دین کو نظام حیات کے طور پر قبول کرنا ہی ایمان ہے

idara letterhead universal2c

دین کو نظام حیات کے طور پر قبول کرنا ہی ایمان ہے

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
ظالم کے خلاف دہائی

حضرت اشعث بن قیس رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک قبیلہ کندہ سے تھا اور دوسرا حضر موت کا رہنے والا، دونوں نے آپ کی خدمت میں ایسی زمین کے متعلق جھگڑا کیا جو یمن میں تھی، حضرمی نے کہا: یا رسول اللہ! وہ زمین میری ہے، اس کے والد نے مجھ سے زبردستی چھینی تھی، اب وہ زمین اس کے پاس ہے۔ آپ علیہ السلام نے حضرمی سے پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ اس نے کہا نہیں، لیکن یہ کندی اس بات پر قسم کھائے کہ یہ زمین میری نہیں ہے اور اس کے والد نے مجھ سے نہیں چھینی تھی!یہ سن کر کندی شخص قسم کھانے کے لیے تیار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال دبائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ اعضا کٹے ہوئے ہوں گے ۔کندی شخص نے جب یہ وعید سنی تو اقرار کر لیا کہ یہ زمین واقعة اسی کی ہے۔(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:3244)

اس واقعہ میں حضور علیہ السلام کے سامنیحضرمی نے کندمی کے والد کے ظالمانہ فعل غصب کو بیان کر کے انصاف طلب کیا، جب کہ کندی کا والد مجلس میں نہیں تھا اور آپ علیہ السلام نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی عیب جوئی پر نکیر نہیں فرمائی۔

برائی کے ازالے کی غرض سے غیبت کرنا

کوئی شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو۔ اس کے کرتوتوں کی اطلاع کسی ایسے شخص کو دینا جو اس کو برائی سے روکنے پر قادر ہو۔ اس نیت سے غیبت کرنا درست ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ نے اپنے عامل حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، وہ نماز درست طریقے سے نہیں پڑھاتے اور قرأت بھی صحیح طریقے سے نہیں کرتے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی شکایت پر نکیر نہیں فرمائی اور حضرت سعد رضی الله عنہ کو معزول فرما کر حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو عامل بنا دیا۔ بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹی شکایت لگائی گئی تھی۔

حصول فتوی کے لیے غیبت کرنا

علمائے دین اور مفتیان کرام سے مسئلہ جاننے کے لیے صورت مسئلہ بیان کرتے ہوئے غیبت کرنا، تاکہ شریعت کا درست حکم معلوم ہوسکے، یہ غیبت ممنوع نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ نے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنیشوہر کی غیبت کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے شوہر بخیل ہیں، میرا اور میرے بچے کا نفقہ اس قدر نہیں دیتے کہ وہ پورا ہوسکے، سوائے اس کے کہ میں خود ہی ان کے مال سے بغیر بتلائے وصول کرلوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:عرف کے موافق جس قدر خرچ آپ کے اور آپ کے بچے کے لیے کافی ہو وہ (بغیر بتلائے) وصول کرلیا کریں۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1714)

مسلمانوں کو کسی کے شر سے بچانے کی نیت سے غیبت کرنا

اس کی کئی صورتیں ہیں:
∗…راویوں اور گواہوں پر جرح کرتے ہوئے غیبت کرنا، یہ غیبت بوقت ضرورت واجب ہوجاتی ہے۔(ریاض الصالحین للنووی،ص:451)

∗…کسی کے ساتھ رشتہ ناطہ کرتے وقت، کسی کے ساتھ شرکت، ودیعت یا اس طرح کا کوئی معاملہ کرتے وقت یا کسی کا پڑوسی بنتے وقت جب کسی سے مشورہ لیا جائے تو مشورہ دینے والے پر حقیقت احوال سے مطلع کرنا واجب ہے، تاکہ مشورہ لینے والا کسی دھوکہ کا شکار نہ ہو اور درست فیصلہ کرسکے اور اس غیبت سے مقصد مشورہ لینے والے کی خیر خواہی ہو۔ اس میں حسد، بغض کا جذبہ نہ پایا جاتا ہو۔(ریاض الصالحین،ص:451)

∗…اسی طرح جب کسی دین سیکھنے والے شخص کو کسی بدعتی اور فاسق کے پاس حصول علم کے لیے آتا جاتا دیکھیں تو ایسے طالب حق کے سامنے بدعتی اور فاسق کی غیبت کرنا درست ہے۔

∗…اسی طرح جس آدمی کو کسی شخص پر اختیار حاصل ہو، ایسے صاحب اختیار کے ماتحت کوئی شخص فسق وفجور کا میلان رکھتا ہو یا مغفل قسم کا ہو تو اس کی اصلاح کی غرض سے اس کے سرپرست وولی کو جس کے ماتحت یہ آدمی ہے اس کے سامنے اس کی غیبت کرنا درست ہے، تاکہ وہ گم راہی سے بچ کر، دین ودنیا کے نقصان سے بچ سکے۔

∗…جو شخص اعلانیہ فسق وفجور میں مبتلا ہو، شراب نوش ہو، ظالمانہ ٹیکس وصول کرتا ہو، لوگوں کا مال ظالمانہ طریقوں سے ہتھیاتا ہو، ایسے شخص کا تذکرہ ان عیوب کے ساتھ کرنا غیبت نہیں ہے۔

∗…اگر کسی شخص کا کوئی فعل یا جسمانی عیب اس کے تعارف کا ذریعہ بن چکا ہو۔ اور یہی اس کی شخصیت کی پہچان ہو تو ایسے الفاظ، لقب، وکنیت سے اس کا تذکرہ کرنا غیبت نہیں ہے۔ جیسے اندھا، کانا، لنگڑا وغیرہ۔
حضرت مولنا عبد الحی فرنگی محل لکھنوی رحمہ اللہ نے جواز غیبت کی چند مزید صورتوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ مثلاً:

حصول شرم کی غرض سے غیبت

اگر کوئی شخص کسی عیب میں مبتلا ہے تو اس کا عیب اور غیبتخاص طور پر ایسے کسی آدمی کے سامنے اس نیت سے کرنا کہ جب وہ شخص سنے گا کہ فلاں میرے عیب سے واقف ہوگیا ہے تو خود بخود شرما کے اس عیب کو چھوڑ دے گا تو یہ غیبت درست ہے۔

غیبت بغرض حفاظت

اگر کسی شخص کی وجہ سے کسی کو ضرر پہنچتا ہو اور وہ اس ضرر سے واقف نہ ہوتو ضرر پہنچانے والے کی غیبت کرنا درست ہے، تاکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو ضرر نہ ہو، مسلمان اس کے نقصان سے محفوظ رہے۔

بے حیا کی غیبت

بے حیا کی غیبت درست ہے، یعنی جو شخص ظاہر میں ہر طرح عیبوں میں مبتلا رہتا ہے اور اگر اس کو کوئی برا کہے تو کچھ اثر نہ لے، حیا اس کے پاس نہیں آتی، شرم اس سے کوسوں دور بھاگتی ہے… اسی واسطے صحابہ رضی اللہ عنہم قاتلان حسین کی غیبت کرتے تھے اور ان پر طعن کرتے تھے، کیوں کہ وہ بے حیا تھے، اپنے عیب کو ہنر سمجھتے تھے۔

غیبت بطور حسرت وافسوس

غیبت کرنا بطور افسوس کے درست ہے، یہ صورت خزانة الروایات، تنویر الأبصار، رد المحتار میں ہے۔ مثلا کہنا کہ فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا یا برے کاموں میں مبتلا رہتا ہے ،ہمیں اس پر افسوس ہوتا ہے، کیوں کہ کسی کے افعال پر افسوس کرنا امر مستحسن ہے، بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ جب کسی مسلمان کو کسی گناہ میں مبتلا دیکھیں تو اس کی حالت پر اور شیطان سے اس کی مغلوبیت پر رحم کھائیں۔

مجہول آدمی کی غیبت کرنا

اس طرح کسی ایسے آدمی کے مشہور اوصاف بد کا بیان کرنا اور اس کا نام لینا درست ہے۔جسے سامعین نہ جانتے ہوں۔

غیبت بغرض تقویت دین

رد المحتار میں ہے کہ دین کی تقویت کے لیے غیبت درست ہے، جس طرح محدثین ایک دوسرے کا عیب بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں، فلاں شخص جھوٹ کی عادت رکھتا ہے، حدیث کی روایت میں جھوٹ بہت بولتا ہے یا فلاں راوی حدیثوں کو اپنے دل سے بنایا کرتا ہے، وضع حدیث کی عادت رکھتا ہے یا فلاں راوی کا حافظہ کم ہے، حدیثوں کو یاد رکھنے میں اس سے تفاوت ہوجاتا ہے۔ اور جس طرح فقہا لکھتے ہیں کہ فلاں کتاب غیر معتبر ہے، کیوں کہ اس کا مصنف فقیہ نہیں ہے یا فلاں کتاب کا مولف معتزلی ہے، اس کا قول باطل ہے یا فلاں شخص نے اپنی کتاب میں مسائل ضعیفہ کو بھی درج کیا ہے، یا فلاں فقیہ روایات موضوعہ کو اپنی تصنیف میں لاتا ہے، اپنی سند سے احادیث ضعیفہ کو بناتا ہے۔ وعلی ہذا…

غیبت بغرض عبرت

کسی زندہ کی غیبت کرنا یا مردہ کی اور اس کے ساتھ سزا کا ذکر کرنا لوگوں کو ڈرانے کے واسطے درست ہے۔ مثلا یہ کہنا فلاں شخص قابل جہنم ہے، کیوں کہ وہ بخیل ہے، اس نیت سے کہ لوگ صفت بخل سے بچیں یا کہنا کہ فلاں شخص عذاب قبر میں مبتلا ہے، اس لیے کہ اس نے فلاں گناہ کیا تھا یا کہنا کہ فلاں شخص کا مرنے کے بعد چہرہ سیاہ ہوگیا تھا، اس لیے کہ اس نے فلاں گناہ کیا تھا یا کہنا کہ فلاں شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہے اور اس بیان سے اس کی ذلت مطلوب نہ ہو بلکہ لوگوں کی عبرت مرغوب ہو۔(غیبت کیا ہے؟ از مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ، ص 50 تا62)

اس کے علاوہ بعض علمانے دوصورتیں اور بھی بیان کی ہیں۔

کافر کی غیبت کرنا

کافر حربی کی غیبت کرنا جائز ہے، کیوں کہ اس کی عزت کی حرمت بوجہ کفر باقی نہیں رہی۔ ہا ں! کافر ذمی کی غیبت درست نہیں، کیوں دار الاسلام کا شہری ہونے اور جزیہ دینے کے بدلے اس کی عزت کی حرمت باقی رکھی گئی ہے اور اس کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ (تطھیر الغیبة ابن حجر: ص41، حاشیة ابن عابدین: 6/410)

غیر مکلف کی غیبت

بعض اہل علم نے غیر مکلف بچے، دیوانے مجنوں کی غیبت کی اجازت دی ہے، کیوں کہ اس سے کئی احکام شریعت متعلق نہیں ہوتے اور اس وجہ سے بھی کہ غیبت سے ان کو اذیت نہیں پہنچتی، کیوں کہ وہ اس کا فہم ہی نہیں رکھتے۔ ( الزواجر:2/15، حاشیة ابن عابدین:6/431)

دین کو نظام حیات کے طور پر قبول کرنا ہی ایمان ہے

مومن کے لیے تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا ضروری ہے کسی ایک نبی کی رسالت کا انکار تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت کے انکار کے مترادف ہے۔ کیوں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی اصولی دعوت توحید، رسالت، معاد پر مشتمل ایک ہی مشترکہ دعوت تھی، یہود نے حضرت مسیح عیسی بن مریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کر کے کفر کا ارتکاب کیا اور مسیحی حضرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کر کے کفر کے مرتکب ہوئے ،جس طرح ایمان کے لیے تمام انبیا کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح ہر اُمتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی پوری شریعت پر ایمان لائے۔ کچھ احکام پر ایمان لانے اور کچھ کا انکار کرنے سے وہ کبھی مومن نہیں ہوسکتا ہے، اس لیے آیت کریمہ میں ایسے لوگوں کو کافروں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا گیا:

﴿إِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِاللَّہِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیدُونَ أَن یُفَرِّقُوا بَیْنَ اللَّہِ وَرُسُلِہِ وَیَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیدُونَ أَن یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَٰلِکَ سَبِیلًا،أُولَٰئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ حَقًّا﴾․(سورة النساء، آیت:151-150)

آسمانی مذاہب میں یہود ونصاری کی آسمانی کتابیں محرف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتماد اور دور حاضر میں ناقابل عمل ہیں۔ البتہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم آج بھی اپنی حقیقی تعلیمات کے ساتھ اصلی شکل میں موجود ہے اور اسلام ہی ایک واحد مذہب ہے جو آج بھی عالم انسانیت کو زندگی کے ہر شعبے میں اصولی راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔

وہ انسان کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی معاملے میں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑتا۔ وہ کامل نظام ہے۔ ہر زمان ومکان کے لیے ہے۔ ناقبل تغیر اور تبدل ہے۔ ہر انسانی فطرت میں ڈھلنے والا ہے۔

وہ خوب صورت اطمینان بخش عقائد ونظریات سے بہرہ ور کراتا ہے۔

اخلاق حسنہ سے متصف ہونے اور اخلاق رزیلہ سے بچے رہنے کی دعوت دیتا ہے۔
خانگی مسائل، مثلا نکاح، طلاق، میراث ، نفقہ، پرورش، وغیرہ کے متعلق اپنی روشن تعلیمات سے خاندانی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔

مالی معاملات، مثلا:بیع وشرا، شرکت ومضاربت، اجارہ ورہن وغیرہ ان میں اصولی راہ نمائی کر کے فریقین کو معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اجتماعی معاشرے میں پیدا ہونے والے باہمی اختلاف کے حل کے لیے دعوی، قضا، یمین، شہادات کا طریقہ کار پیش کرتا ہے۔

دارالکفر، دارالحرب، دارالامن اور ان کے شہریوں کے متعلق مختلف احکامات دے کر، ان کی درجہ بندی کر کے، ان سے تعلقات کی نوعیت اور اس کی حدود سے آگاہ کرتا ہے۔

قتل، ڈاکہ، چوری، غصب، ظلم کو دور کرنے کے لیے قصاص، حدود وتعزیرات کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو یکساں طور پر اس کی جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

آج کے یہود، نصاری، ہندومت، بدھ مت، سکھ مت… غرض الحاد وزندقہ نے تمام مذاہب کو بری طرح مسخ کر دیا ہے، عملی زندگی سے مذہب کو نکال کر اس کو رسم ورواج تک محدود کر دیا ہے۔ مگر اسلام ہی ایک واحد مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے لیے رکاوٹ بن کر مزاحمت کررہا ہے۔ اس لیے آج کے الحاد کا صرف ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے نظام اسلام جو کسی صورت میں قبول نہیں۔ اس لیے وہ کسی مسلمان کے نماز وروزے پر بہ جبیں نہیں ہوتا ہے۔ ہاں جہاں کہیں اسے اسلامی معیشت وتجارت، اسلامی نظام عدل، اسلامی نظام سیاست کی بھنک پڑ جائے وہاں یہ عالم کفر اپنے آلہ کاروں کے ساتھ متحد ہوکر پوری طاقت کے ساتھ انسانی حقوق، امن عالم اور مساوات کے نام پر اسے مٹانے اور دبانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ انہیں کے پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے کہ کئی سمجھ دار لوگ بھی دین اسلام کو نماز اور روزے تک محدود سمجھتے ہیں اور الہٰی نظام حیات کے مقابلے میں انسانی نظام حیات کو قابل عمل سمجھتے ہیں۔

حالاں کہ وہ ناقص اور چند لوگوں کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہوتا ہے دونوں نظام کا فرق بیان کرتے ہوئے عبد القادر عودہ لکھتے ہیں:

”القوانین والانظمة التی یضعھا البشر قابلة التبدیل والتعدیل والإلغاء، إذا ما قضت بذالک أھواء البشر شھواتھم․“

”جن قوانین اور نظام کو انسان خود وضع کرتا ہے وہ انسان کی خواہش اور پسند کے تبدیل ہونے سے تبدیل ہوسکتے ہیں اور ختم ہوسکتے ہیں۔“اس کی پسند چاہے تو … جب کہ الٰہی نظام اس کے برعکس ہے۔

امّا احکام القرآن فھی من عند اللّٰہ وھی دائمة إلی الأبد لا تماشی اھواء الحکام ولا اھواء المحکومین وإنما تعدل بین الفریقین وتوفی کلا حقہ فی حدود العدل الخالص مع حفظ مصلحة الجماعة.(المال والحکم فی الاسلام، عبد القادر عودة، ص:125)

”جب کہ قرآن کریم کے احکام اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، وہ ابد تک ہمیشہ رہنے والے ہیں، حاکم اور رعایا کی خواہشات کے مطابق نہیں چلتے ، بلکہ یہ احکام دونوں فریق حاکم اور رعایا میں عدل قائم کرتے ہیں، وہ عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے کے فوائد کی حفاظت کرتے ہوئے ہر ایک کو اس کا حق دیتے ہیں۔“

عہد نبوی سے تیرھویں صدی ہجری کے نصف آخر تک عالم اسلام میں اسلام ایک نظام حیات کے طور پر نافذ رہا ، شریعت مطہرہ اور قرآن وسنت کو مرجعیت حاصل تھی، مسند اقتدار پر خواہ عادل حکمران براجمان ہوتا یا ظالم وفاسق مسلط ہوتا، مگر معاشرے میں دستوری اور قانونی ماخذ ومصادر کی حیثیت شریعت مطہرہ کو ہوتی۔ اس کے بعد عالم کفر نے ایک طویل منصوبہ بندی کے ساتھ اسلامی ممالک کو سیاسی، سفارتی، معاشی، عسکری دباؤ کے ذریعے مجبور کردیا کہ وہ مذہب کو عبادت تک محدود کر دیں۔ اس کے لیے سب سے پہلا نقب اسلام کے نظا م عدل میں لگایا گیا۔ چناں چہ 1840ء میں خلافت عثمانیہ میں شرعی قوانین کے ساتھ وضعی قوانین بھی نافذ ہونا شروع ہوگئے، یہاں تک کہ شرعی قوانین کو عدالتوں سے بالکلیہ خارج کر دیا گیا اور پھر1924ء میں خلافت ہی کو ختم کر کے ملک کے سیکولر ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ ہندوستان میں 1856ء میں اسلامی قوانین کو معطل کردیا گیا اور 1955ء میں مصر کی شرعی عدالتوں کو یکسر ختم کر کے فرانسیسی قوانین نافذ کر دیے گئے۔ اس طرح کا عمل ہر اسلامی ملک میں دہرایا گیا ،اب صورت حال یہ ہے کہ جزوی طور پر کچھ شرعی قوانین عوامی جذبات کو بہلانے کے لیے نافذ کر دیے گئے ہیں، مگر مجموعی طور ہر شریعت کے نظام سے محروم رکھا جارہا ہے۔ اور مذہب کو سیاست، تجارت، عدالت، معاشرت سے جدا کر کے، فکری ارتداد کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں۔

مگر یہ کوششیں اس امت میں کیسے بار آور ہوسکتی ہیں جو ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی دن میں پانچ مرتبہ کا اذان کی آواز سنتی ہو اور مسجد آتی ہو، جمعہ ، جمعہ اکھٹی ہوتی ہو، عیدین اہتمام کرتی ہو، رمضان شریف کا مبارک مہینہ پاتی ہو، قربانی کا فریضہ انجام دیتی ہو، حج کے موسم کا انتظار کرتی ہو، نکاح وطلاق، میراث کے معاملات میں علمائے دین سے رجوع کرتی ہو، سود، جوا، قمار کو گناہ سمجھتی ہو، مختلف نظامہائے حیات کے مسلط کردہ اندھیروں میں بھی نظام شریعت کی امید کا دیا روشن کیے ہوئے ہو، ریاست کی قائم کردہ عدالتوں اور علمائے دین کے دارالافتاء اوردار القضاء میں رجوع کرنے والے افراد کا تناسب دیکھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مسلمان عوام اب بھی نظام شریعت کو اپنا مقتدا سمجھتی ہے، اسی پر اعتماد کرتی ہے۔ حضور علیہ السلام کی لائی ہوئی پوری شریعت پر ایمان رکھتی ہے، اس میں تفریق نہیں کرتی، آیت کریمہ: ﴿وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ أَحَدٍ مِنْہُمْ﴾ میں ایسے ہی ایمان کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور اسی پر اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔(جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق