ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ ……﴾․(سورہ نساء، آیت:105)
سرقہ اور االزام تراشی پر مبنی واقعہ کا فیصلہ ایک دشوار امر تھا، آپ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ آپ اس قضیہ کا فیصلہ اس طرح کریں جس طرح اللہ تعالی نے آپ کو اس کی خبر دی۔ ﴿بِمَا أَرَاکَ اللَّہ﴾
اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی جو فیصلہ آپ کو سمجھایا اور جس کے ذریعے دونوں فریقوں میں اختلاف ختم ہوا۔ سچا اور جھوٹاواضح ہوا، وہ فیصلہ بلفظہ قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے۔
وہ وحی تھی، مگر قرآن میں نہیں ہے، بلکہ عملی فیصلے کی صورت میں اس وحی کا ظہور ہوا، جسے حدیث کہتے ہیں ،اس سے پتہ چلا وحی قرآن کریم کے علاوہ بھی ہے، جسے حدیث کہتے ہیں ۔ اور وہ حجت بھی ہے کہ دونوں فریقوں کے لیے حکم بن گئی اور کسی کو انکار کی گنجائش نہ رہی۔
﴿بِمَا أَرَاکَ اللَّہ﴾
سے کیا مراد ہے؟ ایک قول کے مطابق وحی مراد ہے۔ (دیکھئے زاد المسیر، روح المعانی، النساء ذیل آیت:105)یعنی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دیا تھا۔ (مفردات القرآن، أری) اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ بنو ابیرق کے چور ہونے پر ابورفاعہ کے پاس ظاہری شرعی ثبوت نہیں تھے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے دعوی کو الزام جان کر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایاتھا، جب بذریعہ وحی حقیقت معلوم ہوئی تو ابو رفاعہ کی سچائی بھی واضح ہوگئی۔
جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ ﴿بِمَا أَرَاکَ اللَّہ﴾
سے ذاتی اجتہادی مراد ہے۔ جب کسی معاملے میں تصفیہ کے لیے وحی کی ہدایات نہ ہوں تو آپ اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرمائیں۔ اور نبی کا اجتہاد اولی اور غیر اولی ہوسکتا ہے، مگرناانصافی پر مبنی نہیں ہو سکتا کیوں کہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، النساء، ذیل آیت:105)
منکرین حجیت حدیث کا ایک مغالطہ
حجیت حدیث کے منکرین عموما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کریم کے ساتھ حدیث رسول کو بھی حجیت تسلیم کرلیا جائے تو شرک فی الحَکَم لازم آئے گا۔ جب کہ قرآن کریم میں بارہا واضح کیا گیا ہے کہ پیروی صرف وحی کی، کی جائے۔ مثلاً سورة الأحقاف میں ہے:﴿إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَیٰ إِلَیَّ……﴾․(الأحقاف:9)
سورة اعراف میں ہے۔
﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِہِ أَوْلِیَاءَ…﴾․(الأ عراف :3)
سورة کہف میں ہے:﴿وَلَا یُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ أَحَدًا﴾ ․(الکھف:26)
ان آیات میں تمام انسانوں کے بشمول انبیاء علیہم السلام کو وحی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، وحی کی پیروی چھوڑ کر کسی کی پیروی کرنے اور اس کے قول وعمل کو حجت بنانے کو شرک قرار دیا گیا ہے۔
اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ اس وقت قابل اعتنا ہوتا جب انبیاء علیہم السلام اپنی طرف سے، بلا اذن الہٰی کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرائیں ،جب کہ اللہ تعالیٰ نے سورة الحاقہ میں آپ علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے:﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ، لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِینِ،ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ﴾․ (سورة الحاقة، آیت:44تا46)
سورة النجم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ، إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَیٰ﴾․(النجم:4-3)
نبی اپنی طرف سے حلال وحرام کا فیصلہ کرے تو گرفت اور مؤاخذہ ہو، وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا، اس کا بول بھی وحی کے علاوہ کچھ نہیں، اس وحی کو حجت ماننے سے شرک فی الحَکَم کیسے لازم آئے گا؟ شرک تو تب ہوتا جب یہ عقیدہ رکھا جائے کہ نبی اپنی طرف سے حلال وحرام کا فیصلہ کرسکتا ہے، ایسا عقیدہ کسی مسلمان کا نہیں ہے۔ حدیث رسول قرآن کریم کی تشریح ہے اس کے بغیر قرآنی مراد سمجھنا دشوار ہے۔ قرآن کریم کا بیان، اس کی شرح اس کے الفاظ ومعنی سب وحی ہیں۔
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورة القیامة میں فرمایا:﴿إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ ، فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ ، ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ﴾․ (القیامة، آیت:17 تا19)
البتہ وحی کی ان دونوں قسموں کی تعریف، حکم اور مرتبے میں کئی لحاظ سے فرق ہے، قرآنی وحی کو مَتْلُوّ اور غیر قرآنی وحی کو غیرمَتْلُوّ کہا جاتا ہے، جسے محدثین کی اصطلاح میں سنت وحدیث کا نام دیا گیا ہے۔
وحی مَتْلُوّ
وحی متلوّ سے قرآن کریم مراد ہے، جو کلام الہٰی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بذریعہ جبرائیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، جیسا کہ سورة الشعراء میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا:﴿وَإِنَّہُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِینُ﴾․(الشعراء:192 193-)
نیز اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾(الحجر:9)
وحی غیرمَتْلُوّ
وحی غیر متلو سے وہ وحی مراد ہے جو قرآن کریم کا حصہ نہ ہو اور نہ عبادت کی غرض سے اس کی تلاوت کی جاتی ہو وہ سنت رسول ہے، حدیث رسول ہے ،جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے :﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ، إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَیٰ﴾․(النجم:4,3)
علامہ ابن حزم الاندلسی فرماتے ہیں:
ہم پر یہ بات عیاں ہے کہ شریعت مطہرہ میں اصل مرجع قرآن کریم ہے ،لیکن جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی واجب ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ، إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَیٰ﴾
پس اس سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کی دو قسمیں ہیں مؤلَّفَ اورمعجز ،وہ قرآن کریم ہے مروی، ومنقول، غیر معجز اور غیر مَتْلُوّ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخبار (سنن واحادیث) پر مبنی ہے، قرآن کریم نے دونوں کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے:﴿أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ﴾(سورہ نساء،آیت:59)۔
مجرموں کے حمایتی مت بنیے
﴿وَلَا تَکُن لِّلْخَائِنِینَ خَصِیمًا﴾
چوں کہ ابو رفاعہ رضی الله عنہ اور قتادہ رضی الله عنہ کا دعوی بلا دلیل تھا، جو محض الزام کی حیثیت رکھتا تھا، آپ نے ظاہری احوال کے پیش نظر اسے قبول نہیں فرمایا، بلکہ اس پر نا گواری کا اظہار فرمایا اور یہ ناگواری بجابھی تھی، لیکن اس سے ابو رفاعہ رضی الله عنہ اور قتادہ رضی الله عنہ صاحب حق ہونے کے باوجود شرمندگی کاشکار ہوکر اپنے دعوے سے دستبردار ہوگئے، اس لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا آپ خائنوں کی طرف سے حمایتی مت بنیے۔ گو آپ ان کے حمایتی نہیں بنے تھے مگر ان الفاظ کے ذریعے آپ کی امانت اور آپ کے جذبہ عدل کو نمایاں کرکے مجرمین اور منافقین کی امیدیں توڑی گئیں۔ اور امت کو تعلیم دینا بھی مقصد ہے کہ حالات کا رخ جیسا بھی ہو عدل وانصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آپ علیہ السلام کے لیے بہتر یہ تھا اس قضیہ کے بعد وحی کا انتظار فرماتے لیکن آپ علیہ السلام نے وحی کا انتظارکیے بغیر اصول شریعت کے موافق ظاہری صورت کو دیکھ کر حضرت قتادہ رضی الله عنہ کے دعوی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا، یہ بھی درست تھا اور جائز تھا، لیکن منشائے الہٰی میں پہلی صورت بہتر تھی اس لیے استغفار کا حکم دیا گیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے، اسے استغفار کا حکم دینا چہ معنی دارد؟
مفسرین نے اس کے کئی جوابات دیے ہیں۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
بعضے اہل علم کے نزدیک انبیاء علیہم السلام سے ذنب صغیر صادر ہوسکتا ہے، استغفار کا حکم اسی تناظر میں ان کو دیا گیا ہے ۔
(جمہور اہل علم کے نزدیک انبیاء علیہم السلام سے صغائر کا صدور بھی نہیں ہوسکتا) اس لیے ان کے نزدیک استغفار کا یہ حکم نبی کو اپنی ذات کے لیے نہیں دیا گیا بلکہ امت کے گناہ گاروں کے حق میں دعائے مغفرت کا حکم دیا گیا ہے۔
استغفار کا حکم بطور تسبیح کے دیا گیا ہے، کسی خطا کے نتیجے میں نہیں دیا گیا۔ (احکام القرآن القرطبی، النساء ذیل آیت:106)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے فرمایا:یہ حکم زیادت ثواب اور رفع درجات کے لیے دیا گیا ہے۔(روح المعانی، النساء ذیل آیت :106)
حکمة سے مراد سنت ہے
﴿وَأَنزَلَ اللَّہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾
آیت کریمہ میں ﴿الْکِتَابَ﴾ سے قرآن کریم مراد ہے۔ اور ﴿حِکْمَة﴾
کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معنی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ علامہ راغب اصفہانی مفردات الفاظ القرآن میں لکھتے ہیں:”والحکمة اصابة الحق بالعلم والعقل“․(مفردات الفاظ القرآن، مادہ:حکم)
علم اور عقل کے ذریعے سچی بات تک پہنچنا حکمت ہے۔ لسان العرب میں ہے :”والحکمة عبارة عن معرفة“․( لسان العرب)
بہترین چیزوں کو بہترین علوم کے ذریعے جاننے کا نام حکمت ہے۔ لیکن علمائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں ”الکتب“
کے ساتھ”الحکمة“
لفظ استعمال ہوا ہے اس سے سنت رسول مراد ہے۔ مثلا:﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیہِمْ ﴾․ (البقرة:129)
سورہٴ بقرہ میں دوسرے مقام پر ہے:﴿وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَیْکُم مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُم بِہِ﴾․ (البقرة:231)۔
سورہٴ احزاب میں ہے:﴿وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَیٰ فِی بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَةِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا ﴾․(الاحزاب:34)
مندرجہ بالا اور دیگر تمام آیات جن میں ”الکتب“
کے سا تھ یا ”آیات اللہ“
کے ساتھ ”الحکمة“
کا لفظ آیا ہے اس سے سنت رسول مراد ہے، چناں چہ امام شافعی رحمہ اللہ ”الرسالة“ میں لکھتے ہیں۔
فذکر اللّٰہ الکتاب وھو القرآن وذکر الحکمة فسمعت من أرضی من أھل العلم بالقرآن یقول: الحکمة سنة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذکر اللّٰہ تعالی منہ علی خلقہ بتعلیمھم الکتاب والحکمة فلم یجز أن یقال الحکمة ھھنا إلا سنة رسول اللہ“.(الرسالة:78)
اللہ تعالیٰ نے کتاب کا تذکرہ فرمایا ہے، اس سے قرآن کریم مراد ہے ۔ اور حکمت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے، میں نے قرآنی علوم کے ماہرین جنہیں میں پسند کرتا ہوں ان سے سنا ہے کہ حکمت سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنت مراد ہے، اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے لیے کتاب وحکمت کو اتارااور اسے اپنے احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہاں ”حکمة“سے سنت کے علاوہ کوئی اور چیز مراد ہے۔
ابن جریر طبری جامع البیان میں سورة بقرہ کی ایک آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:” والحکمة یعنی وما انزل علیک من الحکمة وھی السنن التی علمکوھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسنھا لکم“․(جامع البیان، البقرة، ذیل آیت رقم:231)
”آپ علیہ السلام پر جو حکمة نازل کی گئی اس سے وہ سنتیں مراد ہیں جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائی ہیں۔ اور وہ طریقے مراد ہیں جو تمہارے لیے (زندگی گزارنے کے لیے) مقرر فرمائے“۔
امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب، کتاب الأم سورة جمعہ کی آیت نمبر 2 اور سورة احزاب کی آیت نمبر 34کے تحت لکھتے ہیں۔
”ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں ” الکتب“
سے کتاب اللہ مراد ہے۔ لیکن ”الحکمة“
سے کیا مراد ہے؟ میں کہتا ہوں اس سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد ہے۔ (کتاب الأم، 7/270، 271)
حافظ ابن عبد البر نے جامع بیان العلم میں آیت کریمہ: ﴿واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من اٰیات اللّٰہ والحکمة﴾
کہ بارے حضرت قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے آیات اللہ والحکمة سے قرآن وسنت مراد ہے۔
ہذلی نے آیت:﴿ویعلمھم الکتٰب والحکمة﴾
کی تفسیر میں حضرت حسن کا یہ قول نقل فرمایا کہ ”الکتب“
سے مراد قرآن کریم اور ”الحکمة“
سے مراد سنت ہے(جامع بیان العلم:1/17)
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں حکمت سے سنت مراد لینے پر سلف سے اجماع نقل فرمایا ہے۔(کتاب الروح، ص :92)
حضرت مولانامفتی محمد شفیع رحمہ اللہ سورة بقرة کی آیت 129 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”مفسرین صحابہ وتابعین جو معانی قرآن کی تشریح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کے کرتے ہیں اس جگہ لفظ حکمت کے معنی بیان کرنے میں اگر چہ ان کے الفاظ مختلف ہیں لیکن خلاصہ سب کا ایک ہی ہے یعنی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تفسیر ابن کثیر اور ابن جریر نے قتادہ سے یہی تفسیر نقل کی ہے، کسی نے تفسیر قرآن اور کسی نے تفقہ فی الدین فرما یا ہے اور کسی نے علم احکام شرعیہ کہا اور کسی نے کہا ایسے احکام الہٰیہ کا علم جو رسول اللہ کے بیان سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان سب کا حاصل وہی حدیث وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔(معارف القرآن،البقرة، ذیل آیت:129)
مولانا حبیب الرحمن اعظمی معارف الحدیث کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں۔
”کتاب وسنت کے انہیں نصوص کی بنا پر تمام ائمہ وعلمائے سلف اس پر متفق ہیں کہ ﴿ویعلمھم الکتٰب والحکمة﴾
ور اس طرح کی دوسری آیات میں جو” الحکمة“
کا لفظ وارد ہے اس سے مراد سنت ہی ہے اور سنت بھی وحی الہی کی ایک قسم ہے“۔(مقدمہ معارف الحدیث:1/23)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ قرآن کریم میں ”الحکمة“
کا لفظ گو علی الاطلاق سنت رسول کے معنی میں نہیں ہے مگر”الکتب“
کے ساتھ جہاں کہیں مذکور ہے اس سے سنت رسول ہی مراد ہے۔ سنت رسول قرآن کریم کی طرح حجت ہے۔ لہٰذا”الحکمة“
کو ”الکتب“
کا جزو قرار دینا یا اس سے احکام وقوانین مراد لے کر سنت رسول کو وحی سے خارج کرنے اور اس کی حجیت کو مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کرنا منکرین حجیت حدیث کا وطیرہ ہے۔
قاضی صرف ظاہری دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا مکلف ہے
وَلولا فضل اللّٰہ علیکم ورحمتہ………
اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی حقیقت حال سے مطلع نہ کیا جاتا تو چر ب لسانی اور ظاہری شواہد وقرائن کی بنیاد پر مجرم خود کو بری کرا لیتا اور صاحب حق اپنے حق سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دعوی حق پر شرمندگی کا شکار بھی ہوتا، اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ کسی مقدمہ میں ظاہری شواہد ، قرائن مجرم کے حق میں بھی جا سکتے ہیں، اس بنا پر قاضی کا فیصلہ مجرم کے حق میں ہو بھی جائے تب بھی عند اللہ وہ مجرم ہی ہوگا۔ فریب خوردہ قاضی کے فیصلے سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”میں بھی تمھاری طرح ایک انسان ہی ہوں، تم لوگ میرے پاس (فیصلے کرانے کے لیے) جھگڑے لے آتے ہو اور ممکن ہے تم میں سے کوئی چرب لسان ہو، میں اس کے دلائل سن کر ان کے حق میں فیصلہ دے دوں (حالاں کہ وہ حق پر نہیں) تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو یاد رکھو (وہ یوں سمجھے) میں اسے جہنم کی آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں“۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:7169)
قاضی اور قضا کے چند بنیادی آداب
قاضی فریقین کے درمیان مکمل مساوات رکھے۔
غصے کی کیفیت، الجھن کی حالت اور تنگی، گھبراہٹ، بھوک پیاس، چلتے پھرتے، سواری پر بیٹھے بیٹھے، طبعی جسمانی حاجات کے وقت فیصلہ نہ کرے۔
تحقیق اور تفتیش کے سارے طریقے بجا لائے۔
فریقین کا موقف سن کر فیصلہ کرے۔
فیصلہ صرف پیش کردہ دلائل و ثبوت کی بنیاد پر کرے۔
مدعی علیہ کو جوابی ثبوت پیش کرنے کا موقع دے۔
فریقین میں سے کسی کا ہدیہ اور دعوت قبول نہ کرے۔
کسی فریق کو دلیل سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔
خفیہ مشورے عموما شیطانی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں
منافقین مسلمانوں کے اجتماعی امور کے عمومی مشوروں کے مقابلے میں خفیہ مشورہ کر کے انہیں سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے۔ یا سرگوشیوں کے ذریعے مسلمانوں کے فیصلے اور عزائم کا مذاق اڑاتے ہیں آیت کریم میں ان پر تعریض کی گئی ہے۔
قرآن کریم نے﴿لَّا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ﴾
سے ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ دنیا میں جس قدر خفیہ میٹنگز، مشورے اور مجالس قائم ہوتی ہیں ان کی اکثریت میں شیطانی مقاصد کی تکمیل کا جذبہ پنہاں ہوتا ہے۔ بلکہ جو گروہ جس قدر شروفساد کا علم بردار ہوتا ہے اس کا تنظیمی اور فکری ڈھانچہ اسی قدر پر اسرار ہوتا ہے۔ زمانہ حال میں اس کی مثال ”الماسونیہ“
فری میسن ہے، جسے عالمی خفیہ تحریک کہا جاتاہے۔
ان سے قطع نظر ہم اپنے معاشرے، گلی محلوں، چوکوں، چوراہوں، جرگے اور بیٹھکوں، اسمبلیوں کی صورت حال پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح ہوجائے ان میں اللہ کے دین کے نفاذ اور منکرات کے خاتمے پر کتنی بات ہوتی ہے اور باہمی الزام تراشیاں، بے حیائی کے فروغ اور قوم کو لغو اور بے کار کاموں میں مشغول رکھنے کے لیے کیا کیا پروگرام بنتے ہیں۔
حجیّت اجماع
﴿وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّیٰ وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِیرًا﴾․
اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے جو راہ ہدایت کے واضح ہونے کے بعد بھی اللہ کے رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کے طور طریقوں کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے اس کے لیے تین وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ وہ جس راہ ظلمت کو اختیار کرے گا ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے یعنی راہ ہدایت کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے نہیں مل سکے گیہم اسے جہنم میں ڈالیں گے۔وہ بری جگہ ہے۔
﴿وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ﴾
سے فقہائے کرام نے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔ علمائے امت اور مجتہدین امت کے متفقہ طور طریقوں کو چھوڑنا گم راہی کاپہلا زینہ ہے۔
اجماع کی تعریف
لغت میں اجماع دو معنی کے لیے آتا ہے۔پختہ عزم کرنا ،جیسا کہ سورة یونس میں ہے :﴿فَأَجْمِعُوا أَمْرَکُمْ وَشُرَکَاء َکُمْ﴾(یونس: 71)
کسی قوم کاکسی بات پر اتفاق کرنا، جیسے:”اجمع القوم علی کذا أی اتفقوا․ (المصباح المنیر:1501، القاموس المحیط: 3/15)
علمائے اصول کے ہاں اجماع کی اصطلاحی تعریف میں اختلاف ہے۔
ان میں بہتر تعریف کمال الدین ابن الہمام کی ہے۔
”اتفاق مجتہدی عصر من أمة محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی امر شرعی“․(تیسیر التحریر:3/224)
”امت محمدیہ کے ایک زمانے کے علمائے مجتہدین کا کسی امر شرعی پر اتفاق کرنا اجماع کہلاتا ہے“۔
حجیت اجماع پر قرآنی استدلال
پہلا استدلال تو یہی قرآنی آیت ہے جس کی تفسیر کی جارہی ہے اور یہی سب سے قوی دلیل ہے، جس میں مسلمانوں کے متفقہ طور طریقے سے روگردانی پر دنیا اور آخرت کی وعید بیان کی گئی ہے۔
﴿وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّیٰ وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِیرًا ﴾․
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ کی مخالفت اور مومنین کی مخالفت کی وعید ایک ہی درجہ میں رکھی گئی ہے لہٰذا جس طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت سے احتراز واجب ہے اسی طرح مومنین کی متفقہ راہ سے احتراز بھی واجب ہے۔ (اصول السرخسی:1/296)
﴿وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَکُونُوا شُہَدَاء َ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا﴾․(البقرة:143)
اس آیت کریمہ میں امت محمدیہ کو امت معتدلہ قرار دیا گیا ہے۔جو قول وفعل اور عمل میں ہر طرح کے افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی وصف اعتدال کی وجہ سے یہ دیگر امتوں پر گواہی کا استحقاق رکھتی ہے اور ان کی گواہی دیگر امتوں کے حق میں اسی طرح حجت ہوگی جس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی اس امت کے حق میں حجت ہوگی۔ اسی وصف اعتدال کا تقاضا ہے کہ امت محمدیہ من حیث المجموع افراط وتفریط سے اوراجتماعی خطا سے محفوظ رہے، امت محمدیہ کا یہی وصف ان کے اجتماعی عمل کو اجماع اور حجت بناتا ہے۔(الإحکام للآمدی:1/192)﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ ﴾․(آل عمران:110)
اس آیت کریمہ میں امت محمدیہ کو خیر الامم یعنی سب سے بہترین قرار دیا گیا، اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں لہٰذا جب علمائے امت متفقہ طور کسی کام کے کرنے کا حکم دیں تو وہ معروف ہوگا اور متفقہ طور پر جب کسی کام سے روکیں گے تو وہ منکر ہوگا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کا امر ونہی مسلمانوں پر حجت ہے اور کسی شرعی معاملے میں ان کا اتفاق اور اجماع امر شرعی ہے۔ اور یہ اتفاق و اجماع مصادر شرعیت میں سے ایک مصدر ہے۔
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ دیگر کئی آیات سے مثلاً: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾․ (اٰل عمران:103) ﴿أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ ﴾․(النساء 59)
اس آیت میں اولو الامر سے دینی امور میں راہ نمائی کرنے والے مجتہدین مراد ہیں جن کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
اسی طرح کی آیات حجیت اجماع پر صریح نص تو نہیں ہیں، البتہ دیگر دلائل کی بنا پر اشارے اور تائید کی حد تک ان سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں صرف پہلی آیت استدلال کے لحاظ سے دیگر آیات سے واضح ہے۔ اس لیے امام غزالی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ آیات حجیت اجماع پر واضح نہیں ہیں۔ حجیت اجماع پر سب سے مضبوط دلیل حدیث رسول ہے: ”لاتجتمع أمتي علی الخطأ“میری امت غلطی پر متفق نہیں ہوسکتی۔ (المستصفیٰ:1/185)
حجیت اجماع پر حدیث سے استدلال
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إن اللّٰہ لا یجمع أمتی علی ضلالة، وید اللّٰہ مع الجماعة“(جامع الترمذی، رقم الحدیث:2167)
اللہ تعالیٰ میری امت کو گم راہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے۔
یہ حدیث اسی مفہوم کے ساتھ مختلف الفاظ ورواة کے ذریعے کئی طُرق سے منقول ہے۔اس حدیث سے واضح ہوا کہ علمائے امت اورمجتہدین امت کا کسی امر شرعی پر اتفاق، غلطی سے محفوظ ہوجانے کی بشارت کی بنا پر حجت ہے۔ اور یہی اجماع ہے۔
علامہ آمدی نے عقلا بھی اجماع کی حجیت کو ثابت کیا ہے۔ (الاحکام للآمدی:1/202) (جاری)