے اس آیت میں وعید بیان کی گئی۔ چناں چہ عبد الرحمن بن اسود بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کے لوگوں سے جنگ کرنے کے لیے ایک لشکر تیار کیا گیا، میرا نام بھی اس میں لکھا گیا، اس وقت میری ملاقات حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت عکرمہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے اس جنگ میں شرکت کرنے سے سختی سے منع فرمایا، پھر کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بیان کیا ہے کہ (مکہ مکرمہ کے) کچھ مسلمان(جنگ بدر میں مشرکین کی تعداد بڑھانے کے لئے) مشرکین کے ساتھ تھے، یہ لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قتال کے لیے آیا تھا، آپ علیہ السلام کے لشکر سے کوئی تیر آکر (مشرکین کے لشکر میں شریک) مسلمان کو لگتا اور وہ ہلاک ہوجاتا یا لڑائی میں مارا جاتا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث:4596)

ہجرت کا شرعی حکم
جس دیہات میں، قصبہ میں، شہر میں، ملک میں رہتے ہوئے خدا کے دین کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہو جائے وہاں سے ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ جس جگہ وہ ہجرت کرکے جارہا ہے وہاں اسے وہ مقصد بھی حاصل ہو جس کے لیے ہجرت کی نیت سے رخت سفر باندھا ہے۔ ابتدا میں مکہ مکرمہ کے مسلمانوں پر ہجرت مستحب تھی، ہجرت حبشہ اس کی مثال ہے، جب آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مکہ مکرمہ کے تمام مسلمانوں پر مدینہ منورہ میں ہجرت کرنا فرض ہوگیا، فتح مکہ کے بعد ہجرت مدینہ کی فرضیت ختم ہوگئی، چناں چہ آپ علیہ السلام نے مجاشع بن مسعود اسلمی سے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:”إن الھجرة قد مضت لأھلھا، ولکن علی الإسلام والجھاد والخیر“․( صحیح مسلم، رقم الحدیث:1863)

”ہجرت تو اہل ہجرت (مہاجرین مکہ) کے لیے گزر چکی ہے لیکن میں آپ سے اسلام، جہاد، بھلائی کی بیعت لیتا ہوں“۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:

”لا ھجرة بعد الفتح، ولکن جھاد ونیة وإذا استنفرتم فا نفروا“(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1864)

”فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم باقی نہیں رہا، لیکن جہاد اور نیت کا حکم باقی ہے اور جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو نکل کھڑے ہو“۔

ان روایات کے برعکس دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا حکم بالکلیہ ختم نہیں ہوا ہے۔ مثلاً

عن معاویة رضی اللّٰہ عنہ قال:سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:” لا تنقطع الھجرة حتی تنقطع التوبة، ولا تنقطع التوبة حتی تطلع الشمس من مغربھا“․(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:2166)

”جب تک توبہ باقی ہے ہجرت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا اور توبہ (کی مہلت) اس وقت تک باقی رہے گی جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہوجائے گا“۔

جنادة بن أبی امیة عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الھجرة لا تنقطع ما کان الجھاد“․(مسند احمد، رقم الحدیث:16597)

”یہ جب تک جہاد کا سلسلہ قائم ہے ہجرت بھی جاری رہے گی۔“

ان روایات میں تطبیق دیتے ہوئے محدثین نے فرمایا۔ اول الذکر روایات سے اس مخصوص ہجرت کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا جو عہد نبوی میں اہل مکہ پر فرض تھی، آخر الذکر روایات میں ہجرت عامہ کے باقی رہنے کے طرف اشارہ کیا گیا ہے ،جو مختلف زمان ومکان میں مختلف احوال کی بنا پر جائزاور مستحب ہے۔(المبسوط السرخسی:10/6، مرقاة المفاتیح:4/182

خلاصہ یہ کہ:
ابتدائے اسلام میں ہجرت مستحب تھی، جیسا کہ بعض صحابہ کرام نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مکہ مکرمہ کے تمام مسلمانوں پر ہجرت فرض ہوگئی، اگر ان میں کوئی ایسا مسلمان بھی ہو جس کے لیے اپنے دین کے اظہار اور اس پر عمل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔(إن فی بدء الاسلام کانت الھجرة البتة واجبة سواء قدر علی اقامہ دینہ أولا ․التفسیرات الأحمدیة: 305) جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔

فتح مکہ کے بعد ہجرت کی یہ فرضیت ختم ہوگئی۔(ولا شک فی نسخہ․التفسیرات الاحمدیة:305، قال الشیخ فی بذل المجھود عن الخطابی قال: کانت الھجرة فی اول الاسلام فرضا، ثم صارت مندوبة․ بذل المجھود، کتاب الجھاد، باب فی الھجرة:3 /193)

