کفار کی طرف سے ایذا رسانی کی پیشین گوئی

کفار کی طرف سے ایذا رسانی کی پیشین گوئی

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿لتبلون فی أموالکم وأنفسکم…﴾اس آیت میں دو پیشین گوئیاں کر کے مسلمانوں کو اس کا لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے۔
1..مالی اور جانی ابتلاء۔
2..اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے ایذا پہنچانے والی باتوں کا سننا۔

عہد ِنبوی سے آج تک مسلمان عقیدہ توحید کی وجہ سے جان ومال کی آزمائشوں کا شکار ہوتے رہے، عہد نبوی میں ہجرت کے بعد بالخصوص غزوہ احد کے بعد جب اسلام کا سکہ رائج ہو گیا، مسلمانوں کا رعب کافروں کے دل و دماغ میں بیٹھ گیا، تو آزمائشوں کا یہ سلسلہ قدرے کم ہو گیا تھا، لیکن عہد صحابہ کے بعد پھر اس طرح کی آزمائش بارہا مسلمانوں پر آتی رہی ہے۔

جس عہد میں ہم جی رہے ہیں اس میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، دنیا کے کئی حصوں میں مسلمان اسلام کی وجہ سے کافروں کے ظلم وستم کا شکار ہیں، ان کا مال محفوظ ہے نہ جان، دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، مگر کوئی جائے امن میسر نہیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی مسلمان حکمران بھی نظر نہیں آتا، اگر یہی مظلوم مسلمان اسلام ترک کر کے عیسائیت کی قبا پہن لیں یا بدھ مذہب کی طرح کا پٹہ گردن میں ڈال دیں تو انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا جائے گا، ان کی آؤ بھگت کر کے دیگر مسلمانوں کو ارتداد کی راہ دکھائی جائے گی۔

دوسری اذیت طعن وتشنیع کی ہے، یہ اذیت بھی عہد نبوی سے لے کر آج تک ایک تحریک کی شکل میں چلی آرہی ہے، یہود کے کئی سردار اور مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے متعلق، قرآن کریم کے متعلق ، احادیث ِ مبارکہ کے متعلق مذاق، استہزاء، طنز کے نشتر چلاتے رہے، آج ہمارے عہد میں کوئی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مزاحیہ کارٹون بناتا ہے، کوئی جہاد، داڑھی، برقعہ، اذان، مسجد، دیگر شعارِ دین کے متعلق غلط تبصرے کرتا ہے، کوئی ان کو دہشت اور دقیانوست کی علامت بتلا کر ان پر پابندیوں کی تجویز دیتا ہے۔

اس موقع ہمارا دین ہمیں دو کام کرنے کا حکم دیتا ہے:﴿وإن تصبروا وتتقوا﴾․ صبر وتقوی․
1..صبر:صبر کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام تر حالات میں اللہ تعالی کے دیے گئے احکامات پر قائم رہو، ان پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر پیچھے مت ہٹو، احساسِ کمتری کا شکار مت ہوں، ان پروپیگنڈوں کی مرکزی قوت سے علمی و عملی طور سے نمٹو، چناں چہ آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ میں ان موذیوں کے سر کردہ رہنما کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کو قتل کرایا، فتح مکہ کے موقع پر ایسے گستاخان رسالت کو معافی سے مستثنیٰ کرتے ہوئے قتل کا حکم دیا تھا۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں، صبر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ تدبیر نہ کرو یا مواقع انتقام میں انتقام نہ لویا مواقع قتال میں قتال نہ کرو، بلکہ حوادث سے دل تنگ نہ ہوں، کیوں کہ اس میں تمہارے لیے منافع و مصالح ہیں۔

2..تقویٰ:تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ خلاف شریعت کوئی قدم مت اٹھاؤ، جو قدم اٹھاؤ حدودِ شریعت میں ہو، اگر یہودو نصاریٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کریں تو تم اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گستاخی مت کرو، مقامِ دعوت میں اور مقامِ انتقام میں انتقام لینے میں شریعت کی حدود سے تجاوز مت کرو۔(بیان القرآنِ، حکیم الامت، اٰل عمران ذیل آیت:186)

﴿وَإِذْ أَخَذَ اللّہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاء ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ، لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَواْ وَّیُحِبُّونَ أَن یُحْمَدُواْ بِمَا لَمْ یَفْعَلُواْ فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، وَلِلّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ﴾
اور جب اللہ نے عہد لیا کتاب والوں سے کہ اس کو بیان کرو گے لوگوں سے اور نہ چھپاؤ گے، پھر پھینک دیا انہوں سے وہ عہد اپنی پیٹھ کے پیچھے اور خرید لیا اس کے بدلے تھوڑا سا مال، سو کیا برا ہے جو خریدتے ہیںo تو نہ سمجھ کہ جو لوگ خوش ہوتے ہیں اپنے کیے پر اور تعریف چاہتے ہیں بن کیے پر، سو مت سمجھ ان کو کہ چھوٹ گئے عذاب سے اور ان کے لیے عذاب ہے دردناکo اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمان کی اور زمین کی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہےo

اہل کتاب کا کتمان علم
سابقہ آیات میں یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کو جانی ومالی نقصان پہنچانے کا تذکرہ تھا، ان آیات میں اہل کتاب کووہ وعد ہی یاد دلایا گیاہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے ان سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشن گوئیوں کو عوام الناس کے سامنے کھول کھول کر بیان کرنے کا لیا تھا۔ لیکن اہل کتاب کے مذہبی پیشواؤں نے قلیل دنیا کے عوض اس عہد کو پس پشت ڈالے رکھا ہے اور لوگوں کے سامنے حقیقت بیا ن کرنے کی بجائے اسے چھپاتے پھرتے ہیں، اس میں تحریف و تغیر سے کا م لے کر اسے مشکوک بناتے رہے۔

اس عہد الہٰی کا تذکرہ کسی درجے میں محرفہ بائبل میں بھی پایا جاتا ہے، چناں چہ استثناء میں سے۔”جس بات کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ بڑھانا نہ کچھ گھٹانا۔“(استثناء:4/2) آیت نمبر نو میں ہے:”بلکہ تو ان کو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔“(استثناء:4/9)زبور میں ہے۔”جن کی بابت اس نے ہمارے باپ دادا کو حکم دیا کہ وہ اپنی اولاد کو ان کی تعلیم دیں، تاکہ آئندہ پشت یعنی وہ فرزند جو پیدا ہوں گے ان کو جان لیں، اور وہ بڑے ہو کر اپنی اولاد کو سکھائیں۔“ (زبور:78/5،6)

انجیل مَتّی میں ہے:”جو کچھ میں تم سے اندھیرے میں کہتا ہوں اجالے میں کہو او ر جو کچھ تم کان میں سنتے ہوکوٹھوں پر اس کی منادی کرو۔“(مَتّی:10/27)

نیز ان آیات میں امت محمدیہ کے لیے سامان عبدت اور سبق ہدایت موجود ہے کہ وہ احقاق حق کا فریضہ بہر صورت انجام دیتے رہیں، دنیا کے سازوسامان اور جاہ ومنصب کی محبت میں اس سے غافل نہ ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کتمان علم پر سخت وعید بیان فرمائی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس شخص سے کسی چیز کے علم کے متعلق سوال کیا گیا اور اس نے اسے چھپا لیا قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:3658)

دو منافقانہ صفات
﴿لا تحسبن الذین…﴾اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان دو صفات کے حامل لوگوں کے متعلق یہ خیال مت کیجئے گا کہ یہ عذاب الہی سے بچ جائیں گے، یہ دو صفات اس عہد کے منافقین کی تھیں،اپنے کافرانہ اعمال پر خوش ہونا۔ ویحبون أن یحمدوا بما لم یفعلو.نیکی اور بھلائی کے جن کاموں میں انہوں نے ہاتھ تک نہیں ڈالا ہوتا، ان کی نسبت اپنی ذات سے جوڑ کر لوگوں سے تعریف اور ستائش کی تمنا لیے پھرنا۔

اس آیت سے دو چیزیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ اپنے برے کاموں پر خوش ہونامذموم ہے اور منافقانہ صفت ہے، البتہ اچھے کاموں پر بلا طلب لوگوں کی طرف سے جو تعریفی جملے سننے کو ملیں اور اس سے دل کو فرحت ملے تو ایسی فرحت مذموم نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک فالی کا تحفہ ہے اس پر شکر بجا لانا چاہیے، اسی طرح اچھے کاموں پر دل کو از خود جو طبعی فرحت محسوس ہوتی ہے وہ بھی مذمت کی اس بحث سے خارج ہے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو نیکی انسان نے خود انجام نہیں دی لیکن لوگوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس نیکی کا اسے ثمر قرار دے کر اس کی تعریف کریں، عموماً سماجی اور فلاحی امور میں حصہ لینے والے لوگوں میں اس کا جذبہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ بھی مذموم ہے، اگر واقعی انسان نے اچھے کام سر انجام دیے ہیں، پھر بھی اس کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ داد سمیٹنے کے لیے اس کا کوئی اہتمام کرائے، یا عوام الناس سے اس کا مطالبہ کرے، البتہ اپنے کسی کردہ یا نہ کردہ حسن عمل پر تعریف چاہے جانے کے طبعی احساس کا پیدا ہونا معصیت نہیں ہے۔

﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَاب، الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، رَبَّنَا إِنَّکَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَیْْتَہُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ، رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَار،رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَی رُسُلِکَ وَلاَ تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِیَارِہِمْ وَأُوذُواْ فِیْ سَبِیْلِیْ وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَلأُدْخِلَنَّہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ ثَوَاباً مِّن عِندِ اللّہِ وَاللّہُ عِندَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ﴾

بے شک آسمان اور زمین کا بنانا اور رات اور دن کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کوo وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور فکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں ،کہتے ہیں اے رب ہمارے! تو نے یہ عبث نہیں بنایا، تو پاک ہے سب عیبوں سے، سو ہم کو بچادوزخ کے عذاب سے o اے رب ہمارے! جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا سو اس کو رسوا کر دیا اور نہیں کوئی گناہ گاروں کا مددگارo اے رب ہمارے! ہم نے سنا کہ ایک پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو کہ ایمان لاؤاپنے رب پر سو ہم ایمان لے آئے، اے رب ہمارے! اب بخش دے گناہ ہمارے اور دور کر دے ہم سے برائیاں ہماری اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھo اے رب ہمارے! اور دے ہم کو جو وعدہ کیا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے واسطہ سے اور رسوا نہ کر ہم کو قیامت کے دن بے شک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتاo پھر قبول کی ان کی دعا ان کے رب نے کہ میں ضائع نہیں کرتا محنت کسی محنت کرنے والے کی تم میں سے مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک ہو، پھر وہ لوگ کہ ہجرت کی انہوں نے اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور لڑے اور مارے گئے، البتہ دور کروں گا میں ان سے ان کی برائیاں اور ان کو داخل کروں گا ان باغوں میں جن کے نیچے سے بہتی ہوں گی نہریں، یہ بدلہ ہے اللہ کے ہاں سے اور اللہ کے ہاں ہے اچھا بدلہ۔

کائنات کی تخلیق میں توحید کی نشانیاں
﴿إن فی خلق السموت…﴾اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کر کے اپنی توحید کی نشانیاں اہل عقل پر ظاہر فرما دیں، ایک سلیم الفطرت انسان ان مشاہدات پر غور و فکر کے نتیجے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوتا ہے، بقول دریا بادی رحمہ اللہ کے چاند، سورج، ستاروں کی تعداد، ان کے درمیانی فیصلے، ان کے باہمی تعلقات و تاثرات، ان کی گردشوں کی پیمائش، گہن کے اسباب و واقعات، ان کے طلوع و غروب،نورو حرارت، وغیرہ کے قاعدے، ضابطے، اس قسم کی تفصیلات سے علم ہیئت کی کتابوں کے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں، رہی زمین تو ہیئت ارض، مساحت فن بھی کافی نہ ہوا، بلکہ جغرافیہ، جغرافیہ طبعی، جیالوجی، فزیالوجی،آرکیالوجی، خدا جانے کتنے فنون پر فنون نکلے آرہے ہیں، اور حکمت باری اور صنعت باری کے اندازے اور تخمینے ختم ہونے کے قریب بھی نہیں آرہے ہیں۔(تفسیر ماجدی، آل عمران ذیل آیت:91 )

اس آیت سے ان مشرک قوموں کی تردید ہو رہی ہے، جن کے عقیدے کے مطابق آسمان و زمین کو دیوی اور دیوتاسمجھا جاتا تھا، اور ان دہریوں کی بھی جس کا عقیدہ ہے کہ پوری کائنات خود بخود بغیر صانع کے وجود میں آگئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق پر غوروفکر کرنا بھی عبادت ہے
﴿الذین یذکرون اللہ…﴾جس طرح ایک سمجھ دار انسان جب کسی خوبصورت عمارت کو دیکھتا ہے تو فوراً اس کا ذہن اس انجینیئر کی طرف منتقل ہوتا ہے جس نے اس کی ڈیزائیننگ کی ہے، جس نے یہ نقشہ بنایا، اور محیر العقول عمارت وجود میں لایا، پھر اس کی رسائی فکر کو داد دیتا ہے، اس کی تعریف کرتا ہے، اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان جب اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کائنات پر غورو فکر کرتا ہے تو اس کی زبان حال سے، یا قال سے خالق کائنات کی حمد میں مشغول ہو جاتی ہے، پھر وہ اٹھتے،بیٹھتے، لیٹتے ذکر الہی میں مصروف رہتا ہے۔

ذکر لسانی ہو یا عملی اس کی بڑی فضیلت ہے، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ کوئی محفل جمائیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجیں انہیں حسرت و ندامت سے واسطہ پڑے گا، اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انہیں بخش دے گا، چاہے گا تو سزا دے گا۔(صحیح البخاری:رقم الحدیث:3380)

اس آیت سے فقہاء نے بوجہ عذر کھڑے، بیٹھے، لیٹے نماز پڑھنے کا حکم استنباط فرمایا ہے: ﴿ویتفکرون فی خلق السموت والارض…﴾ سلیم الفطرت انسان اللہ تعالی کی صفت تخلیق کے مظاہر پر غورو فکر کر کے اس کی عظمت سے آشنا ہوتے ہیں، اس کی کبریائی ا ستحضار کر کے بارگاہ الہٰی میں دست سوال دراز کرتے ہیں:﴿ربنا ماخلقت ھذا باطلاً…﴾ اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی…

کائنات پر غوروفکرکر کے اللہ تعالی کی عظمت و کبریائی کا استحضار کرنا عبادت ہے، اسی طرح مسلمان کائنات کے ذروں اور فضاؤں ، زمین میں چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش و جستجو اور اسے اہل اسلام کے لیے مفید سے مفید تر بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے، اور اسی میں تفکیر لخلق اللہ کی نیت بھی کر لیتا ہے، تو اس کے لیے یہ عمل بھی نفلی عبادت شمار ہو گی، اور وہ اس آیت کریمہ کے مصداق میں شمار ہوں گے۔

اور جو شخص صرف مادی نفع کے لیے اللہ تعالی کی کائنات میں جستجو کرتا رہتا ہے، آسمان و زمین پر کمندیں ڈالتا رہتا ہے، وہ کافر ہو تو ایمان نہ ہونے کی وجہ سے اور اگر مسلمان ہے تو نیت کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل عبادت شمار نہ ہوگا۔(جاری)