نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ ماننے والا مسلمان نہیں رہتا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ ماننے والا مسلمان نہیں رہتا

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ …﴾ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے درمیان زمین کی سیرابی کے متعلق پانی کی نالی پرجھگڑا ہوا، دونوں اسی سے اپنے درختوں کو پانی دیتے تھے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے زبیر!تم اپنی زمین کے لیے پانی دو ،پھر اسے اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو، انصاری کو اس فیصلے سے ناگواری ہوئی، اس نے کہا: یہ آپ کے چچا زاد ہیں، اس لیے ( ان کے حق میں فیصلہ فرمایا)۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیرہوگیا، پھر آپ نے فرمایا:اے زبیر تم! اپنی زمین سیراب کرو ، پھر پانی کو روک لو، یہاں تک کہ وہ دیواروں کی طرف لوٹ جائے۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں خدا کی قسم! مجھے یقین ہے کہ یہ آیت اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی :﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ﴾․ (صحیح بخاری، رقم :2360، صحیح مسلم ،رقم:2357)

اللہ اور رسول کے حکم کو چھوڑکر کسی دوسرے قانون کو حَکَم بنانا
جب تک آپ علیہ الصلاة والسلام باحیات تھے، مسلمان اپنے نزاعی امور میں آپ کو حکم اور فیصل بنانے کے مکلف تھے اور آپ کے صادر کیے ہوئے فیصلوں کو صدق دل سے قبول کرنے کے پابند تھے۔ آیت کریمہ میں انہیں دو چیزوں کو شرط ایمان ٹھہرایاگیا ہے۔ آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد کتاب اللہ اور سنت رسول مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔(روح المعانی، النساء ذیل آیت:65) انہیں کی طرف رجوع کرنا اور ان کو حکم بناناہی ﴿فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول﴾ کا تقاضا ہے۔

لیکن اس موقع پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کتاب و سنت کے صریح احکام کو چھوڑکر سابقہ آسمانی کتب کو حکم اور فیصل بنانا پسند کرے یا وضعی قانون کی عدالت میں جاکر انصاف چاہے اس کے لیے کیا حکم ہے؟ یہ مسئلہ انتہائی حساس اور دو دھاری تلوار کی مانند ہے، اس کا براہ راست اثر افراد کے ساتھ ساتھ معاشرت سے بھی ہے، اس لیے چند تمہیدی کلمات کہہ کر علمائے کرام کی آرا نقل کی جائیں گی اور آخر میں انہیں آراء کی روشنی میں محتاط اسلوب کے ساتھ کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ افراط وتفریط سے بچا کر حق وصواب کی راہ نمائی فرمائے۔ آمین

تمہیدی کلمات
ارباب حل وعقد کے ایسے انتظامی اور مباح امور جو عوام کی مصلحت کی خاطر مرتب کیے گئے ہوں، ان میں ان کی اطاعت واجب ہے، ایسے انتظامی قوانین سے اختلاف کی بھی گنجائش ہے اور اس کا انکار کرنا بھی کفر نہیں ہے۔ اس طرح کے قوانین کی پیروی اس بحث سے خارج ہے۔

ائمہ مجتہدین کے اجتہادی مسائل بھی اس بحث سے خارج ہیں۔
یہاں بنیادی زیر بحث موضوع یہ ہے کہ ایسے وضعی قوانین جو صراحتاً کتاب و سنت کے مخالف ہوں، انہیں معیار حکم بنانا اور ان سے انصاف کا طلب گار ہونا، کیا حکم رکھتا ہے؟

وضعی قوانین ان قوانین کو کہا جاتا ہے جنہیں انسانوں نے خود اپنی عقل وفکر اور تجربات سے مرتب کیا ہو، نہ کتاب و سنت کو اس کی بنیاد بنا یا گیا ہو اور نہ ان سے مدد لی گئی ہو۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ أمر صرف اللہ ہی کا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اس کا اعلان کیا ہے۔

﴿أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ﴾․ (الاعراف:54)
﴿قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ کُلَّہُ لِلَّہِ﴾․ (آل عمران:154)
﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ﴾․ (یوسف:40)

