صبر کی حقیقت اورفضیلت

صبر کی حقیقت اورفضیلت

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔

(ایک حدیث میں ہے:”أنا عندالمنکسرة قلوبھم من أجلی“․ میں ان لوگوں کے پاس ہوں جن کے دل میری وجہ سے ٹوٹے ہوں۔ (فیض القدیر للمناوی، حرف الألف:2/69)

اور انکسار قلب کوقبولیت دعا کے لیے بڑا سبب قرار دیا گیا ہے، چناں چہ ”فیض القدیر“ میں ہے:(ثلاث تستجاب دعوتھم… المسافر… لأن السفر مظنة حصول انکسار القلب بطول الغریة عن الأوطان وتحمل المشاق، والانکسار من أعظم أسباب الإجابة․(فیض القدیر للمناوی، رقم الحدیث:3496)

یہ دل جتنا ٹوٹے گا، اتنا ہی الله تعالیٰ کی نگاہ میں عزیز ہو گا #
          تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
          کہ شکست ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
اور ان آزمائشوں، مصائب ، تکالیف، صدموں کی وجہ سے انسان کے درجات میں اتنی ترقی ہوتی ہے کہ عام حالات میں اتنی ترقی نہیں ہوتی #
          یہ کہہ کے کوزہ گر نے پیالہ پٹک دیا
          اب اور کچھ بنائیں گے اس کو بگاڑ کے

واقعہ: ایک نہایت پاک دامن اور نیک خاتون تھی، ان کی خواہش تھی کہ مجھے خواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے، ان کے خاوند بھی الله والے تھے، ایک دن انہوں نے اپنے خاوند کے سامنے بھی اپنی تمنا کا اظہار کیا اور کوئی عمل پوچھاکہ جس سے یہ سعادت نصیب ہو جائے، خاوند نے کہا میں آپ کو عمل بتاؤں گا لیکن آپ کو میری بات ماننا پڑے گی، بیوی نے حامی بھرلی تو خاوند نے کہا کہ اچھا تم بن سنور کر دلہن کی طرح تیار ہوجاؤ، چناں چہ وہ عورت اسی طرح بن سنور کر دلہن کی طرح تیار ہو گئی، جب وہ تیار ہوگئی، تو ان کے خاوند بیوی کے بھائی کے پاس چلے گئے اور اس سے کہا کہ دیکھومیری کتنی عمر ہوچکی ہے اوراپنی بہن کو دیکھو کہ وہ کیا بن کر بیٹھی ہے۔ جب بھائی گھر آیا او راس کو دلہن کے کپڑوں میں دیکھا تو اس نے بہن کو ڈانٹنا شروع کیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی، کیا یہ عمرہے دلہن بننے کی! اب جب بھائی نے ڈانٹ پلائی تو اس کا دل ٹوٹا ، اور اس نے رونا شروع کر دیا او رروتے روتے سو گئی، الله کی شان کہ اسی رات خواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوگئی، تو وہ خاوند سے کہنے لگی کہ آپ نے تو مجھے عمل بتایا ہی نہیں او رمجھے زیارت ہو گئی، تو خاوند نے کہا کہ یہی عمل تھا، کیوں کہ جب میں نے تیری زندگی پر غو رکیا ، مجھے تیرے اند رہر نیکی نظر آئی، البتہ میں نے محسوس کیا کہ چوں کہ ہماری زندگی پیار محبت سے گزر رہی ہے آپ کا دل کبھی نہیں ٹوٹا، اس لیے میں نے سوچا کہ جب آپ کا دل ٹوٹے گا تو الله تعالیٰ کی رحمت اترے گی اور آپ کی تمنا کو پورا کر دیا جائے گا)۔

ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم الله تعالیٰ سے آزمائش نہ مانگیں، ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم الله تعالیٰ سے عافیت مانگیں۔( رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا:”اللھم إنی اسئلک الصبر“ اے الله میں آپ سے صبر مانگتا ہوں۔

تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”سألت الله البلاء فسئلہ العافیة․“ تم نے الله تعالیٰ سے بلاء کو مانگ لیا ہے۔ الله تعالیٰ سے عافیت مانگا کرو۔ (سنن الترمذی، باب جامع الدعوات، رقم الحدیث:3527)

حکیم الأمت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں: حدیثوں میں جو صبر کی دعا آئی ہے اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہاں”صبر علی البلاء“ بلا پر صبر مراد نہیں ہے، صبر علی الطاعة یا عن المعاصی“ (نیکیوں پر جمے رہنا یا گناہوں سے رکے رہنا مراد) ہے۔ (تسہیل تربیت السالک:3/286)

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا طلب عافیت کا معمول
حضرت ابن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں :”لم یکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم یدع ھؤلاء الکلمات حین یمسي وحین یصبح“․

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ان کلمات کو صبح کے وقت اور شام کے وقت چھوڑا نہیں کرتے تھے۔ (وہ کلمات یہ ہیں)
” اللھم إنی اسألک العافیة في الدنیاو الآخرة، اللھم إنی أسألک العفو والعافیة في دیني ودنیاي وأھلي ومالي، اللھم استر عوراتی وآمن روعاتی، اللھم احفظني من بین یديّ ومن خلفي وعن یمینی وعن شمالی ومن فوقي ،وأعوذ بعظمتک أن اغتال من تحتي“․ (سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح، رقم:5076، و مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب مایقول عند الصباح والمساء، رقم الحدیث:2397)

بہترین دعا عافیت کی دعا ہے:
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”سلوا الله العفو والعافیة، فإن احداً لم یعط بعد الیقین خیراً من العافیة․“ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب جامع الدعوات، رقم:2489)

الله تعالیٰ سے بخشش اور عافیت مانگو، اس لیے کہ کسی کو یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اپنے چچا حضرت عباس رضی الله عنہ کو دعاء عافیت کی نصیحت:

حضرت عباس رضی الله عنہ نے ایک دفعہ عرض کیا، علمنی شیئا أسألہ الله، اے الله کے رسول! مجھے کچھ سکھلائیے جو میں الله سے مانگوں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” سل الله العافیة․“ الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، (حضرت عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں) کہ میں کئی دن ٹھہرا رہا، پھر میں آپ صلی الله علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوا او رعرض کیا اے الله کے رسول! مجھے کچھ سکھلائیے جو میں الله سے مانگوں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: یا عباس، یا عم رسول الله!سل الله العافیة في الدنیا والآخرة“ اے عباس، اے الله کے رسول کے چچا، الله تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی عافیت مانگو۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3536)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے او رعرض کیا، یا رسول الله! أی الدعاء أفضل؟ اے الله کے رسول! کون سی دعا افضل ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”سل ربک العافیة والمعافاة في الدنیا والآخرة․“

اپنے پروردگار سے دنیا وآخرت کی خیریت وعافیت طلب کرو۔ وہ صاحب دوسرے دن آئے اور یہی سوال کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہی جواب دیا، وہ تیسرے دن آئے اور وہی سوال کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہی جواب دیا اور پھر فرمایا: ”فإذا أعطیت العافیة في الدنیا وأعطیتھا في الآخرة فقد أفلحت“․

جب تم دنیا میں عافیت دیے گئے اور آخرت میں بھی عافیت دیے گئے تو تم یقینا کام یاب ہو گئے۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3534)

اپنے اور اہل وعیال کی عافیت کے لیے بہترین دعا
ایک صحابی نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا، اے الله کے رسول! مجھے اپنی جان اور اپنے اہل وعیال ومال کے بارے میں خوف ضر رہتا ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صبح شام یہ پڑھ لیا کرو:
”بسم الله علی دیني ونفسي وولدی وأہلي ومالي“․

چند دن کے بعد یہ شخص آئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اب کیا حال ہے؟ اس شخص نے عرض کیا، والذي بعثک بالحق! لقدذھب ماکنت أجد․ اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث فرمایا، میرااب خوف غائب ہو گیا․(کنز العمال، کتاب الأذکار، دعاء الصباحین، رقم:4959)

ایک عجیب واقعہ
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے ایک واقعہ بیان کیا ہے، کہ حضرت سمنو ن رحمہ الله پر ایک دفعہ حالت غالب آئی اور اس وقت ان کے منہ سے نکلا
          ولیس لي في سواک حظ
          فکیف ماشئت فاختبرني
کہ مجھے جس طرح چاہو آزمالو، مجھے آپ کے سوا کسی چیز میں حظ نہیں۔ یہ سخت بات تھی جس پرغیب سے امتحان شروع ہوگیا کہ ا ن کا پیشاب بند ہو گیا او راب دعا بھی نہیں کرتے ،کیوں کہ دعا کرتے ہوئے شرماتے تھے، یہ بھی ایک حال تھا ، مگر اس سے کامل تر حال یہ تھا کہ دعا کرتے او رکہتے کہ مجھ سے خطا ہوئی، میں توبہ کرتا ہوں، مجھے آپ کے امتحان کا تحمل نہیں۔ مگر مغلوب کو کوئی رائے نہیں دی جاسکتی، پھر حق تعالیٰ نے ان کے صبر پر رحم فرما کر صحت دے دی۔

چناں چہ حضرت سمنون مکتب کے بچوں کے پاس جاتے او ران سے فرماتے:”ادعوا لعمکم الکذاب“ اے بچو !تم اپنے جھوٹے چچا کے لیے دعا کرو۔ کذاب اس لیے کہا کہ دعوے پر جمے نہ رہے، امتحان کا تحمل نہ کرسکے۔ (خطبات حکیم الامت:11/55)

لیکن اگر آزمائش آجائے تو اس پر صبر کرنا چاہیے۔( صبر کہتے ہیں اپنے نفس کو روکنے او راس پر قابو پانے کو ۔ صبر کے تین شعبے ہیں: ایک تو معروف یہی صبر ہے کہ مصائب وآفات پر صبر کرنا، یعنی جو مصیبت آگئی اس کو الله تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا او راس کے ثواب کا امیدوار ہونا۔ اور دوسرا شعبہ ہی صبر علی ترک المحارم والمآثم، اس کو صبر عن العمل بھی کہتے ہیں، یعنی شریعت نے جن چیروں سے منع کیا ہے، ان سے رکنااور تیسرا شعبہ ہے صبر علی فعل الطاعات والقربات، اس کو صبر علی العمل بھی کہتے ہیں، یعنی نفس کو نیک اعمال پر روک لینا، نیک اعمال پر جم جانا، قائم رہنا۔ (تفسیرابن کثیر، سورة البقرة، آیت:154)

صبر کرنے کی فضیلت
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”عجبا لأمر المؤمن، إنّ أمرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سّراء شکر، فکان خیرالہ، وإن أصابتہ ضراء صبر، فکان خیرالہ“

مومن بندے کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملہ او رہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت وآرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم وکریم رب کا فیصلہ اوراس کی مشیت کا یقین کرتے ہوئے ) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبربھی اس کے لیے سراسرخیر اور موجب برکت ہوتا ہے۔ (الجامع الصحیح لمسلم، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر، رقم الحدیث:2999)

ایک اور حدیث میں ہے:”من أصیب بمصیبة في مالہ أو في نفسہ فکتمھا ولم یشکھا إلی الناس، کان حقا علی الله أن یغفرلہ․“

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ کسی جانی مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے ،تو الله تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں۔ ( المعجم الکبیر للطبراني، أحادیث عبدالله بن العباس، رقم الحدیث:11438)

صبر مصیبت پہنچنے کے بعد فوراً ہونا چاہیے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:” یا ابن آدم! إن صبرت واحتسبت عند الصدمة الأولیٰ لم أرض لک ثوابا دون الجنة“․

اے ابن آدم! اگر تونے شروع صدمہ میں صبر کیا او رمیری رضا اور ثواب کی نیت کی، تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے ( یعنی شروع صدمے میں صبر کرنے کی جزا جنت ہے) (سنن ابن ماجہ ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصبر علی المصیبة، رقم:1597)

آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا، رونا یہ صبر کے خلاف نہیں
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت زینب رضی الله عنہا نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ میرے بچے کا آخری دم ہے، لہٰذا آپ اس وقت تشریف لے آئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سلام کہلا کے بھیجا او رپیغام دیا کہ بیٹی! إن لله ما أخذ ولہ ما أعطی وکل عندہ بأجل مسمی فلتصبرو لتحتسب․ الله تعالیٰ کسی سے جو کچھ لے وہ بھی اسی کا ہے او رکسی کو جو کچھ دے وہ بھی اسی کا ہے، اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اوروقت مقرر ہے (اور اس وقت کے آجانے پر وہ چیز اس دنیا سے اٹھالی جاتی ہے ) پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور الله تعالیٰ سے اس صدمہ کے اجرو ثواب کے طالب بنو۔ صاحب زادی نے پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا اور قسم دی کہ اس وقت حضور ضرور ہی تشریف لے آئیں، پس آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھ کر چل دیے اور آپ کے اصحاب میں سے سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل ، ابی بن کعب ،زید بن ثابت رضی الله عنہم او ربعض اور حضرات بھی ساتھ ہو لیے، پس وہ بچہ اٹھا کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی گود میں دیا گیا او راس کا سانس اکھڑ رہا تھا، اس کے حال کو، دیکھ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس پر سعد بن عبادہ نے عرض کیا، حضرت یہکیا؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ھذہ رحمة جعلھا الله في قلوب عبادہ، وإنما یرحم الله من عبادہ الرحماء․

یہ رحمت کے اس جذبہ کا اثر ہے جو الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دیا ہے اور الله کی رحمت ان ہی بندوں پر ہوگی جن کے دلوں میں رحمت کا یہ جذبہ ہو۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلی الله علیہ وسلم یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ علیہ، رقم الحدیث:1284)

صبر سے متعلق دو مختلف قسم کی احادیث میں تطبیق
”امداد الفتاویٰ“ میں ہے:
سوال… کسی صحابی نے صبر کی دعا کی تھی تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ تم نے بلا کی درخواست کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر کی دعا مانگنا ممنوع ہے، جب کہ اللھم جعلنی صبورا دعا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر کی دعا مانگنا جائز ہے؟

الجواب: تطبیق ان میں یہ ہے کہ صبر کے دو درجہ ہیں: ایک خلق وملکہ ،دوسرا صدور وفعل۔ اول کا حاصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی قوت پیدا ہو جائے کہ اگر کوئی بلا آوے تو اس کا تحمل کرسکے ۔اور یہ بلا آنے پر موقوف نہیں،بدون اس کے بھی وہ قوت متحقق ہو سکتی ہے، اور یہ مطلوب ہے،دوسری حدیث میں یہی درجہ مراد ہے، جیسا کہ صفت کا صیغہ اس کا قرینہ ہے۔ اور دوسرے درجہ کا حاصل یہ ہے کہ فی الحال اس کا وقوع ہو، اور یہ بلا آنے پر موقوف ہے اور حدیث اول میں یہ درجہ مراد ہے، جیسا کہ صیغہ مصدر کا اس کا قرینہ ہے(امداد الفتاوی:4/49،498)

حضرت ایوب علیہ السلام ان کا سارا مال چلا گیا، ختم ہو گیا، ان کی ساری اولاد مر گئی، ان پر طرح طرح کی بیماریاں، ایسی بیماریاں جو ناقابل برداشت ہوں، لیکن صبر، ان کی بیوی جنہوں نے ان کی دل وجان سے دن رات خدمت کی، اس خدمت کے نتیجے میں وہ بھی بیمار ہو گئیں، ان کو بھی بیماریاں لگ گئیں اور طویل زمانہ بیماریوں میں رہے۔

اب حضرت ایوب علیہ السلام نے دعا مانگی اور الله تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، لیکن کوئی بات ایسی زبان سے نہیں نکلی کہ یا الله میں تو آپ کا نبی ہوں، مجھے آپ نے کس آزمائش میں ڈال دیا؟ نہیں، صبر ، صبر۔(حافظ ابن کثیر رحمہ الله نے حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے کی جو تفصیل لکھی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو ابتداء میں مال ودولت او رجائیداد اور شان دار مکانات اور سواریاں اور اولاد او رحشم وخدم بہت کچھ عطا فرمایا تھا، پھر الله تعالیٰ نے ان کو پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلاکیا، یہ سب چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل گئیں او ربدن میں بھی ایسی سخت بیماری لگ گئی کہ سوائے زبان اور دل کے جسم کا کوئی حصہ اس بیماری سے نہ بچا، وہ اس حالت میں زبان وقلب کو الله کی یاد میں مشغول رکھتے اور شکر ادا کرتے رہتے تھے، رشتہ داروں نے بھی الگ کر دیا اور کوئی ان کے پاس نہ جاتا تھا، صرف ان کی بیوی جو حضرت یوسف علیہ السلام کی بیٹی یا پوتی تھی، وہ ان کی خبر گیری کرتی تھی، ان کی زوجہ محترمہ محنت مزدوری کرکے اپنے لیے او ران کے لیے رزق فراہم کرتی تھیں۔

حضرت ایوب علیہ السلام نے سات سال اور چند ماہ اسی حالت میں گزارے او رکبھی جزع فزع یا شکایت کا کوئی کلمہ زبان پر نہیں آیا، بلکہ یزید بن میسرہ فرماتے ہیں : کہ جب الله تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو مال واولاد وغیرہ سب دنیا کی نعمتوں سے خالی کرکے آزمائش فرمائی، تو انہوں نے فارغ ہو کر الله کی یاد او رعبادت میں اور زیادہ محنت شروع کر دی اور الله تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے مجھے مال، جائیداد اور دولت دنیا اور اولاد عطا فرمائی جس کی محبت میرے دل کے ایک ایک جزء پر چھا گئی، پھر اس پر بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے مجھے ان سب چیزوں سے فارغ اور خالی کر دیا اور اب میرے اورآپ کے درمیان حائل ہونے والی کوئی چیز باقی نہ رہی۔

اس حالت میں بے مثال صبر کے ساتھ اتنا عرصہ گزارا، ایک دفعہ زوجہ محترمہ نے عرض بھی کیا کہ آپ کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے ،الله تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ یہ تکلیف دور ہو جائے۔

تو فرمایا: کہ میں نے ستر سال صحیح تندرست الله تعالیٰ کی بے شمار نعمت ودولت میں گزارے ہیں، کیا اس کے مقابلے میں سات سال بھی مصیبت کے گزارنے مشکل ہیں، پیغمبرانہ عزم وضبط اور صبر وثبات کا یہ عالم تھاکہ دعا کرنے کی بھی ہمت نہ کرتے تھے کہ کہیں صبر کے خلاف نہ ہو جائے۔

بالآخر کوئی ایسا سبب پیش آیا جس نے ان کو دعا کرنے پر مجبور کر دیا، چناں چہ ان کی دعا قبول ہوئی اور ان کو حکم ہوا کہ زمین پر ایڑی لگائیے، یہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹے گا، اس میں غسل کیجیے اور اس کا پانی پی جیے، انہوں نے ایسا کیا تو غسل کرتے ہی سارا جسم اپنی اصلی حالت پر آگیا۔

حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے سات بیٹے او رسات بیٹیاں تھیں، وہ اس ابتلاء کے زمانے میں مر گئے تھے، ان کو بھی الله تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرما دیا او ران کی اہلیہ سے نئی اولاد بھی عطا فرمائی او ران کا مال ودولت بھی واپس کر دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، تفسیر ابن کثیر، سورة الانبیاء، آیت:83، و تفسیر الطبری، سورة الانبیاء، آیت:83، و الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة الانبیاء، آیت:83)

امام الانبیاء، سیدالرسل محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا صبر، الله اکبر، وہ لوگ جو آپ کو امین اور صادق کہتے تھے، جہاں آپ نے لا إلہ إلا الله کی دعوت اور لا إلہ إلا الله کا نعرہ بلند کیا، سب ختم، کیسے کیسے الزامات آپ صلی الله علیہ وسلم پر لگائے گئے، طعنے دیے گئے، کوئی کہتا یہ جادوگر ہے، کوئی کہتا نعوذ بالله یہ جھوٹے ہیں، کوئی کہتا یہ شاعر ہیں، کوئی کہتا یہ مجنون ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم حرم میں نماز پڑھ رہے ہیں، نماز کے دوران سجدے کی حالت میں اونٹ کی اُوجھڑی آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوپر ڈال دی گئی۔(وکان صلی الله علیہ وسلم یطوف علی الناس في منازلھم یقول: إن الله یامرکم أن تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا، وابولھب وراہ یقول:﴿یا أیھا الناس، إن ھدا یأمرکم أن تترکوا دین آبائکم․ ورماہ الولید بن المغیرة بالسحر، وتبعہ وقومہ عن ذلک وآذتہ قریش ورموہ بالشعر والکھانة والجنون․ ومنھم من کان یحثو التراب علی راسہ، ویجعل الدم علی بابہ، ووطیٴ عقبة بن أبي معیط علی رقبتہ الشریفة وھو ساجد عند الکعبة، حتی کادت عیناہ تبرزان، وخنقوہ خنقا شدیدا، فقام أبوبکر دونہ، فجذبوا رأسہ ولحیتہ صلی الله علیہ وسلم، حتی سقط أکثر شعرہ، فقام ابوبکر دونہ وھو یقول: أتقتلون رجلا أن یقول ربی الله․

…وفي روایة البخاری أیضاً:”کان علیہ الصلاة والسلام یصلي عند الکعبة وجمع من قریش في مجالسھم، إذ قال قائل منھم: ألا تنظرون إلی ھذا المرائي أیکم یقوم إلی جزور آل فلان، فیعمد إلی فرثھا ودمھا وسلاھا فیجيٴ بہ، ثم یمھلہ حتی إذا سجد وضعہ بین کتفیہ، فانبعث أشقاھم، فلما سجد علیہ السلام وضعہ بین کتفیہ، وثبت النبي صلی الله علیہ وسلم ساجداً، وضحکوا حتی مال بعضھم علی بعض من الضحک․ (شرح المواھب اللدنیة، الاجھار بدعوتہ صلی الله علیہ و سلم:1/471-466، و کذا في الروض الأنف، ذکری مالقیہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم من قومہ:2/41-40)

آپ صلی الله علیہ وسلم کا معاشی مقاطعہ کیا گیا، سوشل بائیکاٹ کیا گیا،شعب ابی طالب میں تین سال آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے جو مقرب تھے، وہ پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے، کھجور کی گٹھلیاں کھا کر گزارہ کرتے تھے، اور سب نے آپ کا بائیکاٹ کیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے، البدایة والنھایة:4/207، الروض الأنف:2/160، دلائل النبوة للبیہقی، باب دخول النبي صلی الله علیہ وسلم مع من بقي من أصحابہ شعب أبی طالب:2/311)

آپ صلی الله علیہ وسلم کے قتل کی نعوذ بالله منصوبہ بندیاں ہوئیں اور اتنا ستایا اتنا ستایا کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو ہجرت کرنی پڑی، مکہ چھوڑنا پڑا۔ (دلائل النبوة للبیہقي، باب مکر المشرکین برسول الله صلی الله علیہ وسلم عصمة الله رسولہ وإخبارہ إیاہ بذلک حتی خرج مع أبي بکر مھاجرا:2/465)

آپ طائف تشریف لے گئے، آپ پر پتھراؤ ہوا، آپ کا جسم زخمی ہوا، آپ کے پیر اور نعل خون سے آلودہ ہو گئے۔ (شرح المواھب اللدنیة، خروجہ صلی الله علیہ وسلم إلی الطائف:2/49)

یہ سارے واقعات، یہ کس کے ہیں؟ سید الانبیاء، سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے۔

لیکن کہیں بھی پایہ استقامت میں لرزش نہیں آئی، ڈٹے ہوئے ہیں، الله تعالیٰ فرمارہے ہیں۔ ”ولنبلونکم بشيٴ من الخوف والجوع․“

اور البتہ ضرور بالضرور ہم تم کو آزمائیں گے، کچھ خوف کے ساتھ، تھوڑے خوف کے ساتھ زیادہ خوف کا تم تحمل نہیں کرسکتے، والجوع، بھوک بھی، ونقص من الأموال، مال کم کرکے،والأنفس، اور موت دے کر، جان لے کے،والثمرات، جو پھل ہیں ان کو کم کرکے۔

یہ آزمائش ہے، یہ آزمائش آئے گی اور یہ ابتلا آئے گا، اور مختلف شکلوں میں آئے گا مختلف صورتوں میں آئے گا، مختلف نوعیتیں ہوں گی۔

لیکن ان آزمائشوں سے جو لوگ گزریں گے، صبر کریں گے، وبشر الصابرین، خوف آئے گا، الله کی طرف متوجہ ہوں گے، مال کا معاملہ آئے گا، الله کی طرف متوجہ ہوں گے، جان کا معاملہ آئے گا، الله کی طرف رجوع ہوں گے، ثمرات میں کمی آئے گی، الله کی طرف رجوع ہوں گے۔

الذین إذا أصابتھم مصیبة، وہ صبر کرنے والے جب ان پر کوئی مصیبت اور آزمائش آتی ہے،قالوا، إنالله، تو وہ اس وقت کہتے ہیں بے شک ہم الله کے لیے ہیں، ہم الله کے بندے ہیں،وإنا إلیہ راجعون اور بے شک ہمیں لوٹ پلٹ کر کہاں جانا ہے؟ الله کی طرف۔ لہٰذا اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله کی کتاب میں میں نے پڑھا کہ انہیں ایک بیماری لگی، اس بیماری کا نام ہے ”ہر پیز“ وہ بیماری ایسی ہوتی ہے، ہمارے حضرت والد صاحب رحمہ الله کوبھی ہوئی تھی کہ وہ پیٹ کے اوپر یا دائیں یا بائیں طرف ایک چھوٹا سا دانہ نکلتا ہے اور وہ جو دانہ ہوتا ہے اس میں سے چنگاریاں نکلتی ہیں، جو دوڑتی ہیں اِدھر سے اُدھر، آدمی کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔

تو مفتی محمد شفیع صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے وہ” ہر پیز“ کی بیماری لاحق ہوئی او رمجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی، میں نے الله تعالیٰ سے دعا کی کہ اے الله! یہ آزمائش ہے اور آزمائش بھی اے الله آپ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ اس سے تو ایمان ترقی کرتا ہے، لیکن پھر میں نے کہا کہ اے الله! میں بہت کم زور ہوں، میں آپ کی اتنی بڑی نعمت کا تحمل نہیں کرسکتا، اے الله! میری اس آزمائش کو آپ عافیت میں بدل دیں۔

میرے دوستو! یہ وہ سبق ہے یہ وہ تربیت ہے جو الله تعالیٰ اپنے بندوں کی کرنا چاہتے ہیں، مصائب آئیں، پریشانیاں آئیں، صبر سے کام لو، ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکلے، خدانخواستہ جب بھی کوئی مصیبت آئے، پریشانی آئے ،فوراً وضو کرو ،دو رکعات نماز پڑھو، الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، دعا کا اہتمام ہو، یہ کام کرنے کے بعد اسباب کے درجے میں کوئی اورکام کرنا چاہتے ہو تو کرسکتے ہو، منع نہیں ہے، لیکن دیکھا جا ئے گا کہ اول وہلہ میں آپ نے کیا کیا؟ توجو مومن ہو گا اس کا فوری رد عمل یہ ہو گا کہ وہ الله کی طرف رجوع ہو گا، وہ الله سے مانگے گا اور وہ اسے الله کی طرف سے سمجھے گا۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․