اب نفس ہجرت کی مشروعیت باقی ہے ۔ مگر اس کے وجوب واستحباب کا حکم مختلف احوال پر موقوف ہے۔ جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

ہجرت کی اقسام
قاضی ابوبکر محمد بن عبد اللہ مالکی رحمہ اللہ، جو ابن العربی کے نام سے معروف ہیں، انہوں نے احکام القرآن میں مقاصد کے اعتبار سے ہجرت کی کئی اقسام بیان فرمائی ہیں۔ جنہیں اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
پہلی قسم:دفع ضرر کی بنا پر ہجرت کرنا۔

دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا۔
بد عتیوں کے شہر سے ہجرت کرنا۔ ابن القاسم فرماتے ہیں: میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنا، آپ نے فرمایا:”لا یحل لأحد أن یقیم ببلد سب فیھا السلف“ کسی کے لیے ایسے شہر میں رہنا حلال نہیں ہے جس میں سلف صالحین پر سب وشتم کیا جاتا ہو۔

جس شہر میں حرام ذرائع آمدنی کا غلبہ ہو ( اور حلال ذریعہ آمدنی ناپید ہو) وہاں سے ہجرت کرنا ،کیوں کہ کسب حلال مسلمان پر فرض ہے۔

جہاں بدنی اذیت میں مبتلا ہونے کا یقین ہو وہاں سے ہجرت کرنا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود اور اپنی قوم سے ضرر بدنی کا یقین ہوا تو یہ کہتے ہوئے ہجرت فرمائی :﴿إنّی مھاجرٌ إلی رَبّی﴾․ (العنکبوت:25)

جس شہر میں کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو، مریض ہوجانے کے خوف سے اس شہر سے صحت مند ماحول اور شہر کی طرف ہجرت کرنا۔

جہاں مال ضائع ہونے کا خوف ہو وہاں سے اس مقام کی طرف ہجرت کرنا جہاں اس کا مال محفوظ رہے۔ کیوں کہ مال بھی جان کی طرح محترم ہے۔

دوسری قسم:حصول منفعت کے لیے ہجرت کرنا

عبرت کے لیے سفر کرنا۔(عجائب قدرت کو دیکھ کر عظمت خداوندی کا استحضار کرنا)

حج کے لیے سفرکرنا۔

جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفر کرنا۔

معاش حلال روزگار کے لیے سفر کرنا، جس سے ضروریات زندگی پوری ہوسکیں اور یہ فرض ہے۔

طلب علم کے لیے سفر کرنا ۔

متبرک مقامات مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ میں حاضری کے لیے سفر کرنا۔

اسلامی ملک کی سرحد کی حفاظت کے لیے سفر کرنا اور وہاں موجود مجاہدین کے پاس جاکر دشمنوں کی نظر میں مجاہدین کی تعداد بڑھانے کی غرض سے سفر کرنا۔

رضائے الہی کے لیے بھائیوں (دوست واحباب، عزیز واقارب) سے ملنے کے لیے سفر کرنا۔

(دارالاسلام کے مصالح ومفاد کے لیے) دارالاسلام سے دارالحرب کی طرف سفر کرنا۔(احکام القرآن لابن العربی المالکی، النساء ذیل آیت:101)

یہ ساری قسمیں، نیت اور اخلاص اور مقاصد کی بنا پر جائز ناجائز میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔

عصر حاضر میں کفریہ ممالک کی رہائش ترک کرنا
دارالاسلام، دارالکفر، دار الصلح، دارالحرب، دارالامن کی اصطلاحات سے قطع نظر کرتے ہوئے موجودہ دور کے معروضی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ عصر حاضر میں مغربی تصور وطن کے زیر اثر ممالک کی جغرافیائی تقسیم کی بنیاد مذہب پر نہیں رہی، بلکہ قوم وقبیلہ، رنگ ونسل، زبان وثقافت کی کوئی اکائی کسی ملک کے وجود کو جواز فراہم کرتی ہے۔ پھر اسی عصبیت کے ذریعے اس کا تحفظ کیا جاتا ہے، اس بنیاد پر ہونے والی جغرافیائی تقسیم کے بعد کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا اور کسی ملک وریاست کا قانونی فرد بننا آسان نہیں ہوتا۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان غیر فطری بنیادوں پر وجود میں آنے والے ممالک نے انسانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ ان مین اختلاف کو پروان چڑھایا ہے۔ اور ان کی فطری آزادی پر غیر معمولی قد غنیں لگا دی گئی ہیں ۔ جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام وطن کا جو تصور پیش کرتا ہے اس کی بنیاد ایمان اور کفر پر ہے…، اس سے پوری انسانیت صرف دوگروہوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ان میں اختلاف وتفرقہ کی دیگر وجوہات پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور پوری دنیا دو حصوں دارالاسلام، دارالکفر میں منقسم ہوجاتی ہے، دارالحرب، دارالصلح، دار العہد ان کی فروعات ہیں۔
چوں کہ معروضی حقائق میں اسلامی نظریہ وطن کا عملی وجود مفقود ہے اور کسی ملک کی شہریت لینا بھی کارے دارِد ہے۔ اس لیے ہجرت کے جو احکام فقہائے کرام نے دارالکفر اور دارالحرب کے مخصوص پس منظر میں بیان کیے ہیں ان کو موجودہ حالات میں منطبق کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن ”دین پر عمل داری“ یہ وہ بنیادی ترجیح ہے جس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے ۔

قد روی اشھب عن مالک أنہ قال: لا یقیم احد فی موضع فیہ بغیر الحق: قال ابن العربی فإن قیل فإذا لم یوجد بلدٌ لا کذالک؟ قلنا یختار المرء اقلھا اثما، مثل أن یکون بلد بہ کفر، فبلد فیہ جور خیر منہ أو بلد فیہ عدل وحرام فبلد فیہ جور وحلال خیر منہ للمقام أو بلد فیہ معاصی فی حقوق اللہ فھو اولی من بلد فیہ معاص فی مظالم العباد(عارضة الاحوذی:7/88)

موجودہ حالات میں یہ نعمت جہاں ملے اس کی قدر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات یہ نعمت ان ممالک میں بآسانی دستیاب ہوتی ہے جو کفر کی طرف منسوب ہیں اور ان ممالک میں بہ مشکل دستیاب ہوتی ہے جو اسلام سے منسوب ہوتے ہیں۔ اور بعضوں کے حالات اس کے برعکس بھی ہوتے ہیں۔ فقہا نے جو تفصیل بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے :

اگر کوئی شخص دارالکفر میں رہتا ہے اور وہاں رہتے ہوئے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرسکتا اورہجرت کرنا اس کے لیے ممکن ہے تو اس کے لیے دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا واجب ہے۔ اس وجوب ہجرت میں علمائے کرام کا اختلاف بھی ہے۔ لیکن اگر وہ دارالحرب میں سکونت پذیر ہے تو پھر بالاتفاق اس پر ہجرت واجب ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس پر دلیل یہی آیت قرآنی ہے :

﴿إن الذین توفّھم الملٰئکةُ ظالمی أنفسھم…﴾ (النساء:97)

حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب تکملہ فتح الملھم میں لکھتے ہیں۔

اما قبل فتح البلد، فمن بہ من المسلمین احد ثلاثة: الاول قدر علی الھجرة منھا لا یمکنہ اظہار دینہ ولا أداء واجباتہ فالھجرة منہ واجبة“․(تکملة فتح الملھم، کتاب الامارة، 3/373)

”وفی ھذا الزمان إن لم یتمکن من اقامة دینہ سبب أیدی الظلمة أو الکفرة یفرض علیہ الھجرة وھوالحق“. (التفسیرات الاحمدیة، ص 305)

”الآیة تدل علی إن لم یتمکن من اقامة دینہ فی بلد کما یجب وعلم أنہ یتمکن من اقامة فی غیرہ حقت علیہ المھاجرة“.(تفسیر المدارک، النساء ذیل آیت:100)

اگر کوئی شخص دارالکفر میں مسلمان ہوا ہے اور اپنے دین کے اظہار کی طاقت نہیں رکھتا اور ہجرت کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو معذور ہے۔ اس پر ہجرت واجب نہیں، مگر وہ مسلسل ہجرت کی کوشش میں رہے۔ اس کی دلیل یہی آیت قرآنی ہے:

”إلا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان لا یستطیعون حیلة ولا یھتدون سبیلا“․( النساء:98)

حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب تکملہ فتح الملہم میں لکھتے ہیں۔

”الثالث: عاجز لعذر من اسر أو مرض أو غیرہ فتجوز لہ الاقامة فإن حمل علی نفسہ وتکلف الخروج منھا أجر“․ (تکملة فتح الملھم، کتاب الامارة: 3/373)