قرآن و سنت کو چھوڑ کر دیگر قوانین وضعیہ کو معیار عدل اور حکم بنانے پر کئی وعیدیں احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کیف انتم إذا وقعت فیکم وأعوذ أن تکون فیکم أو تدرکوھن … وما حکم امرائھم بغیر ما انزل اللّٰہ إلا سلط علیھم عدوھم واستفقدوا بعض ما فی أیدیھم وما عطلوا کتاب اللّٰہ وسنة رسولہ إلا جعل بأسھم بینھم“․(شعب الایمان للبیھقی، رقم :3164، کنز العمال:16/81)

اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں پانچ چیزوں کا ظہور ہوگا یا میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم میں یہ پائی جائیں یا تم انہیں پاسکو … (ان میں چوتھی یہ ہے کہ) تمہارے حکم ران جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر دیگر قوانین سے فیصلے کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردے گا، دشمن ان کی دست رس سے بعض (اہم) چیزیں ہتھیالیں گے اور جب بھی کوئی قوم کتاب وسنت کو معطل کردیتی ہے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان پھوٹ ڈال دیتا ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے:”ما حکموا بغیر ما انزل اللّٰہ إلا فشا فیھم الموت․“ (مجمع الزوائد:3/65)

”جو قوم بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلہ کرتی ہے اس میں موت پھیل جاتی ہے۔“

اور ایک روایت میں فقر کے الفاظ ہیں۔
…ما حکموا بغیر ما انزل اللّٰہ إلا فشا فیھم الفقر
جو قوم بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلہ کرتی ہے اس میں فقر پھیل جاتا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم10830)

علمائے کرام کی آرا
امام جصاص رحمہ اللہ آیت کریمہ:﴿فلا وربک لا یومنون … ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”وفی ھذہ الاٰیة دلالة علی أنّ من ردّ شیئا من أوامراللہ تعالی أو أوامر رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فھو خارج من الاسلام، سواء ردہ من جھة الشک فیہ أو من جھة ترک القبول والامتناع من التسلیم، وذلک یوجب صحة ما ذھب الیہ الصحابة فی حکمھم بارتداد من امتنع من اداء الزکاة وقتلھم سبی ذراریھم، لأن اللّٰہ تعالی حکم بأن من لم یسلم للنبی قضاء ہ وحکمہ فلیس من أھل الإیمان․“(احکام القرآن للجصاص، النساء، ذیل آیت:65)

یہ آیت اس پر واضح دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں سے کسی ایک حکم کا انکار کردے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، خواہ یہ انکار شک کی بنا پر ہو یا وہ اس کے لیے قابل قبول اور قابل تسلیم نہ ہو، اس بنا پر انکار کیا ہو، ایسے انکار کا کفر ہونا صحابہ کرام کے اس فیصلے کے موافق ہے جس میں انہوں نے مانعین زکوة کو مرتد قرار دے کر انہیں قتل اور قید وبند کے عذاب سے دوچار کیا تھا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے جسے نبی کا فیصلہ اور اس کا حکم قبول نہیں وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہے۔

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ﴿أفحکم الجاھلیة یبغون﴾کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان فرمارہے ہیں۔جو اللہ تعالیٰ کے خیر سے بھرے اور شر سے بچے احکام کو چھوڑ کر لوگوں کی رائے، خواہشات اور اصطلاحات پر متوجہ ہوجاتے ہیں، جن کا اللہ کی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جس طرح عہد جاہلیت کے لوگ اپنی گم راہیوں اور جہالتوں بھرے طور طریقوں سے اپنے فیصلے کرتے تھے ،جنہیں ان کے آباء وجداد نے گھڑا تھا، جس طرح تاتاری اپنے بادشاہ چنگیز خان کے مرتب کردہ قوانین جسے ”یاسق“کہا جاتا تھا اس کے ذریعے اپنے فیصلے کراتے تھے، چنگیز خان نے مختلف مذاہب، یہودیت، نصرانیت، اسلام کے متفرق احکام جمع کرکے ان کو مرتب کیا اور اس میں بعض احکام ایسے بھی تھے جو کسی مذہب سے ماخوذ نہیں تھے، بلکہ بادشاہ کی خواہش اور رائے پر مبنی تھے، پھر یہی کتاب ان کے ہاں قابل اتباع قرار پائی، اسے قرآن و سنت سے مقدم رکھتے ۔

ان میں جس نے بھی ایسا کیا وہ اسلام سے لا تعلق ہوگیا، وہ دوبارہ قرآن وسنت کی طرف لوٹ آئیں۔(تفسیر ابن کثیر:المائدة ،ذیل آیت رقم:50)

