سفر میں قصر صلوة کی مشروعیت

idara letterhead universal2c

سفر میں قصر صلوة کی مشروعیت

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

سفر میں قصر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے جس مدت سفر کو سفر قرار دیا ہے۔ اس مسافت اور مدت میں چار رکعتوں والی نمازوں یعنی ظہر، عصر، عشا، کو دو رکعتوں میں پڑھنا قصر کہلاتا ہے۔ خواہ سفر میں امن ہو یا خوف، نماز قصر ہی میں پڑھی جائے گی۔

سفر میں نماز قصر کی مشروعیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے۔

قرآن کریم کی یہی آیت قصر کے جواز اور اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے۔

﴿وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ﴾․(النساء:101)

احادیث مبارکہ میں اس کی مشروعیت کا تذکرہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں ہے۔

حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا﴾(تم پر گناہ نہیں ہے کہ کچھ کم کرو نماز میں سے اگر تم کو ڈر ہو کہ ستائیں گے تم کو کافر) اب لوگ کافروں کے حملے سے محفوظ ہوگئے (کیا اب بھی قصر کرنا جائز ہے؟) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس طرح تمہیں تعجب ہوا تھا، مجھے بھی ہوا تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: یہ (قصر) صدقہ (تحفہ)ہے ،جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تم اس صدقے کو قبول کرو۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:686، سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:1199) (اشارہ فرمادیا کہ قصر کا حکم عام ہے، خوف کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ اس عام حکم کو اپنے قیل وقال سے محدود مت کرو) آیت کریمہ حالت خوف میں قصر پر دلالت کر رہی تھی اور احادیث شریفہ حالت امن میں بھی قصر پر دلالت کر رہی ہیں۔ یوں سفر میں قصر کرنے پر تمام اہل علم کا اجماعہوگیا ہے۔

سفر میں قصر مباح ہے یا واجب؟

حنفیہ کے نزدیک سفر میں قصر کرنا اصل ہے ، عزیمت ہے اور واجب ہے، اگر کوئی مکمل نماز پڑھے گا قصر نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ کیوں کہ مسافر کے حق میں فرض ہی قصر ہوئی ہے۔ نیز سفر خواہ نیکی کا ہو یا معصیت کا، بہر صورت نماز قصر ادا کی جائے گی، کیوں کہ آیت کریمہ میں مطلق سفر پر قصر کی اجازت دی گئی ہے۔ (احکام القرآن، للتھانوی، النساء ،ذیل آیت: 101، بدائع الصنائع:1/91)

حدیث شریفہ میں”فاقبلوا صدقتہ“امر کا صیغہ ہے ،جو وجوب پر دلالت کرتا ہے اور آیت کریمہ میں:﴿لَّیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ﴾سے یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ گناہ سے نفی کا اطلاق صرف رخصت کے مواقع پر کیا جاتا ہے، واجب سے نفی، نفی کے موقع پر نہیں کیا جاتا ، کیوں کہ سورہٴ بقرة میں ہے:﴿فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا﴾ ․ (البقرة:158)سعی واجبات میں سے ہے ، لیکن سعی کرنا گناہ نہیں ہے، اس سے گناہ کی نفی کے لیے فلا جناح کا لفظ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ﴿لَّیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ﴾ سے رخصت یا محض جواز ثابت نہیں ہوگا۔ اس کا حکم مرتبی حدیث رسول ”فاقبلوا صدقتہ“سے معلوم ہوگا، جیسا کہ گزر چکا ہے۔

سفر شرعی کی مسافت

برصغیر میں جمہور علمائے دیوبند حنفیہ کے نزدیک انگریزی کلو میٹر کے اعتبار سے سفر کی شرعی مسافت 77.8 کلومیٹر ہے، میل کے اعتبار سے اڑتالیس میل اور اصل کے اعتبار سے تین دن صبح سے لے کر دوپہر تک کا معتدل سفر ہے۔

مسافت سفر کی تحقیق

ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک شرعی سفر کی مسافت دو دن کی مسلسل پیدل سفر کے بقدر ہے۔ اس میں بھی یومیہ12 گھنٹے چلنے کا اعتبار ہے۔

حنفیہ کے نزدیک شرعی سفر مسافت تین دن صبح سے لے کر دوپہر تک چلنا ہے، جس میں ضرورت طبعی بھی شامل ہے، جس کی تحدید علمائے کرام نے چھے گھنٹے یومیہ پیدل چلنے سے کی ہے۔

فذھب المالکیة والشافعیة والحنابلة واللیث والأوزاعی إلی أن أقل مدة السفر مسیرة یومین معتدلین بلا لیلة أو مسیرة لیلتین معتدلتین بلا یوم أو مسیرة یوم ولیلة، وذلک لأنھم قدروا السفر بالأمیال واعتبروا ذلک ثمانیة وأربعین میلا، وذلک أربعة برد وتقدر بسیر یومین معتدلین، واستدلوا بأن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا اھل مکة، لا تقصروا الصلاة فی ادنی من أربعة برد من مکة إلی عسفان․(الموسوعة الفقھیة: 27/270، وبدایة المجتھد:1/121، المھذب مع شرح المھذب، 2/322، المغنی:3/47)

ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ نے دو دن پیدل بارہ گھنٹے چلنے کی تحدید چار برید سے کی ہے۔ اور اس پر اتفاق ہے کہ ہر بریدمیں چار فرسخ ہوتے ہیں اور ہر فرسخ تین میل کا ہوتا ہے گویا متفقہ طور پر میل کے اعتبار سے شرعی مسافت سفر اڑتالیس میل شرعی ہوگی۔

لیکن میل شرعی کی تحدید اور مقدار میں اختلاف ہے، جس کی وجہ سے ائمہ ثلاثہ کی مسافت میں بھی اختلاف رونما ہوا۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک میل شرعی 6 ہزار ذراع کا ہوتا ہے، انگریزی حساب سے یہ مسافت دو کلومیٹر 747 میٹر، 600 ملی میٹر کی بنتی ہے، اسے اڑتالیس سے ضرب دیں تو مجموعہ:131 کلومیٹر، 673 میٹر، 600 ملی میٹر بنتا ہے اور مالکیہ کے نزدیک میل شرعی ساڑھے تین ہزار ذراع کا ہوتا ہے جس میں ذراع 36 انگل کا ہوتا ہے، جس کے 685 ملی میٹر،880 میکر میٹر بنتے ہیں ،اس کو ساڑھے تین ہزار سے ضرب دیں تو مجموعہ:2 کلو400 میٹر، 300 ملی میٹر ہوتا ہے، اب سے 48 ضرب دیں تو مجموعہ115 کلو میٹر ،214 میٹر 440 ملی میٹر ہوتا ہے، مالکیہ کے نزدیک یہی سفر شرعی کی مسافت ہے۔ (مستفاد مفتاح الأوزان مفتی عبد الرحمن القاسمی ص 31)

حنفیہ کے نزدیک حدیث رسول میں تین منزل کو مسافت سفر قرار دیا گیاہے۔

عن شریح بن ھانیٴ قال أتیت عائشة رضی اللّٰہ عنہا اسألھا عن المسح علی الخفین․ فقالت: بابن ابی طالب فاسألہ، فإنہ کان یسافر مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألناہ، فقال: جعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثة أیام ولیالیھن للمسافر، ویوما ولیلة للمقیم. ․ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:686)

وعن ابی بکرة رضی اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جعل للمقیم یوماً ولیلة وللمسافر ثلاثة ایام ولیالیھن فی المسح علی الخفین. (المنتقی لابن الجارود: 1/33)

وعن علی بن ربیعة الوالبی قال سألت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ إلی کم تقصر الصلوة؟فقال أتعرف السویداء؟ قال: قلت: لا، ولکنی سمعت بھا․ قال: ھی ثلاث لیال قواصد، فإذا خرجنا إلیھا قصرنا الصلوة․ (کتاب الاٰثار ص 39)

صحابہ کرام ، تابعین اور فقہائے متأخرین سے اس کی تحدید میں چار قول منقول ہیں۔

ثم اختلفوا فقیل احد وعشرون فرسخا وقیل ثمانیة عشر وقیل خمسة عشر، والفتوی علی الثانی لأنہ الاوسط وفی المجتبی: فتوی اکثر ائمة خوارزم علی الثالث․ (الشامی، باب صلوة المسافر، 1/123)

کان ابن عمر وابن عباس یقصران ویفطران فی أربعة برد وھو ستة عشر فرسخاً․ (صحیح البخاری، باب فی کم یقصر الصلوٰة؟)

عن نافع عن سالم أن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ خرج إلی أرض لہ بذات النصب فقصر وھی ستة عشر فرسخا․ (المصنف لابن أبی شیبة:5/357، رقم:8220)

عن ابن أبی رباح قال: قلت لابن عباس: أقصر إلی عرفة؟ فقال: لاقلت: أقصر إلی مِنی؟ فقال: لا، قلت: أقصر إلی الطائف وإلی عسفان؟ قال․ نعم، وذلک ثمانیة وأربعون میلاً وعقد بیدہ․ (المصنف لابن أبی شیبة:5/358، رقم8222)

لکن جمھور الفقہا، حددوھا باعتبار المکان بأربعة برد وھو ثمانیة و اربعون میلا استنادًا إلی بعض الاٰثار․ (الموسوعة الفقھیة الکویتیة 36/347)

وفی النھایة: الفتوی علی اعتبار ثمانیة عشر فرسخا. (البحر الرائق، کتاب الصلاة باب المسافر:2/129)

پندرہ فرسخ اور ایک فرسخ میں تین میل شرعی ہوتے ہیں لہذا پندرہ فرسخ میں پینتالیس میل شرعی ہوں گے۔

سولہ فرسخ، جس میں اڑتالیس میل شرعی ہوں گے۔

اٹھارہ فرسخ، جس میں چوّن میل شرعی ہوں گے۔

اکیس فرسخ جس میں تریسٹھ میل شرعی ہوتے ہیں۔

یاد رہے ایک شرعی میل 2000 گز ،یعنی ایک کلو میٹر 828 میٹر اور80 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے۔

اس حساب سے سب سے کم مسافت والا قول پینتا لیس میل شرعی کا ہے، جو انگریزی کلومیٹر کے حساب سے 82 کلومیٹر 296 میٹر بنتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ مسافت والا قول 63 میل شرعی کا ہے، جو انگریزی کلومیٹر کے حساب سے 115 کلومیٹر 214 میٹر 40 سینٹی میٹر ہوتے ہیں۔

اس لیے بعض محققین کا فتوی 84 میل شرعی کے اعتبار سے ہے کہ جو انگریزی حساب سے87 کلو میٹر782 میٹر 40 سینٹی میٹر بنتا ہے، اس سے کم مسافت پر نماز قصر درست نہیں سمجھتے۔ مگر جمہور علمائے دیوبند کے نزدیک 48 میل انگریزی کے حساب سے ستتر کلو میٹر مسافت قصر ہے۔ اس لیے یہاں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ 48 میل انگریزی کا حساب کس اعتبار سے کیا گیا۔ حالاں کہ سلف صالحین میں سے تو یہ قول کسی کا بھی نہیں ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت مولاناحسین مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کتب فقہ میں حکم میلوں پر نہیں ہے، بلکہ تین دن رات کی مسافت اوسط ایام سال میں متوسط آسانی رفتار یا اونٹ کی رفتار سے جملہ حوائج انسانیہ اکل و شرب، پیشاب وپاخانہ وغیرہ اور حوائج شرعیہ نماز وغیرہ انجام دیتے ہوئے اکثر حصہ یوم ولیلہ جو قطع ہوسکے وہ مسافت سفر ہے، اس قاعدہ سے بمشکل 16 میل چلا جاسکتا ہے۔ بلکہ 15 میل چلنا بھی دشوار ہوگا۔

اس لیے بعض حضرات 12 میل روزانہ اور بعض حضرات 15 میل قرار دیتے ہیں ہمارے اکابر نے 16 میل روزانہ احتیاط کے طور پر قرار دیا ہے، اس سے زائد قرار دینا غیر معقول ہے۔(فتاوی شیخ الاسلام:ص49)

گویا جمہور علمائے دیوبند کے نزدیک مسافت قصر48 میل انگریزی کے فتوی کی بنیاد موجودہ زمانے میں تین دن کی اوسط رفتار پیدل چلنے پر رکھی گئی ہے۔

صلوة خوف اور اس کا طریقہ

﴿وإذا کنت فیھم فأقمت لھم الصلوة …﴾

صلوة خوف کے جواز پر جمہور علمائے کرام کا اتفاق ہے، صلوة خوف جس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے مشروع تھی، جیسا کہ آیت کریم میں صیغہ خطاب﴿وإذا کنت فیھم فأقمت لھم الصلوة﴾سے ظاہر ہے اسی طرح آپ علیہ السلام کے بعد امت کے لیے بھی مشروع ہے، امام اس حکم میں آپ علیہ السلام کے قائم مقام بن کر نماز خوف پڑھائے گا۔ جس طرح زکوة وعشر کی وصول یابی کے لیے آپ علیہ السلام کو خطاب خاص کیا گیا ہے ﴿خذ من أموالھم﴾ اور آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صدقات واجبہ وصول فرماتے تھے، اسی طرح آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد خلیفہ المسلمین آپ علیہ السلام کا نائب بن کر صدقات واجبہ وصول کرنے کا مکلف ہے۔ ان دونوں آیتوں میں آپ علیہ السلام کو خصوصی خطاب کرنے کا یہ حکم آپ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، صحابہ کرام کا عمل اور آثار اس پر شاہد ہیں۔ اسی پر علمائے کرام اور مجتہدین کا اتفاق ہے۔

نماز پڑھنے کا یہ خاص طریقہ صرف دشمن کے خوف کی وجہ سے مشروع نہیں، بلکہ مطلق خوف ہونے کی وجہ سے مشروع ہے۔ لہذا اگر کسی درندے، سیلاب اور آفت کا یقین ہوتو اس وقت بھی اس طریقے سے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

خوف کی نماز اس وقت پڑھی جائے گی جب حالت خوف میں تمام حاضرین کسی ایک شخص کے ہی پیچھے نماز پڑھنے کے متمنی ہوں ، جس طرح صحابہ کرام رضی الله عنہ آپ علیہ السلام کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے فرد کی اقتدا میں نماز پڑھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔

اگر حاضرین دو ائمہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر راضی ہوں تو مستقل دو جماعتیں کرائی جائیں، صلوة خوف کا طریقہ نہ اپنایا جائے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوے میں گیا۔ ہم دشمن کے ساتھ کھڑے ہوگئے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری صفیں بنائیں، ایک صف نے آپ علیہ السلام کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی، آپ علیہ السلام نے ایک رکوع اور دو سجدوں میں ان کی امامت فرمائی، پھر یہ صف پہلے والے اس گروہ کی جگہ پر چلی گئی (جو دشمنوں کے مقابل تھی) جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی، وہ آئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور آپ علیہ السلام نے ایک رکوع اور دو سجدوں میں ان کی امامت فرمائی، پھر آپ علیہ السلام نے سلام پھیر دیا، پھر ان میں سے ہر گروہ نے ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔

یہ صورت اس وقت ہے جب امام مسافر ہو، غزوات میں گمان غالب یہی ہے کہ سفر کی نماز ہوگی۔ اور اگر امام مقیم ہے تو پھر وہ دونوں گروہوں کو دودو رکعت پڑھائے گا۔

کتاب الآثار میں حضرت امام محمد نے امام اعظم ابو حنیفہ سے اور امام اعظم نے اپنے استاذ حضرت حماد سے اور وہ ابراہیم سے صلوة خوف کا طریقہ نقل فرماتے ہیں:

جب امام اپنے ساتھیوں کو خوف کی نماز پڑھائے تو ایک گروہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہے، جو گروہ امام کے ساتھ کھڑا ہے اسے امام ایک رکعت نماز پڑھائے، پھر جس گروہ نے امام کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھی ہے وہ کوئی بات چیت کیے بغیر دوسرے گروہ کی جگہ پر کھڑا ہوجائے اور دوسرا گروہ امام کے پیچھے آکر نماز پڑھے، امام کے ساتھ دوسری رکعت پڑھے، پھر یہ گروہ کوئی بات چیت کیے بغیر پہلے گروہ کی جگہ جاکر کھڑا ہوجائے۔ اور پھر پہلا گروہ آئے اور تنہا بقیہ ایک رکعت پڑھے، پھر وہ جاکر دوسرے گروہ کی جگہ پر کھڑا ہوجائے اور پھر دوسرا گروہ آئے اور تنہا پہلی رکعت پڑھ لے۔ (کتاب الآثار ، رقم الحدیث: 194)

امام محمد رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں ہم اس پوری روایت پر عمل کرتے ہیں، لیکن پہلا گروہ اپنی بقیہ دوسری رکعت کی بغیر قرأت کے پڑھے گا ،کیوں کہ اس نے امام کے ساتھ پہلی رکعت پالی ہے اور دوسرا گروہ اپنی بقیہ پہلی رکعت کو قرات کے ساتھ مکمل کرے گا، کیوں کہ اس کی امام کے ساتھ ایک رکعت رہ گئی تھی، یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔(کتاب الآثار ، رقم الحدیث:195، ہدایہ اولین ص:177) یہی طریقہ ہدایہ میں درج ہے۔

اگر حالت خوف میں اس طریقے سے بھی نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو نماز چھوڑ دی جائے، بعد میں اس کی قضا کی جائے۔

دشمنوں سے ملنے والی چوٹ پر تسلی

﴿ولا تھنوا فی ابتغاء القوم…﴾

اگر کافر باوجود باطل عقیدے پر ہونے کے قتل وقتال کی مشقت سے باز نہیں آتا، بلکہ فانی زندگی کے چند فوائد کے لیے مال وجان کو خطرے میں ڈالے رکھتا ہے اور آرام وراحت کو قربان کر دیتا ہے تو پھر مسلمان کو تو اس سے زیادہ پر عزم، پر ہمت ہونا چاہیے ،کیوں کہ وہ عقیدہ توحید کا علم اٹھائے صراط مستیقم پر گام زن ہے، اگر مادی فتوحات اس کے قدموں تلے آئیں تو بھی خدا کا انعام قرار پائیں اور اس راہ میں آنے والی ہر تکلیف ومشقت کا اجر قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہو جائے، اگر اس راہ میں اس کی جان چلی جائے توشہادت کا تمغہ سجائے جنت کا مستحقٹھہرے، اس کے مقدر میں ناکامی کی کوئی صورت نہیں، اس لیے وہ کم زور ہو یا طاقت ور، خوش حال ہو یا پریشان حال، عالم کفر کا ہر میدان میں پیچھا کرنے سے ہمت مت ہارے۔

﴿اِنَّ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اَرٰاکَ اللّٰہُ وَ لَا تَکُنْ لِّلْخَآئنِیْنَ خَصِیْمًا، وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا، وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا، یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا، ہٰاَنْتُمْ ہٰؤُلَآء ِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُ عَلَیْہِمْ وَکِیْلًا، وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہ، ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا، وَ مَنْ یَّکْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَکْسِبُہ، عَلٰی نَفْسِہ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا، وَ مَنْ یَّکْسِبْ خَطِیْئةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہ بَرِیْئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا،وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُہ، لَہَمَّتْ طَّآئفَةٌ مِّنْہُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْء ٍ وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا،لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰہُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآء َ مَرْضَاتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا،وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ وَ سَآئَتْ مَصِیْرًا﴾․ (سورة النساء، آیت:115-105)

بے شک ہم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی کہ تو انصاف کرے لوگوں میں جو کچھ سمجھا وے تجھ کو اللہ اور تو مت ہو دغا بازوں کی طرف سے جھگڑنے والا اور بخشش مانگ اللہ سے، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور مت جھگڑ اُن کی طرف سے جو اپنے جی میں دغا رکھتے ہیں، اللہ کو پسند نہیں جو کوئی دغا باز گناہ گارO شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اور وہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس پر اللہ راضی نہیں اورجو کچھ وہ کرتے ہیں سب اللہ کے قابو میں ہےO سنتے ہو تم لوگ جھگڑا کرتے ہو ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں، پھر کون جھگڑا کرے گا ان کے بدلے اللہ سے قیامت کے دن یا کون ہوگا ان کا کارساز؟ اور جو کوئی کرے گناہ یا اپنا برا کرے پھر اللہ سے بخشواوے تو پاوے اللہ کو بخشنے والا مہربانO اور جو کرے گناہ سو کرتا ہے اپنے ہی حق میں اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہےO اور جو کوئی کرے خطا یا گناہ پھر تہمت لگادے بے گناہ پر تو اس نے اپنا سر دھرا بہتان اور گناہ صریح اور اگر نہ ہوتا تجھ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تو قصد کر ہی چکی تھی ان میں ایک جماعت کہ تجھ کو بہکاویں اور بہکا نہیں سکتے مگر اپنے آپ کو اور تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ نے اتاری تجھ پر کتاب اور حکمت اور تجھ کو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر بہت بڑا ہےO کچھ اچھے نہیں ان کے اکثر مشورے مگر جو کوئی کہ کہے صدقہ کرنے کو یا نیک کام کرنے کو یا صلح کرانے کو لوگوں میں اور جو کوئی یہ کام کرے اللہ کی خوشی کے لیے تو ہم اس کو دیں گے بڑا ثوابO اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے راستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچاO

شان نزول

عہدنبوی میں چوری کا ایک واقعہ پیش آیا، حضرت رفاعہ کے گھر سے اناج اور اسلحہ چوری ہوا، ان کو بنوابیرق پر شبہ ہوا اور اس کا اظہار بھی کیا، اور وہ واقعی چور تھے، مگر حضرت رفاعہ کے پاس اپنے دعوی کی سچائی پر کوئی ثبوت نہیں تھا، دوسری طرف بنو ابیرق نے جب راز فاش ہونے کا خطرہ محسوس کیاتو چوری کی تہمت ایک مخلص صحابی حضرت لبید پر لگادی اور اپنے کنبے کو لے کر ابو رفاعہ کی شکایت کے لیے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگئے، ابو رفاعہ نے بھی اپنے بھتیجے حضرت قتادہ کو آپ علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دیا تھا، جنہوں نے سارا ماجرا آپ کو سنایا۔ چوں کہ ابو رفاعہ اور قتادہ کے پاس دعوے کے ثبوت کے لیے کوئی شرعی شہادت نہیں تھی، اس لیے آپ علیہ السلام نے اس الزام تراشی پر ناگواری کا اظہار فرمایا، ابو رفاعہ اور ان کے بھتیجے شرمساری کے ساتھ اپنے دعوے سے دست بردار ہوگئے، اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں ،جن میں بنو ابیرق کے سرقہ بازی اور ابورفاعہ کی سچائی اور لبید کے حسن کردار کا بیان ہے۔ ان آیات کے ذریعے بنو ابیرق کی سرقہ بازی کا راز کھل گیا اور انہوں سرقہ شدہ سامان آپ علیہ السلام کے حوالے کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اصل مالکان کے سپرد فرمایا۔ (جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق