قادیانی فریب کا ایک نمونہ

قادیانی فریب کا ایک نمونہ

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
قادیانی مبلغین امام راغب الاصفہانی اور صاحب تفسیر البحر المحیط علامہ ابو حیان الاندلسی پر یہ تہمت باندھتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت کریمہ سے اجرائے نبوت کا استدلال کیا ہے، چناں چہ قادیانی مولف لکھتا ہے۔

”امام راغب نے بھی یہی معنی کیے ہیں”مِنَ النَّبِیِّینَ“وَمَن یُطِعِ اللَّہَ سے متعلق ہے۔ یعنی جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ نبیوں صدیقوں میں سے ہے۔ علامہ ابوحیان اس پر لکھتے ہیں ”مِنَ النَّبِیِّینَ“مِنْکی تفسیر میں واقع ہوا ہے اور اس سے لازم آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے رسول آنے ہیں“۔(زجاجة، تلاش حق، سید طفیل محمد شاہ، طبع سوئم 2014، ص139)

زیر نظر مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ہم یہاں البحر المحیط کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں، تاکہ اس کی روشنی میں قادیانی دجل اور جھوٹ پر مشتمل فریبانہ استدلال کا نمونہ قارئین کے سامنے آسکے۔

تفسیر البحر المحیط کی اصل عبارت یہ ہے:
وأجاز الراغب أن یتعلق من النبیین بقولہ:ومن یطع اللّٰہ والرسول․أی:من النبیین ومن بعدھم ویکون قولہ فأولئک مع الذین أنعم اللّٰہ علیھم اشارة إلی الملأ الأعلی ثم قال ”وحسن اولئک رفیقًا'' وبین ذلک قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین الموت: ”اللھم ألحقنی بالرفیق الاعلی“ وھذا ظاھر انتھی، وھذا الوجہ الذی ھو عندہ ظاہر فاسد من جھة المعنی ومن جھة النحو. أما من جھة المعنی فإن الرسول ھنا ھو محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اخبر اللّٰہ تعالی أن من یطیعہ ویطیع رسولہ فھو من ذُکِر، ولو کان من النبیین معلقا بقولہ:ومن یطع اللّٰہ والرسول لکان قولہ من النبیین تفسیراً لِمَنْ فی قولہ:ومن یطع، فلیزم أن یکون فی زمان الرسول أو بعدہ انبیاء یطیعونہ، وھذا غیر ممکن، لأنہ قد اخبر تعالی أنّ محمداً ھو خاتم النبیین، وقال ھو صلی اللّٰہ عیلہ وسلم: لا نبی بعدی. وأما من جھة النحو فما قبل فاء الجزاء لا یعمل فیما بعدھا․(تفسیر البحر المحیط، النساء، ذیل آیت: 70)

اس عبارت میں ابو حیان الاندلسی نے امام راغب کے حوالے سے نحوی ترکیب کا ایک احتمال بیان کیا ہے کہ ”من النبیین“جار مجرور من یطع اللّٰہ والرسول سے متعلق ہوسکتا ہے۔ اس وقت منعم علیہم سے ملأ اعلیٰ میں ان کی رفاقت مراد ہے۔

قارئین کھلے دل سے بتائیں اس میں اجرائے نبوت کا کوئی اشارہ پایا جاتا ہے؟ قادیانی مبلغ کا جھوٹ”جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ نبیوں صدیقوں میں سے ہے“۔ یہ مفہوم امام راغب کے کلام سے کیسے برآمد ہورہا ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے قادیانیوں کو اجرائے نبوت کا سراغ یہاں سے کیسے مل رہا ہے؟ اس کا جواب بڑا دلچسپ اور قادیانی عقل پر خدا کی مارکی نمایاں دلیل ہے۔ وہ یہ کہ ابو حیان الاندلسی نے امام راغب کے بیان کردہ ترکیبی احتمال پر اعتراض کیا ،اسی اعتراض سے انہوں نے اپنا مطلب نکال لیا ابوحیان نے فرمایاکہ”اگر امام راغب کے ترکیبی احتمال کو درست مان لیا جائے تو پھر لازم آئے گا کہ رسول کی اطاعت کرنے والا رسول میں سے ہوگا اور یہ ناممکن ہے“قادیانی دجال نے ابو حیان الاندلسی کی یہ ادھوری بات تو نقل کردی کہ”اور اس سے لازم آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے رسول آنے ہیں“مگر آگے ابو حیان الاندلسی کا یہ قول نہیں لکھا ”وھذا غیر ممکن لأنہ قد اخبرتعالی ان محمداً ھو خاتم النبیین، وقال ھو لا نبی بعدی“یہ ناممکن ہے۔کیوں کہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنایا ہے اور خود آپ علیہ السلام نے فرمایا لانبی بعدی، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے“۔

