حدِّزنا اور اس کی حکمتیں

حدِّزنا اور اس کی حکمتیں

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعةً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً وَاللَّذَانَ یَأْتِیَانِہَا مِنکُمْ فَآذُوہُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیْماً﴾․ (سورة النساء، آیت:16-15﴾
ترجمہ:اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے، پھر اگر وہ گواہی دیویں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں، یہاں تک کہ اٹھالیوے ان کو موت یا مقرر کر دے اللہ ان کے لیے کوئی راہ اور جو دو مردکریں تم میں سے وہی بدکاری تو ان کو ایذا دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان کا خیال چھوڑ دو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

ربط…زمانہ جاہلیت میں جس طرح عورتوں کے ساتھ مالی حق تلفی کی غصب میراث کی صورت میں ہوتی تھی اس طرح ان کی جسمانی عزت و عصمت بھی پامال ہوتی تھی، تہمتوں کے ذریعے ان کی شخصیت مجروح کی جاتی تھی، ان معاشرتی نا ہمواریوں اور بیماریوں کی اصلاح اور سدّباب کے لیے یہ احکام بیان کے گئے۔

زنا کی تعریف اور سزا
فقہاء نے زنا کی دو اصطلاحی تعریفیں کی ہیں۔ ایک عام۔ دوسری خاص۔

عام تعریف وہ ہے جس میں زانی کو اللہ تعالیٰ کا نا فرمان اور گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار دے کر قابل تعزیر قرار دیا جاتا ہے۔ شرعًا اس پر حد جاری نہیں ہوتی۔

خاص تعریف وہ ہے جس میں زانی کو اللہ تعالیٰ کا نا فرمان اور گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار دے کر اس پر حد بھی جاری کی جاتی ہے۔ چوں کہ آیت کریمہ میں دنیاوی سزا کا تذکرہ ہے اس مناسبت سے یہ خاص تعریف بیان کی جاتی ہے۔
علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”أما الزنا فہو اسم للوطء الحرام فی قبل المرأة الحیة فی حالة الاختیار فی دار العدل ممن التزم أحکام الإسلام العاری عن حقیقة الملک وعن شبہتہ وعن حق الملک وعن حقیقة النکاح وشبہتہ وعن شبہة الإشتباہ فی موضع الاشتباہ فی الملک والنکاح جمیعا․“(بدائع الصنائع: 7/33)

”اختیار کے ساتھ دار الاسلام میں زندہ عورت کی اگلی شرم گاہ میں مرد کا اپنے عضو تناسل کے حشفہ کو داخل کرنا زنا کہلاتا ہے اور یہ مرد وہ ہو جس نے اپنے اوپر اسلامی احکام لازم کر رکھے ہوں، یعنی مسلمان ہو اور جس عورت کے ساتھ یہ فعل بد کیا ہے، وہ نہ اس کی ملکیت ہو، نہ اس میں ملکیت کا شبہ ہو، نہ اس پر کسی درجہ کا حق ملکیت ہو۔ نکاح اور شبہ نکاح سے بھی خالی ہو، نیز نکاح اور ملکیت کا شبہ اشتباہ بھی نہ پایا جاتا ہو“۔

زنا کی ابتدائی سزا
الفاحشہ کی تفسیر میں اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ بعض حضرات نے اس سے زنا کے علاوہ مبادی زنا اور بے حیائی کے اقوال وافعال مراد لیے ہیں، لیکن یہ قول محل نظر ہے، کیوں کہ زنا کے علاوہ مبادی زنا پر سزا کے لیے چار گواہوں کی شرط نہیں ہے، نیز اس آیت میں اللہ تعالی نے (یجعل اللّٰہ لھُنَّ سبیلاً) کے ذریعے مستقبل میں ان کے متعلق مستقل فیصلے کا اشارہ دیا ہے، لیکن مبادی زنا پر مستقلاً احکام نازل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے لیے تعزیری سزا ہی ہے، جو مسلمانوں کے امیر و خلیفہ کی رائے پر موقوف ہے۔

جمہور علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ ”الفاحشة“سے زنا مراد ہے، ابتدا میں ثبوت زنا پر چار گواہوں کا حکم دیا گیا ہے، جب گواہوں کے ذریعے زنا ثابت ہو جائے تو عورتوں کے لیے حکم یہ تھا کہ انہیں گھروں میں محبوس کردیا جائے، معاشرتی مقاطعے سے انہیں اپنے گناہ پر ندامت ہو گی، اور گھر کی چار دیواری میں محدود ہو کر مردوں سے اختلاط ختم ہوجائے گا جو زنا کا سبب بنتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے ﴿أویجعل اللہ لھن سبیلاً﴾ کے موافق زنا کے مرتکبین کے لیے مستقل احکام بیان فرمائے ہیں،شادی شدہ مرد و عورت کے لیے سنگساری ہے اور کنوارے مردو عورت کے لیے سو سو کوڑے ہیں، کنواروں کے لیے کوڑوں کی سزا سورة النور میں مذکور ہے۔ ﴿الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائة جلدة﴾ (النور:2) ”بدکاری کرنے والی عورت اور مرد سو مارو ہر ایک کو دونوں میں سے سو سو درّے“اور سنگساری کی سزا حدیث رسول میں مذکور ہے، چناں چہ حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ سے (یہ حکم لے )لو، مجھ سے (یہ حکم لے) لو، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے راہ نکال دی ہے، اگر کنوارہ مرد کنواری عورت سے زنا کا مرتکب ہو تو تو سو کوڑے لگاؤ اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو ان کو سو کوڑے لگاؤ اور سنگسار کردو“۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:1690وجامع الترمذی:رقم الحدیث:1439)

جمہور مفسرین اور علمائے کرام کے نزدیک آیت کریمہ میں زانیہ کو گھر میں مقید کرنے کا حکم گزشتہ حدیث کی وجہ سے منسوخ ہو چکا ہے، علامہ رازی رحمہ اللہ نے اس نسخ پر اجماع نقل فرمایا ہے اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے علماء کی متفقہ رائے قرار دیا ہے۔

ناسخ پر اہل علم کا اختلاف
اس حکم کے لیے ”ناسخ“آیت کریمہ ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم؟ جمہور علمائے کرام کے نزدیک سنت متواترہ قرآنی حکم کے لیے ناسخ بن سکتی ہے، اس لیے حضرت عبادہ بن صامت سے مروی حدیث حکم قرآنی کے لیے ناسخ ہے، بعض اہل علم حدیث کے ذریعے قرآنی حکم کے نسخ کے قائل نہیں، ان کے نزدیک زانیہ کی سزا کا یہ ابتدائی حکم سورة النور کی آیت سے منسوخ ہے، کیوں کہ قرآنی حکم کے نسخ کے لیے قرآنی حکم کا ہونا ضروری ہے۔

بعض اہل علم نے اس کی توجیہ یہ بھی بیان فرمائی کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا تھا، ﴿أو یجعل اللہ لھن سبیلاً﴾ اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راہ نکالے گا، یہ ابہام تھا، اس کی وضاحت حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ذریعے ہو گئی، گویا حدیث رسول کی حیثیت ناسخ کی نہیں، بلکہ بیان اور وضاحت کی ہے۔

حدود میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فاستشھدوا علیھن اربعة منکم﴾ ”منکم“ چار مسلمان مردوں کی طرف اشارہ ہے۔(تفسیر کبیر رازی، النساء، ذیل آیت آیة:15،وتفسیر ابن کثیر، النساء،ذیل آیت:15، وتفسیر الخازن، النساء، ذیل آیت:15)
حدود میں گواہی صرف چار مردوں کی قابلِ قبول ہو گی ،حدود میں عورتوں کی گواہی قابلِ اعتبار نہیں ہے، کیوں کہ عورتوں میں باہمی حسدو کینہ کی شدت انہیں جھوٹ پر آمادہ کر سکتی ہے، خواتین منفعل مزاج ہوتی ہیں۔ اس لیے اس حساس اور نازک مسئلے کا مدار ان پر نہیں رکھا جا سکتا ہے، ابوبکر بن ابی شیبہ رحمة الله علیہ نے اپنی ”مصنف “میں علما کا اجماع نقل فرمایا ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں۔

امام زہری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارکہ میں اور آپ کے بعد آپ کے دونوں خلفاء حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں یہ طریقہ رہا ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی ناقابلِ اعتبار ٹھہرتی۔

حسن بصری رحمة الله علیہ کا فرمان ہے، حدود میں عورتوں کی گواہی ناقابل ِقبول ہے۔
حضرت سفیان رحمة الله علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حماد رحمة الله علیہ سے سنا: عورتوں کی گواہی حدود کے متعلق معتبر نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ:10/59 تا 60)

علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا اس مسئلے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔( احکام القرآن للقرطبی، النساء، ذیل آیت:15)

چار گواہوں کی حکمت واہمیت
اہل ایمان کی ناموس و عصمت پر پردہ رکھنے کے لیے چار گواہوں کی شرط رکھی گئی، عین زنا کی حالت میں چار گواہوں کا ایک ہی وقت میں موجود ہو نا ممکن تو ہے، مگر اس کا وجود مشکل ہے، اور اگر چار سے کم افراد نے کسی کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ ان کے متعلق زبان نہیں کھول سکتے وگرنہ انہیں حد قذف لگائی جائے گی۔
اسلام اہلِ اسلام کی پردہ پوشی چاہتا ہے، پردہ دری نہیں۔

چار گواہوں کی شرط لگا کر اس کے ثبوت کو اس لیے بھی مشکل کر دیا گیا کہ اگر کہیں یہ عمل بد انجام دیا گیا ہے، گناہ کے اس سرانڈ کو وہیں محدود کر دیا جائے، اس کی شہرت انسانوں کے مستقبل کو تباہ کرسکتی ہے، بلکہ دو خاندانوں کی عزت و ناموس کی چادراتار سکتی ہے، دونوں خاندانوں میں یہ بدنامی کئی بڑے گناہوں مثلاً قتل و غارت گری کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، گواہوں کا نصاب پورا نہ ہونے کی وجہ سے گواہوں کی خاموشی ان تمام فتنوں کا سدِ باب ہے۔

چار افراد کی گواہی کی شرط کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دو افراد مل کر کسی سے اپنی دشمنی کا بدلہ نکالنے کے لیے تہمت لگانے پر متفق ہو سکتے ہیں ، مگر چار افراد کا اتنے بڑے اقدام پر جھوٹ پر متفق ہونا مشکل ہے، کیوں کہ تفتیشی عمل میں ان کا جھوٹا بھرم قائم رہنا مشکل ہوجاتا ہے، نتیجے میں خود ہی حد قذف کے سزاوار ہوجاتے ہیں، گویا چار گواہوں کی شرط کسی پر ناجائز تہمت سے محفوظ رکھتی ہے۔

اگر کوئی خود سے زنا کا اقرار کر لے تو اس کے لیے چار گواہوں کی ضرورت نہیں ہے، حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے، قبیلہ اسلم کا ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور زنا کے جرم کا اعتراف کیا۔ آپ نے اس سے منھ پھیرلیا، اس نے پھر اقرار کیا اور جب وہ چار دفعہ قسم کھا چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا:کیا تو پاگل ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں!آپ نے پوچھا:کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے جواب دیا!جی ہاں! پھر آپ علیہ السلام نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، لوگ اسے عید گاہ کی طرف لے گئے اور سنگسار کر نے لگے، جب اس پر پتھر پڑنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، لوگوں نے اس کا پیچھا کر کے اسے جا لیا اور اسے سنگسار کر دیا۔

کسی بھی حکمِ شرعی کے لیے سب سے پہلے اور سب سے آخری بات یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، عبدیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر بلاچوں چراں عمل کیا جائے، اللہ تعالیٰ ہمارا خالق و مالک ہے، وہ ہر طرح کے احکام کے مکلف کرنے کا سزا وار ہے، اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، اور نہ وہ کسی کو جواب دہ ہے، اس کے ہر حکم میں حکمت و بھلائی ہے، جس کی معرفت سے انسانی عقل و فہم قاصر ہے، وہ اپنے بندوں کے احوال سے خوب واقف بھی اور اپنے احکام کی حکمتیں بھی خوب جانتا ہے۔

کیا میڈیکل رپورٹ کے ذریعے ملزم پر حد زنا جاری ہو گی؟
اگر کسی خاتون کے ساتھ کسی مرد نے زنا بالجبر کر لیا، خاتون نے عدالت میں آکر دہائی دی، اب اس صورت میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، پہلا سوال تو یہ ہے کہ خاتون کے پاس کوئی گواہ نہیں ہیں، لیکن میڈیکل رپورٹ کے تمام قرائن ملزم کو متعین کرتے ہیں، مثلاً فلاں شخص کی منی اس خاتون کی اندام نہانی میں پائی گئی ہے، اور کیمیکل چیک اپ، انگلیوں کے نشانات کے سائنسی ثبوت بھی موجود ہیں، علاوہ ازیں خارجی قرائن مثلاًملزم کا خاتون کے پاس پایا جانا یا ان کا پرانا تعلق ہونابھی موجود ہیں تو کیا رپورٹیں اور قرائن گواہی کے قائم مقام ہو کر اس شخص کے خلاف ثبوت حدّ کے لیے کافی ہیں یا نہیں؟

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر کوئی خاتون زنا بالجبر کا دعوی کرے اور ملزم کے خلاف چار عینی گواہ پیش نہ کرسکے تو کیا ملزم پر تہمت زنا کی وجہ سے اس مجبور اور مظلومہ خاتون کو حدقذف (یعنی زنا کی جھوٹی تہمت لگانے) کی سزا دی جائے گی یا نہیں؟

پہلے سوال کا جواب:
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ طبی معائنے اور خارجی قرائن ثبوت حد کے لیے ناکافی ہیں، یہ سارے ثبوت باہمی ملن جلن کو تو ثابت کرتے ہیں، زنا کے عمل کو ثابت نہیں کرتے، حد تو شبہ سے بھی ساقط ہو جاتی ہے، مذکورہ صورت بھی اپنے اندر کئی طرح کے شبہات رکھتی ہے، اس کے ہوتے ہوئے حد کیسے جاری کی جا سکتی ہے؟ لیکن ثبوت حد نہ ہونے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ شخص بریٴ الذمہ ہے اور اس کا کوئی جرم نہیں، اسلام نے اس صورت حال میں مسلمانوں کے امیر اور قاضی کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی صواب دیدپر اس کے لیے کوئی بھی سزا تجویز کر کے مظلومہ خاتون کی داد رسی کرے۔

دوسرے سوال کا جوا ب:
اگر کوئی خاتون زنا بالجبر کی شکایت لے کر عدالت جائے تو اسے صرف اس بنا پر حدّ قذف (جھوٹی تہمت کی سزا) نہیں دی جاسکتی کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی۔

حقوق نسواں کی آڑ میں اسلامی حدود و تعزیرات کو ہدف ملامت بنانے والے بعض لوگ اسی طرح کے پروپیگنڈا کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ مارتے ہیں اور بے تکان اسلام کے حد قذف کو نشانہ بنانے کے لیے یہ دعویٰ کرتے چلے جاتے ہیں کہ اگر زنا بالجبر میں مظلوم عورت گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کو حد قذف میں دھر لیا جائے گا۔ مظلوم عورت پر ایک ظلم کے بعد یہ دوسرا ظلم ہے۔

یاد رکھیے! زنا بالجبر کی شکایت کرنے والی، عدالت میں دہائی دینے والی، زانی کے خلاف استغاثہ کرنے والی خاتون اگر چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس پر حد قذف جاری نہیں ہوتی، کیوں کہ طلب انصاف اور دفع ظلم کی غرض سے زنا کی نسبت کسی سے کرنے سے وہ قذف، یعنی تہمت شمار نہیں ہوتی۔

زنا باہمی رضامندی سے ہو، یا بالجبر ہو حد میں دونوں برابر ہیں
عصر حاضر کے کئی ممالک میں باہمی رضامندی سے ہونے والے زنا کو جرم نہیں سمجھا جاتا ،بلکہ اسے انسان کے انفرادی عمل اور اس کی شخصی کے آزادی کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ البتہ زنا بالجبر کو بہت قبیح اور جرم گردانا جاتا ہے۔

اسلام ایک پاکیزہ معاشرے کا تصور رکھتا ہے، جس میں حسب ونسب کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس لیے اسلام کی نظر میں زنا معاشرے کا ایک قبیح جرم ہے، جو اجتماعیت کے پاکیزہ تصور کو پاش پاش کردیتا ہے، اس لیے اسلام کی نظر میں زنا رضامندی سے ہو خواہ بالجبر دونوں صورتوں میں قبیح اور قابل تعزیر جرم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگساری کی سزا جس طرح باہمی رضا مندی سے زنا کرنے والوں پر جاری فرمائی اسی طرح زنا بالجبر کے مرتکبین پر بھی جاری فرمائی۔ چناں چہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے لیے نکلی، راستے میں ایک آدمی نے زبردستی اس سے زنا کر لیا، اس خاتون کے شور مچانے پر وہ بھاگ گیا، بعد میں اس شخص نے اعتراف کر لیا کہ اس خاتون کے ساتھ اس نے زنا بالجبر کیا تھا، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر حدِ جاری فرمائی، لیکن عورت پر حد جاری نہیں فرمائی۔( جامع الترمذی، رقم الحدیث:1453)

صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک باندی کے ساتھ زنا بالجبر کر لیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مرد پر حد جاری فرمائی اور خاتون کو سزا نہیں دی ،کیوں کہ اس کے ساتھ زبردستی ہوئی تھی۔(صحیح بخاری:رقم الحدیث:6949)

ان دونوں روایات سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو زنا کی حد کو صرف باہمی رضامندی سے ہونے والے زنا کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں اور زنا بالجبرکی صورت کو حدِ زنا سے نکالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، تاکہ باہمی رضا مندی سے زنا کرنے والوں کو حد زنا سے بچنے کا ایک حیلہ اس طرح میسر ہو جائے کہ ان میں سے ایک فریق لڑکا یا لڑکی زنا بالجبر کا دعویٰ کردے، یوں ان کا معاملہ حدِ زنا سے نکل کر تعزیرات میں آجائے گا۔

احناف کے ہاں حدِ زنا
اگر زانی اور زانیہ کنوارے ہیں تو ان کی سزا سو کوڑے ہیں، ایک سال جلا وطنی کی جس سزا کا ذکر حدیث عبادہ بن صامت میں آیا ہے وہ تعزیر پر محمول ہے، مسلمانوں کے امیر و خلیفہ کی رائے پر موقوف ہے، حد میں شامل نہیں ہے۔
اور اگر زنا کار شادی شدہ ہیں تو ان کی سزا سنگسار ہے، حدیث عبادہ بن صامت میں کوڑے مارنے کا جو تذکرہ ہے، وہ تعزیر پر محمول ہے، حد کا حصہ نہیں، کیوں کہ آپ علیہ السلام نے حضرت ماعز اور غامدیہ رضی اللہ عنہما کو بلا کوڑے مارے سنگسار کا حکم دیا تھا۔

یہودو نصاری میں زنا پر کوڑوں کی سزا
کنوارے زانیوں پر کوڑوں کی سزا اور شادی شدہ زانیوں پر سنگساری کی سزا کا حکم صرف شریعت محمدیہ میں نہیں، بلکہ دیگر آسمانی مذاہب میں بھی اس کا حکم ہے، لیکن چوں کہ دیگر مذاہب بالخصوص نصاری عملی زندگی سے شریعت کا طوق اپنی گردن سے اتار چکے ہیں اور یہود کی عملی زندگی کو کبھی زیر بحث نہیں لایا جا تا۔ اس لیے سارا الحاد کا نزلہ مسلمانوں پر گرتا ہے۔ ذیل میں زنا پر کوڑوں کی سزا کے متعلق چند حوالہ جات نقل کیے جاتے ہیں۔
عہد نامہ قدیم کی کتاب استثناء جو تورات کی پانچ کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، اس میں جن خاص دس احکام کا تذکرہ ہے، ان میں ایک یہ تھا ”تو زنا نہ کرنا“(استثناء5::18) ایک حکم یہ تھا”تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا“۔
عہد نامہ جدید میں زنا کی قباحت پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول مذکور ہے:
”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا، زنا نہ کرو، لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔“(متی،5:27 تا28)

کرنتھیوں کے نام پولس رسول کے پہلے خطبے میں مذکور ہے:
”حرام کار خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے، نہ زنا کار۔ (کرنتھیوں کے نام پولس رسول کا پہلا خط:6:9)

یہودو نصاریٰ کی عدالتوں میں کوڑے کی سزا معمول کی سزا تھی، جس کی ایک جھلک استثناء کی ان آیتوں سے دیکھی جا سکتی ہے۔

اگر لوگوں میں کسی طرح کا ایک جھگڑا ہو اور وہ عدالت میں آئیں، تاکہ قاضی ان کا انصاف کرے تو وہ صادق کو بے گناہ ٹھہرائیں اور شریر پر فتویٰ دیں اور اگر وہ شریر پٹنے کے لائق نکلے، تو قاضی اسے زمین میں لٹا کر اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی شرارت کے مطابق اسے گن گن کر کوڑے لگوائے ۔(استثناء:5:21)

وہ اسے چالیس کوڑے لگائے، اس سے زیادہ نہ مارے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس سے زیادہ کوڑے لگانے سے تیرا بھائی تجھ کو حقیر معلوم ہونے لگے۔( استثناء ئی:25:1 تا3)۔ (جاری)