اللہ تعالیٰ کے متعلق یہود کی گستاخیاں

اللہ تعالیٰ کے متعلق یہود کی گستاخیاں

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

علمائے بریلی کے چند دلائل اور ان کا تجزیہ
ازل سے لے کر جنت و جہنم میں داخل ہونے تک کائنات کے ذرے ذرے کے علم پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک بھی اپنے مدّعیٰ پر واضح نہیں۔

قرآن کریم میں سے سب سے مضبوط دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کی جاتی ہے،﴿وعلمک مالم تکن تعلم﴾(النساء:113)

جاء الحق میں مفتی احمدیار خان صاحب لکھتے ہیں: اس آیت اور تفاسیر سے معلوم ہواکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو تمام آئندہ اور گزشتہ واقعات کی خبر دے دی گئی، کلمہ ”ما“ عربی زبان میں عموم کے لیے ہوتا ہے، تو آیت سے یہ معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام ،دنیا کے سارے واقعات، لوگوں کے ایمانی حالات وغیرہ جو کچھ بھی آپ کے علم میں نہ تھا، سب ہی بتا دیا، اس میں یہ قید لگانا کہ اس سے مراد صرف احکام ہیں، اپنی طرف سے قید ہے، جو قرآن و حدیث اور امت کے عقیدے کے خلاف ہے۔(جاء الحق:ص:49،50)

پہلا جواب:
اس استدلال کا سارا دارو مدار اس بات پر ہے کہ کلمہ ”ما“ عربی زبان میں عموم کے لیے ہوتا ہے، حالاں کہ یہ صحیح نہیں، سید شریف جرجانی حنفی لفظ” من اور ما “وغیرہ اسمائے موصولہ کے بارے میں صراحت سے لکھتے ہیں:
قلنا الموصولات لم توضع للعموم بل ھی للجنس تحتمل العموم والخصوص․(شرح مواقف ص:723) اسمائے موصولہ کو عموم کے لیے وضع نہیں کیا گیا، بلکہ یہ جنس کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور عموم وخصوص دونوں کا احتمال رکھتے ہیں،عربی لغت کے متحمل معنی سے قطعی عقیدہ مستبط نہیں ہو سکتا، خود مفتی احمد یار خان صاحب لکھتے ہیں: جب علم غیب کا منکر اپنے دعوے پر دلیل قائم کرے تو چار باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

وہ آیت قطعی الدلالة ہو، جس کے معنی میں چند احتمال نہ نکل سکتے ہوں اور حدیث ہو تو متواتر ہو۔(جاء الحق،ص:40)اس قاعدے کی رو سے اس آیت سے استدلال باطل ٹھہرا۔

دوسراجواب:﴿مَالم تکن تعلم﴾ سے مراد اگر علم غیب ہے تو وہ عام ہے کہ خدا وند جل شانہ نے ہر وہ چیز جو حضور نہیں جانتے تھے سب لا محدود چیزیں بتا دیں، حالاں کہ یہ مطلب اہل بدعت کے مذہب کے بھی خلاف ہے، کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ ”خدا تعالیٰ نے آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کو روز ازل سے تا قیامت تمام چیزوں کا علم دیا ہے۔“ پس دعوی اور دلیل کے درمیان توافق نہ رہا کیوں کہ دعوی تو علم محدود کا تھا اور دلیل علم غیر محدود کی دے دی۔(براہین اہل سنت، علامہ دوست محمد قریشی،ص:109)

دوسرا استدلال حضرت ابو موسی اشعری رضی الله عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کے متعلق آپ کو سوال کرنا نا پسند تھا، جب سوالات زیادہ ہونے لگے تو آپ ناراض ہو گئے۔

پھر آپ نے لوگوں سے کہا جو پوچھنا ہے پوچھو! ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟آپ نے فرمایا: تمہارا باپ حذافہ ہے، دوسرے شخص نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے، جب حضرت عمر نے آپ کے چہرے مبارک پر غضب کے آثاردیکھے، تو عرض کیا: یا رسول اللہ!ہم اللہ عزوجل کے حضور توبہ کرتے ہیں۔(صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم الحدیث:92)

اس حدیث میں آپ فرما رہے ہیں، ”سلوني عما شئتم“ جو چاہو مجھ سے پوچھو، یہ دعوی اس وقت درست ہو سکتا ہے جب اللہ تعالی ٰنے ہر ہر سوال کے جواب کے علم سے نوازا ہو، خواہ وہ سوال احکام شریعہ سے متعلق ہو یا احکام تکوینیہ کے متعلق ہو، ماضی کے متعلق ہو یا حال و استقبال کے متعلق۔

جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح بخاری ہی میں حضرت انس کی حدیث کے ایک طریق میں ہے، آپ نے فرمایا:” من أحب أن یسأل عن شيء فلیسأل عنہ، فواللہ لا تسلوني عن شيء إلا أخبرتکم بہ مادمت في مقامي ھذا․“(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم الحدیث:7294)

”جو شخص کسی چیز کے متعلق پوچھنا چاہے پوچھ لے، خدا کی قسم جب تک میں اس جگہ موجود ہوں، تم جو بھی مجھ سے پوچھو گے میں اس کی خبر دوں گا“۔

اس سے معلوم ہوا یہ معجزہ تھا، اس مقام میں جب تک آپ تشریف فرما تھے، اس کو اطلاق پر محمول کرنا درست نہیں۔

اس کے علاوہ چند احادیث مبارکہ ہیں جنہیں اپنے دعوے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت حذیفہ سے مروی ہے:
”ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے اپنے اس خطبے میں قیامت تک ہونے والی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے آپ نے بیان نہ فرمایا ہو، اسے یادرکھنے والے نے یاد رکھا اور بھولنے والا بھول گیا“۔ (صحیح بخاری،رقم الحدیث:6604)

حضرت عمر فاروق سے مروی ہے:
”ایک بار حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے، پھر ابتدائے آفرینش سے جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے احوال کی خبر دی، یاد رکھنے والے نے اسے یاد رکھا، بھولنے والا بھول گیا۔“(صحیح بخاری، رقم الحدیث:3192)

حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے:
”ایک دن عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمارے سامنے خطبہ دیا، پس تا قیامت جو کچھ ہونے والا تھا، اس میں سے کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں چھوڑی، جسے آپ نے بیان نہ کیا ہو، یاد رکھنے والے نے اسے یاد رکھا، بھول جانے والا بھول گیا“۔(جامع الترمذی، رقم الحدیث:2191)

حضرت معاذ بن جبل  سے مروی ہے:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اللہ جل شانہ کو دیکھا (بر موقع معراج) کہ اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا، حتی کے اس کے آثار کی لذت اور ٹھنڈک میں نے اپنے دل میں محسوس کی، پس اس وقت ہر چیز میرے لیے روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی“۔(جامع الترمذی،رقم الحدیث:3233)

حضرت عمر سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالی نے میرے سامنے دنیا کو پیش فرمایا: پس میں نے دنیا اور تاقیامت اس میں جو کچھ ہونے والا ہے، اسے اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو“۔(حلیة الأولیاء،6/101)

پہلا جواب:ان استدلات کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی حدیث بھی متواتر نہیں، بلکہ خبر واحد کے درجے کی ہے اور جو حدیث متواتر نہ ہو، اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا، مفتی احمد یار خان خود لکھتے ہیں:
”جب علم غیب کا منکر اپنے دعوے پر دلیل قائم کرے تو چار باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، وہ آیت قطعی الدلالة ہو،جس کے معنی میں چند احتمال نہ نکل سکتے ہوں اور حدیث ہو تو متواتر ہو۔“(جاء الحق:40)

دوسرا جواب: مولانا مفتی محمد امین پالن پوری مذکورہ احادیث کا جواب لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:”مذکورہ حدیثوں میں سے پہلی تین حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبے میں قیامت تک ہونے والے بڑے بڑے واقعات،فتنے اور قیامت کی نشانیاں بیان فرمائیں، ان میں سے کچھ باتیں لوگوں کو یاد رہی اور کچھ بھول گئے، خود حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ آیا میرے ساتھی بھول گئے یا اپنے آپ کو بھولاہوا ظاہر کرتے ہیں؟ قسم خدا! رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اختتام دنیا تک کسی ایسے فتنہ انگیز کو نہیں چھوڑاجس کے چیلوں کی تعداد تین سو یا تین سو سے زائد ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کا نام، اس کے باپ کا نام اور اس کے قبیلے کا نام ذکر نہ کیاہو…….۔“(ابو داؤد، کتاب الفتن)

ابو داؤد کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جو باتیں بیان فرمائی تھیں، وہ فتن اور علامات قیامت کے قبیل سے تھیں، دنیا بھر کی چیزوں کا ذکر نہیں کیا تھا، کیوں کہ یہ عقلاً ممکن نہیں ہے۔

اور چوتھی حدیث ”کُلّ شيء“ سے تمام چیزیں مراد نہیں ہیں، بلکہ صرف احکام شرعیہ اور امورِ دینیہ مراد ہیں، جیسا کہ اسی حدیث کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے، پوری حدیث بہت طویل ہے، اس کا نقل کرنا طوالت سے خالی نہیں، اسی لیے صرف مفید مطلب حصہ کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔

”حضرت معاذ بن جبل  سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہترین صورت میں دیکھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: محمد! میں نے عرض کیا: حاضر ہوں میرے رب!اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: مقربین بارگاہ الہٰی کن امور میں بحث و مباحثہ کر رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے علم نہیں…تین مرتبہ یہ سوال و جواب دہرائے گئے، پھر میں نے اللہ جل شانہ کو دیکھا کہ اپنا دست(قدرت) میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا، حتیٰ کہ اس کے آثار کی لذت اور ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی،پس ہر چیز میرے لیے روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لیا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: محمد! میں نے عرض کیا: حاضر ہوں میرے رب! اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: مقربین بارگاہ عالی کن امور پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے جواب دیا،(نماز کے لیے) جماعتوں کی طرف قدم بڑھانا، نماز کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا اور ناگواری کے وقت اچھی طرح وضو کرنا، اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: پھر کن امورمیں (بحث کر رہے ہیں؟) میں نے جواب دیا، جنت کے بلند درجات (تک پہنچانے والی چیزوں) کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا وہ کیا ہیں؟ میں نے جواب دیا، (بھوکوں کو) کھانا کھلانا، نرم گفتگو کرنا اور لوگ جب سوئے ہوں نماز پڑھنا۔(جامع الترمذی،رقم الحدیث:3233)

اللہ جل شانہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مکالمے سے معلوم ہوا کہ ”کل شيء“ سے مراد امور دینیہ ہیں، جن کے بارے میں مقربین بارگاہ عالی بحث کر رہے تھے، نہ کہ دنیا بھر کی تمام چیزیں…اور صرف امور دینیہ مراد لینے اور علم کلی کی نفی کرنے میں کوئی تنقیص کا پہلونہیں ہے، جیسا کہ رضا خانیوں کا خیال ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ الله (جن کی علمی سیادت وقیادت فریقین کے نزدیک مسلم ہے) تفہیمات الہیہ میں لکھتے ہیں۔

”ثم لیعلم أنہ یجب أن ینفیٰ عنھم صفات الواجب جل مجدہ من العلم بالغیب والقدرة علی خلق العالم إلی غیرِ ذلک ولیس ذلک بنقص․“( تفہیمات الہیہ،ص:24)

ترجمہ:پھر جاننا چاہیے کہ واجب اور ضروری ہے کہ حضرات انبیائے کرام سے ذاتِ واجب الوجود جل مجدہ کی صفات کی نفی کی جائے، یعنی علم غیب اور جہاں کے پیدا کرنے پر قدرت وغیرہ کی نفی کی جائے اور اس میں کوئی تنقیص نہیں ہے۔

”وان استدل بقولہ علیہ الصلاة والسلام :”فتجلیٰ لی کل شيء قلنا: ھو بمنزلہ قولہ تعالیٰ في التوراة:(تفصیلاً لکل شيء﴾ والأصل في العمومات التخصیص بما یناسب المقام.“ (تفیہمات الہٰیہ، ص:24)
ترجمہ:اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: فتجلیٰ لي کل شئی سے استدلال کیا جائے تو ہم جواب دیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسا کہ تورات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (تفصیلاً لکل شئی) اور اصل عمومات میں مقام کی مناسبت سے تخصیص کرنا ہے۔

اور پانچویں روایت کا جواب یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی سعید بن سنان الرّہاوی ہے، جو نہایت ضعیف اور کمزور ہے، علامہ نور الدین علی بن ابی بکرہیثمی نے مجمع الزوائد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: رواہ الطبراني ورجالہ وثقوا علی ضعف کثیرٍ في سعید بن سنان الرھاوي․(مجمع الزوائد:8/287)
ترجمہ: اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے،سعید بن سنان رہاوی کے بہت زیادہ ضعیف ہونے پر اتفاق کرتے ہوئے “۔

حافظ متقی نے کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ”وسندہ ضعیف“ اس کی سند ضعیف ہے۔ (کنزل العمال:6/95)

الحاصل یہ روایت نہایت ضعیف ہے، اور ضعیف روایت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا، پھر اس سے نصوص قطعیہ کے خلاف عقیدہ ثابت کرنا ہر گز جائز نہیں، خود خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں۔

”حدیث ماننے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے کے لیے ثبوت چاہیے بے ثبوت نسبت جائز نہیں“۔ (عرفان شریعت:3/27) (محاضرات علمیہ:ص: 103، 106)

﴿وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ ہُوَ خَیْْراً لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلِلّہِ مِیْرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْر، لَقَدْ سَمِعَ اللّہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ فَقِیْرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیَاء سَنَکْتُبُ مَا قَالُواْ وَقَتْلَہُمُ الأَنبِیَاء َ بِغَیْْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُواْ عَذَابَ الْحَرِیْق، ذَلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَأَنَّ اللّہَ لَیْْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ، الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ عَہِدَ إِلَیْْنَا أَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّیَ یَأْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْکُلُہُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاء کُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِیْ بِالْبَیِّنَاتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوہُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن کَذَّبُوکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِکَ جَآؤُوا بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْکِتَابِ الْمُنِیْرِ﴾(سورہ آل عمران، آیت:184-180)

”اور نہ خیال کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس چیز پر جو اللہ نے ان کو دی ہے اپنے فضل سے کہ یہ بخل بہتر ہے ان کے حق میں، بلکہ یہ بہت برا ہے ان کے حق میں،طوق بنا کر ڈالا جائے گا ان کے گلوں میں وہ مال جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ۔اوراللہ وارث ہے آسمان اور زمین کا اور اللہ جو کرتے ہو سو جانتا ہے۔ بے شک اللہ نے سنی ان کی بات جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مال دار اب لکھ رکھیں گے ہم ان کی بات اور جو خون کیے ہیں انہوں نے انبیاء کے ناحق اور کہیں گے چکھو عذاب جلتی آگ کا، یہ بدلہ اس کا ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں آگے بھیجا اور اللہ ظلم نہیں کرتا بندوں پر۔وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ نے ہم کو کہہ رکھا کہ یقین کریں کسی رسول کا جب تک نہ لادے ہمارے پاس قربانی کہ کھا جائے اس کو آگ۔ تو کہہ تم میں آچکے کتنے رسول، مجھ سے پہلے، نشانیاں لے کر اور اور یہ بھی جو تم نے کہا، پھر ان کو کیوں قتل کیا تم نے اگر سچے ہو؟ پھر اگر یہ تجھ کو جھٹلا دیں تو پہلے تجھ سے جھٹلائے گئے بہت رسول، جو لائے نشانیاں اور صحیفے اور کتاب روشن۔“

ربط…﴿من ذا الذی یقرض اللہ قرضاً حسناً﴾ کے ذریعے مسلمانوں کو راہ الہی میں خرچ کرنے کا حکم ملا تو یہودیوں کو مسلمانوں پر طنز کرنے کا موقع مل گیا، اس طنز کی اصل وجہ روحانی مرض” بخل“ ہے، جو یہودیو ں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، ان آیات میں پہلے بخل کی مذمت بیان کی گئی، پھر ان کے گستاخ جملے نقل کر کے انہیں انجام سے آگاہ کیا گیا ہے۔

بخل کی حقیقت اور وعید
بخل سخاوت کی ضد ہے۔(القاموس المحیط، 3/488) مال کو وہاں خرچ کرنے سے روکنا جہاں اس کے خرچ کی ضرورت ہو، بخل کہلاتا ہے۔(مفردات القرآن للراغب: ب،خ،ل)

پھر بخل کے دو درجے ہیں جہاں شریعت نے خرچ کرنے کو واجب قرار دیا وہاں خرچ نہ کرنا سب سے بڑا بخل ہے، نصوص و آثار میں ایسی نوع کے بخل پر وعیدیں بیان کی گئی ہیں، مثلاً زکوة، عشر نہ دینا، جن اہل وعیال کا نفقہ شریعت نے لازم کیا ہے، اسے ادا نہ کرنا۔ جن مواقع پر اسلامی اخلاق و مروت خرچ کرنے کا تقاضا کرتے ہوں وہاں خرچ کرنے سے رکے رہنا بھی بخل ہے، اگر ان مواقع کی ترغیب نص میں وارد ہے تو وہاں خرچ استحباب کے درجے میں ہے، جیسے صلہ رحمی کرنا، پڑوسی اور دوست واحباب، مہمان پر خرچ کرنا، ایسے موقع پر بخل مذموم ہے، مگر پہلی طرح کی وعید کا مصداق نہیں۔

جن مواقع میں خرچ کی ترغیب نص میں نہیں، مگر عرف ایسے مواقع پر خرچ کرنے کی تحسین کرتا ہے، وہاں بخل کرنا گو پسندیدہ نہیں، مگر مذموم بھی نہیں ، جیسے عمومی رفاہی امور میں خرچ کرنا۔

﴿سیطوقون…﴾قیامت کے دن ان کے گلے میں ان کے مال کو طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔ حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال سے نوازا ہو، پھر اس نے اس کی زکوة ادا نہیں کی، قیامت کے دن وہ مال ایک موٹا اور گنجا سانپ بنا دیا جائے گا، جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، پھر اس شخص کو وہ سانپ اپنے دو جبڑوں سے پکڑے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں اور تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿ولا یحسبن الذین…﴾

اس آیت میں خصوصی اشارہ یہود کی طرف ہے۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زکوة تو مسلمانوں پر فرض ہے، یہودیوں کو تنبیہ کیوں کی جا رہی ہے؟

آیت کریمہ میں اگرچہ یہود کی طرف اشارہ ہے، لیکن عبرت ونصیحت کا درس سب کے لیے عام ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک کفاراسلام کے فروعی احکام کے مکلف ہوتے ہیں۔ یہ رائے اختیار کرنے کی صورت میں کوئی شبہ نہیں ہوتا، لیکن دوسری رائے اس کے برعکس ہے۔ اس صورت میں یہ شبہ ضرور ہوتا ہے۔

اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ یہود کی اپنی شریعت میں بھی صدقات واجبہ کا حکم موجود ہے۔ یہ اس حکم کو بھی بجا نہیں لاتے تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہود کے کفر کی ایک وجہ بخل تھا۔ مادیت سے محبت نے انہیں اللہ تعالیٰ کی گستاخی پر اکسایا، اس لیے ان کے مرض کو ذکر کیا گیا ہے، کیوں کہ بخل کا جو درجہ خدا کی نافرمانی کا ذریعہ بنے وہ اس کے ترک کے مکلف تھے۔

اللہ تعالیٰ کے متعلق یہود کی گستاخیاں
﴿لقد سمع اللہ…﴾مسلمانوں کو راہِ الٰہی میں خرچ کرنے کا حکم ملا تھا، اس خرچ کو قرض سے تعبیر کر کے آخرت کے اجر کا یقین دلایا گیا، لیکن یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا مذاق بنا لیا کہ اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) محتاج ہے، جب کہ ہم مال دار ہیں۔

یہود کی شریعت میں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم موجود ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے: ﴿ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل وبعثنا منہم اثنی عشر نقیبا وقال اللہ انی معکم لئن اقمتم الصلوة وآتیتم الزکوة﴾․(المائدة: 12)

تورات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں زمین کی پیداوار اور جانوروں میں ایک عشر، یعنی دسواں حصہ مقرر تھا۔ دیکھیے: عہد قدیم، صحیفہ احبار اور خروج میں۔ (احبار: 27/32-30، خروج 38: 26)

گویا انفاق کا درست عقیدہ رکھتے تھے، لیکن مسلمانوں سے دشمنی اور عناد نے انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کا مذاق اڑانے پر اکسایا۔ ﴿إن اللہ فقیر﴾کا جملہ بر بنائے اعتقاد نہ تھا، بلکہ بر بنائے استہزا تھا اور اس سے مقصود وحی الٰہی کی تکذیب تھی۔ اگلی آیت میں :﴿فان کذبوک فقد کذب رسل من قبلک﴾ سے اس کی تائید ہوتی ہے، گویا کفر در کفر ہوا، جھٹلانا اور استہزاء کرنا۔

﴿سنکتب ما قالوا وقتلھم الأنبیاء…﴾فرمان الٰہی کا استہزا کرنے سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے، ان کی نازیبا باتیں اور انبیاء علیہم السلام کا قتل سارے جرم لکھے جا رہے ہیں، اس میں آپ علیہ السلام کو بھی تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے قتل مرتکب ہوں ان سے گستاخانہ جملوں کا اظہار تو معمولی چیز ہے۔

﴿ان اللہ لیس بظلام للعبید﴾ ”ظلام“ مبالغے کا صیغہ ہے۔ مفسرین عموما اسے اسم فاعل ”ظالم“ کے معنی میں لیتے ہیں، کیوں کہ مبالغے کے صیغے سے نفی کرنے کے بعد اس کا ترجمہ یوں بنے گا ”اللہ تعالیٰ زیادہ ظلم کرنے والا نہیں“ کہ اس کا مفہوم مخالف یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر زیادہ ظلم نہیں کرتا، مگر تھوڑا سا کرتا ہے، حالاں کہ یہ مقصد ہر گز نہیں، یہ ترجمہ اللہ تعالیٰ کی شان تنزیہ کو ظاہر نہیں کرتا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو تھوڑا سا بھی ظلم نہیں کرتے: ﴿ولا یظلمون فتیلا﴾(النساء:49)﴿ان اللہ لا یظلم مثقال ذرة﴾ (النساء: 40)․

لیکن علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ایک خو ب صورت منفرد توجیہ ذکر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال کے درجے کو پہنچی ہوئی ہیں، اس لیے ان میں مبالغہ ہوتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی صفت ظلم ہوتی تو وہ بھی مبالغے کے ساتھ ”ظلام“ ہی ہوتی، مگر جب اس صفت کو اپنی ذات سے نفی کیا تو یہ نفی علیٰ وجہ الکمال ہے، جب وہ ظلام نہیں تو اس میں صفت ظلم مطلقاً نہیں پائی جاتی۔ (روح المعانی، النساء، ذیل آیت:182)

تصدیق رسالت کے لیے یہود کا بے جا مطالبہ
﴿الذین قالوا ان اللہ عھد الینا…﴾یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت مبارکہ پر ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بیان کی کہ انہوں نے اپنے دعوی نبوت پر سوختنی قربانی کا معجزہ نہیں دکھایا۔ سوختنی قربانی اس مخصوص قربانی کو کہتے ہیں جس میں جانور ذبح کرکے پہاڑ کی چوٹی پر رکھ دیا جاتا ہے، آسمان سے آگ اترتی ہے اور اسے جلا دیتی ہے۔ یہودیوں نے کہا کہ اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پر ایمان نہ لائیں گے جب تک وہ اس طرح قربانی پیش نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی نبی کی حقانیت کا یہی معیار ہے تو پھر تم ان انبیاء علیہم السلام کو جنہوں نے دیگر معجزات کے ساتھ ساتھ سوختنی قربانی کا معجزہ بھی پیش کیا، انہیں شہید کیوں کیا؟

اصل مسئلہ تصدیق رسالت کے لیے دلیل کا نہیں، بلکہ دین اور دین کے علم بردار انبیاء سے دشمنی کا ہے۔

قرآن و حدیث میں اس مخصوص قربانی کا یا اس کے دلیل نبوت ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں پایاجاتا۔

بائبل میں کسی نبی پر ایمان لانے کے لیے اس معجزے کا شرط ہونا کہیں مذکور نہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت پر تمام یہودیوں کا اتفاق ہے، لیکن انہوں نے اپنی نبوت کی صداقت پر سوختنی قربانی کا معجزہ پیش نہیں کیا، بلکہ ید بیضا، عصا اور دیگر معجزات دکھائے۔

بائبل میں صرف دو نبی ایسے ہیں۔

حضرت الیاس علیہ السلام جنہیں ایلیا کہا جاتا ہے ان کے متعلق آتا ہے ایلیا نبی نزدیک آیا اور بولا…تب خدا وند کی طرف سے آگ نازل ہوئی اور سوختنی قربانی اورلکڑیوں اور پتھروں اور پانی کو جلایا۔(سلاطین 18:37:38)

لیکن حضرت الیاس علیہ السلام کو یہود کی طرف سے کئی آزمائشوں کا واسطہ پڑا ،بائبل کی عبارتیں خود اس پر گواہ ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے تذکرے میں ہے اور جب سلیمان دعا مانگ چکا تو آسمان سے آگ اتری اور سوختنی قربانی اور ذبیحوں کو کھا گئی اور وہ گھر خداوند کے جلال سے بھر گیا۔(تواریخ:7/1)

نبوت کی مزعومہ دلیل کے ہوتے ہوئے بھی یہودی انہیں نبی ماننے کے بجائے جادوگر قرار دیتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور، لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُور﴾․(سورہ آل عمران:186-185)

”ہر جی کو چکھنی ہے موت اور تم کو پورے بدلے ملیں گے، قیامت کے دن پھر جو کوئی دور کیا گیا دوزخ سے اور داخل کیا گیا جنت میں اس کا کام تو بن گیا اور نہیں زندگانی دنیا کی مگر پونجی دھوکے کی، البتہ تمہاری آزمائش ہو گی مالوں میں اور جانوں میں اور البتہ سنو گے تم اگلی کتاب والوں سے اور مشرکوں سے بدگوئی بہت اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو یہ ہمت کے کام ہیں۔“

کفریہ اعمال کی سزا دنیا میں بھی مختلف صورتوں میں ملتی ہے، لیکن کافر اسے سزا اور تنبیہ سمجھنے کے بجائے گردش زمانہ کا اثر قرار دیتے ہیں، بعض اوقات اللہ تعالی اپنی مصلحت و حکمت کی بنا پر اسے مہلت دیتے ہیں، لیکن یہ تنبیہ ہو یا مہلت ہو، عارضی زمانہ تک ہوتی ہے، ایک دن ایسا آتا ہے جس میں انسان موت کے ہاتھوں مجبور ہو کر، دنیا سے ابدی زندگی کے عالم میں قدم رکھتا ہے، جہاں اس کے نیک و بد اعمال کا بدلہ پورے انصاف کے ساتھ چکایا جائے گا، اس لیے دین حق کی مخالفت کرنے والے اور پیغمبر حق کی تکذیب کرنے والے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، ہر ذی روح موت کا ذائقہ چکھ کر عالم آخرت میں حاضر ہونے والا ہے۔

فمن زحزح…دنیا میں کام یابی اور ناکامی کا تصور آخرت کے تصور کام یابی اور ناکامی سے مختلف ہے، آخرت میں وہی شخص کام یاب کہلائے گا، جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا ہو گا، یہ بچانا خواہ ابتدا سے ہویا کچھ سزا بھگتنے کے بعد۔ (جاری)