ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
تقلید مطلق اور تقلید مقید
عہد صحابہ اور تابعین میں ”تقلید مقید“ یعنی کسی ایک متعین شخص کی تقلید کا رواج نہیں تھا، جسے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا وہ کسی بھی صاحب علم واجتہاد سے پوچھ کر اس پر عمل کر لیتا، وہ زمانہ دیانت، خوف خدا، احتیاط وتقوی کا زمانہ تھا، لیکن بعد میں آنے والا دور جب اس سے مختلف ہوچکا، خوف کی جگہ خواہش نفس نے لے لی، احتیاط اور تقوی کی جگہ حیل اور رخصت کے جذبات پنپنے لگے، لوگ من پسند فتاوی کے لیے، علماء ومجتہدین کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر، تسکین نفس کا سامان پیدا کرنے لگے، تب اس خطرناک روش کی روک تھام کے لیے علمائے کرام نے ”تقلید مقید“(یعنی کسی ایک مجتہد پر اعتماد کر کے اس کی رائے کو قبول)کے وجوب کا فیصلہ فرمایا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے فتنہ کے خوف سے تمام صحیفوں کے رسم خط کو محو کر کے سب کو رسم عثمانی کا پابند کردیا۔ اس طرح فتنے کے خوف سے علماء نے تقلید مقید کا فیصلہ فرمایا۔ لیکن اب سوال یہ تھا کس کی تقلید شخصی کی جائے؟ چوں کہ صحابہ کرام کی فقہی آراء مدوّن اور منضبط نہیں تھیں اس لیے مجتہدین امت کی مدون فقہ پرتکوینی طور پر امت متفق ہوتی چلی گئی۔
چناں چہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
إن ھذہ المذاہب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا، وفی ذلک من المصالح مالا یخفی، لا سیما فی ھذہ الأیام التی قصرت فیھا الھمم جدا، وأشربت النفوس الھوی، وأعجب کل ذی رأی برأیہ.(حجة الله البالغة:1/154)
یہ چاروں مذاہب جو مدون ہیں اور مرتب ہیں، پوری امت یا امت کا بڑا حصہ آج تک ان کی تقلید پر متفق چلا آرہا ہے اور اس میں جو مصالح ہیں وہ مخفی نہیں ہیں، خاص کر اس زمانے میں کہ لوگوں کی ہمتیں پست ہوگئیں۔ اور دلوں میں ہوائے نفس کے جذبات غالب آچکے ہیں اور اپنی اپنی رائے کو ہی سب سے اچھا سمجھنے کا دور دورہ ہے۔
علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:إن الإجماع انعقد علی عدم العمل بمذھب مخالف للأربعة لإنضباط مذاھبھم وانتشارھا وکثرة أتباعھم․ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:1/143)
ائمہ اربعہ کے مخالف کی رائے کو اپنانے کے منع پر اجماع منعقد ہو چکا ہے ،کیوں کہ مدوّن مذاہب یہی چار ہیں، یہی امت میں پھیل چکے ہیں اور اس کے پیروکاروں کی کثرت ہے۔
تقلیدکن مسائل میں درست ہے؟
تقلید کن مسائل میں کی جاتی ہے۔ اسے جاننے کے لیے بطور تمہید یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن وحدیث کی نصوص باعتبار ثبوت اور مدلول کے چار قسموں پر مشتمل ہیں۔
قطعی الثبوت، قطعی الدلالة:
اس کا مطلب ہے قرآن وحدیث کی وہ نصوص جو قطعی الثبوت ہوں ،یعنی قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے ثابت ہوں، نیز قطعی الدلالة بھی ہو، یعنی اس نص سے جو حکم ثابت ہورہا ہے اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔ اگر اس نص میں کسی کام کے کرنے کا حکم ہے تو وہ فرض ہوتا ہے۔ اور کسی کام سے منع کیا گیا ہے تو وہ حرام ہوتا ہے۔ ایسے تمام اوامر اور مناہی جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالة ہونے کی بنا پر وجود میں آئے ہوں ان میں کسی کی تقلید روا نہیں ہے۔جیسے عقائد میں عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت، عقیدہ معاد، عقیدہ ختم نبوت۔
اعمال میں اوامر جیسے نماز کی فرضیت، پانچ نمازوں کی فرضیت، زکوة کی فرضیت، مناہی میں جیسے، شراب، جوا، قمار، مردار اور زنا کی حرمت، اس طرح کے تمام امور میں تقلید کی حاجت نہیں ہے۔
قطعی الثبوت ، ظنی الدلالة:
وہ امور جن کا ثبوت قرآن کریم اور حدیث متواتر سے ہو، مگر اس کے معنی مرادی کی تعیین میں اختلاف کی گنجائش ہو، جیسے: قرآن کریم کی آیت :﴿والمطلّقٰت یَتَربّصْن بأنفسھن ثلاثة قُرْوءٍ﴾(البقرة:228)
اس آیت کریم میں لفظ ”قُرْوء“ لغوی طور پر دو معنی کا احتمال رکھتا ہے۔ حیض طہر۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ”قُرْوء“
سے حیض مراد ہے اور یہی راجح قول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ہے، جب کہ امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ نے دوسرا معنی ”طہر“مراد لیا ہے۔ یہ اختلاف ”قُرْوء“
کے معنی لغوی کے اختلاف کی وجہ سے ظاہر ہوا۔(عمدة القاری:20/302، داراحیاء التراث العربی)
ظنی الثبوت، قطعی الدلالة
وہ حکم ہے جو ظنی الثبوت ہو، یعنی ٰخبر واحد یا خبر مشہور سے ثابت ہو لیکن اس کا معنی مرادی قطعی الثبوت ہو، اس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ مثلاً:آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” ألا!لا یحج بعد ھذا العام مشرک، ولا یطوف بالبیت عریان․“ (سنن نسائی، رقم الحدیث:2960)
…یعنی” آگاہ ہوجاؤ! امسال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہوکر کر سکتا ہے۔“
یہ حدیث متواتر نہ ہونے کی وجہ سے ظنی الثبوت ہے، مگر اس کے معنی مرادی میں تاویل کا احتمال نہ ہونے کی وجہ سے قطعی الدلالة ہے۔ چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 9ھ میں حج کے موقع پر آپ علیہ السلام کے اس فیصلے کا اعلان فرمایا۔ اس کے بعد مشرک اور ننگے کے لیے طواف کرنا ہمیشہ کے لییممنوع ہوگیا۔ اس بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ظنی الثبوت، ظنی الدلالة:
وہ حکم جو ظنی الثبوت ہو ،یعنی خبر واحد سے ثابت ہو اور ظنی الدلالة ہو، یعنی اس کے معنی مرادی میں اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہو، جیسے نماز جمعہ سے قبل چار رکعت سنت کی روایت ہے۔ جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر سے ثابت ہے:”عن عبد اللّٰہ مسعود أنہ کان یصلی قبل الجمعة أربعاً وبعدھا أربعا“․(جامع الترمذی:رقم(523)
یہ حدیث شریف ظنی الثبوت اور ظنی الدلالة ہونے کی وجہ سے محل نزاع ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز جمعہ سے قبل چار رکعت سنت پڑھنا سنت موکدہ ہے۔ جب کہ امام شافعی، امام احمد بن حنبل ، امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک سنت نہیں ہے۔ (بذل المجھود:5/193، دار البشائر الإسلامیة، بیروت)
نصوص کی مذکورہ بالا چار اقسام میں سے صرف پہلی قسم میں تقلید درست نہیں، اس کے علاوہ آخری الذکر تینوں اقسام میں مجتہد کے لیے اجتہاد اور غیر مجتہد کے لیے تقلید کے سوا کوئی چارا نہیں۔ اس مدّعی کو حکیم الامت مولنا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ دوسرے اسلوب میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
مسائل تین قسم کے ہیں:
اول:وہ جن میں نصوص متعارض ہوں۔
دوم:وہ جن میں نصوص متعارض نہیں۔ مگر وجوہ ومعانی متعددہ کو محتمل ہوں، گو اختلاف نظر سے کوئی معنی قریب، کوئی بعید معلوم ہوتے ہوں۔
سوم:وہ جن میں تعارض بھی نہ ہو اور ان میں ایک ہی معنی ہوسکتے ہوں۔ پس قسم اول میں رفع تعارض کے لیے مجتہد کی اور غیر مجتہد کو تقلید کی ضرورت ہوگی۔ قسم ثانی ظنی الدلالة کہلاتی ہے۔ اس میں تعیین احد الاحتمالات کے لیے اجتہاد وتقلید کی حاجت ہوگی۔قسم ثالث قطعی الدلالة کہلاتی ہے، اس میں ہم بھی نہ اجتہاد کو جائز کہتے ہیں، نہ اس کی تقلید کو۔(الإقتصاد فی التقلید والإجتھاد، ص:34)
﴿فقاتل فی سبیل اللّٰہ لاتکلف إلا نفسک﴾
چوں کہ منافقین قتال فی سبیل اللہ پر قیل وقال کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات کے کانٹے بو رہے تھے، ان کی سازشوں کے ازالے اور اہل ایمان کو اس عمل پر ثابت قدم رکھنے کے لیے آیت کریمہ میں خصوصی طور پر آپ علیہ السلام کو خطاب کیا گیا :﴿فقاتل فی سبیل اللّٰہ لا تکلف إلا نفسک﴾
آپ کا ساتھ کوئی دے یا نہ دے، آپ راہ الہی میں کافروں سے قتال سے نکل کھڑے ہوں۔ آپ اپنی ذات کے مکلف ہیں اور ا پنے متعلق جواب دہ ہیں۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسا کبھی نہیں ہو اکہ قتال صرف آپ پر فرض ہوا ہو اور امت پر فرض نہ ہوا ہو۔ آیت کریمہ میں آپ علیہ السلام کو خصوصی خطاب کیا گیا ،مگر اس ضمن میں امت محمدیہ بھی شامل ہے۔(احکام القرآن، القرطبی، النساء:84)
لیکن یہ اسلوب اختیار کرنے میں کئی حکمتیں ہیں۔
قتال فی سبیل اللہ کی اہمیت امت محمدیہ پر نمایاں ہو۔
منافقین کے وساوس وشبہات کا ازالہ عملی جواب سے دیا جاسکے۔
قتال فی سبیل اللہ امن کا محافظ ہے
آیت کریمہ میں آپ علیہ السلام کو قتال کرنے کا حکم دیا گیا، پھر آپ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ آپ اہل ایمان کو بھی اس نیک عمل پر ابھاریں، پھر قتال فی سبیل اللہ کے ایک فائدے کی طرف توجہ دلائی گئی:﴿عسی اللّٰہ أن یکف بأس الذین کفروا﴾کہ اس قتال کی برکت سے اللہ تعالیٰ کافروں کے ظلم کو روک دے گا۔ گویا قتال فی سبیل اللہ کافروں کے ظالمانہ اقدام کے لیے رکاوٹ بنا رہتا ہے، اگر قتال فی سبیل اللہ کا تصور مسلمانوں کی ذہن سے محو ہوجائے تو پھر مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی، قتال فی سبیل اللہ امن کا محافظ ہے، یوں تو لغت میں امن، چین وسکون، صلح وآشتی کا نام ہے اور اصطلاحاً ہر انسان کی جان ومال، مذہب ومعاشرت، ملک وملت کے محفوظ ہوجانے کا نام امن ہے۔ لیکن امن کا تصور اور اس کا دائرہ کار، اس کی حدود اربعہ، اس کے انطباق ومصداق اور ترجیحات میں عالم کفر اور عالم اسلام میں زمین اور آسمان کا اختلاف ہے۔ عالم کفر کا نظریہ ”امن“ خالص مادی، معاشی، وطنی، قومی، علاقائی ضرورت کی پیداوار ہے۔ اسلام کا نظریہ ”امن“ خالص مذہبی روحانی اور فلاحی بنیادوں پر استوار ہے ۔ عالم کفر کے نظریہ امن کا پورا ڈھانچہ انسان کی ناقص فکر کا مظہر ہے، جب کہ اسلام کے تصور امن کا حسین قلعہ وحی کے نور سے جگمگا رہا ہے، طاغوتی قوتیں اپنے مخصوص امن کے نام پر دنیا کے امن کو تہہ وبالا کیے رکھتی ہیں، رحمانی تصورِ امن اور شیطانی تصور ِامن میں باہمی کش مکش کا دور، مذہب ومعاشرت سے لے کر، ماحول سے جنگ وجدال کے میدان تک جاری رہے گا اور خدا کے دیے ہوئے نظام امن کا نفاذ کافروں کے ساتھ امن کانفرنس میں شرکت کرنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملا کر امن کی فاختائیں اڑانے سے نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کا فیصلہ بھی میدان جنگ میں ہوگا۔ اس لیے آیت کریم میں جہاد کو امن کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔
﴿فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہ، سَبِیْلًا، وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآء َ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا، اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآءُ وکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُم، وَ لَوْ شَآء َ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلًا، سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْکُمْ وَ یَاْمَنُوْا قَوْمَہُمْ کُلَّمَا رُدُّوْا اِلَی الْفِتْنَةِ اُرْکِسُوْا فِیْہَا فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْکُمْ وَ یُلْقُوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوْا اَیْدِیَہُمْ فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَ اُولٰٓئکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا﴾․(سورة النساء، آیت:88 تا91)
پھر تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے معاملے میں دو فریق ہو رہے ہو اور اللہ نے ان کو الٹ دیا بسبب ان کے اعمال کے، کیا تم چاہتے ہو کہ راہ پر لاؤ جس کو گم راہ کیا اللہ نے اور جس کو گم راہ کرے اللہ ہر گز نہ پاوے گا تو اسی کے لیے کوئی راہ، چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہو جاؤ، جیسے وہ کافر ہوئے تو پھر تم سب برابر ہوجاؤ، سو تم ان میں سے کسی کو دوست مت بناؤ ،یہاں تک کہ وطن چھوڑ آویں اللہ کی راہ میں، پھر اگر اس کو قبول نہ کریں تو ان کو پکڑو اور مار ڈالو جہاں پاؤ اورنہ بناؤ ان میں سے کسی کو دوست اور نہ مدد گار، مگر وہ لوگ جو ملاپ رکھتے ہیں ایک قوم سے کہ تم میں اور ان میں عہد ہے یا آئے ہیں تمہارے پاس کہ تنگ ہوگئے ہیں دل ان کے تمہاری لڑائی سے اور اپنی قوم کی لڑائی سے بھی اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر زور دے دیتا تو ضرور لڑتے تم سے، سو اگر یکسو رہیں وہ تم سے، پھر تم سے نہ لڑیں اور پیش کریں تم پر صلح تو اللہ نے نہیں دی تم کو ان پر راہ۔
اب تم دیکھو گے ایک اور قوم کو جو چاہتے ہیں کہ امن میں رہیں تم سے بھی اور اپنی قوم سے بھی ، جب کبھی لوٹائے جاتے ہیں وہ فساد کی طرف تو اس کی طرف لوٹ جاتے ہیں، پھر اگر وہ تم سے یکسو نہ رہیں اور نہ پیش کریں تم پر صلح اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور مار ڈالو جہاں پاؤ اور ان پر ہم نے تم کو دی ہے کھلی سند۔
منافقین کی اقسام اور ان کے احکام
منافق وہ شخص ہے جو ظاہری طور اسلام کا لبادہ اوڑھ لے اور دل میں کفریہ عقائد وافکار پر مطمئن ہو، دنیاوی مفادات کے لیے زبان سے کلمہ شہادت کا اقرار کرتا ہو ،مگر دل تصدیق رسالت سے محروم ہو، عہد نبوی میں منافقوں کا سردار عبد اللہ بن أبی تھا، ان کے نفاق کا علم بذریعہ وحی آپ علیہ السلام کو حاصل تھا اور صحابہ کرام بھی ان کو ان کی خصلتوں سے عموما جانتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی منافقوں کو اپنا وزیر ومشیر نہیں بنایا، اورنہ ہی خلوت وجلوت کی مجالس میں ان کی عزت افزائی فرمائی، چوں کہ یہ ظاہرا خود کو مسلمان کہتے اور مسلمان معاشرے کے افراد کہلاتے، اس لیے آپ علیہ السلام نے کبھی ان کے خلاف قتل وقتال کا اقدام نہیں اٹھایا۔
البتہ جو منافقین اپنے کفر کو اعلانیہ ظاہر کر کے نفاق کے پردے سے نکل آتے وہ اس حکم سے مستثنیٰ تھے، ایسے منافق مرتد کے حکم میں آکر حربی کافر کی طرح مباح الدم ہوجاتے۔
ان آیات کریمہ میں ایسے ہی منافقوں کی اقسام اور ان کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔
پہلی قسم:اعلانیہ ارتداد اختیار کر کے دار الحرب جانے والے
﴿فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ…﴾
اس آیت کریمہ سے ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اعلانیہ ارتداد اختیار کیا اور دار الحرب مکہ مکرمہ میں چلے گئے۔ حالاں کہ ہر مومن کے لیے اس وقت ہجرت فرض تھی، ایسے منافقوں کے کفر کے متعلق اور ان سے قتال کے متعلق صحابہ کرام میں اختلاف ہوا، بعض انہیں مسلمان سمجھ کر ان سے لڑنے پر اختلاف کر رہے تھے، تب یہ آیت نازل ہوئی تم ان کے متعلق دو گروہوں میں کیوں بٹ گئے ہو؟
منافقین کی اس قسم کا حکم یہ بتلایا گیا کہ اگر یہ راہ راست پر نہ آئیں یعنی ایمان لا کر ہجرت نہ کریں تو یہ جہاں پائے جائیں انہیں قتل کردیا جائے۔ آستین کے یہ سانپ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
دوسری قسم:معاہد قوم کے حلیف بن جانے والے منافقین
دوسری قسم کی ابتدا:﴿اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ…﴾
سے ہورہی ہے، ترکیبی اعتبارسے یہ استثناء متصل ہے، اس کے مصداق میں دو احتمال ہیں،ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے بھی منافق مراد ہیں، دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے کافر مراد ہیں، اگر کفار مراد لیے جائیں تب بھی درست ہے ،کیوں کہ کافر اور منافق نفس کفر میں باہم متحد اور ہم جنس ہیں۔
لہٰذا اگر اعلانیہ ارتداد اختیار کرنے والے منافقین کسی ایسے کافر قبیلے کے حلیف بن گئے جن کا مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ تھا، تو ان منافقین کو معاہد قبیلے کا حلیف ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کہا جائے۔
یہی حکم کفار کا ہے، اگر مستثنیٰ منہ سے کفار مراد لیے جائیں۔
تیسری قسم:غیر جانب دار اور صلح کے متمنی منافقین یا کفار
تیسری قسم کی ابتدا :﴿اَوْ جَآءُ وکُمْ حَصِرَتْ…﴾
یہاں بھی مذکورہ بالا دونوں احتمالات ہیں۔ اگر منافقین مراد لیے جائیں تو پھر یہ ان اعلانیہ کفر اختیار کرنے والے منافقین کا حکم ہے، جو مسلمانوں سے الگ تھلک ہوگئے۔
مگر غیر جانب دار ہیں ، کافروں کے ہم نوا ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے نہیں ہیں، نیز صلح وامن کے متمنی بھی ہیں، اگر اللہ تعالی چاہتے تو ان کو ڈھیل نہ دیتے، جس طرح پہلی قسم میں مذکور منافقین کی جماعت کو مہلت نہیں دی گئی، لیکن ان کے غیر جانبدارانہ رویّے کی وجہ سے ان سے صلح کی اجازت دی گئی۔ اور اگر ان سے وہ کفار مراد ہوں جو غیر جانب دار، صلح کے متمنی ہوں تو ان سے صلح کی اجازت دی جارہی ہے۔
چوتھی قسم:بظاہر غیر جانب دار ،مگر پس پردہ موقع کی تلاش میں
چوتھی قسم کی ابتدا :﴿سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْن…﴾
سے ہورہی ہے، یہ وہ اعلانیہ ارتداد اختیار کرنے والے منافقین ہیں جو بظاہر غیر جانب دار رہتے ہیں، مگر ان کی حرکات ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ اگر یہ منافقین تیسری قسم کے منافقوں کی طرح غیر جانب دارنہیں بنے تو انہیں قتل وضرب سے دبایا جائے، ان سے امن و صلح کی بات نہ کی جائے۔
اگر ان سے کفار مراد ہیں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔
مدینہ کے منافقین کے لیے یہ احکام کیوں نہیں دیے گئے
گزشتہ سطور میں بیان کی گئی تفسیر میں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو منافقین مدینہ میں سکونت پذیر تھے ان کو قتل وضرب کے احکام سے مستثنی کیوں رکھا گیا ہے؟ اس کے چند جوابات درج ذیل ہیں۔
جن کے لیے قتل وضرب کے احکام دیے گئے یہ وہ منافق تھے، جو ہجرت کر کے دارالاسلام یعنی مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، جب کہ ہجرت کے لیے کوئی رکاوٹ بھی نہیں اور اس وقت ہجرت اقرار باللسان کی طرح اظہار ایمان کے لیے شرط تھی،جب کہ مدینہ کے منافقین مدینہ ہی میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے ماتحت تھے اس لیے گویا مصالح کے حکم میں تھے۔
مدینہ کے منافقین عملی طور پر کبھی کافروں کی صف میں کھڑے ہو کر اہل اسلام کے مقابلے میں نہیں آئے۔ نہ کبھی مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کے حلیف بنے، بلکہ وہ جن احکام اسلام سے اپنی جان چھڑاتے اس کا بھی صریح انکار کرنے کی بجائے حیلے اور جھوٹے عذر تلاش کرتے، تا کہ ان کے نفاق پر پردہ پڑا رہے۔
مدینہ کے منافقین اعلانی اور زبانی ارتداد اختیار کرنے سے جھجھکتے تھے، اور اگر کبھی ان کے دل کی بات زبان پر آجاتی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتی تومنافقین قسمیں کھا کر اس کا انکار کر دیتے، وہ اپنے اوپر نفاق کی چھاپ لگنے کو گوارا نہیں کرتے تھے۔
منافقین مدینہ ظاہرا فرائض کے عامل تھے اور حتی الامکان نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتے۔
منافقین کا قتل مبنی بر مصلحت تھا اورمصلحت مدینہ کے منافقین کو قتل نہ کرنے میں تھی، وگر نہ ان کا فساد جو کم زور اور چھپا ہوا تھا وہ طاقت ور اورعیاں ہوجاتا ،ہاں! اگر مدینہ منافقین میں سے کوئی فرد اعلانیہ مرتد ہوا یا مسلمانوں کے لیے حد درجہ مضر بنا اسے قتل بھی کیا گیا۔
کیا مرتد کے ساتھ صلح کی جاسکتی ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلانیہ ارتداد اور زندقہ اختیار کرنے والے افراد، گروہ، جماعتوں کو صلح اور معاہدے کے ذریعے زندگی کا حق دے کر مسلمان معاشرے میں ضم کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
اس کے جواب سے پہلے بطور تمہید یہ جاننا ضروری ہے کہ مغربی فکر نے آزادی رائے اور انسانی حقوق کے نام پر جو تصورات متعارف کرائے ہیں اور جسے اقوام متحدہ نے جبر کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک میں لاگو کرا رکھا ہے ان خود ساختہ نظریات کو اس قدر مقدس فرض کرلیا گیا ہے کہ اسے ٹھکرانے والا اور چیلنج کرنے والا عالمی امن کا دشمن سمجھا جاتا ہے، اسے سبق سکھانے لیے کئی ممالک متحد ہوجاتے ہیں، اسے زندگی کے حق سے محروم کر کے داد سمیٹی جاتی ہے۔ مگر خدا کے دین اور مصطفی کی شریعت کے خلاف کوئی نام نہاد مسلمان اٹھ کر اس کے اصولی موقف کو چیلنج کر دے، ختم نبوت کا انکار بھی کرے اور خود کو مسلمان بھی کہلوائے، توہین رسالت کا ارتکاب کرے، حدود وقصاص کو وحشی سزائیں کہہ کر مذاق اڑائے، جب دین اسلام اپنے ان باغیوں کے لیے کوئی سزا تجویز کرے تو یہی ٹولہ آزادی رائے کا راگ الاپنا شروع کردیتا ہے، انسانی حقوق کے نام پر ان کا پشتی بان بن جاتا ہے، مذہب کے نام پر قتل کی مذمتوں پر ایک طوفان بد تمیزی شروع کردیتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک ان کا خود ساختہ نظام تو محترم ہے، اس کی عزت وبقا کے لیے ہر قدم اٹھایا جاسکتا ہے، مگر خدا کا دین اور محمد رسول اللہ کی شریعت ہی ایسی لاوارث اور بے وقعت ٹھہری ہے کہ اس کے حسین قلعے پر جب بھی جو چاہے لقب لگا دے اس پر دار وگیر نہیں کی جاسکتی، مسلمانوں کو انسانی حقوق کا سبق پڑھانے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے ملکوں میں کالوں اور گوروں کے لیے یکساں قانون اور حقوق نہیں بنا سکے۔ جن کے نسل پرستانہ نظریات نے انسانیت کا اتنا خون بہایا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر اس کا عشر عشیر بھی نہیں بہا یاگیا،دنیا کے کسی قانون میں آزادی کا مطلق العنانی تصور نہیں پایا جاتا، یہ ایک مہمل نعرہ ہے، جس کی آڑ میں مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے۔ (جاری)