سورة الاخلاص، مکمل توحید کا بیان اور ہر طرح کے شرک سے نفی

سورة الاخلاص، مکمل توحید کا بیان اور ہر طرح کے شرک سے نفی

مولانا محمد نجیب قاسمی

سورة الاخلاص کا آسان ترجمہ
اے محمد!کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں، یعنی اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ وہی خالق حقیقی ومعبود حقیقی ہے ،باقی کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی مخلوق ہے۔

شان نزول
اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کہا اپنے رب کا نسب ہمیں بیان کیجئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کے متعلق بتائیں کہ وہ رب کیسا ہے، جس نے آپ کو بھیجا ہے؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ غرضیکہ مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اُس معبود کے متعلق سوال کیا گیا جس کی عبادت کی طرف آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ ہر موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے ان کے جواب میں یہی سورت سنائی تھی۔ البتہ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے کیا تھا، اور ان کے جواب میں ہی یہ سورت (سورة الاخلاص) نازل ہوئی تھی۔

الفاظ کی تحقیق
قُلْ:اس کے اولین مخاطب تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہیں کیوں کہ آپ ہی سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون ہے اور کیسا ہے؟، لیکن حضور کے بعد ہر مسلمان اس کا مخاطب ہے، یعنی ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو بیان کرے۔﴿ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾اللہ اُس ذات اقدس کا نام ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جو یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، جس نے اپنی قدرت سے یہ پوری کائنات بنائی ہے، اور وہی تنہا اس پوری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے۔﴿ اللَّہُ الصَّمَدُ﴾اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت بیان کی گئی کہ وہ صمد ہے۔ صمد لفظ کا مفہوم اردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے مفہوم میں دو باتیں ہیں کہ سب اس کے محتاج ہیں، اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔﴿ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ﴾نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ یہ اُن لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نسب نامہ کا سوال کیا تھا کہ اللہ رب العزت کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے، جو توالد اور تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے۔ نیز اس میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔﴿ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ﴾کفو کے لفظی معنی مثل اور مماثل کے ہیں۔ یعنی نہ کوئی اس کا مثل ہے اور نہ کوئی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم موت کو آج تک اپنی عقلوں سے نہیں سمجھ سکے تو اس ذات اقدس کو اپنی عقلوں سے کیسے سمجھ سکتے ہیں جو زندگی اور موت کا خالق ہو۔اس کے دیکھنے، سننے اور ہر طرح کی خبر رکھنے کو مخلوق کے سننے، اور دیکھنے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں اللہ کی ذات کو سمجھنے کے لئے اللہ کی مخلوقات میں غور وخوض کرنا چاہئے، مثلاً سورج، چاند، ستارے، آسمان، زمین، پانی، ہوا، آگ، دھوپ، درخت، پہاڑ، جانور، پھل، سبزیاں وغیرہ کیسے وجود میں آگئے۔ خود ہمیں اپنے جسم کے اعضاء پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہمارے جسم کا سارا نظام کیسے چل رہا ہے۔صرف انگوٹھے کے نشان پر غور کریں کہ آج تک دو انسانوں کے انگوٹھے کا نشان ایک جیسا نہیں ہوا۔

خلاصہٴ تفسیر
اس سورت کی ان چار مختصر آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیاہے۔ پہلی آیت :﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾ میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ معبودوں کے قائل ہیں۔ دوسری آیت ﴿اللَّہُ الصَّمَد﴾ میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم کرتے ہیں۔تیسری آیت:﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ﴾ میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ اور چوتھی آیت ﴿وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ﴾ میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں۔ اس طرح مختصر سی سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دے کر خالص توحید ثابت کی ہے۔ اسی لئے اس سورت کو سورة الاخلاص کہا جاتا ہے۔

سورة الاخلاص میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک سے نفی ہے
اس سورت میں ہر طرح کے مشرکانہ خیالات کی نفی کرکے مکمل توحید کا سبق دیا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ وہی حقیقی بادشاہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسے اونگھ بھی نہیں آتی ہے۔ وہ نہ کبھی سوتا ہے، نہ کھاتا ہے اور نہ وہ پیتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اگر کائنات میں دو رب ہوتے تو دونوں کا آپس میں اختلاف ہونے کی وجہ سے دنیا کا نظام کب کا درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ وہ انسان کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ وہ ہر شخص کے ہر عمل سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم رکھتا ہے۔ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے، بلکہ سب اس کی مخلوق ہیں۔انسان، جن، چرند، پرند، درند سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ سب کے بغیر سب کچھ کرنے والا ہے، اور پوری کائنات مل کر بھی اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی۔ حاجت روا، مشکل کشا اور مسائل کا حل کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ وہی مرض اور شفاد ینے والا ہے۔ وہی عزت وذلت دینے والا ہے۔ وہی زندگی اور موت دینے والا ہے۔ اسی نے زندگی اور موت کو بنایا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ ہم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والے ہیں۔

سورة الاخلاص کے بعض فضائل نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبانی
سورة الاخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر:
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ سب جمع ہوجاؤ، میں تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا۔ جو جمع ہوسکتے تھے، جمع ہوگئے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یعنی سورة الاخلاص کی تلاوت فرمائی۔ اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔(صحیح مسلم، باب فضل قراء ة قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَد

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے صحابی (حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ)کو دیکھا کہ وہ سورة قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ بار بار دہرارہے ہیں۔ صبح ہوئی تو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا کیونکہ وہ اسے معمولی عمل سمجھتے تھے (کہ ایک چھوٹی سی سورت کو بار بار دہرایا جائے)۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ یہ سورت قرآن کریم کی ایک تہائی کے برابر ہے۔ (صحیح البخاري، باب فضائُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ)

مذکورہ بالا ودیگر احادیث میں سورة الاخلاص کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے، جس کی مفسرین نے مختلف توجیہ بیان فرمائی ہیں:
قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے: توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں ان تین عقیدوں میں سے توحید کے عقیدے کی مکمل وضاحت فرمائی گئی ہے۔ اس لئے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔

قرآن کریم میں تین امور خاص طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ اللہ کی صفات، احکام شرعیہ اور انبیاء کرام وپہلی امتوں کے قصے۔ اس سورت میں اللہ کی جملہ صفات کو اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس سورت میں تین امور میں سے ایک امر کا مکمل طور پر اجمالی ذکر آگیا ہے،اس لئے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔

قرآن کریم کے معانی اور مفہوم تین علوم پر مشتمل ہیں۔ علم التوحید، علم الشرائع اور علم اخلاق وتزکیہ نفس ، اس سورت میں علم التوحید سے متعلق بیان کیا گیا ہے، اس وجہ سے سورة الاخلاص کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمنے ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

سورة الاخلاص کی کثرت سے تلاوت کرنے والا اللہ کا عزیز
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر روانہ کیا۔ وہ صاحب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ اور نماز میں ختم قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پر کرتے تھے۔ جب لوگ واپس آئے تو اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کیا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ یہ طرز عمل کیوں اختیار کئے ہوئے تھے۔ چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ا س لئے کرتے تھے کہ یہ الله تعالیٰ کی صفت ہے اور میں اسے پڑھنا عزیز رکھتا ہوں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ انہیں بتادو کہ اللہ بھی انہیں عزیز رکھتا ہے۔( صحیح البخاري ،کتاب التوحید باب ما جاء فی دعاء النبی صلی الله علیہ وسلم)

سورة الاخلاص سے سچی محبت کرنے والا جنت میں جائے گا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی مسجد قباء میں ہم لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ جب بھی نماز میں سورة فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنے لگتے تو پہلے سورة الاخلاص پڑھتے پھر کوئی دوسری سورت پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کیا آپ سورة الاخلاص پڑھنے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کافی نہیں جو دوسری سورت بھی پڑھتے ہیں۔ یا تو آپ یہ سورت پڑھ لیا کریں یا پھر کوئی اور سورت۔ انہوں نے فرمایا: میں اسے (سورة الاخلاص کی تلاوت) ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہاری امامت کروں تو ٹھیک ہے ورنہ میں (امامت) چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ لوگ انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے، لہٰذا کسی اور کی امامت پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ قصہ بیان کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے اُن سے پوچھا:تمہیں اپنے ساتھیوں کی تجویز پر عمل کرنے سے کون سی چیز روکتی ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ تم ہر رکعت میں یہ سورت پڑھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سورت سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:تمہیں اس سورت کی محبت یقیناجنت میں داخل کرے گی۔ ترمذی۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب ما جاء فی سورة الاخلاص

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے کسی کو سورة الاخلاص پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: واجب ہوگئی۔ میں نے پوچھا:کیا واجب ہوگی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جنت۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن ۔ باب ما جاء فی سورة الاخلاص) یعنی جس نے اس سورت کے تقاضوں پر عمل کرلیا تو وہ ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوگیا۔

سورة الاخلاص دنیاوی آفات سے حفاظت کا ذریعہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہر رات جب بستر پر آرام کے لئے لیٹتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کرکے قل ہو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر ان پر پھونکتے تھے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ سر ، چہرہ اور جسم کے آگے کے حصہ سے شروع کرتے۔ یہ عمل آپ تین مرتبہ کرتے تھے۔(صحیح البخاری، باب فضل المُعَوذات)

حضرت عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات بارش اور سخت اندھیرا تھا، ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو تلاش کرنے کے لئے نکلے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو پالیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، میں نے عرض کیا کہ کیا کہوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، قل ہو اللہ احد، اور معوذتین پڑھو، جب صبح اور شام ہو، تین مرتبہ یہ پڑھنا تمہارے لئے ہر تکلیف سے امان ہوگا۔ ابوداود، ترمذی، نسائی

خلاصہٴ کلام: جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ سورةا لاخلاص قرآن کریم کی ایک عظیم سورت ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے، جس کی مختلف توجیہ بیان کی گئی ہیں۔ اس مختصر سی سورت سے محبت کرنے والوں اور اس کو اہتمام سے پڑھنے والوں کو آپ صلی الله علیہ وسلمنے جنت کی بشارت سنائی ہے۔ معوذتین (سورة الفلق اور سورةا لناس)کے ساتھ سورة الاخلاص پڑھ کر اپنے اوپر دم کرنے سے متعدد آفات سے حفاظت ممکن ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات بیان کی گئی ہیں، ان پر غور وخوض کریں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات پر ایمان لائیں اور اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج وغیرہ تمام مدنی ومالی عبادات میں صرف اللہ کی ذات کی رضا مطلوب ہو۔