قرآن ِ کریم انسانیت کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے نازل ہوا، اس میں دین ودنیا کی سعادت، بنی نوع انسان کی ہدایت اور اخروی نجات کی ضمانت ہے۔ اس کی شان اعلیٰ وارفع ہے۔ یقینایہ قرآن کریم کا اعجاز اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کو عطا کردہ وہ معجزہ ربانی ہے جو اس کے پڑھنے، سننے او راس کے معانی مفاہیم کے سمجھنے والے کے دلوں پر اثر کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دورِ نبوی سے لے کر آج تک سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں وہ لوگ جنہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کیے ، ہر طرح کی سازشیں کیں اور اس کی آفاقیت کو ختم کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا، لیکن سبھوں نے اپنے منھ کی کھائی۔
کیوں کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر ایسی حلاوت، مٹھاس اور مقناطیسی صفات رکھی ہیں کہ اس کی آواز جن کے کانوں میں پڑی اسے اپنانے پر مجبور ہو گئے۔ قرآن کریم کے اثر آفرینی کا پختہ یقین اہل ِ مکہ کو بھی تھا۔ یہی وجہ ہے انہیں ایسا لگتا تھا کہ اگر محمد صلی الله علیہ وسلم کی باتیں اوران کے اس کلام کی آواز جسے لے کر وہ آئے ہیں، ہمارے کانوں کے ساتھ ٹکرائی تو بچ نہیں پائیں گے، جس کی وجہ سے وہ لوگ قرآن کی آواز کو سننا ہی پسند نہیں کرتے تھے اور اس سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوششوں میں لگے رہتے، بلکہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیا کرتے تھے کہ حق کی آواز سے بچ جائیں، مگر اس سب کے باوجود جب ان کے کانوں سے قرآن کی آواز ٹکرائی تو ان کے دل کی اجڑی ہوئی دنیا یک لخت بد ل گئی اور ان کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھا۔ ان کی کیفیت یہ ہو گئی کہ جس چیز سے جان بچا کر بھاگتے تھے اسی کے عاشق ہو گئے او رجس نبی سے جان چھڑانے کے درپے تھے ان پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کو زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ اور سرمایہ سمجھا او رنبی پاک صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر نہ رہ سکے۔
ایسا کیوں کر نہ ہو! قرآن کہتا ہے کہ یہ کتاب راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتی ہے اور قرآن کریم تو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے اوراجر عظیم کی بشارتیں سناتا ہے اور بدی کے مہلک نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔
قرآن کریم کے اندر کسی طرح کی کوئی بھی تبدیلی اور الٹ پھیر نہیں ہوسکتا، اس پیغام ربانی کو حضرت جبرئیل علیہ السلام لے کر آئے اور آقائے دو جہاں صلی الله علیہ وسلم نے امت کو پہنچا دیا، اس میں کسی طرح کے تغیر وتبدل کا کوئی امکان ہی نہیں۔ اس کی کسی سورت او رپارے تو کیا ایک لفظ، ایک حرف اور نقطہ کی بھی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور ایسا اس وجہ سے بھی ناممکن ہے کہ خود خالق کائنات نے اس کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:”ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے، ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔“
اس آیت کی تفسیر میں مفسرِ قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی نے تفسیر عثمانی لکھا ہے کہ : یاد رکھو! جس شان اور ہیئت سے وہ اترا ہے بدون ایک شوشہ یازبر، زیر کی تبدیلی کے چاردانگ عالم پہنچ کر رہے گا او رقیامت تک ہر طرح کی تحریف لفظی ومعنوی سے محفوظ رکھا جائے گا۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے، مگر اس کے اصول واحکام کبھی نہ بدلیں گے۔ زبان کی فصاحت وبلاغت اور علم وحکمت کی موشگافیاں کتنی ہی ترقی کر جائیں، پر قرآن کی سورتوں ومعنوی اعجاز میں اصلاً ضعف وانحطاط محسوس نہ ہو گا۔
قومیں اور سلطنتیں قرآن کی آواز کو دبانے یا کم کر دینے میں ساعی ہوں گی، لیکن اس کے ایک نقطہ کو کم نہ کر سکیں گی۔ حفاظت ِ قرآن کے متعلق یہ عظیم الشان وعدہٴ الہٰی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا جسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب ومغرور مخالفوں کے سر نیچے ہو گئے۔ واقعات بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک جم غفیر علماء کا جن کی تعداد الله ہی کو معلوم ہے ایسا رہا، جس نے قرآن کے علوم ومطالب اور غیر منقضی عجائب کی حفاظت کی۔ کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرزِ ادا کی، حافظوں نے اس کے الفاظ وعبارت کی۔ یہی وجہ ہے کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر ، زبر تبدیل نہ ہو سکا۔ کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے، کسی نے آیتیں شمار کیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی، حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کو شمار کر ڈالا۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی جس میں ہزاروں، لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی جماعت موجود نہ رہی ہو۔ خیال کرو آٹھ دس سال کا بچہ جسے اپنی مادری زبان میں دو تین جز کار سالہ یاد کرانا دشوار ہے، وہ ایک اجنبی زبان کی اتنی ضخیم کتاب جو متشابہات سے پُر ہے، کس طرح فر فر سنا دیتا ہے۔ پھر کسی مجلس میں ایک بڑے باوجاہت عالم وحافظ سے کوئی حرف چھوٹ جائے یا اعراب کی فروگزاشت ہو جائے تو ایک بچہ اس کو بلا جھجک ٹوک دیتا ہے۔ چاروں طرف سے تصحیح کرنے والے للکارتے ہیں، ممکن ہی نہیں پڑھنے والے کو غلطی پر قائم رہنے دیں۔
قرآن نے ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج کیا اور فرمایا:” کہہ دیجیے! اگر تمام انسان او رجنات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے جیسا کوئی دوسرا کلام بنا کر لے آئیں تو وہ ایسا ہر گز نہیں کرسکتے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔“
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت لوگوں نے کہا کہ اس کتاب کو تو محمد صلی الله علیہ وسلم خود سے گھڑ کر بیان کرتے ہیں، ہم بھی اگر چاہیں تو اس طرح کئی کتابیں پیش کر دیں۔ قرآن نے ایسے لوگوں سے کہا:”کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو آپ نے گھڑ لیا ہے؟! اے نبی ! آپ ان سے کہیے! تم بھی اس جیسی دس سورتیں بنا کر لے آؤ اور الله کو چھوڑ کر جسے چاہو بلالو اگر تم سچے ہو او راگر دس سورتیں بھی نہ پیش کر سکو تو ایک ہی سورت پیش کرکے دکھا دو، یقین مانو! تم ایسا ہر گز نہیں کرسکتے۔“
چناں چہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” اگر تم لوگوں کو شک ہے اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے ، تو اس جیسی ایک سورت تم بھی بنا کر پیش کر دو اور الله کو چھوڑ کر اپنے تمام مدد گاروں کو بلا لو اگر تم سچے ہو او راگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہر گز تم ایسا نہ کر سکو گے تو بچو اس آگ سے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“
چناں چہ آج تک باطل طاقتوں کی طرف سے تحریف کی جو بھی کوشش کی گئی یا اس میں کسی طرح کی انگشت نمائی کرنے کی سازش ہوئی سبھوں نے منھ کی کھائی اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی۔ ابھی حالیہ دنوں میں قرآن مجید میں یہودیوں نے تحریف کرنے کی کوشش کی اور کتاب التوحید کے نام سے ایک کتاب مرتب کی، مگر خود اس حلقہ میں بے اثر ثابت ہوئی۔
اس لیے قرآن کا معجزہ آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اور لوگ اسے اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوار رہے ہیں۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے اس کے ذریعہ اپنی عاقبت سنوارلی، ہمیں بھی اس کی تلاوت سے دل کی تاریکی کو روشن کرنا چاہیے۔ ہمیں سمجھ میں آئے یانہ آئے اس کی تلاوت ضرور کریں، بلکہ اس کے معانی میں غور وفکر کرکے دل کی اُجڑی ہوئی دنیا کو سکون بخشیں۔
الله تعالیٰ نے اس کے ایک ایک حرف کے پڑھنے پر ثواب رکھا ہے اور اس کا پڑھنا، لکھنا، سمجھنا، دیکھنا، چُھونا، عبادت اور کارثواب ہے۔ اس لیے ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے، تب بھی اس کی تلاوت ضروری کرنی چاہیے او راگر اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس میں تفکر اور تدبر اور پور ے انہماک سے کام لیں تو یہ رب دو جہاں پر ایمان وعقیدہ کو اور بھی مضبوط اور ٹھوس کرتا ہے۔
کیوں کہ قرآن کریم کی حقیقی برکت او راس کی رحمت تو اسی میں مضمر ہے او رقرآن کریم بار بار اس کی طرف واضح الفاظ میں دعوت دیتا ہے کہ اگر وہ لوگ اس کتاب کے بارے میں حسد، بغض وعناد او رہٹ دھرمی سے پرے ٹھنڈے دل سے سوچیں اور اس کے معانی، مفاہیم، حرکات وسکنات اور اس کی ترتیب پر غور وفکر کریں تو سمجھ میں آجائے گا کہ یہ کسی مخلوق کا کلام نہیں، بلکہ کلام خداوندی ہی ہے، جو تمام طرح کے نقائص او رعیوب سے مبرا اورپاک ہے۔ ارشاد باری ہے:” کیا وہ لوگ قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے کہ اگر یہ غیر الله کی طرف سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت سارے اختلاف پاتے؟!“ نیز دوسری جگہ ارشاد ہے : ” کیا قرآن ِ مجید میں تدبر سے کام نہیں لیتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟“
آج یہ جو ہمارے سامنے طرح طرح کی پریشانیاں اور نت نئی مشکلات کھڑی ہیں ، قرآن کریم اور تعلیمات نبوی سے غفلت ، دوری اور عدم التفات ہے، جس کی وجہ سے آج ہم چہار دانگ عالم میں ذلت وپستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ الله تعالیٰ کے محبوب پیغمبر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک تو الله کی کتاب ( قرآن کریم) دوسری اس کے پیغمبر کا طریقہ ، تم جب تک مضبوطی کے ساتھ اسے پکڑے رہوگے گم راہ نہیں ہو ں گے۔ اس لیے قرآن پاک کو اپنا گائیڈ، راہ نما تسلیم کرکے زندگی گزاریں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی زندگی پر عمل پیرا ہو جائیں، ان شا ء الله! دنیا کی کام یابیاں ہماری قدم بوسی کے لیے تیار ہیں اور آخرت میں بھی ہم سرخ رو ہوں گے۔