سسرالی رشتوں اور حرمت رضاعت کا بیان

سسرالی رشتوں اور حرمت رضاعت کا بیان

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

اہل کتاب میں محرمات سے نکاح کی ممانعت
کتاب مقدس کی کتاب احبار میں ہے۔
*…تم میں سے کوئی اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے پاس اس کے بدن کو بے پردہ کرنے کے لیے نہ جائے میں خداوند ہوں۔
*…تو اپنی ماں کے بدن کو جو تیرے باپ کا بدن ہے بے پردہ نہ کرنا، کیوں کہ وہ تیری ماں ہے تو اس کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا۔
*…تو اپنے باپ کی بیوی کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا، کیوں کہ وہ تیرے باپ کا بدن ہے۔
*…تو اپنی بہن کے بدن کو چاہے وہ تیرے باپ کی بیٹی ہو ، چاہے تیری ماں کی اور وہ گھر میں پیدا ہوئی ہو اور کہیں بے پردہ نہ کرنا۔
*…تو اپنی پوتی یانواسی کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا۔
*…تیرے باپ کی بیوی کی بیٹی جو تیرے باپ سے پیدا ہوئی ہے تیری بہن ہے تو اس کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا۔
*…تو اپنی پھوپھی کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا، کیوں کہ وہ تیرے باپ کی قریبی رشتہ دار ہے۔
*…تو اپنی خالہ کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا، کیوں کہ وہ تیری ماں کی قریبی رشتہ دار ہے۔
*…تو اپنے باپ کے بھائی کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا، اس کی بیوی کے پاس نہ جانا وہ تیری چچی ہے۔
*…تو اپنی بہو کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا، کیوں کہ وہ تیرے بیٹے کی بیوی ہے، سو تو اس کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا۔
*…تو اپنی بھاوج کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا کیوں کہ وہ تیرے بھائی کا بدن ہے۔
*…تو کسی عورت اور اس کی بیٹی دونوں کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا نہ تو اس عورت کی پوتی یا نواسی سے بیاہ کرکے ان میں سے کسی کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا کیوں کہ وہ دونوں اس عورت کی قریبی رشتہ دار ہیں،یہ بڑی خباثت ہے۔
*… تو اپنی سالی سے بیاہ کر کے اسے اپنی سوکن نہ بناناکہ دوسرے کے جیتے جی اس کے بدن کو بھی بے پردہ کرے۔(کتاب مقدس، کتاب احبار، ممنوعہ جنسی افعال باب،18،آیت6 تا19)

سسرالی رشتے
﴿وامھات نسائکم﴾ سے سسرالی محرمات کا بیا ن ہے، ان میں پہلی بیوی کی ماں یعنی ساس،ربیبہ:بیوی کی وہ بیٹی جو پہلے شوہر سے متولد ہوئی ہو وہ بیوی کے اس دوسرے شوہر کے حق میں ربیبہ کہلاتی ہے۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی سے وطی کر لی یا ایسا عمل کر لیا کہ جس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے مثلاً شہوت کے ساتھ چھونا، یا شرم گاہ دیکھنا، تو اس صورت میں اس کے لیے سابقہ شوہر کی بیٹی(ربیبہ) سے نکاح کر نا درست نہیں ہے۔

اگر محض عقد نکاح کرنے کے بعد اسے طلاق دے دی تو اس صورت میں اس کی بیٹی (ربیبہ) سے نکاح کر سکتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں واضح فرمایا ہے: ﴿فإن لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم ﴾ فقہاء نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ عورت کو مرد کے اصول و فروع حرام ہیں، اور مرد کو عورت کے اصول و فروع حرام ہیں، البتہ ان میں فرق صرف اس قدر ہے کہ اصول تو عقد نکاح سے حرام ہو جاتے ہیں، جیسے ایک مرد و عورت کے باہمی عقد نکاح سے مرد پر عورت کے اصول ماں، نانی، دادی حرام ہو جاتی ہیں، اور عورت پر اس مرد کا باپ دادا ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں، البتہ فروع میں حرمت اس وقت آتی ہے، جب نکاح کے بعد دخول (وطی) بھی ہو، اگر دخول سے پہلے مرد عورت کو طلاق دے دے تو اس کی سابقہ شوہر سے بیٹی (ربیبہ) جو فروع بنتی ہے وہ حرام نہیں ہوگی، اس سے نکاح درست ہو گا، یہ صرف مرد کے لیے ہے، باپ کی منکوحہ کے ساتھ بیٹے کا نکاح درست نہیں ہو گا، ﴿ولا تنکحو مانکح اٰبائکم﴾کی بنا پر باپ کی بیوی محض عقد نکا ح سے بیٹے پر حرام ہو جائے گی۔