اس طرح کا اظہار علامہ ابن کثیر حمہ اللہ نے البدایہ و النہایہ میں بھی کیا۔(دیکھئے البدایة والنہایة:13/129) چناں چہ لکھتے ہیں:

وفی ذلک کلہ مخالفة لشرائع اللّٰہ المنزلة علی عبادہ الانبیاء علیھم الصلاة والسلام، فمن ترک الشرع المحکم المنزل علی محمد بن عبد اللّٰہ خاتم الأنبیا وتحاکم إلی غیرہ من الشرائع المنسوخة کفر، فکیف بمن تحاکم إلی الیاسق وقدّمھا علیہ، من فعل ذلک کفر بإجماع المسلمین“․

اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی،شریعت کو چھوڑ کر کسی منسوخ شدہ شریعت کی طرف فیصلے کے لیے جانا بھی کفر ہے، چہ جائے کہ یاسق کے پاس فیصلے کے لیے جایا جائے ( یاسق چنگیز خان کے خود ساختہ قوانین کے مجموعہ کا نام ہے) جو شخص اپنے فیصلوں کے لیے ان کو حَکَم بنائے گا وہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلہ کے مطابق دائرہ اسلام کی حدود سے نکل جائے گا۔

علامہ شنقیطی رحمہ الله اپنی تفسیرأضواء البیان میں ﴿ولایشرک فی حکمہ أحداً﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

”اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے ،کوئی بھی شخص الله تعالیٰ کے احکام میں کسی قسم کی آمیزش نہ کرے۔”حَکَم“ صرف اور صرف الله ہی کا ہے اسے تسلیم کرے … جو لوگ الله تعالی کے منزل کردہ احکام کے مقابلے میں انسانوں کے خود ساختہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں، جو درحقیقت شیطانی احکام ہیں، شیطان نے اپنے پیروکاروں کے ذریعے ان کو وجود بخشا، ان کو ماننے والے بلاشک وشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ الله تعالیٰ نے ان کو بصارت اور بصیرت سے محروم کر رکھا ہے۔ (أضواء البیان، الکھف، ذیل آیت:26)

اسی طرح﴿وإن أطعتموھم إنکم لمشرکون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
فتوی سماویة من الخالق جَلَّ وَعلاَ صرّح فیھا بأن متبع تشریع الشیطان المخالف تشریع الرحمن مشرک بالله․ ”یہ خالق جلّ وعَلاَ کا آسمانی فتوی ہے، جس میں الله تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ رحمن کے قانون کی مخالفت کرکے شیطان کے قانون کی پیروی کرنے والا الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا ہے“۔ (أضواء البیان، الأنعام، ذیل آیت:121)

حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”تحکیم، عدم حرج اور تسلیم کے مراتب تین ہیں۔ اعتقاد سے اور زبان سے اور عمل سے، اعتقاد سے یہ کہ قانون شریعت کو حق اور موضوع التحکیم جانتا ہے اور اس میں مرتبہ عقل میں ضیق نہیں ۔ اور اس مرتبہ میں اس کو تسلیم کرتا ہے اور زبان سے یہ کہ ان امور کا اقرار کرتا ہے کہ حق اسی طرح ہے اورعمل ہے یہ کہ مقدمہ لے بھی جاتا ہے اور طبعی ضیق بھی نہیں اور اس فیصلے کے موافق کارروائی بھی کر لی۔

سو اوّل مرتبہ تصدیق و ایمان کا ہے ،اس کا نہ ہونا عند اللہ کفر ہے اور منافقین میں خود اس کی کمی تھی ،چناں چہ تنگی کے ساتھ لفظ انکار اسی کی توضیح کے لیے ظاہر کردیا ہے اور دوسرا مرتبہ اقرار کا ہے ،اس کا نہ ہونا عند الناس کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ تقوی و صلاح ہے ،اس کا نہ ہونا فسق ہے اور طبعی تنگی معاف، پس آیت میں بقرینہ ذکر منافقین مرتبہ اول مراد ہے۔(بیان القرآن، النساء ،ذیل آیت رقم:65)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت کریمہ کا اسلوب سخت وعید پر مشتمل ہے ،کیوں کہ:
اوّلاً: حرف قسم کے ذریعہ کلام کو موکد کیا گیا۔
ثانیاً: مزید تاکید کے لیے ابتدا میں حرف ”لا“ لایا گیا۔
ثالثاً:نفی بھی ،نیک نہ ہونے یا کامل مومن نہ ہونے کی نہیں کی گئی، بلکہ اصل ایمان کی نفی کی گئی، جو کہ تمام طاعات اور ہرقسم کی کام یابی کی اصل بنیاد اورجڑ ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کوئی شخص اس وقت تک ہر گز مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے تنازعات میں آپ علیہ السلام کو حکم مقرر نہ کرلے۔ پھر صرف حکم پر اکتفا نہیں گیا، بلکہ مزید شرائط بھی رکھی گئیں۔

پہلی شرط یہ بیان کی گئی کہ تحکیم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق دل میں کوئی تنگی، ضیق، شک نہ آنے پائے، دوسری شرط یہ رکھی گئی کہ اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا جائے۔

پھر مزید تاکید کے لیے لفظ ”تسلیما“مفعول مطلق کو دوبارہ ذکر کیا گیا۔ اس ساری تفصیل کا حاصل یہ ہوا کہ جب تک کوئی مندرجہ بالا صفات کے ساتھ تحکیم پر راضی نہ ہو یا پھر شریعت کے فیصلے کو دل وجان سے قبول نہ کرے وہ مومن نہیں ہوسکتا۔ (فتح القدیر، النساء ،ذیل آیت رقم:65)

حاصل ِ کلام
اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب جب تک اس گناہ کو حلال نہ سمجھے گناہ گار رہتا ہے، کافر نہیں ہوتا، اگر بغیر توبہ کییانتقال کرگیا تو مشیت الہٰی پر موقوف ہے، اسے معاف کردیا جائے یا سزا دے کر جنت میں داخل کیا جائے۔

اس پر بھی تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ شریعت مطہرہ کو حَکَم کی حیثیت سے تسلیم نہ کرنا کفر اکبر ہے، اس کے ساتھ تکذیب توحید و رسالت کا پایا جانا شرط نہیں ہے۔

اس پر بھی تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ بشری قوانین کو شریعت مطہرہ سے بہتر اور افضل سمجھنا، یا مصالح و فوائد میں شریعت مطہرہ کے مساوی سمجھنا، یا حق وعدل سمجھنا یا شریعت مطہرہ کے احکام کا استہزاء واستخفاف کرنا، کفر اکبر ہے۔ العیاذ باللہ

اس پر بھی تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص شریعت مطہرہ کی حکمیت پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہو اور اسی کو فیصل بنا کر اسی پر عمل پیرا ہوتا ہو ،مگر کبھی کبھی ہوائے نفس سے مجبور ہوکر شیطانی غلبے میں خلاف شریعت فیصلہ کردیتا ہو اور اپنے اس فعل کو گناہ اور فیصلے کو غلط بھی سمجھتا ہو تو وہ سخت گناہ گار ہوتا ہے، کافر نہیں ہوتا۔

اگر کہیں شریعت مطہرہ کو تحکیم بنا فیصلہ کرانا ممکن نہ ہو توبشری قوانین کو ناحق سمجھتے ہوئے دفع شر اور حصول حق کا ذریعہ بنانا بھی چند امور کے ساتھ درسست ہے۔

ایک شبہ اور اس کا جواب
تحکیم بغیر ماأنزل الله،یعنی شریعت مطہرہ کو ظاہر افیصل تسلیم نہ کرنا، یا وضعی قوانین کو عصر حاضر کے حالات میں بہتر اور افضل سمجھنا یا اسے حق سمجھ کر اپنا لینا اور شریعت کے فیصلے کو اپنے اختیار سے رد کر دینا کفر کیوں ہے؟ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بندہ مومن گناہ گار ہوتا ہے اور گناہ سے کفر کے لازم ہونے کا عقیدہ تو خوارج اور دیگر گم راہ فرقوں کا ہے، جن کے نزدیک گناہ کبیرہ سے بندہ مومن نہیں رہتا، لیکن اہل سنت کا عقیدہ تو یہ نہیں ہے، مثلاً:کوئی شخص روزے کی فرضیت کا عقیدہ رکھنے کے باوجود روزہ نہیں رکھتا اور بغیر کسی عذر کے روزے رکھنے سے انکار کرتا ہے۔تو ایسا شخص اہل سنت کے نزدیک گناہ گار ضرور ہے، مگر کافر نہیں ہے۔ پھر مسئلہ تحکیم میں ایسا کیوں نہیں ہے؟