ابو حیان نے امام راغب کے ترکیبی احتمال کو دو وجہ سے فاسد قرار دیا ،ایک وجہ یہ ہے اس سے دوسرے نبی کے آنے کا احتمال پیدا ہوتا ہے اور دوسرے نبی کا آنا ناممکن ہے، یہ ترکیب کا معنوی فساد ہے اور دوسرا لفظی فساد یہ ہے کہ نحو میں فاجزائیہ کے مابعد والے لفظ پر، ماقبل کا عامل عمل نہیں کرتا۔ اس لیے من النبین، من یطع الله سے ترکیب میں متعلق نہیں ہوسکتا۔

خلاصہ کلام
ابو حیان الاندلسی نے امام راغب کے حوالے سے محض ترکیبی احتمال بیان کیا۔ اس ترکیبی احتمال سے معنوی اجرائے نبوت کا وہم متبادر ہوتا تھا۔

ابوحیان الاندلسی نے امام راغب کے حوالے سے بیان کردہ ترکیبی احتمال کا ماخذ ومصادر کا تذکرہ نہیں کیا۔ جس سے یہ حوالہ بھی بااعتماد نہیں رہتا۔

امام راغب نے بھی اس ترکیبی احتمال کے ضمن میں اجرائے نبوت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے یہ ترکیبی احتمال اپنا عقیدہ بیان کرنے کے لیے لکھا، بلکہ انہوں نے اپنا عقیدہ اپنی معروف زمانہ کتاب مفردات الفاظ القرآن میں لفظ ”خاتم“کی بحث میں ذکر فرمایا ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں ”وخَاتَم النِّبیّین“لأنہ خَتَم النبوَة أی تَمَّمَھا بمجیئہ․ (مفردات الفاظ القرآن، ختم، ص 275:دارالقلم)آپ علیہ السلام کو خاتم النبیین کہا گیا، کیوں کہ اللہ تعالی نے سلسلہ نبوت کو حکم انتہا تک پہنچا دیا ہے، یعنی نبوت کو آپ علیہ السلام کی آمد کے ساتھ مکمل کردیا ہے۔

ابو حیان نے امام راغب کی بیان کردہ نحوی ترکیب کو ظاہری اور معنوی فساد کی بنا پر باطل قرار دیا ہے۔

بالفرض اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ”مع“ مِنْ کے معنی میں ہے اور اللہ ورسول کی اطاعت کرنے والا نبیوں میں سے ہوجائے گا۔ تو پھر ایک سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ ”النبیین“کے بعد کے تینوں معطوف یعنی الصدقین، الشھداء، الصالحین بھی اپنی معطوف علیہ کے حکم میں ہوں گے، یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والا نبی بھی ہوگا، صدیق بھی ہوگا، شہید بھی ہوگا، صالح بھی ہوگا. جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی صدیق نہیں تھا جھوٹا تھا۔

(مرزا کے جھوٹے دعوے، جھوٹی پیش گوئیوں پر علماء کرام نے مستقل رسائل لکھتے ہیں بالخصوص محترم محمد متین خالد نے اپنی معروف زمانہ کتاب ”ثبوت حاضر ہیں“کی تیسری جلد میں تمام جھوٹ بمع عکسی شہادت کے جمع کردیے ہیں)اورشہید بھی نہیں ہوا، بلکہ اس نے حقیقی شہادت کی راہ ”قتال فی سبیل اللہ“کو ہی باطل قرار دیا ،چناں چہ لکھتا ہے۔
          اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال
          دین کے لیے حرام اب جنگ اور قتال
          اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے
          دین کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
          اب آسمان سے نور خدا کا نزول ہے
          اب جنگ اور جہاد کا فتوی فضول ہے
          دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
          منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص42، مندرجہ روحانی خزائن جلد 17، ص:77، 78)

﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا،وَ اِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَکُنْ مَّعَہُمْ شَہِیْدًا، وَ لَئنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوْلَنَّ کَاَنْ لَّمْ تَکُن بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہ، مَوَدَّةٌ یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَہُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا، فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾․

اے ایمان والو! لے لو اپنے ہتھیار ،پھر نکلو جدا جدا فوج ہوکر یا سب اکھٹے اور تم میں بعض ایسا ہے کہ البتہ دیر لگا دے گا، پھر اگر تم کو کوئی مصیبت پہنچے تو کہے اللہ نے مجھ پر فضل کیا کہ میں نہ ہوا ان کے ساتھ اور اگر تم کو پہنچا فضل اللہ کی طرف سے تو اس طرح کہنے لگے گا کہ گویا نہ تھی تم میں اور اس میں کچھ دوستی، اے کاش کہ میں ہوتا ان کے ساتھ تو پاتا بڑی مراد، سو چاہیے لڑیں اللہ کی راہ میں وہ لوگ جو بیچتے ہیں دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے اور جو کوئی لڑے اللہ کی راہ میں، پھر مارا جائے یا غالب ہوئے تو ہم دیں گے اس کو بڑا ثواب۔

ربط:انبیاء وصدیقین اور شہدا و صالحین کی رفاقت بیان کرنے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا جارہا ہے، کیوں کہ جہاد ایک مشکل عبادت ہے، جسے انسانی طبیعت قبول کرنے میں گرانی محسوس کرتی ہے اور یہ عبادت دین کی تقویت کا اہم ذریعہ بھی ہے۔(التفیسر الکبیر، النساء ذیل آیت:72) اس لیے اسے اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، کیوں کہ اسی کے طفیل انبیاء کی رفاقت کا شرف پایا جاسکتا ہے۔

حفاظتی اسباب اختیار کرنے کا حکم
﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ…﴾اللہ تعالی کتنی کریم ذات ہے، اپنے نیک بندوں پر کس قدر مہربان ہے۔ لڑائی میں جانور بھی اپنی حفاظت کے اسباب اختیار کرتے ہیں، یہ شعور جانوروں میں بھی رکھا ہے۔ مگر اپنے بندوں سے اظہار محبت کے طور پر انہیں حفاظتی اسباب اختیار کرنے کی تلقین فرمارہے ہیں۔ بقول علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے اللہ تعالی اہل ایمان کو جنگ کا طریقہ سکھلا رہے ہیں کہ اپنے بچاؤ کا سامان اسلحہ وغیرہ اپنے پاس رکھو ،پھر ان پر چڑھائی کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرو۔ جس میں کبھی انفرادی دستوں اور کبھی اجتماعی لشکر کی نوبت آئے گی۔ (احکام القرآن للقرطبی، النساء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرز عمل سے دستے اور لشکر دونوں کا نمونہ ملتا ہے، بالخصوص گستاخان رسول اور دشمنان دین کے متحرک مجرموں کے سرکوبی کے لیے دستوں کی تشکیل کرنا آپ علیہ السلام کی جنگی حکمت کا اہم جز رہا ہے۔

اندرونی دشمنوں کی خبر گیری
﴿وَ اِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ…﴾جب مسلمان کافروں سے قتال کے لیے اسلحہ زیب تن کرتے ہیں تب ایک گروہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، عہد نبوی میں یہ گروہ منافقین کا تھا۔(تفسیر ابن کثیر، النساء ذیل آیت) یہ مسلمانوں کا داخلی دشمن ہے، اس کی چالوں سے واقف ہونا، اس کا سد باب کرنا بھی جہاد ہے، یہ گروہ خود تو ایمان ویقین سے محروم اور عزم وہمت سے تہی دست ہوتاہے ،مگر وہ چاہتا ہے امت مسلمہ بھی یہی منحوس لبادہ اوڑھ کر جہاد سے ہاتھ کھینچ لے، یہ مادیت کے ڈسے ہوئے مریض ہیں، جن کی نظر وفکر کا محور اقتصاد اور معیشت سے آگے نہیں بڑھتا ، اس لیے اگر مجاہدین پر مصیبت ٹوٹ پڑے توان کے غم میں شریک ہونے کی بجائے بغلیں بجاتیہیں کہ ہمارے مفادات کو نقصان نہیں پہنچا ،بلکہ ان شہدا کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنے تئیں شکر ادا کرتے ہیں، ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور خود کو ان سے الگ تھلگ رکھا۔ اور اگر مجاہدین کو فاتحانہ حیثیت مل جائے اور جہاد کی برکت سے دنیاوی سازوسامان کے اثرات ان کے دامن میں گرنے لگیں تو اس بنیاد پر ان کے چہروں پر مسرت کی کوئی لہر نہیں اٹھتی کہ ہمارے ہم مذہب جنگی مشکلات سے نمٹ کر کام یابی سے ہم کنار ہوئے ہیں، بلکہ اس پر کف افسوس ملتے ہوئے بہ حسرت کہہ اٹھتے ہیں کہ کاش! ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو مال ومتاع میں ہمارا بھی حصہ ہوتا۔ یعنی ان کے جذبات میں ”ایمان اور اہل ایمان“کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہیں ہر صورت میں اپنے مادی، اقتصادی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ان آیات میں ایسے ملت فروش منافقوں اور منافقانہ صفات رکھنے والے کم زور مومنوں … سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

