انبیاء علیہم السلام کی گستاخی یہود کی قومی عادت

idara letterhead universal2c

انبیاء علیہم السلام کی گستاخی یہود کی قومی عادت

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿یَسْأَلُکَ أَہْلُ الْکِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَیْْہِمْ کِتَاباً مِّنَ السَّمَاء ِ فَقَدْ سَأَلُواْ مُوسَی أَکْبَرَ مِن ذَلِکَ فَقَالُواْ أَرِنَا اللّٰہِ جَہْرَةً فَأَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِہِمْ ثُمَّ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَلِکَ وَآتَیْْنَا مُوسَی سُلْطَاناً مُّبِیْناً، وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطُّورَ بِمِیْثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُلْنَا لَہُمْ لاَ تَعْدُواْ فِیْ السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْہُم مِّیْثَاقاً غَلِیْظاً، فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِم بَآیَاتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الأَنْبِیَاء َ بِغَیْْرِ حَقًّ وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّہُ عَلَیْْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِیْلاً، وَبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُہْتَاناً عَظِیْماً، وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْنا، بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً، وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً، فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْراً، وَأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُواْ عَنْہُ وَأَکْلِہِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً، لَّکِنِ الرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلاَةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أُوْلَئِکَ سَنُؤْتِیْہِمْ أَجْراً عَظِیْماً﴾․(سورة البقرہ،آیت:162-153)

تجھ سے درخواست کرتے ہیں اہل کتاب کہ تو ان پر اتار لاوے لکھی ہوئی کتاب آسمان سے، سو مانگ چکے ہیں موسی سے اس سے بھی بڑی چیز اور کہا ہم کو دکھلادے اللہ کو بالکل سامنے، سو آپڑی ان پر بجلی، ان کے گناہ کے باعث، پھر بنا لیا بچھڑے کو، بہت کچھ نشانیاں پہنچ چکنے کے بعد، پھر ہم نے وہ بھی معاف کیا اور دیا ہم نے موسی کو غلبہ صریح اورہم نے اٹھایا ان پر پہاڑ قرار لینے کے واسطے اور ہم نے کہا داخل ہو دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے اور ہم نے کہا زیادتی مت کرو ہفتہ کے دن میں اور ہم نے ان سے لیا قول مضبوطO ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اللہ کی آیتوں سے اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے ،سو یہ نہیں، بلکہ اللہ نے مہر کردیO ان کے دل پر کفر کے سبب سو ایمان نہیں لاتے مگر کمO اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر، اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسی مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھا یا، لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، کچھ نہیں ان کو اس کی خبر، صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بے شکO بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والاO اور جتنے فرقے ہیں اہل کتاب کے سو عیسی پر یقین لاویں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا ان پر گواہO سو یہود کے گناہوں کی وجہ سے ہم نے حرام کیں ان پر بہت سی پاک چیزیں جو ان پر حلال تھیں اور اس وجہ سے کہ روکتے تھے اللہ کی راہ سے بہتO اور اس وجہ سے کہ سود لیتے تھے اور ان کو اس کی ممانعت ہوچکی تھی اس وجہ سے کہ لوگوں کا مال کھاتے تھے ناحق اور تیار کر رکھا ہے ہم نے کافروں کے واسطے جو ان میں ہیں عذاب دردناکO لیکن جو پختہ ہیں علم میں ان میں اور ایمان والے ،سو مانتے ہیں اس کو جو نازل ہوا تجھ پر اور جو نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آفریں ہے نماز پر قائم رہنے والوں کو اور جو دینے والے ہیں زکوة اور یقین رکھنے والے ہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر، سو ایسوں کو ہم دیں گے بڑا ثوابO

انبیاء علیہم السلام کی گستاخی کرنا یہود کی قومی عادت رہی ہے
یہود کی قومی کج فطری ہمیشہ قبول ایمان کے لیے آڑ بنتی رہی۔ انبیاء علیہم السلام کی گستاخی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑانا ان کا شیوہ رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی حقانیت پوری طرح عیاں ہونے کے باوجود، یہود مدینہ آپ پر مختلف الزامات، شبہات اور الٹے سیدھے سوالات کر کے خود کو تسلی دینے کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، من جملہ اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ”حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے احکامات تختیوں پر لکھے ہوئے ایک ہی مجموعے کی شکل میں ملے تھے۔ جب کہ آپ کو احکام الہٰی متفرق طور پر نزول وحی کی صورت میں ملتے ہیں۔ آپ کو ایک ہی دفعہ تختیوں کی صورت میں احکام الہٰی کیوں نہیں ملے“؟

یہود کا یہ سوال طلب حق کے لیے نہیں تھا ،بلکہ محض عداوت حق کا شاخسانہ تھا، اس لیے جواب میں ان کے بھونڈے کردار کا آئینہ الزامی جواب کی صورت میں دکھایا گیا۔

﴿فَقَدْ سَأَلُواْ مُوسَی أَکْبَرَ…﴾حضرت موسی علیہ السلام کو جب تختیوں کو صورت میں احکام الہٰی سے نواز دیا گیا تو تم نے وہاں پر بھی انکار کا راستہ اختیار کیا تھا، احکام الہٰی پر سرخم تسلیم کرنے کی بجائے اس پر شکوک وشبہات کا اظہار کرنے لگے تھے اور براہ راست اللہ تعالیٰ سے مل کر اس کی تصدیق کرانے کا جاہلانہ مطالبہ شروع کردیا تھا”أرنا اللّٰہ جھرة“اس قدر گستاخی کرنے والی قوم اگر آپ سے صرف یہ مطالبہ کرنے لگے کہ احکام الہٰی کا مجموعہ تختیوں پر ایک ساتھ کیوں نہیں ہوا تو یہ مطالبہ بہت ہلکا ہے، انہوں نے اپنے انبیاء کے ساتھ تو اس سے بڑھ کر بڑے بڑے مطالبے کیے تھے۔ گویا اس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے گستاخانہ طرز عمل پر تسلی دی جارہی ہے۔

﴿فَأَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِہِمْ …﴾ دنیا ہی میں اپنے جسم عنصری کی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالی کی زیارت نہیں کی جاسکتی، مگر یہود نے زیارت کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے کی غرض بھی لقائے الہٰی کا شوق نہیں تھا، بلکہ اس میں تورات پر عدم اعتماد کے گستاخانہ پہلو کا عنصر غالب تھا اور یہی رؤیت کے مطالبے کا باعث تھا۔ یہ عدم اعتماد تورات پر نہیں بلکہ براہ راست حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت ورسالت اور ان کی امانت اور دیانت کے متعلق بھی تھا۔ اس لیے اس گستاخی کی سزا بجلی کے کڑ کے سے دی گئی۔

فرعون اور قبطی قوم کے ظلم میں پسنے والے اسرائیلوں کو حضرت موسی علیہ السلام نے آزادی کی راہ دکھائی، توحید سے آشنا کرایا، اس کے باوجود یہ حضرت موسی علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بچھڑے کی عبادت کر کے صریح شرک کے مرتکب ہوئے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی نافرمانی کر کے ان کی گستاخی کی۔

تورات کو اللہ کی کتاب ماننے کے بعد اس کے مندرجات اوراحکام کو ناقابل عمل قرار دے کر اس پر عمل پیرا ہونے سے انکار کردیا، چناں چہ اپنے وعدے سے انحراف کی بنا پر کوہ طور ان کے سر پر سایہ کی طرح کھڑا کر کے، دوبارہ ان سے ان احکامات الہیہ پر عمل پیرا ہونے کا عہد لیا گیا، پہاڑ کے نیچے دب جانے کے خوف سے انہوں نے احکامات قبول کر لیے۔

ان سے وعدہ لیا گیا تھا کہ صحرائے سینا کے ایک شہر کے دروازے سے سجدہ شکر بجالاتے ہوئے گزریں گے، مگر انہوں اللہ کے ساتھ کیے گئے اس عہد کا مذاق اڑایا۔

﴿ لاَ تَعْدُواْ فِیْ السَّبْتِ…﴾ہفتے کے دن کو عبادت الہٰی کے لیے خاص کیا گیا تھا اور دنیاوی کاروبار زندگی پر پابندی تھی مگر یہود ہی کے ایک گروہ نے اس حکم کی صریح خلاف ورزی کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دی تھی۔

﴿فَبِمَا نَقْضِہِم…﴾ عہد الہٰی کو مسلسل توڑنا، احکامات الہٰیہ کا انکار کرنا، انبیاء علیہم السلام، جیسے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کو شہید کرنا، قرآن کریم کا وحی الہٰی ہونے پر یقین کے باوجود اس پر ایمان لانے کی بجائے اس کا استہزا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہیں، اس میں توریت کے علاوہ کچھ داخل نہیں ہوسکتا۔

اس قدر جرائم کی عادی قوم سے ایمان کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ قرآن مجید کو توریت کی طرح تختیوں پر نزول کا مطالبے کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ توریت پر انہوں نے کتنا عمل کیا ہے؟ یہ دراصل ایمان نہ لانے کے بہانے ہیں۔

یہ تو حضرت مسیح علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے، ان کے قتل کے مدعی ہیں اور اس پر ان کو فخر بھی ہے۔ نبی کے قتل کا دعوی کرنے اور اس فخر کرنے والی قوم سے طلب حق کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی رسالت کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی والدہ مکرمہ پاکیزہ، عفیفہ حضرت مریم علیہا السلام پر بھی بہتان لگانے سے دریغ نہیں کیا۔ ان کی روایات کے مطابق حضرت مریم علیہا السلام کی نسبت یوسف نجار کے ساتھ ہوچکی تھی، مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے درمیان تعلق قائم ہوگیا، جس کے نتیجے میں حضرت عیسٰی علیہا السلام پیدا ہوئے، گویا نعوذ باللہ حضرت مریم علیہا السلام بد کردار اور حضرت عیسٰی علیہا السلام ولد الزناٹھہرے۔ چناں چہ ولادت مسیح کے بعد یہودیوں نے طعن کرتے ہوئے کہا تھا۔ ﴿یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا، یَا أُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْء ٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا﴾․

حضرت مسیح ں کو مصلوب کرنے کا دعوی یہود اور اس کی تردید
﴿وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا…﴾یہود نے اپنے آخری نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ساتھ گستاخانہ رویہ اپنائے رکھا، ان کی نبوت پر ایمان لانے کی بجائے انہیں دین موسوی کا باغی قرار دے کر ان پر بغاوت کی سزا دینا چاہی اور بزعم خود انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو بغاوت کی سزا صلیب پر چڑھا کر دے دی، یہاں تک کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیروکار بھی یہودیت کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر یہی خیال کر بیٹھے ہیں کہ حضرت عیسٰی السلام مصلوب ہوئے ہیں، قرآن کریم نے یہود کے اس پروپیگنڈے سے پردہ اٹھا کر اعلان کیا کہ یہود نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کیا ہے نہ صلیب پر چڑھایا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جسم دنیاوی کے ساتھ آسمانوں پر اٹھالیا تھا۔(جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق