ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
اس نظریہ کے علم بردار کبھی بھی ”اتمام حجت“جو ایک مبہم اصطلاح ہے، کی جامع مانع تعریف بیان نہیں کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ کبھی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ کرام نے، جو اس ”اصطلاح“کے براہ راست مکلف تھے، اسے متعارف کرایا تھا؟ جہاد کی ترغیب وفضائل پر مشتمل سیکڑوں روایات میں یا اس کے ضمن میں ”اتمام حجت“کی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے؟
چودہ سو سال سے محدثین، فقہاء، صلحاء قتال فی سبیل اللہ کی عمومی فرضیت کی تشریح کرتے، ترغیب دیتے، احکام بیان کرتے چلے آئے ہیں، تعجب ہے کوئی محدث، کوئی فقیہ ”اتمام حجت“کے فلسفہ کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا؟ چودہ سو سال سے امت منشا نبوت اور مقاصد شریعت کو نہ پاسکی اور گم راہی پر جمع رہی۔
ہمارے لیے سلف صالحین ہی بطور قدوہ اور اسوہ کے کافی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ پوری امت گم راہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام رسول تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی غامدی صاحب کے نزدیک رسول تھے، پھر کیا وجہ ہے ان کی طرف سے ”اتمام حجت“کے بعد نہ ان کی قوم پر آسمانی عذاب آیا نہ ہی حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہ السلام نے تلوار اٹھائی، یہ سنت الہٰی سے کیسے مستثنیٰ ہوگئے؟
ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ ”اتمام حجت“کیسے ہوتی ہے؟ان صاحبان دانش وفکر کے لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول جب قوم کو براہ راست دعوت حق دے دیں یا کسی کو دعوتی خط بھیج دیں تو ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے، پھر ان کے خلاف قتال جائز ہوجاتا ہے اور یہ ان کے حق میں عذاب الہی ہوتاہے، لیکن اس فکر پر یہ تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ یہ اتمام حجت ان کے حق میں تو مفید ہوسکتی ہے جن کو براہ راست زبانی دعوت حق دی گئی ہو یا خط بھیجا گیا ہو، لیکن اس سے ان کی قوم اور رعایا مثلا قیصر وکسری کو دعوتی خط ارسال کرنے سے ان کی رعایا پر اتمام حجت کیسے قائم ہوگئی؟ جن کو خط کی آمد کا علم ہی نہیں ہے۔
اور اس سے بڑھ کر تعجب یہ ہے کہ دعوتی خط سے ”اتمام حجت“ ہوسکتی ہے تو کتاب خداوندی قرآن کریم جو تاقیامت انسانوں کو خطاب کرتا ہے وہ ”اتمام حجت“ کا باعث کیوں نہیں بن سکتا؟
اگر سنت الہٰیہ یہی تھی کہ رسول کے لیے بہر صورت آسمانی قہر یا تلوار کے ذریعے غلبہ لازم ہے تو پھر غزوہ احد میں صحابہ کرام آپ کی شہادت کی خبر سن کر یقین نہ کرتے، حالاں کہ وہ اس خبر کو سچا سمجھ کر لڑنے کی ہمت ہارنے لگے، اللہ تعالی نے اس پر تنبیہ فرمائی:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَیٰ أَعْقَابِکُمْ ﴾․(آل عمران:144)
(اور محمد تو ایک رسول ہے، ہوچکے اس سے پہلے بہت رسول، پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا گیا تو تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں)
چاہیے تو یہ تھا اس موقع پر اللہ تعالی اہل ایمان کو اطمینان دلاتے کہ میں رسول کو اتمام حجت کے بعد غلبہ دیے بغیر دنیا سے نہیں اٹھاتا، اس تسلی کے بعد صحابہ کرام بھی اطمینان سے لڑتے رہتے۔
قیصر وکسری کو خطوط بھیج کر ”اتمام حجت“ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حیات مبارکہ ہی میں ان پر غلبہ کیوں حاصل نہ ہوا؟ اس مشن کی تکمیل صحابہ کرام کے ذریعے کیوں ہوئی، کیا نعوذ باللہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن میں ناکام ہو گئے تھے؟ نیز صحابہ کرام نے کس دلیل سے اس مشن کی تکمیل اپنے ذمہ سمجھی؟ اس دلیل اور نص کی وضاحت کریں۔
ان کے نزدیک”مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے“اب سوال یہ ہے ، ظلم کیا ہے؟ کیوں کہ ہر مذہب وقوم میں ظلم کا تصور دوسرے سے مختلف ہے۔اسلامی نظر میں حدود جاری کرنا عین عدل ہے اور یہی عمل عالم کفر کے نزدیک ظلم ہے، ظلم ایک مبہم اصطلاح ہے، جسے ان دانش وروں نے خود مبہم ہی رکھا، تاکہ موقع بہ موقع، حسب ضرورت، اس سے من چاہا موقف اخذ کیا جاسکے۔
قرآن وحدیث کی ایک صریح نص سے براہ راست یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قانون جہاد کا تعلق اتمام حجت سے ہے۔ بلکہ مطلب آوری کے لیے یہ فکر خود ہی گھڑ کر اسلام پر تھوپ دی ہے۔ قرآن واحادیث میں قتال فی سبیل اللہ کا جو عمومی حکم دیا گیا ہے وہ عام ہی رہے گا جب تک اسی طرح کی صریح نص اس میں تخصیص نہ کر رہی ہو۔ یہی حکم دیگر احکام کا ہے، بغیر دلیل کے محض دعوی کرتے چلے جانا کہ یہ حکم آپ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے یا یہ حکم عہد نبوی کے مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے یا صرف ان کفار کے خلاف قتال کی اجازت دی گئی ہے جن کو آپ علیہ السلام کی طرف سے زبانی یا تحریری دعوت پہنچ چکی تھی، اس طرح کے دعاوی محض ذہنی تعیش کا سامان تو بن سکتے ہیں علم کی دنیا میں دلیل بننے کی وقعت نہیں رکھتے۔
چودہ سو سال سے فقہائے امت جہاد کی فرضیتاور اس کے احکام ومقاصد پر مستقل کتابیں لکھتے چلے آئے ہیں، اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کے احکام اسی پر موقوف ہیں اور صدیوں مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ہے، مگر مجال ہے کہ (دیکھیے کتب احادیث میں کتاب الجھاد کے عنوان سے ، کتب فقہ میں کتاب السیر کے عنوان سے، کتب سیاست میں کتاب الحروب، سیاسة الحروب، کے عنوان سے اور کتاب السیرالکبیر کا تو خاص موضوع ہی یہی ہے۔ اسی طرح کتاب الخراج للقاضی امام ابو یوسف رحمہ اللہ) ”اتمام حجت“ کے علم برداروں نے کبھی ان کے دلائل کے جوابات دینے کی زحمت کی ہو، بلکہ الٹا علمائے کرام سے شکوہ ہے کہ ہمارے دلائل کا جواب نہیں دیا جاتا، حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس صرف دعوے ہی دعوے ہیں۔ جو دلائل سے عاری ہوتے ہیں، جو دعوی بلا دلیل ہو اسے علم نہیں کہتے، نہ ہی ، وہ جواب دینے کے قابل ہوتا ہے۔
قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت پر چند نصوص
اللہ کی راہ میں کافروں سے قتال کرنا فرض ہے۔
∗…﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ﴾․ (البقرة:216)
روزے کی فرضیت کے لیے بھی یہی تعبیر بیان ہوئی ہے:﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾․ (البقرہ:183)
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَال کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”ھذا ایجاب من اللّٰہ تعالی للجھاد علی المسلمین… وقال الزھری: الجھاد واجب علی کل أحد غزا أو قعد“․ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة ذیل آیت:216)
یہ مضمون اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر جہاد کا فریضہ عائد کرتا ہے …زہری نے کہا:جہاد مسلمان پر فرض ہے، وہ میدان جنگ میں ہو یا گھر بیٹھا ہوا ہو۔
∗…﴿فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللَّہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ﴾ ․ (النساء:77)
∗…﴿حَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ ﴾․ (الانفال:65)
∗…﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ․﴾․ (التوبہ:73)
∗…﴿وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ﴾․(البقرة:191)
∗…﴿فَخُذُوہُمْ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ﴾․ (النساء:91)
∗…﴿فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ﴾․ (النساء:74)
∗…﴿فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ لَا تُکَلَّفُ إِلَّا نَفْسَکَ﴾․ (النساء:84)
∗…﴿وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ﴾․ (البقرة: 244)
∗…﴿وَقِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوِ ادْفَعُوا﴾․ (ال عمران: 167)
∗…﴿فَقَاتِلُوا أَوْلِیَاء َ الشَّیْطَانِ﴾․(النساء:76)
∗…﴿فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْکُفْرِ ﴾․( التوبة:12)
∗…﴿قَاتِلُوا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾․ (التوبة:29)
∗…﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ﴾․ (التوبة:123)
∗…﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّیٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ﴾․ (الانفال:39)
∗…﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاہِدُوا بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ﴾․ (التوبة: 41)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت نفیر کے منسوخ ہونے کا قول مروی ہے، مگر محققین علمائے کرام نے اسے درست تسلیم نہیں کیااور علامہ طبری رحمہ اللہ نے تفصیلی دلائل کے ساتھ اس کی تردید کی ہے)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی آیت کے حوالے سے یہ عنوان قائم فرمایا۔ ”باب وجوب النفیر وما یجب من الجھاد والنیة“یہ باب جہاد کے لیے نکل کھڑے ہونے کے وجوب کے لیے ہے۔ اور جہاد ونیت کے لیے کیا کیا واجب ہے اس کے لیے ہے۔
احادیث رسول سے غامدی فکر کی تردیدعن جابر بن سمرة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: أنہ قال لَن یبرح ھذا الدین قائما یقاتل علیہ عصابة من المسلمین حتی تقوم الساعة․(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:1922)
حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت تک یہ دین قائم رہے گا، کیوں کہ مسلمانوں کا ایک گروہ (ہر زمانے میں غلبہ دین کے لیے) قتال کرتا رہے گا۔
فائدہ:اس حدیث میں تاقیامت حفاظت دین کی پیشن گوئی کی گئی ہے اور حفاظت دین کا سبب ”قتال“کوقرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قتال تاقیامت ہوگا اور دین ومذہب کے عنوان سے ہوگا۔ اب آپ غامدی صاحب کا موقف پڑھیے۔
”مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے، اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی۔“ (میزان، قانون جہاد:601، طبع چہارم:2009)
جہاد کی فضلیت پر بے شمار احادیث ہیں اور ان میں عموم ہے، ان کی فضلیت کسی خاص زمانے یا کسی خاص مواقع اور قوموں کے ساتھ قتال کرنے پر موقوف نہیں ہے۔ مگر بلادلیل اپنی دھن میں دعوی کرتے چلے جانا ہی منکرین جہاد کا وطیرہ رہا ہے۔ان کے موقف کی تردید کی مناسبت سے ہم چند احادیث بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔
عن ثوبان مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: عصابتان من امتی احرزھم اللّٰہ من النار: عصابة تغزو الھند وعصابة تکون مع عیسی بن مریم علیہ السلام ․(مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:21362)
حضرت ثوبان جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ آگ سے بچائے گا، ایک وہ گروہ جو ہندوستان کے خلاف جہاد کرے گا۔دوسرا وہ گروہ جو حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کا ساتھ دے گا۔
عن عروة البارقی قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم الخیر معقود بنواصی الخیل قال: فقیل لہ یا رسول اللہ: بم ذاک؟ قال الأجر والمغنم إلی یوم القیامة.(صحیح مسلم، کتاب الإمارة:1873)
حضرت عروہ بارقی فرماتے ہیں:آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”(قتال فی سبیل اللہ کے لیے)بھلائی گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے“ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا:یا رسول اللہ!وہ کیسے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:تا قیامت ان کے ذریعے اجر اورمال غنیمت حاصل ہوتا رہے گا۔
عن ثوبان قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یوشک الامم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکلة إلی قصعتھا․ فقال قائل: ومن قلة نحن یومئذ؟ قال: بل انتم یومئذ کثیرٌ ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعن اللّٰہ من صدور عدوکم المھابة منکم، ولیقذفن اللّٰہ فی قلوبکم الوھن․ فقال قائل: یا رسول اللّٰہ، وما الوھن؟ قال: حب الدنیا وکراھیة الموت.(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:3610)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عنقریب (کافر) قومیں ایک دوسرے کو تمہارے خلاف (چڑھائی) کے لیے اس طرح بلائیں گی (یعنی متحد ہوں گی)جس طرح کھانا کھانے والے ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ (حاضرین میں سے کسی)کہنے والے نے کہا:کیا اس وقت ہم تعداد میں تھوڑے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں، بلکہ اس وقت تم تعداد میں بہت زیادہ ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت بہنے والے پانی پر آنے والی جھاگ کی سی ہوگی، اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں”وہن“ڈال دے گا۔“کہنے والے نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ!یہ ”وہن“کیا چیز ہے؟ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دنیا کی محبت اور موت کی ناپسند ید گی (جس کی وجہ سے تم جہاد چھوڑ بیٹھو گے)۔
اس حدیث میں کی گئی پیشن گوئی عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ معلوم ہوا جہاد کو کسی بھی زمانے میں ترک کرنا ذلت کو اپنے اوپر مسلط کرنا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کو عہد نبوی اور عہد صحابہ کے منکرین حق تک محدود رکھنے کا بطلان بھی اس سے واضح ہورہا ہے۔
عن ابوھریرة رضی اللّٰہ عنہ: وعدنا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم غزوة الھند، فإن أدرکتھا أنفق فیھا نفسی ومالی، فإن قتلت کنت افضل الشھداء. وإن رجعت فأنا أبوھریرة المحرّر․(سنن النسائی، رقم الحدیث:3174)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ لیا ہے۔ اگر میں نے اسے پالیا تو اس میں اپنی جان اور اپنا مال جھونک دوں گا۔ اگر قتل ہوگیا تو شہیدوں میں سب سے افضل شہیدوں میں شمار ہوگا اور اگر زندہ لوٹ آیا تو پھر میں ایسا ابوہریرہ ہوں گا جو تمام گناہوں سے آزاد ہوچکا ہو۔
کیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ہند پر ”اتمام حجت“ کرلی تھی؟ غامدی فکر کے پیروکار اپنی مزعومہ ”اتمام حجت“کو اہل ہند پر بہ دلیل ثابت کریں۔ اور اگر نہیں ہوئی تو غزوہ کا وعدہ کیوں لیا گیا؟
عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:”ستفتح لکم أرضون، ویکفیکم اللّٰہ، فلا یعجز احدکم أن یلھو بأسھمہ․“(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1918)
حضرت عقبہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا:عنقریب تمہارے لیے زمینیں فتح کردی جائیں گی اور اللہ تمہاری کفایت کرے گا، تم میں سے کسی کے نیزے سست نہ ہونے پائیں۔
عن عقبة … وأما انا فسمعت رسول اللّٰہ یقول: لاتزال عصابة من امتی یقاتلون علی امر اللّٰہ قاہرین لعدوھم لایضرھم من خالفھم حتی تأتیھم الساعة وھم علی ذلک… (صحیح مسلم، رقم الحدیث:1924)
حضرت عقبہ فرماتے ہیں:میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا:میری امت کا ایک گروہ مسلسل اللہ کے حکم کی وجہ سے قتال کرتا رہے گا، اپنے دشمنوں پر غضب ڈھاتا رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے ان کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک ”ساعة“ (قیامت یانزول عیسی کا وقت)آپہنچے گا اور وہ اپنے کام قتال فی سبیل اللہ میں ڈٹے ہوئے ہوں گے۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں:”مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک صورت باقی رہ گئی اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی۔
اولا تو یہ مدعی ایسا مبہم ہے جس پر نقد کرنا نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ البتہ چند باتیں قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
اوّلا: قرآن سنت میں شرک وکفر کو بھی ظلم کہا گیا ہے:﴿إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ﴾․(سورہ لقمان:13)
اور قرآن کریم میں ظالموں کا اطلاق کئی مقامات پر بالاتفاق کافروں پر ہوا ہے، اس لیے غامدی صاحب کے بقول اگر جنگ صرف ظلم وعدوان کے خلاف ہوسکتی ہے… تو پھر قرآن وسنت کی رو سے ”دین کی وجہ سے کافروں سے جنگ کرنا“بھی اس سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ عین نص قرآنی کے مطابق ہے۔
اور اگر غامدی صاحب کے نزدیک ظلم سے بندوں کا بندوں پر ظلم مراد ہے اور”صرف اسے دور کرنے کے لیے جنگ کرنے کی اجازت باقی رہ گئی ہے“۔تو اہل ایمان کے نزدیک ظلم وعدل کی معرفت کا پیمانہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسی کی رو سے ظلم کو دفع کرنا بھی دین کا حصہ ہے، وہ دین سے خارج نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ظلم کے دفعیہ کے لیے تلوار اٹھاتا ہے تو وہ درحقیقت دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہی لڑتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ظلم ہونے کی تعیین بھی دین نے کی ہے اور اسے ختم کرنے کی ہدایات بھی دین نے دی ہیں۔ ہاں! کوئی نام ونمود کے لیے یا محض ملک گیری کے لیے لڑتا ہے تو ایسی لڑائی جہاد نہیں ہے۔ جہاد تو صرف اور صرف وہی ہے جو صرف مذہب کی بنیاد پر برپا کیا جائے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: من قاتل لتکون کلمة اللّٰہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللّٰہ․ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:2810) ”جو شخص قتال کرے تاکہ اللہ کا دین ہی سربلند ہو وہی اللہ کی راہ میں قتال کرنے والا ہے“۔
غامدی فکر اجماع امت کی روشنی
∗…حضرت سعید بن المسیب نے فرمایا:إن الجھاد من فروض الاعیان․
(نہایة المحتاج،8/45) لقولہ تعالی:﴿انفروا خفافا وثقالاوجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ﴾
. (شرح نووی علی مسلم:2/130)
∗…معروف محدث اور تابعی عبد اللہ المبارک رحمہ اللہ نے جہاد کی مشروعیت اور اس کے فضائل پر مستقل ”کتاب الجہاد“تصنیف فرمائی۔
∗…ائمہ اربعہ نے اپنی فقہی مباحث میں کتاب السیر کا مستقل عنوان قائم فرمایا، اس کے ذیل میں جہاد کی تا قیامت مشروعیت، اس کی اقسام ، اس کے احکام مفصل بیان فرمائے۔ جن کے درس وتدریس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر مفصل کتاب ”السیر الکبیر“تصنیف فرمائی۔ اور امام محمد بن احمد سرخسی نے اس کی شرح تحریر فرمائی۔
∗…علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:الثانی أنہ کان فرض عین
․
∗… ہمارے نزدیک دوسرا موقف یہ ہے کہ جہاد فرض عین ہے۔
∗…امام شوکانی اور ابن حزم رحمة اللہ علیہما فرماتے ہیں۔ والجھاد من أکد الفرائض وأعظمھا․
(فتح القدیر للشوکانی:2/263، المحلی لابن حزم: 7/291) جہاد دینی فرائض میں سب سے زیادہ موکد اور عظیم فریضہ ہے۔
∗…حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ثم بعد أن شرع ھل فرض عین أو کفایة؟
(فتح الباری:6/377)
∗…ایک جگہ حافظ ابن حجررحمہ الله فرماتے ہیں:والتحقیق ایضاً أن جنس جہاد الکفار متعین علی کل مسلم
․(فتح الباری:6/377) حقیقت یہی ہے مطلق کافروں سے جہاد کرنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔
∗…حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ اعلم أن أتم الشرائع واکمل النوامیس ھو الشرع الذی یؤمر فیہ بالجھاد ․(حجة الله البالغة:2/170)
”یاد رکھو کامل ترین شریعت اور کامل ترین قانون وہی کہلائے گا جس میں جہاد کا حکم دیا گیا ہوگا“۔
∗…مولانا ظفر احمد عثمانی اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:” اگر کافر اپنے ملکوں میں ہوں، دارالسلام پر حملہ آور نہ ہوں تب بھی مسلمانوں کے امیر پر لازم ہے کہ وہ کوئی سال جہاد سے خالی نہ رہنے دے، تاکہ جہاد معطل نہ ہوجائے … اور علمائے کرام کا اجماع ہے ہر علاقے کے مسلمان اپنے سے قریب والے کافروں سے قتال وجہاد کریں اگر وہ جہاد کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان کے قریب ترین علاقے کے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا لازم ہے۔ اسی طرح الاقرب فالأقرب کے تحت روئے زمین کے تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجائے گا۔یہی تفسیر مظہری میں مذکور ہے۔پس میں اللہ تعالی ہی سے فریاد کناں ہوں کہ مسلمان امراء اور حکم رانوں کے طرز عمل سے، جنہوں نے اقدامی جہاد کو معطل کر رکھا ہے اور محض دفاعی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ (احکام القرآن، النساء، ذیل آیت:95)
∗…امام محمد بن احمد السرخسی شرح کتاب السیر میں ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ والجھاد فرض أیضاً یہ جہاد بھی فرض ہے۔(شرح کتاب السیر الکبیر:1/18)
∗…امام ابن القیم لکھتے ہیں:والتحقیق أی جنس الجھاد فرض عین․(زاد المعاد:2/151)
تحقیق یہی ہے کہ جنس جہاد فرض عین ہے۔ (جاری)