انبیاء علیہم السلام کی اپنے اُمتیوں کے متعلق گواہی

انبیاء علیہم السلام کی اپنے اُمتیوں کے متعلق گواہی

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْداً، یَوْمَئِذٍ یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَعَصَوُاْ الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّی بِہِمُ الأَرْضُ وَلاَ یَکْتُمُونَ اللّہَ حَدِیْثاً، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُکَارَی حَتَّیَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُباً إِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتَّیَ تَغْتَسِلُواْ وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مِّنکُم مِّن الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَیَمَّمُواْ صَعِیْداً طَیِّباً فَامْسَحُواْ بِوُجُوہِکُمْ وَأَیْْدِیْکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَفُوّاً غَفُوراً﴾․ (سورة النساء، آیت:43-41)

پھر کیا حال ہو گا جب ہم بلاویں گے ہر امت میں سے احوال کہنے والا اور بلاویں گے تجھ کو ان لوگوں پر احوال بتانے والا؟O اس دن آرزوئیں کریں گے وہ لوگ جو کافر ہوئے تھے اور رسول کی نافرمانی کی تھی، کاش برابر کیے جائیں وہ زمین میں اور نہ چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی باتO اے ایمان والو!نزدیک نہ جاؤ نماز کے کہ جس وقت تم نشہ میں ہو، یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ اس وقت کہ غسل کی حاجت ہو مگر راہ چلتے ہوئے، یہاں تک کہ غسل کر لو اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آیا ہے کوئی شخص تم میں جائے ضرورت سے یا پاس گئے ہو عورتوں کے، پھر نہ ملاتم کو پانی تو ارادہ کرو زمین پاک کا، پھر مَلو اپنے منھ کو اور ہاتھوں کو، بے شک اللہ ہے معاف کرنے والا ، بخشنے والاO۔

انبیاء علیہم السلام کی اپنے امتیوں کے متعلق گواہی
﴿فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا …﴾ قیامت کے دن کسی امت پر فرد جرم عائد کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ہر نبی کو گواہی کے لیے حاضر فرمائیں گے، ہر نبی اپنی امت کے متعلق گواہی دیں گے، کہ میری امت فرماں بردار تھی، یا نافرمان تھی، تب ان پر فرد جرم عائد ہو گااور سزا کے مستحق ٹھہریں گے، آپ علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا:﴿وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْداً﴾”آپ کو ان کی گواہی پر بلائیں گے“۔ اس میں دو احتمال ہیں: سابقہ انبیاء علیہ السلام کی گواہی پر مہر تصدیق کے لیے آپ علیہ السلام کی آمد ہو گی اور آپ ان انبیاء علیہم السلام کی تصدیق فرمائیں گے کہ یہ سچی گواہی دے رہے ہیں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی امت کے متعلق گواہی کے لیے تشریف لائیں گے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ!میں آپ کو قرآن پڑھ کر کیسے سناؤں حالاں کہ قرآن تو آپ پر ہی نازل ہوا ہے؟! آپ نے فرمایا:مجھے دوسروں سے سننا پسند ہے۔ تب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے سورة النساء پڑھنا شروع کی، جب اس آیت: ﴿فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْداً﴾ پر پہنچے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:بس کرو، اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:4582) ابنِ ابی حاتم نے ایک دوسرے صحابی سے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله تعالیٰ عنہما کے علاوہ دیگر صحابہ کرام بھی تھے، آپ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا، چناں چہ پڑھنے والا جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْداً﴾آپ علیہ السلام اشک بار ہوگئے، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کی داڑھی ورخسار تر ہو گئے۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:5344) راوی کہتے ہیں:

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:﴿وکنت علیہم شھیداً مادمتُ فیہم. فلمَّا توفیتنی کنت أنت الرقیب علیہم﴾․ جب تک میں ان میں موجود ہوں ان کے معاملات کا گواہ ہوں، (اے اللہ) جب آپ میری روح قبض کر لیں گے، تب آپ ہی ان کے اعمال کے نگہبان ہیں۔ آپ علیہ السلام کے ان الفاظ مبارک سے معلوم ہوا کہ : ﴿وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء﴾․میں ”ھؤلاء“سے امت ِمحمدیہ مراد ہے اور آپ علیہ السلام امتِ محمدیہ کی گواہی کے لیے حاضر ہوں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی حیاتِ مبارکہ کے بعد آنے والے امتیوں کے اعمال پر گواہی کیسے دیں گے؟ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو مطلع فرما کر ہی گواہی کے لیے طلب فرمائیں گے اور یہ اطلاع کیسے ہوگی؟ اسے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مبہم رکھا ہے اسی طرح ہمیں بھی مبہم رکھنا چاہیے، کرید میں نہیں پڑنا چاہیے، اور اس کا دوسرا تحقیقی جواب وہ ہے جسے محدثین و مفسرین نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر امت کے احوال پیش کیے جاتے ہیں، اسی بنا پر ان کی فرماں برداری اور نا فرمانی کے احوال سے مطلع ہوں گے۔ روضہ مبارک پر امت کے اعمال پیش کیے جانے کی احادیث و آثار پیش کیے جاتے ہیں:

عن ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیاتی خیر لکم تحدثون ویحدث لکم ووفاتی خیر لکم تعرض علیّ أعمالکم فما رأیت من خیر حمدت اللّٰہ علیہ وما رأیت من شر استغفرت اللّٰہ لکم.(قال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد:9/24 رجالہ رجال الصحیح․ رواہ البزار فی مسندہ کما فی کشف الأستار عن زوائد البزار: 1/397 إسناد رجالہ رجال الصحیح․ قال الحافظ السیوطی فی الخصائص الکبریٰ: 2/281 سندہ صحیح)

”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں:آپ علیہ السلام نے فرمایا:میرا زندہ رہنا بھی تمہارے لیے اس طور پر بہتر ہے کہ تمہیں جن نئے پیش آمدہ مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اس کا حل پیش کر دیا جاتا ہے اور میرا دنیا سے رخصت ہونا بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ (بعد از وفات) تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے۔ ان میں بہتری دیکھوں گا تو اللہ کی حمد بیان کروں گا اور ان میں شر دیکھوں گا تو تمہارے لیے دعائے مغفرت کروں گا۔“

جامع صغیر میں ہے:
”تعرض الأعمال یوم الاثنین والخمیس علی اللّٰہ، وتعرض علی الأنبیاء وعلی الأباء والأمہات یوم الجمعة، فیفرحون بحسناتہم، وتزداد وجوھھم بیاضاً وإشراقاً، فاتقوا اللّٰہ ولا تؤذوا موتاکم․“(الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم الحدیث:6195)

”پیر اور جمعرات کے دن بارگاہ الٰہی میں اعمال نامے پیش کیے جاتے ہیں اور جمعہ والے دن انبیاء ، اور والدین پر اعمال نامے پیش کیے جاتے ہیں، وہ ان کے اچھے اعمال سے خوش ہوتے ہیں، ان کے چہروں کی چمک اور سفیدی بڑھ جاتی ہے۔ پس اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے فوت ہو جانے والے عزیزوں کو اذیت مت دو“۔

علامہ آلوسی رحمة الله علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ”فإن أعمال أمتہ علیہ الصلاہ والسلام تعرض علیہ بعد موتہ“․ آپ علیہ السلام کی امت کے اعمال آپ کی وفات کے بعد بھی آپ پر پیش کیے جاتے ہیں اور استدلال میں اول الذکر حدیث پیش فرمائی ۔
(روح المعانی، النساء، ذیل آیت:41)

ابن کثیر رحمة الله علیہ نے اپنی تفسیر میں ابو عبداللہ قرطبی کے حوالے میں سے عرض اعمال کے متعلق مختلف آثار میں تطبیق بیان کر کے فرمایا::”فإنہ یحتمل أن یخص نَبِیُّنَا بما یعرض علیہ کل یوم ویوم الجمعة مع الأنبیاء علیہ وعلیہم أفضل الصلاة والسلام“․(تفسیر ابنِ کثیر، النساء، ذیل آیت:41) ممکن ہے ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت روزانہ اعمال نامے پیش کیے جاتے ہوں اور جمعہ کے دن دیگر انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں دوبارہ پیش کیے جاتے ہوں۔

حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ حضور صلی الله علیہ وسلم پر اعمال کے پیش ہونے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مختلف احادیث و آثار نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”اس کے بعد جواب معروض ہے کہ یہ مضمون حدیثِ صحیح میں وارد ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم پر بعد از وفات امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں، نیک اعمال کو دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں اور گناہوں کو دیکھ کر استغفار فرماتے ہیں، لیکن اس روایت میں کوئی خاص دن مذکور نہیں، بلکہ ایک ضعیف روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور والدین کے سامنے جمعہ کے دن امت کے اور اولاد کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں“۔(إمداد الأحکام، جلد:1، ص:162)
ان آثار سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام پران کی امتوں کے احوال پیش کیے جاتے ہیں، اسی بنا پر قیامت کے دن وہ گواہی کے لیے حاضر ہوں گے، چوں کہ ان آثار پر محض محدثین نے کلام بھی فرمایا ہے، اس لیے گواہی ان پر موقوف نہیں ہے، گواہی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطلع ہوجانے کے بعد ادا کر دی جائے گی، گواہی کے لیے علم قطعی ہونا کافی ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے بھی حاصل ہو، گواہی کے لیے مشاہدہ عینی اور حضوری ضروری نہیں ہے۔
جیسا کہ بعض لوگ گواہی کے لیے حضوری کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کائنات ایک تھالی کی طرح حضور صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہے، یہاں تک کہ ہر پتے اور ہر ذرّے کا علم آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہے، چناں چہ اثنا عشریہ کے مجتہد اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”رسالت مآب تمام نبیوں پر شاہد ہیں اور شاہد کے لیے حضوری شرط ہے، لہٰذا حضور کریم کو تمام انبیاء کے اعمال پر علمِ حضوری حاصل ہے“۔(بلاغ القرآن، ترجمہ حواشی محسن علی نجفی، امامیہ آرگنائزیشن پاکستان، النساء، ذیل آیت:45)

اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے کہ امتِ محمدیہ کو دیگر اُمتوں پر گواہ مقرر کیا گیا ہے، ﴿لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ﴾ (البقرة:143) تم دوسری امت کے متعلق گواہ بنو گے۔ جب قیامت کے دن امتِ محمدیہ دیگر امتوں پر گواہی دینے کے لیے حاضر ہوگی تو کس بنا پر گواہی دے گی؟ حضوری کی بنا پر؟ یہ بداہةً باطل ہے، کیوں کہ امت کے کسی فرد کو علم حضوری حاصل نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ”شھید“ یا ”شھداء“ سے حضوری کا استدلال درست نہیں ہے،مجتہد صاحب گواہی کے لیے علمِ حضوری کو صرف اس لیے ثابت کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اس کے بعد اپنے بارہ ائمہ کے حق میں علمِ حضوری ثابت کرنا آسان ہو جائے۔

کیا کفار بھی فروع دین کے مکلف ہیں؟
﴿یَوْمَئِذٍ یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَعَصَوُاْ الرَّسُولَ﴾ قیامت کی سختیوں اور ہول ناکیوں کو دیکھ کر کافر اور حضور صلی الله علیہ وسلمکے نافرمان تمنا کریں گے کہ کاش! انہیں فنا کر دیا جاتا، یہ زندگی ہی نہ ملتی، اپنے اعمال بد کے نتائج اور ان میں کسی قسم کی تخفیف کا آسرا نہ ملنے کی صورت میں، ناامید ہو کر، اپنے دنیا کے سارے کرتوت خود ہی ظاہر کرنا شروع کردیں گے اور کسی قسم کی بات چھپانے کی کوشش نہیں کریں گے، حالاں کہ وہ شروع میں اپنے شرکیہ عمل سے انکاری ہو چکے ہوں گے اور کہیں گے: ﴿مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ﴾․ (الأنعام:23)

آیتِ کریمہ میں ﴿وَعَصَوُاْ ﴾کا عطف لفظ ﴿کَفَرُواْ ﴾پر ہو رہا ہے اور یہاں عصیان سے کفر کے علاوہ کے گناہ مراد ہیں، کیوں کہ عطف تغایر کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی آیت سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ کفار کفر کی حالت میں بھی فروع دین کے پابند ہیں اور اسی فروعِ دین میں نافرمانی کو آیت کریمہ میں ﴿وَعَصَوُاْ ﴾ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (تفسیر ابي السعود ، النساء، ذیل آیت:42)

علامہ شامی رحمة الله علیہنے رد المحتار کی کتاب الجہاد میں ایک پورا عنوان اسی موضوع کا باندھا ہے، جس میں اس موضوع پر فقہائے کرام کے مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں، مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تین اقوال سامنے آتے ہیں، جنہیں دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اپنی معروف زمانہ کتاب ”اسباب اختلاف الفقہاء“میں ذکر کیا ہے۔
پہلا قول یہ ہے کفار بھی احکامِ شرعیہ کے مکلف ہیں اور یہی قول راجح ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ مکلف نہیں ہیں۔
تیسرا قول یہ ہے کہ نواہی کے مکلف ہیں، اوامر کے مکلف نہیں ہیں۔

اس اختلاف کی بنا پر کئی مسائل میں اختلاف نے جنم لیا، مثلاً: پہلی مثال:اگر ذمی نے زنا کا ارتکاب کر دیا تو اس پر حد واجب ہو گی یا نہیں؟ جن کے نزدیک کفار بھی احکامِ شرعیہ کے مکلف ہیں ان کے نزدیک اس پر حد واجب ہو گی اور جو اہلِ علم کفار کو غیر مکلف ٹھہراتے ہیں ان کے نزدیک اس پر حد واجب نہیں ہوگی۔

دوسری مثال:کیا کفار کے حق میں ظہار، طلاق، قسم، نذر، گواہی وغیرہ کے احکام درست ہیں یا نہیں؟

تیسری مثال:مسلمان اور کافر مال میں شریک ہیں، مسلمان کے پاس تیس بکریاں ہیں اور کافر کے پاس بیس بکریاں ہیں، ان کے یکجا ہونے سے زکوٰة کا نصاب مکمل ہو گا یا نہیں…اس اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کئی اختلاف رونما ہوئے۔

احناف، شوافع اور حنابلہ کے ہاں اس مسئلہ پر دو دو یا اس سے زائد اقوال ملتے ہیں ۔

مولانا انور شاہ کشمیری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:
کفار کو جو ہم معاملات میں مکلف ٹھہراتے ہیں، اس کا مطلب اگر یہ ہو کہ آخرت میں اس پر ثواب اور عقاب مرتب ہو گا تو اس کے درست ہونے پر کوئی شک نہیں اور اگر یہ مطلب ہو کہ دنیوی احکام میں صحت و فساد کا حکم لگے گا، یعنی جس طرح ایک مسلمان کے معاملات کے بارے میں ہم صحت و فساد کا حکم لگاتے ہیں اس طرح کفار کے معاملات پر بھی دنیا میں صحت و فساد کا حکم لگے گا، تو اس میں یہ عموم درست نہیں، کیوں کہ ہدایہ میں ہے:”اگر کوئی کافر بغیر گواہوں کے یا کسی دوسرے کافر کی معتدہ عورت سے نکاح کرلے اور اس طرح کرنا ان کے دین میں جائز ہو، پھر یہ دونوں مسلمان ہو جائیں تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان کو اسی نکاح پر بر قرار رکھا جائے گا“۔ اس کی وجہ صاحبِ ہدایہ نے یہ بیان کی ہے کہ یہاں بطور حقِ شرع حرمت ثابت کرنا ممکن نہیں، کیوں کہ حقوقِ شرع کے کفار مخاطب نہیں ہوتے اور نہ ہی بطور حقِ زوج عدت واجب کی جاسکتی ہے، کیونکہ زوج اس کا معتقد ہی نہیں ہے۔

اسی طرح ابن الہمام رحمة الله علیہنے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان حربی کو مردار، خنزیر یا چوہا فروخت کرتا ہے اور اس کے عوض میں مال کماتا ہے تو یہ امام ابو حنیفہ رحمة الله علیہ اور امام محمدرحمة الله علیہ کے نزدیک حلال ہے، اگر کفار معاملات کے صحت و فساد کی بنیاد پر مکلف ہوتے تو پہلی صورت میں نکاح درست نہ ہوتا اور دوسری صورت میں مال حلال نہ ہوتا، ایسی اور بھی نظیریں موجود ہیں جو تتبع اور تلاش سے مل سکتی ہیں، لہٰذا جس طرح عقوبات سے حد شرب کا استثنا کیا گیا ہے، اسی طرح معاملات میں بھی کوئی ایسی قید لگائی جائے جس سے کتب فقہ میں صراحتاً وارد شدہ فروع کا استثنا ہو سکے۔(فتح الملہم، کتاب الإیمان، باب الدعاء إلی الشھادتین وشرائع الإیمان:1/541،542 بحوالہ کشف الباری، کتاب العلم، جلد:۴، ص:125-124)

شانِ نزول
نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے ممانعت
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُکَارَی …﴾ اس آیت کریمہ میں بحالت نشہ نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ نشہ کی وجہ سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے اور زبان سے اول فول نکلنے کا پورا امکان رہتا ہے، جب کہ نماز حضوری کا مقام ہے، نماز بارگاہ الٰہی میں عجزو نیاز کے ساتھ ہم کلامی کی ایک کیفیت کا نام ہے، جس میں عقل و خرد کے سارے تار لقائے الٰہی کی تجلی سے جڑے ہوتے ہیں۔ ابتدائے اسلام میں شراب کی حرمت بتدریج نازل ہوئی ہے، اس لیے جب تک اس کی حرمت کا صریح حکم نہیں آیا تھا تب تک اس کا ذوق رکھنے والے مسلمانوں میں اس کا دور چلتا رہا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․(المائدہ:9)
اس کے بعد شراب نوشی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی، اس آیت کریمہ کے شانِ نزول میں مختلف روایات ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت علی رضی الله عنہ نے شراب پی، پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے نماز پڑھائی اور نماز میں آیت کے پڑھنے میں غلطی ہو گئی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور نشہ کی حالت میں نماز سے منع کر دیا گیا۔

امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص کو امام بنایا گیا، اس سے قرأت کی غلطی ہوئی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔(المستدرک للحاکم:2/307)

حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے ہمیں کھانے کی دعوت دی، پھر ہمیں شراب پلائی، ہم نے شراب پی، یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا،انہوں نے نماز پڑھانے کے لیے مجھے آگے کردیا، میں نے نماز میں یہ آیت پڑھی: ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ، لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ، ونحن نعبد ما تعبدون﴾ (یعنی آخری آیت:﴿ولا أنتم عبدون ما أعبد﴾کی جگہ﴿ونحن نعبد ما تعبدون﴾پڑھ دیا، جس سے ترجمہ یوں بن گیا:ہم انہیں کی عبادت کرتے ہیں جن کی تم کرتے ہو) تب یہ آیت نازل ہوئی ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُکَارَی حَتَّیَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ﴾․ (سنن أبی داود، جامع الترمذی، رقم الحدیث:3026)

نشہ کی حالت میں پڑھی جانے والی نماز نہیں ہوتی، کیوں کہ عقل کو زائل کرنے والا نشہ جنون کے حکم میں ہوتا ہے، آپ علیہ السلام نے غلبہ نیند کی حالت میں بھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا:”إذا نعس أحدکم وھو یصلی فلیرقد حتی یذہب عنہ النوم؛ فإن أحدکم إذا صلی وہو ناعس لا یدری لعلہ یستغفر فیسبّ نفسہ“․(صحیح البخاری، رقم الحدیث:213) جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں اونگھنے لگے اسے چاہیے نماز چھوڑ کر سو جائے، تاکہ نیند کا خمار اتر جائے، کیوں کہ جب تم میں سے کوئی اونگھ کی حالت میں نماز پڑھتا ہے تو وہ خود نہیں جانتا کہ وہ استغفار کررہا ہے یا خود کو گالیاں دے رہا ہے۔