ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)وَ مَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء ِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًاO اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْا اَوْلِیَآء َ الشَّیْطٰنِ اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا․
اور تم کو کیا ہوا کہ نہیں لڑتے اللہ کی راہ میں اور ان کے واسطے جو مغلوب ہیں مرد، عورتیں اور بچے؟ جو کہتے ہیں اے رب ہمارے!نکال ہم کو اس بستی سے کہ ظالم ہیں یہاں کے لوگ اور کردے ہمارے واسطے اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور کردے ہمارے واسطے اپنے پاس سے مددگار جو لوگ ایمان والے ہیں سو لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں اور جو کافر ہیں سو لڑتے ہیں شیطان کی راہ میں، سو لڑو تم شیطان کے حمایتیوں سے، بے شک فریب شیطان کا سست ہے۔
مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد کرنا واجب ہے
مکہ مکرمہ کے کم زور مسلمان جو مشرکین کے ظلم وستم کا شکار بنے ہوئے تھے، جو نہ مشرکین کا مقابلہ کرسکتے تھے نہ ہجرت کی طاقت رکھتے تھے، ان کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عجیب انداز بیان سے ان کی نصرت پر ابھارا، اللہ تعالی اپنی قدرت سے ظالموں کو نیست و نابود بھی کر سکتا تھا، یا مظلوم مسلمانوں کے لیے ہجرت کی کوئی غیبی سبیل بھی پیدا فرما سکتا تھا مگر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو زور بازو کی تعلیم دینی تھی، جہاد کے اجر سے مالا مال کرنا تھا ،دنیا کے کسی کو نے میں ہونے والے اہل ایمان کے دکھ ورنج کو دنیا کے ہر مومن کے لیے اپنا دکھ باور کرانا تھا، اس لیے ترغیب وترہیب کے ملے جلے الفاظ کے ذریعے مظلوم مسلمانوں کی مدد پر ابھارتے ہوئے فرمایا۔﴿وَ مَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ…﴾
علامہ رازی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:” فھذا حث شدید علی القتال وبیان العلة التی لھا صار القتال واجبا․“(التفسیر الکبیر للرازی، النساء ذیل آیت:75)
اس آیت میں جہاد کی شدید ترغیب ہے اور اس علت کا بیان ہے جس کی وجہ سے جہاد کو فرض کیا گیا ہے۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس آیت میں کمزور مسلمانوں کو کافروں اور مشرکوں سے رہا کرانے کی ترغیب ہے جو انہیں درد ناک اذیتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور انہیں دین حق سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالی نے جہاد کو اپنے کلمے کی بلندی، دین کے غلبے اور کمزور مسلمانوں کی آزادی کے لیے فرض قرار دیا ہے، اگرچہ جہاد میں جانوں کا نقصان ہے۔(احکام القرآن للقرطبی، النساء ذیل آیت:75)
پھر فرمایا:”قال مالک:واجب علی الناس أن یفدوا الأساری بجمیع اموالھم وھذا لاخلاف فیہ، لقولہ علیہ السلام، فکو العانی“․( احکام القرآن للقرطبی، النساء ذیل آیت:75)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں پر واجب ہے کہ وہ مسلمان قیدیوں کو کافروں سے مال دے کر چھڑائیں اگر چہ سارا مال دے کر ان کو چھڑانا پڑے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ آپ علیہ السلام نے حکم فرمایا ہے :”قیدی چھڑاؤ“۔
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفُّوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللّٰہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَةً، وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ، قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا، أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّکُم الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُّشَیَّدَةٍ، وَإِن تُصِبْہُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا ہَٰذِہِ مِنْ عِندِ اللّٰہِ، وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا ہَٰذِہِ مِنْ عِندِکَ، قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّٰہِ، فَمَالِ ہٰؤُلَاء ِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا، ما أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ، وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِکَ وَأَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا، وَکَفَیٰ بِاللَّہِ شَہِیدًا، مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ وَمَن تَوَلَّیٰ فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا، وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَکَفَیٰ بِاللّٰہِ وَکِیلًا، أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیرًا﴾․ (سورة النساء، آیت:77 تا82)
کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جن کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ہاتھ تھامے رکھو اور قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوة پھر جب حکم ہوا ان پر لڑائی کا اسی وقت ان میں ایک جماعت ڈرنے لگی لوگوں سے جیسا ڈر ہو اللہ یا اس سے بھی زیادہ ڈر اور کہنے لگے! اے رب ہمارے! کیوں فرض کی ہم پر لڑائی کیوں نہ چھوڑے رکھا ہم کو تھوڑی مدت تک، کہہ دے فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیز گار کو اور تمہارا حق نہ رہے گا ایک تاگے برابرO جہاں کہیں تم ہوگے موت تم کو آپکڑے گی اگر چہ تم ہو مضبوط قلعوں میں ، اور اگر پہنچے لوگوں کو کچھ بھلائی تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر ان کو پہنچے کچھ برائی تو کہیں یہ تیری طرف سے ہے، کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، سو کیا حال ہے ان لوگوں کا ہر گز نہیں لگتے کہ سمجھیں کوئی باتO جو پہنچے تجھ کو کوئی بھلائی سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو پہنچے تجھ کو کوئی برائی سو تیرے نفس کی طرف سے ہے، اور ہم نے تجھ کو بھیجا پیغام پہنچانے والا لوگوں کو اور اللہ کافی ہے سامنے دیکھنے والاO جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا اور جو الٹا پھرا تو ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا ان پر نگہبانO اور کہتے ہیں کہ قبو ل ہے پھر جب باہر گئے تیرے پاس سے تو مشورہ کرتے ہیں بعضے بعضے ان میں سے رات کو اس کے خلاف جو تجھ سے کہہ چکے تھے اور اللہ لکھتا ہے جو وہ مشورہ کرتے ہیں سو تغافل کر ان سے اور بھروسہ کر اللہ پر، اور اللہ کافی ہے کار سازO کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر یہ ہوتا کسی اور کا سو اللہ کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوتO
جہاد اور منافقانہ رویے﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِین…﴾
جب تک مسلمان مکہ مکرمہ میں تھے، مشرکین مکہ کے ناروا سلوک کو دیکھ کر کڑھتے رہتے، ان کی خواہش تھی کہ انہیں اپنے دین، اپنی جان ومال کی دفاع کے لیے مشرکین سے قتال کی اجازت دی جائے، مگر وہاں انہیں صبر کی تلقین کی گئی، ہجرت کے بعد جب مسلمانوں پر قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت عائد ہوئی تو اس وقت کچھ مسلمان ابتدائی طور پر پست ہمتی کا شکار ہوگئے، لیکن ان کی عارضی پست ہمتی سے منافقوں کو کھلم کھلا جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف باتیں بنانے کا موقع مل گیا۔
کم زور دل مسلمان تیرہ سال تک مکہ مکرمہ کی ابتلاء گزار چکے تھے، اب ان کو مدینہ منورہ میں عافیت کے لمحات نصیب ہوئے تھے، قتال فی سبیل اللہ کا حکم ملا تو انہیں پھر ایک آزمائش نظر آنے لگی اس لیے وہ حسرت کرنے لگے تو ”لَولاَ أخرتنا إلی أجل قریب“لیکن منافقوں کو قتال فی سبیل اللہ کے فریضے میں اپنی موت نظر آنے لگی اور وہ اللہ تعالی سے زیادہ کافروں سے خوف زدہ ہونے لگے کہ وہ ہمیں موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔
﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ……﴾
دنیا کی محبت کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا محاذ گرم نہیں رکھا جاسکتا۔ مؤمن اور کافر ومنافق کی خصلت میں کلمہ طیبہ کی بدولت زمین وآسمان کا فرق آجاتا ہے۔ مؤمن کی ایمانی خصلت اسے صرف ”ایمانیات“ کے دائریتک لڑنے مرنے پر ابھارتی ہے۔ اس لیے امت محمدیہ من حیث المجموع نسلی، لسانی، وطنی، علاقائی بنیاد پر لڑنے میں سب سے کم زور واقع ہوئی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ کہ اہل ایمان صرف ایمان کی بنیاد پر اسلام کی بنیاد پر مسلمان کی نصرت کی بنیاد پر اپنی قوم، علاقہ، نسل ، وطن سب کچھ فدا کرکے اجنبی ملک میں، اجنبی زبان میں اجنبی ماحول و معاشرہ میں ایمان اور مسلمان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کافر کو میدان جنگ میں ثابت قدم رکھنے کے لیے نیشنلزم کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ صرف وطن پرستی، نسل پرستی کے لیے جان خطرے میں ڈالتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”متاع الدنیا قلیل“دنیا کا سازوسامان بہت تھوڑا ہے۔ یہ ختم ہوجائے گا یا زندگی ختم ہوجائے گی۔ اسے بچانے کے لیے لڑنا، یا اسے پانے کے لیے لڑنا مومن کی شان نہیں ہے۔ اور اس کی محبت دل میں اتر آئے تو جذبہ جہاد ماند پڑجاتا ہے۔
﴿أَیْنَمَا تَکُونُوا…﴾
اہل ایمان کے درمیان منافقوں کا ایک گروہ ایسا بھی پایا جاتا ہے کہ ا نہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ کافروں کے خلاف میدان جنگ میں جانا خود کو موت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے وہ جہاد کو موت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لوگوں کو جہاد سے روکتے ہیں، انہیں دشمن کی مادی و حربی طاقت کا ڈراوا دے کر یہ باور کراتے ہیں کہ ان کے ساتھ مقابلہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ اپنی بزدلانہ فکر کو عقل و دانش کے جھوٹے پیمانوں میں ڈال کر قوم کو درس دیتے ہیں، کافروں کا لشکر ایک طوفان ہے، اس سے بھڑ جانا عقل مندی نہیں، بلکہ اپنا سر نیچے کر لینا عقل مندی ہے تاکہ یہ طوفان بھی گزر جائے اور آپ کی جان بھی بچ جائے۔ جب کوئی بزدل مفکر بھی بن جائے تو اس کا شر بھی دوگنا ہوجاتا ہے۔ ایسے منافقوں اور منافقانہ صفات رکھنے والے بزدلوں کو آیت کریمہ میں بتلایا جارہا ہے۔
تم امن ومان کے محفوظ قلعوں میں بھی دبک کر بیٹھ جاؤ تب موت تمہیں آپکڑے گی جہاد کو موت کے لیے مؤثر الذات سمجھنا یا جہاد سے فرار ہونے کو حیات کے لیے موثر بالذات سمجھنا شرک ہے۔ مومن کبھی یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا۔ منافق اسی طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں پھر اگر مسلمانوں کو جنگ میں ہزیمت و شہادت کا سامنا ہوجائے تو اسے اپنی گم راہ فکر اور عقیدے کے لیے دلیل بنا لیتے ہیں۔ اور اگر اس کے برعکس مسلمانوں کو جہاد کی برکت سے فتح ونصرت مل جائے۔ تو کہتے ہیں تو یہ خدا کی طرف سے اتفاقا ہوگیا ہے وگر نہ تم نے خود کو ہلاکت میں ڈالنے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
﴿وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَةٌ…﴾
منافقین کی عادت تھی جب انہیں کوئی خیر و بھلائی پہنچتی تو اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کرتے۔ اور اگر نقصان، اور رنج والم پہنچتا تو اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی طرف کرتے۔ ان کے اس رویے پراظہار حیرت کیا گیا۔ مولنا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اس موقع پر کیا خوب فرمایا۔
”ان منافقوں کا عجیب حال سنو!اگر تدبیر لڑائی کی درست آئی اور فتح ہوئی اور غنیمت کا مال ہاتھ آگیا تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی اتفاقی بات ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے ، اور اگر تدبیر بگڑ جاتی اور ہزیمت و نقصان پیش آجاتا تو الزام رکھتے آپ کی تدبیر پر، اللہ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جواب دے دو کہ بھلائی اور برائی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، سب باتوں کا موجد اورخالق اللہ تعالیٰ ہے، اس میں کسی دوسرے کو دخل نہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کا الہام ہے، تمہارا الزام نبی پر رکھنا غلط اور سراسر کم فہمی ہے، اور بگڑی کو بگڑا نہ سمجھو، یہ اللہ تعالی کی حکمت ہے وہ تم کو سدھاتا ہے اور آزماتا ہے تمہارے قصوروں پر“۔( تفسیر عثمانی النساء، ذیل آیت:78)
﴿ما أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ…﴾
اس آیت کریمہ سے منافقین کو تفصیلی جواب دیا گیا ہر خیر و شر کو پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ مگر انسان کو چاہیے خیروبھلائی کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان جانے ، اور شر ونقصان کو اپنے شامت اعمال کا نتیجہ سمجھے، اس کا الزام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ رکھے۔
﴿مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ…﴾
راحت میں، پریشانی میں، امن میں، جہاد میں رسول اللہ کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کر کے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کا عزم کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:1835)
نبی معصوم ہوتا ہے۔ وہ خیر ہی کا حکم کرتا ہے وہ مامور من اللہ ہوتا ہے۔ اس کا حکم در حقیقت مبنی بروحی ہوتا ہے۔ ایسے تمام امور جن کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم آپ نے دیا ہے ان میں آپ کی اطاعت، اطاعت دین ہے اور وہ درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے جب تک نبی خود کسی حکم کو دین سے خارج کر کے اپنی رائے، یا مشورہ نہ قرار دے ،البتہ امیر المسلمین معصوم نہیں ہوتا، اس سے غلطی ہوسکتی ہے اور بہ تقاضہ بشریت ہوتی رہتی ہے اس لیے اس کی اطاعت جائز کاموں میں تو واجب ہے، اسی طرح ایسے مباح امور جو واقعی مصلحت عامہ کی خاطر بنائے گئے ہوں ان میں بھی امیر المسلمین کی اطاعت واجب ہے:”أن عبد اللّٰہ بن عمر یقول سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ والإمام راع ومسؤل عن رعیتہ والرجل راع فی اھلہ ومسؤل عن رعیتہ …، صحیح بخاری“
وأن المسلم یجب علیہ أن یطیع امیرہ فی الامور المباحة مباح وجبت مباشرتہ… ولک ھذہ الطاعة کما انھا مشروطة بکون امر الحاکم غیر معصیة، فإنھا مشروطة ایضا بکون الامر صادرا عن مصلحة لا عن ھوی أو ظلم… (تکملة فتح الملھم:3/323)
اگر امیر المسلمین ایسا کام کرنے یا نہ کرنے کا حکم دے جس سے
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسے حکم پر عمل کرنا گناہ اور اس کی خلاف ورزی کرنا واجب ہے۔
﴿وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ…﴾
منافقوں کی ایک صفت یہ بھی تھی دربار نبوی میں فرماں برداری کا دم بھرتے مگر پس پردہ سازشیں بنتے اور لوگوں میں آپ کے فیصلے، ارادے اور منصوبے کے متعلق شک وشبہ ڈال کر ان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کرتے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
﴿وَإِذَاجَائَہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَیٰ أُولِی الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلَّا قَلِیلًا، فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ لَا تُکَلَّفُ إِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ عَسَی اللّٰہُ أَن یَکُفَّ بَأْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللّٰہُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنکِیلًا، مَن یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُن لَّہُ نَصِیبٌ مِّنْہَا وَمَن یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْء ٍ مُّقِیتًا، وَإِذَا حُیِّیتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْء ٍ حَسِیبًا، اللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیہِ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیثًا﴾․(سورة النساء، آیت:82 تا87)
جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حاکموں تک تو تحقیق کرتے اس کی جو اُن میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پیچھے ہو لیتے شیطان کے مگر تھوڑےO سو تولڑ اللہ کی راہ میں تو ذمہ دار نہیں مگر اپنی جان کا اور تاکید کر مسلمانوں کو قریب ہے کہ اللہ بند کردے لڑائی کافروں کی اور اللہ بہت سخت ہے لڑائی میں اوربہت سخت ہے سزا دینے میں، جو کوئی سفارش کرے نیک بات میں اس کو بھی ملے گا اس میں سے ایک حصہ اور جو کوئی سفارش کرے بری بات میں اس پر بھی ایک بوجھ اس میں سے اور اللہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والاO اور جب تم کو دعا دے کوئی تو تم بھی دعا دو اس سے بہتر یا وہی کہو الٹ کر بے شک اللہ ہے ہر چیز کا حساب کرنے والاO اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں بے شک تم کو جمع کرے گا قیامت کے دن اس میں کچھ شبہ نہیں اور اللہ سے سچی کس کی بات؟O
جنگی معاملات میں منافقانہ رویے
منافق یا منافقانہ صفات رکھنے والے اسلامی معاشرے میں رہنے والے افراد کبھی مسلمانوں کی قوت وحشمت کو صدق دل سے قبول نہیں کرتے اور ان کے جاہ جلال کے لیے ہمیشہ رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہیں کی ایک صفت افواہیں پھیلانا ہے۔ بے بنیاد خبریں پھیلا کر معاشرے میں فکری انتشار اور قوم میں مایوسی، بددلی کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ جس سے دشمنوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اور وہ خوف کی فضا سے کئی دفاعی اور جنگی فوائد حاصل کرلیتا ہے۔ آیت کریمہ میں منافقوں کے اس رویے سے نقاب اٹھاکر انہیں تنبیہ کی جارہی ہے کہ عالم کفر سے نبرد آزما مجاہدین ملت کے متعلق کسی بھی نوعیت کی خبر ان کے پاس پہنچے تو ان کو مسلمان کہلوانے کے ناتے وہ خبر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب حِل وعقد کے پاس پہنچانی چاہیے تاکہ وہ تحقیق احوال کے بعد مناسب سمجھیں تو افشا کردیں اور مناسب سمجھیں تو اسے راز میں رکھیں، خبرمسرت کی ہو یا رنج آمیز اس کے متعلق فیصلے کا اختیار ارباب حل وعقد کو ہے۔
عہد نبوی میں چوں کہ وحی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس لیے منافقین کی افواہوں کا پول جلدی کھل جاتا اور انہیں ذلت ورسوائی کے ساتھ شرمندگی اٹھانی پڑئی۔ اب چوں کہ وحی منقطع ہوچکی ہے، اس لیے خلیفہ المسلمین کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اہم امور پر عمومی گفتگو کے متعلق قانون سازی کرے تاکہ افواہ بازی کا سد باب کیا جاسکے۔
افواہ بازی کے نقصانات
امام رازی رحمہ اللہ نے قومی اور جنگی معاملات میں افواہ بازی کے چند نقصانات گنوائے ہیں مثلاً :
منافقین اہل ایمان کی فتح وشکست کی خبروں کو مبالغے کے ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اگر واقعتا مسلمانوں کو فتح مل چکی ہوتی تو چوں کہ وہ مبالغہ آمیز جھوٹ سے میل نہیں کھاتی تھی جس کی وجہ سے بعض مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ کرام اور آپ علیہ السلام کے متعلق کمزوری کا وسوسہ پیدا ہوجاتا۔ اور شکست کی خبروں میں مبالغہ کی وجہ سے خوف اور مایوسی پھیل جاتی۔
اس طرح کی افواہوں سے معاشرے میں جھوٹ کو پھیلنے اورپھولنے کا موقع ملتا ۔
جب افواہیں پھیلتی ہیں تو لوگوں کا تجسس بڑھ جاتا ہے اس تجسس میں بعض اوقات اہم قومی راز فاش ہوجاتے ہیں۔
افواہ بازی سے دشمن کے لیے معاشرے میں انتشار اورتشویش پھیلانا آسان ہوجاتا ہے۔(تفسیر کبیر، النساء ذیل آیت:83)
قیاس واجتہاد کی حجیت
آیت کریمہ :”ولو ردوہ إلی رسول وإلی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطون منھم“سے فقہا نے قیاس واجتہاد کے جواز پر استدلال فرمایا ہے۔ آیت کریمہ میں نئے پیش آمدہ مسائل میں اولو الامر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہی اس سے کوئی نتیجہ اخذ کر سکیں گے۔
قیاس کی تعریف
قیاس لغت میں اندازہ کرنے، تخمینہ کرنے اور برابر کرنے کو کہتے ہیں۔ ( اصول بزدوی، ص:284، میر محمد کراچی) مگر فقہا اور اصولیین کی اصطلاح میں قیاس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی نیا مسئلہ اور واقعہ پیش آئے، اور شارع کی طرف سے اس پر کوئی نص موجود نہ ہو تو اس کا حکم جاننے کے لیے کوئی ایسا واقعہ اور مسئلہ دیکھا جائے گا جو نئے واقعے اور مسئلے کے مماثل بھی ہو اور شارع کی طرف سے اس کے حکم کے متعلق صراحت بھی ہو، اس کے ساتھ ساتھ وہ علت بھی معلوم ہو جس کی بنا پر وہ حکم لگایا گیا ہے، اس کے بعد نیا پیش آمدہ مسئلہ اور واقعہ میں وہی علت دیکھ کر منصوصہ مسئلہ کا حکم اس پر بھی لاگو کر دیا جائے گا۔
جدید مسائل کا حکم جاننے کے اس استخراجی عمل کو قیاس کہتے ہیں قیاس اجتہاد کی ایک قسم سے جدید مسائل میں احکام کا اثبات کیا جاتا ہے۔
قیاس کی حجیت قرآنی آیات اور احادیث رسول اور آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔ (جاری)