جو قیدی ہونے کی وجہ سے یا مریض ہونے کی وجہ سے یا کسی دوسرے عذر کی وجہ سے ایسے دارالکفر میں سکونت پذیر رہے تو اس کے لیے جائز ہے اور اگر اپنے اوپر مشقت ڈالے اور نکل آئے تو اجر سے نوازا جائے گا۔

اگر کوئی شخص دارالکفر میں مسلمان ہوا اور اسے اپنے دین کے اظہار اور دینی شعائر اور اعمال کے اختیار کرنے پر مکمل آزادی ہے، مگر ہجرت کرنے کی طاقت واستطاعت نہیں رکھتا ،اس کے لیے بھی وہی حکم ہے جو شق نمبر2میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ہجرت کرنا واجب نہیں ہے۔

جیسا کہ ہجرت حبشہ میں صحابہ کرام ایک کافر ملک میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ کافروں کے ملک میں ان کو مذہبی آزادی تھی، ان کے اس عمل پر نکیر نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں وہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا۔

اگر کوئی شخص دارالکفر میں مسلمان ہوا، اسے اپنے مذہب کے تمام تقاضوں پر عمل کرنے میں مکمل آزادی ہے اور وہ ہجرت کی استطاعت بھی رکھتا ہے، اس کے لیے کیا افضل ہے؟ ہجرت کرنا یا وہیں رہ کر دین کی اشاعت اور اپنے عمل کے ذریعے لوگوں کو دین حق کی طرف متوجہ کرنا افضل ہے؟

اس میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک اس کے لیے وہیں رہنا اور وہیں رہ کر دیگر اقلیتی مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرنا، دین حق کی تبلیغ کا فریضہ انجام دینا، اپنی ذات سے اور اپنے اعمال سے لوگوں کو دین حق کی طرف متوجہ کرنا افضل ہے۔ اس پر ہجرت فرض وواجب نہیں ہے۔ ہجرت حبشہ میں صحابہ کرام مذہبی آزادی کی بنا پر حبشہ میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ بلکہ خود شاہ حبشہ نجاشی نے اسلام قبول کرلیا اور ہجرت کی استطاعت بھی رکھتا تھا، مگر اسے ہجرت کا حکم نہیں دیا گیا، اس کی وفات کے بعد آپ علیہ السلام نے اس کا غائبانہ جنازہ بھی پڑھا۔

والثانی: قادر لکنہ یمکنہ اظھار دینہ وأداء واجباتہ فمستحبة لتکثیر المسلمین بھا ومعونتھم.(تکملة فتح الملھم، کتاب الامارة:3/373، کتاب الام للشافعی:2/149، المغنی لابن قدامہ10/55)

وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا، اِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئفَةٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَ لْیَاْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئکُمْ وَ لْتَاْتِ طَآئفَةٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَہُمْ وَ اَسْلِحَتَہُمْ وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَ اَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰی اَنْ تَضَعُوْا اَسْلِحَتَکُمْ وَ خُذُوْا حِذْرَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا، فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا، وَ لَا تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآء ِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾․ (سورة النساء:104-101)

اور جب تم سفر کرو ملک میں تو تم پر گناہ نہیں کہ کچھ کم کرو نماز میں سے ،اگر تم کو ڈر ہو کہ ستائیں گے تم کو کافر، البتہ کافر تمہارے صریح دشمن ہیںO اور جب توان میں موجود ہو پھر نماز میں کھڑا کرے تو چاہیے ایک جماعت ان کی کھڑی ہو تیرے ساتھ اور ساتھ لے لیں اپنے ہتھیار ، پھر جب سجدہ کریں تو ہٹ جائیں تیرے پاس سے اور آئے دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی، وہ نماز پڑھیں تیرے ساتھ اور ساتھ لیں اپنا بچاؤ اور ہتھیار، کافر چاہتے ہیں کسی طرح تم بے خبر ہو اپنے ہتھیاروں سے اور اسباب سے، تاکہ تم پر حملہ کریں یکبارگی اور تم پر کچھ گناہ نہیں اگر تم کو تکلیف ہو مینہ سے یا تم بیمار ہو کہ اتار رکھو اپنے ہتھیار اور ساتھ لے لو اپنا بچاؤ۔ بے شک اللہ نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے واسطے عذاب ذلت کا۔ پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو یاد کرو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے، پھر جب خوف جاتا رہے تو درست کرو نماز کو، بے شک مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقررہ وقتوں میںO اور ہمت نہ ہارو ان کا پیچھا کرنے سے، اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں جس طرح تم ہوتے ہو، اور تم کو اللہ سے امید ہے جو ان کو نہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہےO
(جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق