امر بالمعروف کی اہمیت و فضیلت

امر بالمعروف کی اہمیت و فضیلت

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

دونوں مراتب کے چند بنیادی اصول
برائی کو ہاتھ سے مٹانے اور زبان سے مٹانے میں بنیادی شرط قدرت ہے، اگر قدرت نہ ہو تو ترک کرنا جائز ہے، وجوب باقی نہیں رہتا، مگر افضل کیا ہے؟

بعض فقہاء نے امر با لمعروف کو افضل کہا ہے، کیوں کہ الله تعالی نے فرمایا ہے:﴿وَاصْبِرْ عَلَیٰ مَا أَصَابَکَ ﴾( لقمان:17)

اور بعض فقہاء نے ترک کو افضل کہاہے ،کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ ﴾ (البقرة:195)

لیکن علامہ ابن رشید نے فرمایا اذیت ملنے کا یقین ہونے کے باوجود امر بالمعروف کا وجوب تو باقی نہیں رہتا، مگر استحباب باقی رہتا ہے، یہی عز الدین اور علامہ غزالی کا موقف ہے۔(تحفة الناظر،الاداب الشرعیة:1/180)اس کو احناف عزیمت قرار دیتے ہیں۔

تیسرے مرتبے کی فضیلت
اگر ہاتھ اور زبان سے برائی مٹانے پر قدرت نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھنا فرض عین ہے اور یہ ارادہ رکھنا ضروری ہے کہ جب بھی قدرت ملی اسے مٹاؤں گا۔

حضرت جابر سے مروی ہے آپ علیہ السلام فر مایا:
”اوحی اللہ عزوجل إلی جبرائیل علیہ السلام،أ ن اقلب مدینة کذا وکذا بأھلھا قال:یا رب، إن فیہ عبدک فلاناً لم یعصیک طرفة عین. قال: فقال:اقلبھا علیہ وعلیھم، فإن وجھہ لم یتمعَّر فی ساعة قط“۔(شعب الایمان للبہیقی:6/95 حدیث رقم:8587)

الله تعالی نے حضرت جبرائیل کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو شہر والوں سمیت الٹ دو ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اے میرے پروردگار! اس شہر میں آپ کا فلاں بندہ بھی ہے، جس نے ایک لمحہ بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی، پ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا!تم اس شہر کو اس شخص پر اور شہر والوں پر الٹ دو، کیوں کہ شہر والوں کو میری نافرمانی کرتا دیکھ کر اس شخص کا چہرہ میرے حق میں ایک گھڑی کے لیے بھی متغیر نہیں ہوا۔

امر بالمعروف و نہی المنکر میں حاکم کی اجازت
جب کسی مسلمان کو برائی کے مٹانے پر قدرت حاصل ہو تو کیا اسے اس برائی کے مٹانے کے لیے حاکم وقت کی اجازت لینا ضروری ہے؟

اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہ فریضہ صرف وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں، جو صاحب اقتدارہوں یا ان کی طرف سے اس کام پر مقرر ہوں، عوام کو انفرادی طور پر یہ فریضہ انجام دینا درست نہیں۔

جمہور علمائے امت کی رائے ان کے مخالف ہے، ان کے نزدیک ہر مسلمان یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے، کیوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دلائل عام ہیں، ان کی عمومیت کو ختم کر کے اسے اصحاب اقتدار کے ساتھ مخصوص کرنا بے بنیاد فیصلہ ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، البتہ دو امور میں حاکم وقت کی اجازت لینا ضروری ہے، جہاں برائی کے مٹانے اور معروف کے قیام کے لیے حاکم وقت کی مدد لینا ضروری ہو جائے ،یا حدوداور لشکر کشی قائم کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔

امر بالمعروف کے لیے متقی ہونا ضروری ہے؟
اہل سنت کے نزدیک امر بالمعروف کے لیے متقی ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ یہ فریضہ فاسق و فاجر بھی انجام دے سکتا ہے، اگر اس کے متقی اور صالح ہونے کی شرط عائد کر دی جائے،تو پھر اس فریضے کی ادائیگی چند لوگوں تک محدود ہو جا ئے گی۔

خود نیک اور صالح ہونا مطلوب ہے اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا بھی مطلوب ہے، ایک کے نہ ہونے سے دوسرے کا سقوط لازم نہیں آئے گا( الفتاوی الھندیہ:5/408طبع بیروت)۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ سے یہی مفہوم متبادر ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مروا بالمعروف وان لم تعملوا بہ، وانھوا عن المنکر وإن لم تجتنبوہ کلہ“․
نیکی کا حکم دو اگرچہ تم اس پر عمل پیرا نہ ہو، برائی سے روکو اگرچہ تم پوری طرح اس سے بچ نہ سک رہے ہو۔ (اخرجہ الھیثمی فی المجمع:7/277)

عوام کے لیے علمائے کرام کو امر بالمعروف کرنا جائز نہیں ہے
عامی کے لیے قاضی، مفتی، عالم کو امر بالمعروف کرنا جائز نہیں ہے(الفتاوی الھندیہ،5/408 طبع بیروت)

ایک تو اس لیے کہ اس میں بے ادبی ہے، دوسری یہ کہ بعض اوقات عامی ایک چیز کو منکر سمجھ رہا ہوتا ہے،لیکن وہ منکر نہیں ہوتایا اس درجے کا نہیں ہوتا، جس پر نکیر واجب ہویا بعض اوقات کوئی دوسری وجہ ہوتی ہے، عامی عموماً اس سے واقف نہیں ہوتا۔

امر بالمعروف کی شرائط
مسلمان ہونا…امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے پہلی شرط مسلمان ہونا ہے، کافر کو مسلمانوں پر حکم چلانے کا حق نہیں ہے، کیوں کہ یہ منصب اہل عزت کا منصب ہے، اور کافر ذلیل ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلاً﴾․ (النساء:141)

نیز یہ فریضہ دین کی نصرت اور اس کے احیاء کے لیے ہوتا ہے، کافر تو سرے سے اس کا قائل نہیں۔(احیاء علوم الدین:2/398)

علم شریعت سے واقف ہونا…امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ وہ علم شریعت سے واقف ہو( احکام القرآن ظفر احمد عثمانی،آل عمران ذیل آیت رقم:104) جسے کرنے یا روکنے کا حکم دے رہا ہو، اس کے حسن و قباحت و شناعت سے واقف ہو۔

نیز اس کو یہ معلوم ہو کہ اگر یہ منکر ہے تو کس درجے کا ہے غیر اولیٰ ہے،مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی ہے یا حرام؟ پھر اسی کے موافق اس کامعاملہ کرے، اگر کسی معروف کا حکم دے رہا ہے، تو اس کا بھی درجہ معلوم ہو،اولیٰ و افضل ہے، مستحب ہے واجب ہے یا فرض ہے؟

کیوں کہ علم شریعت سے ناواقف بعض اوقات کسی چیز کو منکر سمجھ لیتا ہے، لیکن وہ معروف ہوتا ہے، یا معرو ف سمجھ لیتا ہے، مگر وہ منکر ہوتا ہے یا معرو ف و منکر کی پہچان ہوتی ہے، لیکن اس کے درجے سے واقف نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے امت میں انتشار پھیلتا ہے، البتہ جو نیکی معروف ہو، مثلاً نماز پڑھنا، زکوة دینا، حج کرنا، صلہ رحمی کرنا اور جو منکرات سب میں معروف ہیں مثلاً قتل، زنا،جھوٹ، رشوت، سودی معاملہ، شراب، نشہ۔ اس میں تو ہر مسلمان، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، اسے امر بالمعروف کا حق حاصل ہے۔

قدرت ہو…اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی قدرت نہیں، جس کی تفصیل سابقہ صفحات میں گزر چکی ہے، تو پھر معذور ہے(احکام القرآن ظفر احمد عثمانی،آل عمران، ذیل آیت:104)۔

اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کے حکم بجا آوری مقصد ہو
امر بالمعروف سے مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور احکام شریعت کا غلبہ مقصود ہو، ریا کاری، شہرت یا کسی مسلمان کی تذلیل و تحقیرمقصد نہ ہو۔

﴿ولا تکونوا کالذین تفرقوا﴾․( آل عمران ، آیت:105)

اہل ایمان کو یہودی شناختوں اور قباحتوں سے دور کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے، یہودیوں نے امر بالمعروف نہی عن المنکر ترک کیا ،تم اسے قائم کرو، یہودی فرقوں میں بٹ گئے اور عذاب عظیم کے مستحق ٹھہرے، وہ عذاب دنیا میں ذلت کی شکل میں ظاہر ہو گا،لہٰذا تم ایسے افتراق و انتشار سے بچو، جو امت کی وحدت پارہ پارہ کردے۔

تفرقوا واختلفواکا مصداق اہل کتاب یہودو نصاری ہیں اور ”البینت“سے مراد کتب آسمانی تورات و انجیلہیں۔(تفسیرکبیر۔آل عمران، ذیل آیت:105)

یہودو نصاری باہمی حسدو عناد سے پیدا ہونے والے اختلاف کو دینی اختلاف بنا کر اس قدر آگے بڑھ گئے کہ آسمانی کتاب جو نبی پر وحی ہونے کی وجہ سے امور قطعیہ پر مشتمل تھی، اس میں بھی اختلاف کر کے گروہ درگروہ ہو گئے، معلوم ہوا یہاں جس اختلاف کی مذمت اور وعید بیان کی جا رہی ہے، وہ امور قطعیہ میں اختلاف کرنا ہے، خواہ ان امور قطعیہ کا تعلق عقائد سے ہو یا معاملات سے۔ امور فرعیہ اجتہادیہ اس بحث سے خارج ہیں،ایسے امور میں اختلاف کا وجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے چلا آرہا ہے، جس پر آپ نے تغلیط فرمائی ہے ،نہ نکیر فرمائی ہے، اس کی مکمل تفسیر آیت 101میں گزر چکی ہے۔

اگر کوئی شخص تعصب میں مبتلا ہوکر ایسے امور میں اختلاف کو انتشار امت کا ذریعہ بنا لیتا ہے تو اس میں اس کی اپنی فہم و طبیعت کا قصور ہے، نہ شرعی حکم کا۔

امورفر عیہ میں اختلافِ امت زحمت یا رحمت؟
امور فرعیہ اجتہاد یہ میں اختلاف کی نوعیت پر گہری نظر ڈالی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ یہ اختلاف امت کے حق میں وسعت و گنجائش کا در کھولتا ہے، اس حوالے سے ایک حدیث بھی زبان زد عام ہے، جس کا مصداق بھی اس طرح کا اختلاف ہے ، وہ حدیث ہے،”اختلاف امتی رحمة“ اس پر بحث کرتے ہوئے علامہ ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں۔

علامہ خطابی نے اس حدیث کو غریب الحدیث میں استطراداً ذکر فرما کر کہا ہے اس حدیث پر دو آدمیوں نے یہ کہہ کراعتراض کیا ہے :

”اگر اتفاق رحمت ہوتا تو پھر اتفاق عذاب ہوتا“ان میں سے ایک اسحق الموصلی بے شرم اور دوسرا عمرو بن بحرالجاحظ ملحد ہے، (یہ اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے کہ اگر امت میں اختلاف بھی رحمت ہے تو پھر اتفاق بدرجہ اولیٰ رحمت ہو گا)

علامہ خطابی نے گو ترید کی ہے، لیکن یہ تردید نا کافی ہے، ہاں اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل ضرور ہے، اس حدیث کو بیہقی نے المدخل میں سلیمان بن ابی کریمہ عن جویبر عن الضحاک عن ابن عباس کے طریق سے مرفوعاً نقل کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، ”واختلاف اصحابی لکم رحمة“اس طریق سے طبرانی اور دیلمی نے بھی انہیں الفاظ سے اس کی تخریج کی ہے، لیکن جویبر نہایت ضعیف ہیں اور ضحاک کا ابن عباس سے انقطاع ہے…خلاصہ یہ ہے کہ حدیث سند کے اعتبار سے انتہائی درجے کی ضعیف ہے، لیکن قاسم بن محمد، عمربن عبدالعزیز یحییٰ بن سعید جیسے جلیل القدرتابعین سمیت دیگر متعدد علماء کے اقوال سے موید ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث کی تائید اگر علماء کے اقوال سے ہو جائے تو فی الجملہ اس سے استدلال کرنا درست ہوتا ہے۔(احکام القرآن، ظفراحمد عثمانی.آل عمران، ذیل آیت :105 )

لیکن یاد رکھیں امور فرعیہ اجتہاد میں اختلاف کے درست ہونے کی بنیاد مذکورہ حدیث نہیں ہے، اس کے صحیح ہونے کی بنیادمذکورہ حدیث نہیں ہے، اس کے صحیح ہونے کی بنیاد تو وہ حدیث ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:”من:اجتہد فأصاب فلہ اجران، ومن أخطا فلہ واحد“․(صحیح بخاری، حدیث رقم:7352/صحیح مسلم حدیث رقم:1716)

جس نے اجتھاد کیا اور درست کیا تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے یہ مضمون ان الفاظ میں منقول ہے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”إذا حکم الحاکم فاجتھد، ثم أصاب فلہ أجران، وإذا حکم فاجتھد، ثم أخطأ فلہ أجر․“(سنن ترمذی،حدیث رقم:1326)

جب حاکم فیصلہ کرے، اجتہاد کرے، پھر درست نتیجے تک پہنچے،اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب فیصلہ کرے، اجتہاد کرے، پھر غلط نتیجے پر پہنچے، اس کے لیے ایک اجر ہے۔

اس کے علاوہ صحابہ کرام کا باہمی اختلاف کا ثبوت اور اس کا تواتر نقلی اس کے جواز کی بنیاد ہے۔

خلیفة المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنی مملکت میں یہ اعلان کرایا تھا:
” جس شہر کے باشندے جن ائمہ کے اقوال پر عمل پیرا ہیں انہیں اسی حال پر چھوڑ دیا جائے، اس(تخریج و استنباط پر مبنی) اختلاف کی وجہ سے دین میں بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے، میں دین کی تمام راہوں میں قیمتی چیزوں میں بڑی غیر معمولی چیز سمجھتا ہوں، یہ بڑی نا پسندیدہ حالت ہوتی ہے کہ اس قسم کے مسائل میں لوگ ایک ہی موقف پر آجائیں۔ (مسنددارمی، ص:80، طبع ہند)۔ (جاری)