نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نہ ماننے کی سزا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نہ ماننے کی سزا

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ یُرِیدُونَ أَن یَتَحَاکَمُوا إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن یَکْفُرُوا بِہِ وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُضِلَّہُمْ ضَلَالًا بَعِیدًاo وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلَیٰ مَا أَنزَلَ اللَّہُ وَإِلَی الرَّسُولِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِینَ یَصُدُّونَ عَنکَ صُدُودًاo فَکَیْفَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیہِمْ ثُمَّ جَاء ُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِیقًاo أُولَٰئِکَ الَّذِینَ یَعْلَمُ اللَّہُ مَا فِی قُلُوبِہِمْ فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُل لَّہُمْ فِی أَنفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًاo﴾․ (سورة النساء،آیت:63-60)
کیاتو نے نہ دیکھا ان کو جو دعوی کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں اس پر جو اتر ی تیری طرف اور جواترا تجھ سے پہلے، چاہتے ہیں کہ قضیہ لے جائیں شیطان کی طرف اور حکم ہوچکا ہے ان کو کہ اس کو نہ مانیں اور چاہتا ہے شیطان کہ ان کو بہکا کر دور جا ڈالےo اور جب ان کو کہے کہ آو اللہ کے حکم کی طرف جو اس نے اتارا اور رسول کی طرف تو دیکھے تو منافقوں کو کہ ہٹتے ہیں تجھ سے رک کرo پھر کیا ہو کہ جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے سے، پھر آویں تیرے پاس قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی کہ ہم کو غرض نہ تھی مگر بھلائی اور ملاپo یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو ان کے دل میں ہے ،سو تو ان سے تغافل کر اور ان کو نصیحت کر اور ان سے کہہ ان کے حق میں بات کام کیo

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نہ ماننے کی سزا
ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ عہد نبوی کے ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا، یہودی نے فیصلہ کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی پیش کش کی۔ یہودی کو یقین تھا یہشخص مسلمان ہونے کے ناتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو دل وجان سے تسلیم کر لے گا۔ مگر یہودی کی سوچ کے برعکس اس منافق نے فیصلے کے لیے یہودی سردار کعب بن اشرف کے پاس جانے کا انتخاب کیا، جسے قرآن میں طاغوت کا نام دیا گیا، مگر یہودی کے اصرار پر اور شرما شرمی میں یہ شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ علیہ السلام نے قضیہ سن کر جو فیصلہ فرمایا وہ یہودی کے حق میں تھا، منافق کے خلاف تھا، منافق اس فیصلہ سے راضی نہہوا اور یہودی سے کہا اس کا فیصلہ حضرت عمر رضی الله عنہ سے کراتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور یہودی نے پورے معاملے سے آگاہ کیا کہ پہلے ہم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کراچکے ہیں مگر اس شخص نے حضور کے فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اب اسی کی خواہش پر آپ کے پاس فیصلے کے لیے حاضر ہوئے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا واقعی پہلے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کرچکے ہیں؟ اس کا جواب اثبات میں سن کر آپ گھر تشریف لے گئے، تلوار لی اور باہر آکر منافق کا سرقلم کردیا، اس پر منافقوں نے اور مقتول منافق کے عزیز واقارب نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا اور خدمت نبوی میں آکر قصاص کا مطالبہ کیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مکمل تفصیل سنی۔ حضرت عمر نے فرمایا:یا رسول اللہ!اس نے آپ کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔ اس وقت حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور فرمایا:عمر ”فاروق“ہیں۔ انہوں نے حق و باطل کے درمیان فرق کردیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: تم فاروق ہو ۔
ان آیات سے چند فوائد حاصل ہوئے۔
اہل حق ہمیشہ اللہ اور رسول کو حَکَم بنانا پسند کرتے ہیں اورکتاب و سنت سے اپنے لیے انصاف کا فیصلہ پسند کرتے ہیں۔ جبکہ منافقین کافروں کے پاس جاکر ان کے قوانین اور رسم و رواج کے مطابق فیصلہ کرانا پسند کرتے ہیں۔

جب منافقین کو قرآن و سنت کی عدالت میں بلایا جائے تو تو مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی جان چھڑاتے ہیں۔

جب منافقین کا نفاق پوری طرح کھل جاتا ہے تو اس کی تاویلیں کرتے جس طرح مذکورہ بالا واقعہ میں منافق کے ورثاء نے کہا إن اردنا إلاّاحساناً وتوفیقاً․(روح المعانی، الدر المنثور، الجامع للحکام القرآن للقرطبی، النساء،ذیل آیت:62)

کہ مقدمہ کو حضرت عمر کے پاس لے جانا کا مقصد تو صرف اور صرف تسلی کے لیے تھا اس کا مقصد نبوی فیصلہ کو چیلنج کرنا تو ہرگز نہ تھا۔ منافقین کی ان چالوں کی قلعی وحی کے ذریعے کھول کر حضرت عمر کے فیصلے کی توثیق کی گئی کہ یہ نبی کے فیصلے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔

چوں کہ منافق کا خون نفاق کی وجہ سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نہ ماننے کی وجہ سے مباح ہوچکا تھا ،اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی قصاص اور دیت لازم نہیں آتی تھی۔

قرآن کریم میں آٹھ مقامات پر ”طاغوت“ کا لفظ مذکور ہے۔ اور تمام مقامات میں طاغوت سے بچنے، اس کے انکار کرنے کا حکم ہے۔
﴿ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ ․ (البقرة:256)
﴿ِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ أَوْلِیَآؤُہُمُ الطَّاغُوت﴾․ (البقرة:257)
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ﴾․(النساء:51)
﴿ یُرِیْدُونَ أَن یَتَحَاکَمُواْ إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن یَکْفُرُواْ بِہِ ﴾ ․ (النساء:60)
﴿الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوتِ﴾ (النساء: 76)
﴿ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ﴾ (المائدة:60)
﴿وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن یَعْبُدُوہَا وَأَنَابُوا إِلَی اللَّہِ لَہُمُ الْبُشْرَی فَبَشِّرْ عِبَاد﴾․(الزمر:17)
طاغوت لغت میں تو سرکش کو کہتے ہیں مگر اصطلاح میں اس کا اطلاق قوت کے ہر اس سر چشمے پر ، ہر صاحب اختیار واقتدار پر، ہر اس نظام، ہر اس فرد، گروہ، جماعت پر ہوتا ہے جو لوگوں کو اللہ تعالی کی نافرمانی پر ابھارے، چناں چہ آیت میں منافق جس کے پاس فیصلہ کرانے کا خواہش مند تھا اسے طاغوت کہا گیا وہ یہودی سردار کعب بن اشرف تھا۔ چناں چہ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”لفظ طاغوت کے لغوی معنی سرکشی کرنے والے کے ہیں اور عرف میں شیطان کو طاغوت کہا جاتا ہے اس آیت میں کعب بن اشرف کی طرف مقدمہ لے جانے کو شیطان کی طرف لے جانا قرار دیا ہے یا تو اس وجہ سے کہ کعب بن اشرف خود ایک شیطان تھا اور یا اس وجہ سے کہ شرعی فیصلہ چھوڑ کر خلاف شرع فیصلہ کی طرف رجوع کرنا شیطان ہی کی تعلیم ہوسکتی ہے، اس کی اتباع کرنے والا گویا شیطان ہی کے پاس اپنا مقدمہ لے گیا ہے“۔ (معارف القرآن للعثمانی، النساء ذیل آیت:62)

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں فرمایا:
طاغوت ہر اس معبود، مقتدا، یا واجب الاطاعت ذات کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے بندہ اپنی حدود سے تجاوز کر جائے۔ لہٰذا ہر قوم کا طاغوت وہ ہوتا جس کے پاس لوگ اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر فیصلے کے لیے جائیں۔ یا اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کریں… یا اس کی ان باتوں میں اطاعت کریں جن کے متعلق وہ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کی اطاعت ہے۔(اعلام الموقعین عن رب العلمین:1/50)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
”ہر حاکم جو کتاب اللہ کے بغیر فیصلہ کرتا ہو“اسے طاغوت کہا گیا ہے۔( مجموع الفتاوی:20/128)
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّہِ وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَہُمْ جَاء ُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّابًا رَّحِیمًاO فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا﴾O․(سورة النساء،آیت:65-64)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا آتے تیرے پاس پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کو بخشواتا تو البتہ اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربانO سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلے سے اور قبول کریں خوشی سے O

حجیت حدیث کا بیان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ دین اسلام کا دوسرا مأخذ دینی ہے اور قرآن کریم کی مستند تشریح ہے۔ اگر قرآن کریم کو متن کہا جائے تو حدیث رسول اس کی تشریح ہے۔ اگر قرآن کریم میں اجمال ہے حدیث رسول میں اس کی تفصیل ہے۔ حدیث رسول کے دوسرے ماخذ دینی ہونے پر تمام سلف وخلف کا اتفاق ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی اساسی حیثیت کو بیان کیا گیا ۔ چناں چہ فرمایا گیا :﴿وَمَا أرسلْنَا مِن رَّسُول إلاّ لِیُطَاع بإذْنِ اللّٰہ﴾ اس سے اگلی آیت میں آپ علیہ السلام کی اطاعت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا:﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ﴾

علاوہ ازیں ایک مقام پر رسول اللہ کی اطاعت کو اللہ تعالی کی ہی اطاعت قرار دیا :﴿مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾ (النساء:80) سورة النور میں اطاعت رسول سے روگردانی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا۔
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ﴾․(سورة النور، آیت:63)
صحابہ کرام نے کبھی حدیث رسول کو قرآن کریم سے الگ خیال نہیں کیا۔ جس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے وعظ میں بال گوندھنے والی، چہرے کے بال اکھاڑنے والی، حسن کے لیے دانتوں میں کشادگی کرانے والی اور اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی لانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی تو قبیلہ بنو اسد کی ایک عورت ام یعقوب نے پوچھا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں ایسی عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر اللہ کے رسول نے لعنت کی ہے اور جو کتاب الہٰی کی رو سے بھی ملعون ہیں۔ خاتون نے کہا میں نے پورا قرآن پڑھا ہے لیکن اس میں مجھے یہ چیز کہیں نہیں ملی۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم!اگر تم نے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ حکم بھی مل جاتا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾․(سورة الحشر،آیت:7)

دیکھئے اس حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کے فرمان کو کتاب الہٰی کا حکم قرار دیا۔ اور خاتون نے اس پر چوں چراں کرنے کی بجائے فوراً تسلیم کرلیا۔ سلف صالحین میں سے کسی نے اس پر نقد نہیں کیا۔ یہ سارے قرائن حجیت حدیث کے امت مسلمہ کے متفقہ موقف کو واضح کرتے ہیں۔

حضرت انس رحمہ الله جو حضرت اسماء بنت یزید کے چچا زاد بھائی تھے فرماتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾(سورة الحشر، آیت:7) میں نے کہا کیوں نہیں؟ پھر آپ نے فرمایا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْرًا أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِہِمْ …﴾․ (سورة الاحزاب، آیت:36)

میں نے کہا کیوں نہیں؟ اللہ تعالی نے ایسا ہی فرمایا ہے، اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آں حضرت ا نے (نقیر)لکڑی کے برتن، (مزفت)تارکول والا برتن، (دُبّاء) کدّو کا برتن اور (حنتم)سبز مٹکے کے استعمال سے منع فرمایا: پھر آپ علیہ السلام نے مزید تائید کے یہ آیت تلاوت فرمائی﴿ وَما اٰتکم الرسول فخذوہ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہ فَانْتَھوُا﴾(سنن النسائی، رقم:5646)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاسی ایک خاتون آئی اور اپنے پوتے سے وراثت لینے کا مطالبہ کیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت میں تیرا حصہ نہیں ملا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا، چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق اس عورت کو چھٹا حصہ دلوادیا۔(سنن ابن ماجہ، رقم:2724)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ حالت جنابت میں غسل کئے بغیر روزہ نہیں رکھا جاسکتا، مروان بن حکم نے اس کی تحقیق حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے کی، انہوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے پہلے روزہ رکھ لیتے تھے۔ حضور علیہ السلام کا یہ عمل جاننے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔ (صحیح مسلم، رقم:1109)

سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، تبع تابعین کی اس طرح کی سیکڑوں مثالیں کتب احادیث وآثار میں بکھری ہوئی ہیں، علمائے اہل سنت میں کبھی حجیت حدیث پر اختلاف نہیں ہوا، ہمیشہ سے قرآن کریم کے بعد حدیث رسول سب سے قابل اعتماد ماخذ رہا اور ہے۔ اس کے بغیر فہم دین کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے امت مسلمہ نے کبھی حجیت رسول کا انکار کرنے والی صداؤں کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی اور نہ اس طرح کے الحاوی نظریے مسلم معاشرے میں پنپ سکے ہیں۔

پاک وہند میں حجیت حدیث کے منکر غلام احمد پرویز نے اپنی کتابوں میں اس بات پر بڑا زور صرف کیا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم ہوا ہے وہاں ان کی ذات مراد نہیں ہے بلکہ ”مرکز ملت“کی اطاعت مراد ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں مرکز ملت تھے تو ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا، ان کے بعد امت میں جو شخص اس منصب اقتدار پر فائزہوگا اس کی اطاعت لازمی ہوگی۔

پرویز صاحب کی یہ خود ساختہ اصطلاح مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی قابل تعجب ہے کہ ان کے نزدیک نعوذ باللہ رسول اللہ کی حیثیت چھٹی رساں کی ہے مطاع (جن کی اطاعت کی جائے)کی نہیں ہے، لیکن ”مرکز

ملت“یعنی صاحب اقتدار جن کا اشارہ بھی نہیں ان کی حیثیت مطاع کی بن جاتی ہے۔

قرآن کریم میں رسول اللہ کی اطاعت کو اللہ تعالی کی اطاعت قرار دیا، رسول معصوم ہوتا ہے، اس کے حکم میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا، جب کہ ”مرکز ملت‘ ‘ کے منصب پر فائز ہونے والا امتی معصوم نہیں ہوتا، اس کے حکم میں غلطی ہوسکتی ہے اور ہوتی بھی ہے اس سے گناہ بھی صادر ہوتے ہیں۔

ایسے صاحب اقتدار کو مرکزملت کا عنوان دے کر رسول اللہ کی اطاعت کا متبادل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔

نیز قرآن کریم میں رسول کی اطاعت کو مدار ایمان قرار دیا گیا ہے، اس کی اطاعت باعث ہدایت، رضائے الہی کا زینہ ، حصول رحمت کا ذریعہ ہے، اس کا فیصلہ اٹل اور قابل قبول، امت کے لیے اس میں کسی کو اس پر نہ حق اعتراض حاصل ہے اور نہ کسی کو چوں چراں کا اختیارہے، کیا ”مرکز ملت“کے منصب پر فائز ہونے والے حکمراں کے لیے بھی یہی احکام ہیں؟ اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے؟ اس کی اطاعت مدار ایمان ہے؟ اس کے کسی حکم کا انکار کرنا کفر اکبر ہے؟ اس کے لیے ابدی جہنم ہے؟

ساری زندگی محدیثین عظام پر ملوک پر ستی اورامراء وحکام کے لیے احادیث گھڑتے کا الزام لگانے والے خود ”مرکز ملت“کے نام پر اہل ایمان کو رسول اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ کر فاسق و فاجر حکمرانوں کی اندھی اطاعت پر زور قلم صرف کرتے رہے۔(جاری)