حقیقی بیٹے کی بیوی یعنی بہو سے نکاح کرنا بھی حرام ہے۔﴿وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم﴾ (اور عورتیں تمہارے بیٹوں کی جو تمہاری پشت سے ہیں) یہاں صلبی کی قید اس لیے لائی گئی کہ زمانہ جاہلیت میں لے پالک بیٹے کی بیوی کو بھی حقیقی بیٹے کی طرح حرام سمجھا جاتا تھا، لے پالک کی بیوی ،لے پالک کے مربی اور سرپرست کے لیے حرام نہیں ہوتی، اس حکم سے خارج کرنے کے لیے صلبی بیٹے کی قید لائی گئی۔

اسی طرح رضاعی بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے، اگرچہ رضاعی بیٹا صلبی بیٹا نہیں کہلاتا، اور وہ (من اصلابکم) کی قید سے باہر ہے،مگر اس کی حرمت حدیث سے ثابت ہے، ”یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب“ (سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث:1937) جو رشتہ نسبی حیثیت سے حرام ہیں وہ رضاعت میں بھی حرام ہیں، اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔

دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا
وأن تجمعو بین الاختین:دو نسبی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، حدیثِ رسول کی روشنی میں دو رضاعی بہنوں کا بھی یہی حکم ہے، نسبی و رضاعی میں دو بہنیں چاہے وہ حقیقی ہوں یا ماں شریک یا باپ شریک ہوں، سب کا یہی حکم ہے، لیکن یہ حکم ابدی نہیں ہے، ایک بہن کے انتقال کے بعد دوسری بہن سے نکاح کرنا جائز ہے، اسی طرح اگر بیوی کو طلاق دے دی تو عدت گزرنے کے بعد اس کی بہن سے نکاح کرنا درست ہے، اس ضمن میں یہ بھی جان لیجیے کہ ایسی دو عورتیں جو باہمی رشتے میں پھوپھی، بھتیجی، یا خالہ بھانجی لگتی ہوں، ان کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، اس کی حرمت سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک سے ثابت ہے: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا یجمع بین المرأة وعمتھا ولا بین المرأة وخالتھا“․(صحیح مسلم، رقم الحدیث:3436) عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اور عورت کو اس کی خالہ کے ساتھ (بیک وقت) نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔

اس مضمون کی احادیث بہت سے صحابہ کرام سے منقول ہیں، مثلاً حضرت علی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زینب زوجہ حضرت عبداللہ بن مسعود، ابو امامہ ، حضرت عائشہ ،حضرت ابو موسی اشعری، حضرت سمیرہ بن جندب۔

اور اس پر امت کا اجماع ہے(أحکام القرآن للتھانوی:النساء ذیل آیت رقم:23)

شوہر والی عورتیں:جن عورتوں کے شوہر موجود ہوں انہیں نکاح میں لانا حرام ہے، (والمحصنت من النساء) سے انہی عورتوں کی حرمت بیان کی گئی ہے، شوہر والی عورتیں خواہ مسلمان ہوں یا مشرک اور کتابیہ ، البتہ مشرکہ اور کتابیہ عورتیں مسلمانوں کے ہاتھ جنگ میں قیدی بن کر آئیں تو ”تباین دار” کی بنا پر مسلمانوں کے لیے اجازت ہے کہ وہ انہیں باندی بنا کر جنسی تعلق قائم کریں، ان کے شوہروں کا دارالحرب میں ہونا اور ان کا دارالاسلام میں قیدی ہونا ہی ان کے درمیان جدائی کا سبب گردانا جائے گا، (الا ماملکت ایمانکم) سے اسی کا حکم بیان ہے۔

چند اہم مسائل: زنا سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے۔
ولا تنکحو مانکح اٰبائکم من النساء: باپ کے نکاح میں آنے والی خاتون بیٹے پر حرام ہے اگرچہ باپ اسے طلاق دے کر چھوڑ دے، یا باپ کے انتقال سے وہ بیوہ ہو جائے، اس کی حرمت آیت کریمہ میں واضح ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کر لے تو کیا اس سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی؟ جس طرح منکوحہ کی ماں اور بیٹی حرام ہو جاتی ہیں، اسی طرح مزنیہ عورت کی ماں اور بیٹی زانی پر حرام ہو گی؟ اس میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، حضرت عکرمہ ،امام مالک، امام لیث،امام شافعی کے نزدیک زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، حضرت عکرمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہی مذہب نقل فرمایا ہے۔

حضرت حسن بصری، قتادہ، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، عامر، حماد، امام اوزاعی کا موقف یہ ہے کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، علامہ جصاص نے فرمایا: قرآن کریم کی آیت (ولا تنکحوا ما نکح اٰ بائکم من النساء) میں لفظ ”نکاح“علمائے لغت کے نزدیک باہمی دو چیزوں کے ملنے کے معنی میں آتا ہے، اسی مناسبت سے اس کا حقیقی لغوی اطلا ق مطلقاً ”وطی“پر ہوتا ہے ، خواہ وطی مباح ہو (یعنی شریعت کی رو سے جائزہو) یا وطی ممنوع ہو یعنی زنا ہو، لہٰذا نکاح لغوی (زنا ہو) یانکاح شرعی دونوں صورتوں میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعض صورتیں ایسی ہیں جو موجب حرمت نہیں، مثلاً کسی عورت سے نکاح اور وطی سے پہلے طلاق دے دی، اس کے لیے اس منکوحہ کی بیٹی جو دوسرے شوہر سے ہو سے نکاح کرنا درست ہے، اس سے معلوم ہوا حرمت کے ثبوت کی اصل وجہ اور علت وطی ہے، نیز علما کا اتفاق ہے کہ وطی بالشبہ اور وطی بملک الیمین سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے، حالانکہ ان میں شرعا عقد نکاح نہیں پایا جاتا، اس سے بھی ثابت ہوا وطی موجب حرمت ہے، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، لہذا زنا کی وجہ سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی۔

جن حضرات نے زنا سے حرمت مصاہرت کا انکار کیا ہے ان کے پاس بنیادی دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:”لا یحرم الحلال“کوئی حرام عمل حلال عمل کو حرام نہیں کرتا، کسی عورت سے زنا کرنا حرام ہے، اسی حرام عمل کی وجہ سے اس کی بیٹی یا ماں سے نکاح کرنا حرام نہیں ہوتا، اس روایت کا جواب محدثین نے یہ دیا ہے کہ یہ روایت راویوں کے مجہول ہونے کی بنا پر قابلِ اعتماد نہیں، مثلاً مغیرہ بن اسماعیل مجہول ہیں، دوسرے راوی اسحاق بن محمد الفردی مطعون ہیں۔(ملحض از أحکام القرآن للجصاص، أحکام القرآن للتھانوی النساء ذیل آیت:22)
فقہاے حنفیہ، سفیان ثوری، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام لیث کے نزدیک ثبوت حرمت میں عورت کو شہوت سے ہاتھ لگانا بھی جماع کے درجے میں ہے، اس سے بھی ایسی حرمت ثابت ہو جاتی ہے، جیسے جماع سے، لہٰذا کسی اجنبیہ کو شہوت سے چھویا تو اس کی ماں اور بیٹی سے نکاح کرنا حرام ہو گا۔( أحکام القرآن للتھانوی، النساء ذیل آیت:22)

بیٹے پر باپ کی منکوحہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے
اس پر بھی اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے محض نکاح کیا اور وطی سے پہلے طلاق دے دی، تو وہ عورت اس شخص کے بیٹے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی۔

زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی زانی پر حرام ہے
امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبلؒ اور جمہورعلمائے کرام کے نزدیک زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی زانی پر حرام ہے، اس کی حرمت پر دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے، (حرمت علیکم امھتکم وبنتکم) یہاں بنت کے عموم میں زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بھی داخل ہے، کیوں کہ وہ بھی خلقتاً اس مرد کی بنت ہے، جس کے نطفے سے یہ پیدا ہو گی۔

امام شافعیؒ کے ایک قول میں زنا سے پیدا ہونے والی بیٹی سے زانی کا نکاح درست ہے، ان کا موقف یہ ہے کہ یہ لڑکی اگرچہ خلقتاً ”بنت“ کا مصداق ہے لیکن شرعاً یہ بنت نہیں ہے، اگر شرعاً بھی بنت ہوتی تو میراث کے احکام میں اس کا بھی حصہ بیان ہوتا۔

لیکن جمہور علماء کے نزدیک محرمات اور نکاح کے معاملات احتیاط پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے زنا سے پیدا ہونے والی بیٹی کو میراث میں حصہ نہ ملنے کی وجہ سے اس پر اجنبیہ کا حکم نہیں لگا سکتے، ایسی بیٹی کو دیگر تمام احکام میں حقیقی شرعی بیٹی پر قیاس کرنا درست نہیں۔(أیضًا أحکام القرآن للتھانوی، النساء ذیل آیت:22)

رضاعت خواہ قلیل ہو یا کثیر حرمت ثابت ہو جائے گی
اگر کوئی عورت کسی بچے کو دو سال سے کم عمر میں دودھ پلائے تو حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، اس بچے کے حق میں وہ رضاعی ماں اور اس کی اولاد رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے، ان میں باہمی نکاح درست نہیں ہے، جیسا کہ آیت کریمہ کی تشریح میں گزر چکا ۔یہاں سوال اور نکتہ اختلاف یہ ہے کہ کتنی مقدار میں دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے؟ اس میں دو مذہب ہیں۔

پہلا مذہب یہ ہے کہ رضاعت ایک گھونٹ سے بھی ثابت ہو جاتی ہے، اس کی کوئی متعین مقدار نہیں ہے، یہی مذہب، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور حضرت حسن کا ہے، اور بعد میں آنے والوں میں یہ مذہب طاؤس، ،شعبی، نخعی، زہری، اوزاعی، امام ثوری، امام مالک اور امام اعظم ابو حنیفہ  کا ہے۔
امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے راجح قول کے موافق پانچ گھونٹ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، اس سے کم دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔(زاد المسیر فی علم التفسیر، النساء، ذیل آیت:23)

تیسرا مذہب تین گھونٹ دودھ پینے سے بھی حرمت رضاعت کا بھی ہے، مگر یہ رائے امت میں مقبول نہ ہو سکی، پہلے دونوں مذاہب امت میں مروج ہیں۔

امام شافعیؒ کے مذہب کا مدار حضرت عائشہ کی روایت ہیں، ان میں معروف روایت جو صحیح مسلم کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت: کان فیما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات یحرمّن ثم نسخن بخمس معلومات: فتوفي النبي صلی اللہ علیہ وسلم وھن فیما یقرؤمن القرآن․(صحیح مسلم رقم الحدیث: 1452/،سنن ابن ابی داؤد،2062) حضرت عائشہبیان فرماتی ہیں پہلے قرآن کریم میں دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا حکم نازل ہوا تھا پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور پانچ بار دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا حکم ہوگیا اور جس وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ قرآن میں تلاوت کیا جا رہا تھا“۔

شبہ کا جواب
پہلا جواب:حضرت عائشہ سے یہ حدیث مختلف طریقے سے مروی ہے، تمام روایات میں یہ الفاظ تو متفقہ طور پر پائے جاتے ہیں”کہ دس گھونٹ کا حکم پانچ گھونٹ سے منسوخ ہوا“مگر یہ الفاظ :”فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھی فیما یقرأمن القرآن․“بوقتِ وفات رسول اللہ قرآن کریم میں دورانِ تلاوت پڑھا جاتا رہا، عمرہ کے شاگردوں میں سے صرف حضرت عبداللہ بن ابی بکر بیان کرتے ہیں، ان کے باقی شاگردوں کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں، ایک شاگرد یحییٰ بن سعید انصاری ہیں، ان کی روایت مسلم شریف میں ہے:(1/469)دوسرے شاگرد قاسم بن محمد ہیں، ان کی روایت المعتصر من المختضر میں موجود ہے۔( المعتصر من المختصر:1/321)

اس سے معلوم ہوا حضرت عائشہکی روایت میں یہ بات صحیح اور راجح ہے کہ ”دس گھونٹ کا حکم پانچ گھونٹ کے حکم سے منسوخ ہو گیا“اس سے زائد الفاظ کہ حضورصلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت یہ الفاظ قرآن کریم کی تلاوت میں پڑھے جاتے تھے“شاذ ہیں، اس لیے قابلِ قبول نہیں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ پانچ گھونٹ پینے والی آیت حضورصلی الله علیہ وسلم کی آخری زندگی میں منسوخ ہوئی تھی، جس کی وجہ سے بعض صحابہ کرام کو اس کی اطلاع نہیں تھی، وہ برابر تلاوت کرتے رہے، اگر یہ آیت منسوخ نہ ہوتی تو قرآن کریم میں اب بھی شامل ہوتی، علامہ طحاویؒ نے شرح مشکل الاثار میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے۔( شرح مشکل الآثار للامام الطحاوی: 5/311) یہی بات علامہ نوویؒ نے شرح مسلم میں فرمائی، (شرح امام النووی علی مسلم:1/168) علامہ جصاص نے حضرت عبداللہ بن عباس سے یہی تاویل نقل فرمائی ہے۔(أحکام القرآن للجصاص، النساء ذیل آیت:23)

اگر حضرت عائشہ کی روایت پر صحت کا اصرار کیا جائے، یا اس میں کی جانے والی تشریحات کو قبول نہ کیا جائے، اس کی براہ راست زد قرآن کریم پر پڑتی ہے، کہ پانچ گھونٹ کا حکم بوقت وفات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم موجود ہونے کے باوجود اب قرآن کریم میں موجود نہیں ہے، گویا قرآن کریم کا محفوظ ہونا مشکوک ٹھہرا، حالانکہ یہ نصِ قطعی کے خلاف ہے، قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے، ﴿إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون﴾( الحجر:9)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید﴾․(فصلت:42) اسی طرح کی شاذ اور نصوص قطعیہ کے مخالف روایتیں روافض اپنے عقیدہ تحریف قرآن کے اثبات پر بطورِ ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور حقیقت سے ناواقف مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔

دوسرا جواب:تین گھونٹ، پانچ گھونٹ پر مشتمل جس قدر روایت ہیں، وہ اخبار آحاد کے قبیل سے ہیں، اور اخبار آحاد کا کتاب اللہ کی نص سے اور نصوص (احادیثِ متواتر ) سے معارضة نہیں ہو سکتا، بالفرض اگر معارضہ تسلیم بھی کر لیاجائے، تو ترجیح حرمت کو ہوتی ہے، کیونکہ حلت و حرمت کے معاملہ میں احتیاط کا دامن حرمت سے جڑا ہوتا ہے، نہ کہ حلت سے۔(أحکام القرآن للتھانوی:النساء ،ذیل آیت:23)

تیسرا جواب:قرآن کریم میں :﴿وامھاتکم التی أرضعنکم﴾․(النساء:23) حرمتِ رضاعت بغیر کسی قید کے علی الاطلاق ہے، پھر علی الاطلاق حرمتِ رضاعت کا ثبوت احادیث سے بھی ملتا ہے۔ جامع المسانید میں ہے، أبو حنیفہ عن الحکم بن عتیبة عن القاسم بن مُخَیْمِرَة عن شریح بن ھاني عن علی بن أبي طالب رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: یحرم من الرضاع ما یحر م من النسب، قلیلہ وکثیرہ.(جامع المسانید للإمام محمد بن محمود:2/97)

اس روایت میں رضاعت خواہ قلیل ہو یا کثیر حرمت رضاعت کی صراحت مذکور ہے، اس کی تائید صحابہ کرامکے ان آثار سے بھی ہوتی ہے، جو سنن نسائی، السنن الکبری للبیہقی، مصنف عبدالرزاق، المعجم الکبیر للطبرانی ، مصنف بن ابی شیبہ میں مذکور ہیں۔ (جاری)