قتال فی سبیل اللہ کا حکم
﴿فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ مسلمان معاشرے کے کم زور اور پست ہمت لوگوں کے رویے پر متنبہ کرنے کے بعد اہل ایمان کو پھر سے قتال فی سبیل اللہ کی دعوت دی جارہی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کی اصل غرض کفر کی شان وشوکت کو پاش پاش کرنا ہے، قتال فی سبیل اللہ امت محمدیہ پر عائد فریضہ ہے، جس کے نبھانے کی یہ امت مکلف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، صلحائے امت نے اپنے قول وفعل کے ذریعے اس فریضے کا زندہ رکھا، ہر زمانے میں تواتر کے ساتھ اہل ایمان نے اس کی دعوت دی، محدثین کرام نے اس کے فضائل پر احادیث رسول کے مجموعے مرتب کیے، فقہاء نے اس کے مسائل پر عنوان باندھے، قاضیوں نے اسے نافذ کیا۔ قتال فی سبیل اللہ امت مسلمہ کے لیے ایک بدیہی حقیقت ہے، جس سے فرار ناممکن ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے کفر لرزہ بر اندام ہوتا ہے۔ اس کے غرور کابت ٹوٹ کر بکھرتا ہے، اس لیے عالمی استعمار نے اس فکر پر نقب لگانے کے لیے بے شمار جتن کیے، کتنوں کو مہدی اور نبی بنا کر ان سے انکار جہاد کے فتاوی جاری کروائے گئے… برصغیر میں مرزا غلام احمد قادیانی کو اسی مقصد کے لیے نبوت کا جامہ پہنا کر امت محمدیہ پر مسلط کیا گیا ۔جب یہ سارے حربے ناکام ٹھہرے تو استعماری فکر کے نئے ملازمین ” نظریہ اتمام حجت“کا نیا جال لے کر وارد ہوئے، ان کے بقول شریعت محمدیہ میں …

منکرین حق کے خلاف جنگ کا حکم ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو قتال کو جو حکم دیا تھا اس کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے قانون ”اتمام حجت سے تھا“ جو پورا ہوگیا۔

اتمام حجت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہوجاتی ہے تو اللہ اپنے رسول کو دنیا ہی میں منکرین حق پر غلبہ دیتا ہے، یہ اللہ تعالی کی سنت ہے اور ایسا بہر صورت ہوکر رہتا ہے، اس غلبہ کی دو صورتیں ہیں:

یا تو آسمانی آفت عذاب بن کر ان پر ٹوٹتی ہے یا اللہ کا رسول تلوار کے ذریعے انہیں سبق سکھاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قوموں کو زبانی دعوت دی یا جن کو خطوط لکھے، ان پر خدا کی حجت قائم ہوگئی، ان کی طرف سے انکار حق کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے انہیں کے ساتھ قتال کر کے آپ کے مشن کی تکمیل کی۔ یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کیبعد سنت الہٰی کے موافق ان پر نازل ہوا۔

اب مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے…

چناں چہ ایک متجدد اپنے نظر یہ اتمام حجت پر اظہار پر خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے، ”اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جو اقدامات کیے اور انہیں قتال کا جو حکم دیا گیا، اس کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے قانون اتمام حجت سے ہے…اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہوجاتی ہے تو منکرین حق پر اسی دنیا میں اللہ کا عذاب آجاتا ہے…

پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑ دینے کے بعد یہ ذلت اسی طرح مسلط کی جاتی ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتی ہیں۔ ساف وحاصب کا طوفان اٹھتا ہے اور ابروباد کے لشکر قوم پر اس طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا…

دوسری صورت میں عذاب کا یہ فیصلہ رسول اور اس کے ساتھیوں کے تلوار کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی۔“( میزان، قانون جہاد:597،598 )

… اس کے معنی یہ تھے کہ خدا کی جو حجت آپ کے ذریعے سے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاری پر قائم ہوئی ہے، وہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے جزیرہ نما سے باہر کی ان قوموں پر بھی قائم ہوجائے گی، اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں جزا وسزا کے قانون کا اطلاق ان قوموں پر بھی کیا جائے۔ چناں چہ یہی ہوا اور جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کرلینے کے بعد صحابہ کرام اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہوگئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجاؤ، اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمہارے لیے باقی نہیں رہی ۔ ان میں سے کوئی قوم بھی اصلا شرک کی علم بردار نہ تھی، ورنہ وہ اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرتے جو مشرکین عرب کے ساتھ کیا گیا تھا، اس سے واضح ہے کہ یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الہٰی کے عین مطابق نازل کیا گیا، لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم اورزیر دست بنا کر رکھنے کا حق اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ کرنے کی جسارت کرسکتا ہے، مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے، اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے ،اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی۔(میزان، قانون جہاد:601) (جاری)