فرد کی اصلاح کے قرآنی اصول

فرد کی اصلاح کے قرآنی اصول

مولانا زبیر احمد صدیقی

اصلاحِ فرد کے قرآنی نظام کو ”تہذیب اخلاق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے،تہذیب اخلاق کا مفہوم یہ ہے کہ ہر ہر فرد کے اخلاق درست ہوجائیں اور معاشرے کا ہر فرد درست سمت چل پڑے،قرآن کریم میں سورئہ بقرہ کی آیت نمبر152-153 میں افراد کی تہذیب واصلاح کے پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں، جنہیں یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتاہے۔

ذکر خداوندی:اللہ تعالیٰ سے ہر بندے کا ایسا مضبوط رشتہ وتعلق استوار ہو کہ خلوت وجلوت، تنگی وآسانی ،راحت ومصیبت میں بندہ اپنے محبوبِ حقیقی کا ہی خیال رکھے،اسی کی رضا کا دم بھرے،یہ تعلق اتنا مضبوط ہوجائے کہ ہر کام سے پہلے یہ تصور اجاگر ہو کہ میرا اللہ اس کام سے راضی ہوگا یا ناراض؟ مجھے بہر صورت اپنے رب کو راضی رکھنا ہے،خواہ اس کے لیے مجھے اپنی جان او رمال سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑے،قلب وقالب میں اللہ کی اس یاد کا نام”ذکرِ خداوندی“ ہے، یاد الٰہی جسم وجان سے پھوٹ کر زبان تک پہنچتی ہے اور زبان سے بھی اللہ کی دوستی کی مٹھاس چوس کر ”اللہ ،اللہ“ کے ورد سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

شکر خداوندی:حق تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو اس کے حقیقی محل میں استعمال کرنے کا نام”شکر“ اور بے محل استعمال کرنے کا نام”کفران نعمت“ ہے،مثلاً مال ورزق بخل اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اپنے اپنے اہل وعیال،اقربا اور فقراء ومساکین کی ضروریات پر خرچ کرنا مال کا شکر ہے اور ناجائز خواہشات کی تکمیل ،راہِ ظلم اور نام ونمود کے لیے خرچ کرنا نعمت مال کی ناشکری ہے، ذکر وشکر کی کیفیت پیدا ہونے سے جرائم کا سدّ باب ہوتا ہے۔ نیز نعمت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ شکر زبان سے بھی کیا جائے اور اللہ کی ہر نعمت کو مستحضر کر کے الحمدللہ کہا جائے۔

صبر:حسب ضرورت اپنے خالق کے سامنے دست سوال دراز کریں، اگر مل جائے توشکر کریں اور نہ ملے تو برداشت،غیر اللہ کے دروازے پر نہ جائیں،بس اسی کا نام صبر ہے،اہل علم نے صبر کی تین اقسام ذکر فرمائی ہیں۔#اللہ کی فرماں برداریوں پر ثابت قدم رہنا#اللہ کی نافرمانیوں سے پرہیز کرتے رہنا۔#گناہوں سے بچنے اور نیکیوں پر جمنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے ناموافق حالات میں تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کر کے اللہ سے امیدلگانا۔

صلوٰة:ہر طرح کی خوشی اور غمی کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر جبین نیاز صرف اسی کے سامنے جھکانا اور نماز کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا، اللہ کو خوش کر کے دنیا وآخرت کی نعمتوں کو اسی جہت سے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔

دعا:اللہ تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا نام”دعا“ ہے،اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگنا،رزق،روزی،اولاد، نوکری ،جنت اور ہدایت سبھی اللہ سے مانگتے رہنا، ملنے کا منتظر رہنا اور جلد بازی نہ کرنا۔

تدبیر منزل (اصلاحِ خانہ)کے پانچ اُصول
افراد کی ترکیب یعنی شادی بیاہ سے گھرانہ وجود میں آتا ہے،چند گھر مل کر خاندان اور برادریاں تشکیل پاتی ہیں اور بہت سی برادریوں سے ملک تشکیل پاتا ہے۔آدمی جب صاحب خانہ بنتا ہے تو اسے کسب معاش کی ضرورت پیش آتی ہے،پھر کمائی کے خرچ کرنے کے مصارف بھی متعین کرنا ہوتے ہیں، آپس کے اختلافات کی صورت میں فیصلوں کی نوبت بھی آتی ہے،تربیت ازواج واولاد کے لیے تعلیم کا انتظام بھی ضروری ہوتا ہے، اس لیے قرآن کریم نے گھرانہ کی اصلاح کے قوانین بھی مرحمت فرمائے۔گھر چلانے کی تدبیر اور گھرانہ کی اصلاح کو تدبیر منزل کہا جاتا ہے، قرآن کریم نے تدبیر منزل کے پانچ اصول کی جانب اشارہ کیا ہے۔

کمانا،خرچ کرنا،دیوانی قوانین،فوج داری قوانین،مضبوط نظام تعلیم۔آئیے ان کی کچھ تشریح کرلیتے ہیں۔

1.. کمانا:حصول رزق کسی بھی گھرانے کے سربراہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، گھر کا نظام کمائی کے بغیر چلانا ممکن نہیں، کمائی کے ذرائع کی جانب سورئہ بقرہ کی آیت نمبر144 میں اشارے موجود ہیں۔ کمانے کے لیے عقل کا استعمال کارگر ہے۔قدرت کی جانب سے کسبِ معاش کے لیے مختلف ذرائع موجود ہیں، قدرتی ذرائع اور خزانوں سے عقل وسمجھ کے استعمال سے مکمل فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، مثلاً لکڑی وافر مقدار میں میسر ہے تو اسے کاٹ کر کشتیاں بنائی جائیں، ان کشتیوں کو تجارت کا ذریعہ بنایا جائے، اسی طرح زمین عطیہ خداوندی ہے اور بارش وپانی رحمت خداوندی ہے۔انسان زمین میں بیج ڈالیں، بارش کا پانی زمین کو سیراب کرے گا یا پانی سے خود سیراب کریں۔ اللہ تعالیٰ اناج وغلہ فراہم کردیں گے، ایسے ہی لوہا، پٹرول،تانبا،آگ،گیس،لکڑی سب الله کی عطاء کردہ نعمتیں موجود ہیں، ان چیزوں کو جوڑ کر گاڑیاں، بسیں، ٹرینیں،جہاز تیار کر کے روزی کما سکتے ہیں،جانور بھی حصول رزق کا ذریعہ ہیں، انہیں حصول رزق میں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔حصول رزق کے یہ تمام ذرائع حق تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں،اللہ تعالیٰ کے ان انعامات سے بندہ لطف اندوز ہوتا ہے، وہی خالق ومالک اور رازق ہے، اس کے انعامات کا تقاضا ہے کہ اس سے قلبی لگاوٴ اور حقیقی محبت کی جائے، اسی کو معبودِ برحق سمجھا جائے۔

2.. خرچ کرنا:جو چیز ہم خود تناول یا کسی کو کھلارہے ہیں تو وہ حلال ہونی ضروری ہے، حرام چیز کا کھانا یا کھلانا ممنوع ہے، اشیاء کو حلال وحرام بنانے والی ذات بھی ذاتِ واحد حق تعالیٰ شانہ کی ہے، وہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے،جو اشیاء اس نے انسان کے لیے مفید بنائیں انہیں حلال کردیا اور جو انسان کے لیے غیر مفید تھیں انہیں حرام کر دیا، بعض اشیاء انسان کے لیے اس لیے غیر مفید ہیں کہ ان کے استعمال سے خود انسان کی عظمت وکرامت متاثر ہوتی ہے، مثلاً انسانی گوشت او ربعض اس لیے غیر مفید اور حرام ہیں کہ ان میں خباثت، نجاست یا گنداپن پایا جاتا ہے، مثلاً ذبح کے وقت نکلنے والا خون،مردار یا خنزیریا معنوی نجاست وخباثت کی وجہ سے ممنوع کردہ اشیاء، مثلاً غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور… تو ان سب کو حرام قرار دیا گیا۔

3.. نظام فوج داری:قرآن میں ظلم کو روکنے اور توڑنے کے لیے نظام فوج داری کے دیت وقصاص کا ابدی وسرمدی اصول بیان کیا گیا ہے، اس اصول کی بدولت ظالم بھی مظلوم ہی کی طرح ٹھہرتا ہے، جو سلوک مظلوم کے ساتھ ہوا وہی یااس جیسا سلوک ظالم کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس قانون قصاص کی حکمت یہ ہے کہ مظلوم ومقتول یا اس کے وارثان کا غیظ وغضب، جذبہ انتقام اور غصہ کی آگ قصاص کی بدولت فرو ہوجاتی ہے اور وہ معاشرہ میں قانون شکنی کی جرأت نہیں کرپاتے، بصورتِ دیگر وارثان مقتول آتش انتقام میں قانون شکنی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو بھسم کر ڈالنے کی سعی کرتے ہیں، جس کا مشاہدہ ہم روز کیا کرتے ہیں،اس قانون قصاص کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جب ایک قاتل وظالم اپنے انجام کو پہنچتا ہے تو تمام لوگ اس کے عبرت ناک انجام کی بدولت اس جرم بد سے دور رہتے ہیں،بڑے سے بڑا مجرم بھی آسانی سے اس جرم کے ارتکاب کی جسارت نہیں کرپاتا،یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب یا بعید میں جن پاکیزہ معاشروں میں اسلام کا یہ خوب صورت قانون اپنی اصلی شکل میں رائج رہاوہاں کرائم وجرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی۔

4.. دیوانی قانون(وصیت):قرآن کریم نے تدبیر منزل (گھریلو نظام کی اصلاح وتدبیر) کے لیے دیوانی قوانین بھی مختلف مقامات پر تفصیل سے بیان فرمائے، چناں چہ نکاح،طلاق،خلع، ایلاء، عدت، رضاعت، حقوق ازواج،نان،نفقہ،خریدوفروخت کے قوانین، سود، جوا، رہن، امانت،وصیت،وراثت، شہادت اور قسم وغیرہ کے ضابطہ دیوانی کی دفعات تفصیل سے بیان کی ہیں۔ اکثر مفسرین کی تحقیق کے مطابق وراثت کے احکام مقرر ہونے سے قبل یہ حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کو مرحمت فرمایا گیا کہ وفات کے وقت اگر مال موجود ہو تو قریب المرگ شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے لیے اپنے مال کے مناسب حصہ کی وصیت کرے کہ اتنا میرے والد، اتنا میری والدہ اور اتنا حصہ میری اولاد اور اتنا فلاں فلاں رشتہ دار کو دے دیا جائے، یہ وصیت کرنا شروع اسلام میں واجب تھا اور اس وصیت کی تعمیل ورثاء پر لازم تھی، وصیت سننے والوں اور گواہوں پر لازم تھا کہ وہ وصیت کو من وعن نافذ کریں، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں ،تبدیلی سخت گناہ اور باعث مواخذہ تھی اور آج بھی وصیت کے سلسلہ میں یہی حکم ہے کہ شریعت کے مطابق کی گئی وصیت کو قطعاً نہ بدلا جائے اور حتی الامکان اسے پورا کیا جائے،البتہ وصیت کرنے والا اگر وصیت میں دانستہ یا بھول کر غلطی کررہا ہو تو وصیت کرنے والے کی وصیت کرتے وقت شرعی اصولوں کے مطابق اصلاح کی جاسکتی ہے ،اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر وصیت کرنے والے کو سمجھایا جائے تو اسے بھی اپنی اصلاح کرلینی چاہیے۔

5.. اہتمام تعلیم:باری تعالیٰ نے گھرانہ کے نظام کی تدبیر واصلاح کے لیے درج بالا جو پانچ راہ نما اصول بیان کیے ہیں ان میں سے ایک تعلیم کا اہتمام وانتظام کرنا بھی ہے، تاکہ گھرانہ نور علم سے منور ہو کر ہمہ قسم کی ضلالتوں وجہالتوں سے اپنے آپ کو بچاکر کے دنیوی واخروی نقصانات سے محفوظ رہ سکے،تعلیم کے لیے چند اساسی ارکان ہیں:
نصاب تعلیم،وقت تعلیم،طریقہ تعلیم۔

نصاب تعلیم تو قرآن کریم ہے، سرچشمہ علم و عمل ہے، جملہ علوم وفنون قرآن کریم سے ہی پھوٹتے ہیں، قرآن کریم سے ہی نظام حیات طے کیا جاسکتا ہے،انسان کی ابتدا سے لے کر انتہا تک ،گزشتہ امتوں کی تاریخ سے لے کرآنے والے جہاں کی خبروں تک،ا نفرادی زندگی سے لے کر قوموں کی حیات تک ،فرد کی اصلاح سے لے کر قوموں کی راہ نمائی تک، جہاں داری ،جہاں بانی، عقائد، عبادات،اخلاق وآداب، معاملات، اصولِ تقویٰ،عدل وانصاف،مساوات،اخوت،اقوام عالم سے برتاوٴ،دنیا کے حالات،آخرت کے معاملات،جرم اور ان کی سزائیں سبھی کچھ قرآن کریم میں موجود ہیں، انسانی ضرورت کا کوئی نصاب تعلیم قرآن کریم کو شامل کیے بغیر مکمل نہیں کہلا سکتا۔

”وقت تعلیم“ تو پوری زندگی اور زندگی کے تمام ماہ وسال ہیں، لیکن رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص تعلق ونسبت حاصل ہے، چناں چہ اکثر کتب وصحائف کا نزول بھی رمضان المبارک میں ہوا اور خود قرآن کریم بھی رمضان المبارک میں اترا، اس لیے ماہ صیام کو خصوصیت سے تعلیم قرآن کے لیے موزوں کہاں جاسکتا ہے، حالت صیام وقیام میں تقرب الی اللہ اور فہم قرآن کی استعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے یہ مبارک مہینہ تلاوت،سماعت، فہم وتدبر اور تلاوتِ قرآن کے لیے نہایت موزوں ہے۔

”طریق تعلیم“اسلوب نبوی سے متعین ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرز وانداز سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم قرآن کریم کے زیور سے آراستہ فرمایا وہ امت کے لیے کام یابی وکام رانی کا باعث ہے،آپ نے تلاوت آیات کے ساتھ تعلیم کتاب،تعلیم حکمت اور تزکیہ کا اہتمام بھی فرمایا،گویا کہ آپ کے طریقہ تعلیم میں چار چیزیں شامل تھیں۔

∗.. الفاظ قرآن کریم کی تلاوت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے قرآن کریم کے الفاظ کی تلاوت فرماتے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ان الفاظ کو دہراتے اور یاد فرماتے اور شب وروز اس کی تلاوت میں مصروف رہتے۔

∗.. معانی قرآن کریم سے آگاہی:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن کے معانی ومطالب بھی سکھائے، اس لیے قرآن کے مفہوم کو اپنی رائے اور پسند سے متعین کرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ اس عمل کو ”تفسیر بالرائے“قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی،حقیقت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق تعالیٰ نے قرآنی الفاظ بھی خود مرحمت فرمائے او رمطالب قرآنی بھی القاء کیے،یہی مطالب ومفاہیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سکھلائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے تلامذہ کو،یوں الفاظ قرآنی کے ساتھ ساتھ معانی قرآن بھی پوری امت او رقیامت تک کے مسلمانوں تک پہنچتے چلے جائیں گے۔

∗.. تعلیم حکمت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم معانی قرآن کے ساتھ ساتھ ”تفسیر قرآن“ حدیث کی شکل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم فرماتے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسے یاد کرتے جیسا کہ وہ قرآن کریم کو یاد کیا کرتے تھے، یوں ذخیرہ احادیث بھی ذخیرئہ قرآن کی طرح امت کی راہ نمائی کا باعث بن کر محفوظ علم کی شکل اختیار کر گیا۔

∗.. اخلاقی تربیت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف الفاظ قرآن ومعانی وتفسیر قرآن کریم پر اکتفا نہیں فرماتے تھے، بلکہ احکام الہٰی کو دلوں میں اتارتے اور عملی طور پر تربیت بھی فرماتے تھے، چناں چہ یہ خصوصیت صرف اسلام کی ہی ہے کہ وہ علم کو برائے معلومات نہیں، بلکہ برائے عمل پڑھاتا ہے، چناں چہ جوں جوں علم بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے ہی تربیت وعمل میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا، اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا کی سب سے غیر طاقت ور قوم پورے عالم کی قیادت کا جھنڈا لے کر اٹھی اور دنیا کو جہاں بانی کے نئے انداز واطوار دکھا کر تحسین وداد وصول کی۔مذکورہ بالا علوم کے علاوہ قرآن کریم نے دنیوی زندگی میں معاون فنون کی جانب بھی اشارے کیے ہیں، ان کا حصول بھی نہایت اہم ہے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔آمین!