غیر فطری مساوات کا انجام

غیر فطری مساوات کا انجام

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

خواتین میں مردوں کی ہمسری اور برابری کی حسرت
﴿ولا تتمنوا ما فضل اللّٰہ بہ بعضکم علیٰ بعض﴾ بعض خواتین کو مردوں کے جہاد میں شرکت اور اس کے ثواب کے پانے پر حسرت ہوئی اور اس پر بھی افسوس ہوا کہ میراث میں مردوں کا حصہ عورتوں سے زیادہ ہے، اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی:﴿ولا تتمنوا ما فضل اللّٰہ بہ بعضکم علیٰ بعض للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب ممااکتسبن﴾․(اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر جو فضیلت عطا کی ہے، اس کے بارے میں ہوس مت کرو، مردوں نے جو عمل کیے ہیں وہ ان کا حصہ ہیں اور عورتوں نے جو عمل کیے ہیں وہ ان کا حصہ ہیں۔)

مردوں اور عورتوں کی جسمانی ساخت میں حیاتیاتی نوعیت کا فرق ہے، جس کی بنا پر دونوں کے احساسات، خیالات اور معاشرتی ذمہ داریوں کا الگ الگ دائرہ کار ہے، محض مردوں میں باہمی علم و اخلاق، عزم وہمت، رزق ومال، خیالات و کمالات میں مساوات ناممکن ہے، چہ جائے کہ خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق کا سبز باغ دکھلایا جائے، ایسے نعرے خلافِ فطرت اور خلاف عقل ہیں، ان نعروں کا اصل مقصد سرمایہ دارانہ معاشرے میں عورتوں کو گھروں سے نکال کر سستے مزدور حاصل کرنا اور انہیں جنس بازار بنا کر اپنی خواہشاتِ نفس کی تکمیل کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو خلافِ فطرت حسرتوں سے منع فرما کر پرسکون زندگی کا پیغام دیا ہے، اس لیے کسی عورت کو مرد بننے کی حسرت کرنا یا کسی مرد کو عورت بننے کی حسرت کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے، ہر فریق اپنے دائرے میں اپنی ذمہ داری پوری کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے فضل و کرم کی التجا کرتا رہے۔

غیر فطری مساوات کا انجام
ابھی تک خطہ ارضی میں کوئی ایسا معاشرہ وجود میں نہیں آیا، جہاں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عملی شکل میں دیے گئے ہوں، البتہ نعرے اور قراردادیں بہت پاس ہو چکی ہیں، اس شوروغل کے نتیجے میں مساوات تو پیدا نہ ہو سکی، مگر صنفِ ناز ک کو حقوق کے نام پر ورغلا کر اسے گھریلو زندگی سے بے دخل کر کے معاشرے میں بے یار ومددگار چھوڑ دیا گیا، خاندانی نظام بکھر گیا، عورت گھر کے سکون اور شوہر کی وفا سے محروم ہو گئی، بے حیائی کا طوفان بدتمیزی امڈ آیا، زنا بالرضا اور ہم جنس پرستی کو قانونی جواز مل گیا، زنا بالجبر کی کثرت ہو گئی، کنواری ماؤں کا مسئلہ، اسقاطِ حمل اور ناجائز بچوں کی خوف ناک شرح پیدائش بڑھ گئی، خودکشی کا رجحان چل نکلا خود لذتی، بچوں سے بدسلوکی، والدین کی شفقت سے محرومی، بے سہارا زندگی ،جنس تبدیل کرانے کا جنون، بڑھاپے کی بے سہارا زندگی مقدر بن گئی، اس طرح کے بے شمار پیچیدہ مسائل ہیں جو فطرت سے بغاوت کرنے کے نتیجے میں ایسے معاشرے سزا کے طور پر بھگت رہے ہیں۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

سرجری کے ذریعے جنس تبدیل کرنے کا حکم
آج کل سرجری کے ذریعے جنس تبدیل کرنے کا فیشن چل پڑا ہے، اسلام تو مردو عورت کو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا، چہ جائیکہ جنسی ساخت کی تبدیلی کی اجازت دے، یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی ہے، جس کی ممانعت قرآن کریم میں بیان کی گئی، ﴿لا تبدیل لخلق اللّٰہ﴾․

یہ شیطانی عمل ہے، شیطان نے انسانوں کو خلقت میں تبدیلی کے ذریعے گم راہ کرنے کا عزم کیا تھا:﴿ولاضلنھم ولامنینہم ولآمرنہم فلیبتکن اذان الانعام ولامرنھم فلیغیرن خلق اللہ﴾(میں ضرور انہیں گم راہ کروں گا، آرزؤ دلاؤں گا، ان کو سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان کاٹیں اور ان کو حکم دوں گا کہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کریں۔)لہٰذا سرجری کے ذریعے کسی مرد کے لیے عورت بننا اور عورت کے لیے مرد بننا حرام ہے۔

کس طرح کی تمنا کرنا جائز ہے؟
ایسی تمنا کرنا جو فطرت سے بغاوت کرنے کے مترادف ہو یا عادة محال ہو، ایسی تمنا حرام ہے، جائز نہیں ہے، جیسے مرد کا عورت بن جانے کی اور عورت کا مرد بن جانے کی تمنا کرنا۔

اس کے علاوہ دیگر چیزوں کی تمنا کرنے میں اگر دوسرے شخص کے متعلق اس کی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا بھی ہو تو یہ حسد ہے اور حرام ہے، مثلاً کسی شخص کی کوئی نعمت دیکھ کر اس کو پانے کی تمنا کے ساتھ یہ خواہش رکھنا کہ مجھے یہ نعمت ملے یا نہ ملے، مگر اس شخص کے پاس یہ نعمت باقی نہ رہے۔

کسی کی نعمت دیکھ کر اس کی تمنا کرنا اور اس سے نعمت کے زائل ہونے کی خواہش نہ رکھنا یہ رشک کہلاتا ہے، رشک کرنا جائز ہے، مگر کسی انسان کو معلوم نہیں ہے کہ کون سی نعمت اس کے حق میں مفید ہے یا غیر مفید، اس لیے انسان کو چاہیے کہ تقدیر الٰہی پر راضی رہ کر اپنی زندگی کو اللہ تعالی کی فرمان برداری میں صرف کرتا رہے۔( دیکھیے زاد المسیر، أحکام القرآن للجصاص، للتھانوی، نساء ذیل آیت:32)
﴿وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ أَیْْمَانُکُمْ فَآتُوہُمْ نَصِیْبَہُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْداً، الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً، وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً﴾․(سورہ النساء، آیت:35-33)
اور ہر کسی کے لیے ہم نے مقرر کر دیے ہیں وارث اس مال کے کہ چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے اور جن سے معاہدہ ہوا تمہارا ان کو دے دو ان کا حصہ ،بے شک اللہ کے رو برو ہے ہر چیزO، مرد حاکم ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ بڑائی دی ہے اللہ نے ایک کو ایک پر اور اس واسطے کہ خرچ کیے انہوں نے اپنے مال، پھر جو عورتیں نیک ہیں سو تابع دار ہیں، نگہبانی کرتی ہیں پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت سے اور جن کی بد خوئی کاڈر ہو تم کوتو ان کو سمجھاؤ اور جدا کرو سونے میں اور مارو، پھر اگر کہا مانیں تمہارا تو مت تلاش کرو ان پر راہ الزام کی، بے شک اللہ ہے سب سے اوپر بڑاO، اور اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضد رکھتے ہیں تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک منصف عورت والوں میں سے، اگر یہ دونوں چاہیں گے کہ صلح کرادیں تو اللہ موافقت کر دے گا ان دونوں میں، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، خبردار ہےO۔

استحقاق میراث کی بنیاد صرف قریبی رشتہ داری ہے
﴿ولکل جعلنا موالی…﴾زمانہ جاہلیت سے عرب معاشرے میں ایک رواج چلا آرہا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی سے معاہدہ کر لیتا ہے کہ میں تمہارا حلیف ہوں، ہم میں سے جس شخص پر تاوان دیت وغیرہ آئے گی، باہمی تعاون سے اسے ادا کریں گے اور کسی ایک کے مرنے کی صورت میں دوسرا اس کے ترکہ کا وارث بھی ہوگا، اسے ”عقد موالاة“کہتے ہیں اور دونوں فریق پر ”مولی“کا اطلاق ہوتا ہے، مولا کے معنی دوست و مدد گار کے ہیں، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس طریقے کو اس وقت تک رواں رکھا جب تک میراث اور ورثا کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اسی عقد موالات کی بنیاد پر باہمی مواخات کا سلسلہ قائم فرمایا،اس آیت کریمہ میں ایسے ہی موالی کو ان کا حصہ دینے کا حکم ہے، ان کے لیے چھٹا حصہ مقرر کر لیا گیا تھا۔ (تفسیر قرطبی، النساء ذیل آیت:33)

لیکن یہ حکم آیت میراث اور آیت کریمہ:﴿وأولو الأرحام بعضھم أولیٰ ببعض فی کتب اللّٰہ﴾کے نزول کے بعد منسوخ ہو گیا، جمہورِ اہلِ علم کا یہی موقف ہے، اگر میت کے ورثا میں ذو الفروض ،خواہ نسبیہ ہوں یا عصبیہ یا ذوی الارحام موجود ہوں تو موالی کو کچھ نہیں ملے گا، اس پر تو تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے، اگر مذکورہ ورثا میں سے کوئی نہ ہو تو پھر موالی کو حصہ ملے گا یا نہیں؟ جمہورِ اہلِ علم کے نزدیک تو موالی کا حصہ منسوخ ہو گیا، اسے کسی بھی صورت میں نہیں ملے گا، مگر امام اعظم ابو حنیفہکے نزدیک اس صورت میں موالی کل میراث کا مستحق ہو گا، گویا یہ آیت اس مخصوص صورت کے تناظر میں منسوخ نہیں ہے، یہی حنفیہ کا مذہب ہے، حنفیہ کے نزدیک عہدِ موالات کو فسخ کرنا بھی جائز ہے اور اگر ایک فریق کی طرف سے ہو، دوسرے کی طرف سے نہ ہو تب بھی جائز ہے۔

مرد کو عورت پر فوقیت کی عقلی توجیہ
انسانی معاشرہ جہاں وجود میں آتا ہے اس کی بقاء کے لیے نظم وضبط ناگزیر ہو جاتا ہے، اس کے بغیر نہ وہ فائدہ مند معاشرہ کہلاتا ہے اور نہ ہی اس میں تمدن آسکتا ہے، اس لیے ایک مہذب معاشرہ نظم و ضبط کا پابند ہوتاہے اور اس نظم و ضبط پر عوام الناس کو برقرار رکھنے کے لیے انتظامی نوعیت کا ایک حاکم، بادشاہ، سربراہ، سردار چنا جاتا ہے، رعایا اپنے اپنے حاکم اور سربراہ کی فرماں برداری اور محکومی کو اپنے لیے عار نہیں سمجھتی، بلکہ اپنے معاشرے کی ترقی کے لیے خوش دلی سے اپنی محکومیت قبول کرتی ہے، اسی سربراہی کا دائرہ ایک ملک و قوم تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ ہر چھوٹے سے چھوٹا ادارہ اپنے مقاصد کی کام یابی کے لیے ایک فرد کو با اختیار بنا کر سب کچھ اسی کے سپرد کر دیتا ہے، اسی طرح گھر بھی ایک چھوٹی سی مملکت اور ایک چھوٹا سا ادارہ ہے، جو بغیر سربراہی کے آباد نہیں ہو سکتا، پنپ نہیں سکتا معاشرہ کے لیے مفید نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی نے گھر کی قوامیت، سربراہی، اس کی بقا کے انتظامی امور کے اختیارات مرد کو بخشے ہیں،اس کو ﴿الرجال قوامون علی النساء﴾ کہہ کر بیان فرمایا:”قوّام“اس شخص کو کہتے ہیں، جو معاملات و امور کی دیکھ بھال کرنے والا ہو، ضروریات و مصالح کی تکمیل کے لیے تدبیر کرنے والا ہو اور گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے والا ہو۔

انتظامی اختیارات مرد ہی کو کیوں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھر کی آبادی کے اختیارات ایک فریق کے پاس ہونا ضروری ہے، مگر یہ اختیارت مرد ہی کو کیوں ملے؟ عورت کو کیوں نہیں ملے؟ اس کے جواب سے پہلے بغرض تمہید گزارش ہے کہ ایک صورت تو یہ کہ دونوں کو گھر کا حاکم بنا دیا جائے، دوسری صورت یہ کہ دونوں کو بے اختیار بنادیا جائے، یہ دونوں صورتیں عقلاً ناممکن ہیں، ایسی صورت میں کوئی خانہ آباد نہیں ہوسکتا، حاکم تو ایک ہی ہوتا ہے، اس میں سے اللہ نے مرد کو حاکمیت کی فوقیت بخشی ،اس کی دو وجوہات ہیں، ایک وہبی اور دوسری کسبی۔

مرد کی فوقیت کی وہبی وجوہات
وہبی وجوہات کا مقصد مرد کی انتظامی فوقیت کے وہ اسباب جس میں کسب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، یعنی انسان اپنی محنت و ارادہ اور کوشش سے اسے حاصل نہیں کر سکتا، محض اللہ تعالی کی عطا کا نتیجہ ہے، ان وہبی وجوہات کو اللہ تعالی نے ﴿بما فضل اللّٰہ بعضہم علیٰ بعض﴾سے تعبیر فرمایا جیسے جسمانی ساخت، کمال عقل، حسن تدبیر، علم و جسم میں زیادہ قوی ہونا، انہیں اوصاف کی بنا پر منصب نبوت، منصب امامت، منصبِ قضا و شہادت، (حدود قصاص میں گواہی) جہادو قتال کی فرضیت، جمعہ و عیدین کی امامت، اذان و خطبہ کی ذمہ داری، مردوں کو سونپی گئی ہے، اسی بنا پر میراث میں مردوں اور عورتوں کے مقابلے میں دوگنا حصہ رکھا گیا ہے، نکاح کی ملکیت کا اختیار مرد کو تفویض کیا گیا ہے، اسی طرح عبادت نمازہ وروزہ میں ان کو کمال حاصل ہے، عورتیں ایام مخصوصہ کی وجہ سے نمازو روزہ سے محروم ہوتی ہیں۔

کسبی وجوہات
کسبی وجوہات وہ ہیں جن میں مرد اپنی کوشش و ارادہ سے عورت پر انتظامی فوقیت کا استحقاق رکھتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ﴿وبما أنفقوا من أموالہم﴾ سے ارشاد فرمایا،یعنی مرد کو فوقیت اس وجہ سے بھی حاصل ہے کہ وہ اپنا مال عورت پر خرچ کرتا ہے، ان سے نکاح کے لیے مہر کی ادائیگی کرتا ہے، ان کے نان و نفقہ اور سکنی کا ذمہ دار ہوتا ہے،اگر مرد اس خرچ سے عاجز ہو تو عورت خلع لے سکتی ہے، اگر شوہر خلع پر آمادہ نہ ہو تو اسلامی عدالت سے نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔

مرد کی حاکمیت و فوقیت پر دیگر مذاہب کا نقطہ نظر
اسلام نے مرد کو انتظامی فوقیت دے کر محدود اختیارات دیے ہیں، مگر دیگر مذاہب نے مرد کو حاکم بنا کر عورت کی زندگی کا ہر لمحہ قید کر دیا ہے، یہود کی کتاب ”پیدائش“میں مرد کی حاکمیت کے متعلق ہے۔

پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا تو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ (پیدائش:3/16)

یہود کی مستند کتاب ”جیوش انسائیکلوپیڈیا“ میں ہے معصیت اول چوں کہ بیوی ہی کی تحریک پر سرزد ہوئی، لہٰذاس کو شوہر کا محکوم رکھا گیا اور شوہر اس کا حاکم، شوہر اس کا مالک ہوتا ہے اور وہ اس کی مملوکہ۔(بحوالہ مسلم، پرسنل لاء اور اسلام کا عائلی نظام، مولانا شمس تبریز خان، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ،لکھنو، ص:190)

نصاری کی بائبل میں پولس رسول کے خطوط میں چند ہدایات یہ ہیں:
اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے، بلکہ چپ چاپ رہے۔ (کرنتھیوں کے نام پولس رسول کا پہلا خط:11:21)

پس فرشتوں کے سبب عورتوں کو چاہیے اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے۔(کرنتھیوں کے نام پولس رسول کا خط7:39)

جب تک کہ عورت کا شوہر جیتا ہے وہ اس کی پابند ہے۔ (افسیوں کے نام پولس کا خط5:22 تا24)

چینی مرد کو یہاں تک عورت پر حق تھا کہ وہ اپنی بیوی کو زندہ دفن کردے۔(عودة الحجاب، محمد بن أحمد بن إسماعیل، بحوالہ محسن انسانیت اور انسانی حقوق، ڈاکٹر حافظ محمد ثانی، ص:339)

نامور عرب محقق عباس محمود عقاد، ہندو معاشرہ اور مہذب میں عورت کے مقام سے بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

”ہندوستان میں“منو“ کوشل خاندان کا بادشاہ تھا، اس نے ہندو قوم کے لیے 980 قبل مسیح ہندوستان کے معاشرتی و عائلی قانون کی تدوین کی،جسے”منوسمرتی“سے تعبیر کیا جاتا ہے، (”منوسمرتی“ ہندوستان کی سب سے قدیم قانون کی کتاب سمجھی جاتی ہے) کے قانون کے مطابق باپ شوہر یا دونوں کی وفات کی صورت میں بیٹے سے علیحدہ عورت کا کوئی مستقبل نہیں اور کوئی حق نہیں، چناں چہ عورت بچپن میں باپ کی مطیع ہوتی ہے، جوانی میں شوہر کی اور شوہر کے بعد اپنے بیٹوں کی ، اگر بیٹے بھی نہ ہوں تو اپنے اقربا کی، لہٰذا عورت ہر گز اس لائق نہیں کہ وہ خود مختار زندگی بسر کر سکے۔(المرأة فی القرآن ، عباس محمود عقاد ص:73،بحوالہ محسن انسانیت اور انسانی حقوق ،ڈاکٹر حافظ محمد ثانی، ص:345)

اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے مرد کو اس کی جسمانی، عقلی وجوہات کی بنا پر عورت پر محض محدود انتظامی فوقیت تودی ہے، مگر اس سے عورت کے ذاتی اختیارات اور فطری آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگتی، جس کی تفصیل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے، چناں چہ دنیا کے نام ور اہلِ دانش نے اسلام کی اس فراخ دلی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

جی ڈبلیو لایئٹزر رقم طراز ہے:
”عورت کو جو تکریم اور عزت محمدصلی الله علیہ وسلم نے دی ہے، وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذہب اسے کبھی نہ دے سکتے تھے“۔(3)

پروفیسر کرشنا راؤ اپنی کتاب ”اسلام کے پیغمبر محمد“میں لکھتے ہیں، ”اسلام کی یہ جمہوری روح ہے، جس نے عورت کو مردوں سے نجات دلائی۔ ( اسلام کے پیغمبر محمد صلی الله علیہ وسلم ، راما کرشنا راؤ۔ کریسنٹ پبلیشنگ دہلی ص:9،بحوالہ محسن انسانیت اور انسانی حقوق، ڈاکٹر حافظ محمد ثانی، ص:410)