جواب :یہ شبہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے۔ سطحی نظر میں اس کا التباس خارجیوں کی گم راہ کن فکر سے بھی ہوجاتا ہے، جن کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب مومن نہیں رہتا۔لیکن حقیقت میں اس کا خارجی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انسان کے اقوال و اعمال دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو شرط ایمان اور لازم ایمان کا درجہ رکھتے ہیں، وہاں قول وعمل کا نہ پایا جانا ہی باعث کفر بن جاتا ہے۔ دوسری قسم ان اقوال واعمال کی ہے جو لازم ایمان اور شرط ایمان میں داخل نہیں ہیں۔ وہاں کفر تب متحقق ہوگا جب نفس اعتقاد باقی نہیں رہے گایا زبان سے تکذیب ظاہر ہوجائے گی۔ چنانچہ ملاّ علی القاری رحمہ اللہ نے شرح کتاب الفقہ الاکبر میں جادو کے کفر ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرتیہوئے شیخ ابو منصور ما تریدی کا یہ قاعدہ نقل فرمایا:”فإن کان ردّ ما لزمہ فی شرط الإیمان فھو کفر، وإلا فلا“․(شرح کتاب الفقہ الاکبر، ص :249)
اگر ایسی چیزکا انکار ہے جو شرط ایمان میں لازم کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر کفر ہے، وگر نہ نہیں۔

مثلا دین اسلام کو برحق جاننا اور دیگر تمام ادیان کو باطل جاننا لازم ایمان اور شرط ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص دین اسلام کو حق جان کر کسی دوسرے مذہب کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ بھی اپنی جگہ پر حق ہے۔ ایسا شخص پوری زندگی توحید کا کلمہ پڑھتا رہے۔ رسالت کی گواہی دیتا رہے، نماز روزہ، حج، زکوة کا اہتمام کرتا رہے تب بھی مومن نہیں رہے گا، کیوں کہ اس نے ایسا نظریہ اختیار کیا ہے یا ایسی بات اپنی زبان سے نکالی ہے جو ایمان کے منافی تھی۔ ایمان و کفر دونوں کو برحق کہنا جاننا دو ضدین کو جمع کرنا ہے اور وہ محال ہے۔ ایمان کے ساتھ کفر جمع نہیں ہوسکتا اور کفر کو حق کہتے ہوئے ایمان باقی نہیں رہ سکتا ۔دوسرے مذاہب کو برحق سمجھنا تو بڑی بات ہے، قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں:”ولھذا نکفّر من لم یکفر من دان بغیر ملة المسلمین من الملل أو وقف فیھم أو شک أو صحح مذھبھم وإن أظھر مع ذلک الاسلام واعتقدہ واعتقد ابطال کل مذھب سواہ فھو کافر بإظہارہ ما أظھر من خلاف ذلک“.(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، فصل فی بیان ما ھو من المقالات کفر:2/286)

ہم اس شخص کی بھی تکفیر کریں گے جو دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب اختیار کرنے والوں کو کافر نہ کہے یا ان کے کفر میں توقف کرے یا شک کرے یا ان کے مذہب کو درست کہے، ہم ایسے شخص کی تکفیر کریں گے اگرچہ وہ اسلام کا اظہار کرتا ہو اور اسلام کی حقانیت کے ساتھ دیگر مذاہب کے باطل ہونے کا اعتقاد بھی رکھتا ہو تب بھی کافر ہے۔
کیوں کہ اس نے ایمان کے خلاف امور کا اظہار کیا۔ (یعنی ایمان کی شرائط و لوازمات میں سے تھا کہ وہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کافر کہتا۔ اس میں توقف یا شک نہ کرتا، لیکن اس نے یہ عمل یا یہ نظریہ رکھ کر ایمان کی شرط گنوادی، اس لیے مومن نہ رہا)

امید ہے اس مثال سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ جو امور لازم اور شرط ایمان کے درجے میں ہوتے ہیں ان کا مفقود ہونا ہی باعث کفر بن جاتا ہے، متکلمین اور فقہائے کرام نے جہاں ایمان وکفر کی بحثیں کی ہیں وہاں اس نوعیت کی مباحث بھی …کی ہیں۔ (جاری)