ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
قرآنی آیات
علمائے کرام نے قیاس کے جواز پر ان آیات سے استدلال کیا ہے۔﴿وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَیٰ أُولِی الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ﴾․(النساء:83)
اس آیت میں پیش آمدہ مسائل میں اہل حل وعقد سے رجوع کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ تاکہ وہ اس سے حکم مستنبط کریں۔
علامہ قرطبی، علامہ جصاص، علامہ ظفر احمد عثمانی نے اس آیت کے ضمن میں قیاس کے جواز پر بحث کی ہے۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِر﴾․ (النساء:59)
آیت مذکورہ میں اوّلا اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، پھر اُولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، مگر یہ اطاعت، اللہ اور رسول کے احکام کے موافق ہونے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ یعنی اولو الامر اگر ایسا فرمان جاری کرے جو اللہ اور رسول کی طرف سے منصوص ہے تو پھر اس کی اطاعت درحقیقت اللہ اوررسول کی اطاعت ہے، اس لیے واجب ہے۔اور اگر اولوا الامر ایسا حکم دے جس کے متعلق قرآن وسنت میں نص موجود نہیں، اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹانے کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے اس معاملہ کو جس کے بارے میں نص موجود نہیں اسے ان امور پر قیاس کیا جائے جن میں نص موجود ہے، دونوں میں علّت مشترکہ کی بنا پر غیر منصوص معاملہ پر بھی وہی حکم لگایا جائے گا جو منصوص کا ہے۔(المدخل للفقہ الإسلامی، علی حسن الشاذ لی، ص 408)
اس طرح اس آیت کریمہ سے قیاس کے جواز کا استنباط کیا گیا ہے۔﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ﴾․(النساء:105)
” بے شک ہم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی کہ تو انصاف کرے لوگوں میں جو کچھ سمجھائے تجھ کو الله“۔
علامہ ابن رشد رحمہ اللہ نے فرمایا:﴿بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ﴾
سے قیاس استنباط سے حاصل ہونے والے نتائج مراد ہیں۔یعنی آپ علیہ السلام کے قیاس اور استنباطی احکام بھی حکم الہی کا درجہ رکھتے ہیں۔
﴿فَاعْتَبِرُوا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ﴾ (الحشر:2)
اس آیت سے بایں طور قیاس کے جواز کا استدلال کیا گیا ہے کہ جن گناہوں کی وجہ سے سابقہ قوموں کا مواخذہ ہوا ہے اس طرح سے گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے تمہارا بھی مواخذہ ہوسکتا ہے، یعنی جہاں جہاں ”نافرمانی“کی علت متحقق ہوگی وہاں وہاں عذاب الہٰی کا حکم مرتب ہوگا۔ علت مشترکہ کی بنا پر ایک ہی نتیجے سے دوچار ہونے کا نام قیاس ہے۔
قیاس کے جواز پر ان تمام آیات سے استدلال کیا گیا ہے جن میں حکم کی علت مذکور ہے، مثلا قصاص کی علت ”بقائے حیات“بیان کی گئی ﴿ولکم فی القصاص حیاة﴾(المدخل الاسلامی، الدکتور محمد سلام ص: 251)
اور خمرو میسر کی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا :﴿فإنہ رجس﴾(المائدہ:90)
یہ گندگی ہے، یہ علل جس نئے غیر منصوص مسائل میں پیش آئیں گے علت مشترکہ کی وجہ سے ان پر بھی یہی حکم لاگو ہوگا۔(اصول الفقہ، ابوزہرہ:ص:175)
احادیث رسول سے قیاس کا جواز
قیاس کے جواز پر احادیث رسول ا سے بھی استدلال کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا تھا۔ اجتھد برایي؟ جس مسئلے میں کتاب و سنت سے حکم نہیں ملے گا اس پر اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:3592) حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے اور مشہور ومعروف ہے، جسے امت میں تلقی بالقبول حاصل ہے۔
آپ علیہ الصلاة والسلام نے اپنی موجودگی میں صحابہ کرام کو اجتہاد کرنے اور نئے پیش آنے والے معاملات کو اس کے ہم مثل اور ہم نظیر معاملات کی طرف لوٹانے کا حکم فرمایا ،تاکہ صحابہ کرام طریقہ اجتہاد سے واقف ہوسکیں، اگر ان سے خطا ہو تو تصحیح وتصویب کرسکیں۔ چناں چہ حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں۔ ”جاء خصمان إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: اقض بینھما، قلت یارسول اللّٰہ، اقضی بینھما وأنت حاضر؟ فقال: اقض بینھما، فإن اصبت فلک عشر حسنات وإن اخطأت فلک حسنہ واحدة“
دوآدمی تنازع لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ان کے درمیان فیصلہ کرو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!میں ان کے درمیان کیسے فیصلہ کروں جب کہ آپ موجود ہیں!آپ نے فرمایا:فیصلہ کرو، اگر تم نے درست فیصلہ کیا تو دس نیکیاں ہیں۔ اور اگر تم سے فیصلہ میں غلطی ہوئی تو ایک نیکی ہے۔
اس سے معلوم ہوا بعض اوقات آپ علیہ السلام اپنی موجودگی میں صحابہ کرام کو اجتہاد کا حکم دیتے۔ آپ کی موجودگی میں صحابہ کرام کے لیے علی الإطلاق اجتہاد درست نہیں تھا، نہ ہی انہیں اپنی رائے پر اصرار کا اختیار تھا، مگر بطور تربیت اس کی گنجائش ہے، جس سے فی نفسہ قیاس واجتہاد کی حجیت واضح ہوجاتی ہے۔(احکام القرآن للتھانوی، النساء، ذیل آیت:83)
آپ علیہ السلام نے کئی مسائل میں قیاس فرمایا: مثلا ایک شخص نے عرض کیا، میرے والد پر حج فرض تھا، لیکن وہ حج نہ کر پائے، اب کیا مجھے اس کی طرف سے حج کرنا چاہیے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارے والدین پر دین (قرض) ہوتا تو کیا اسے ادا نہ کرتے؟ یہی حکم حج کا بھی ہے۔ (بیھقی، رقم الحدیث:8634) اس میں آپ نے اللہ کے حق کو بندوں کے حق پر قیاس فرمایا۔
صحابہ کرام کے عمل سے قیاس کا جواز
قیاس کے دلیل شرعی ہونے پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے اور انہوں نے بہ کثرت اس پر عمل کیا۔ چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میراث میں دادا کو باپ پر قیاس کر کے باپ کے حکم میں رکھا۔ اور صحابہ کرام نے آپ رضی الله عنہ کی اس رائے سے اتفاق کیا۔ (سنن الدارمی، رقم الحدیث:2911) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح سے فرمایا: ”اعرف الامثال والاشیاء ثم قس الامور“․(سنن دارقطنی، کتاب الأقضیة والاحکام:4/207)
”ملتے جلتے معاملات کو پہچانو، پھر امور کو ان پر قیاس کرو“۔
صاحب کشف الاسرار فرماتے ہیں۔”إن مدرک الاحتجاج بالقیاس اجماع الصحابة، فقد علمنا من تتبع احوالھم فی مجری اجتھادھم انھم کانوا یقیسون الفرع علی الاصل عندما․“
قیاس کی اصل دلیل اجماع صحابہ ہے۔ صحابہ کرام کے اجتہادات کے تتبع اور جستجو سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ جان لیتے کہ فرع میں وہ علت پائی جاتی ہے جو اصل میں موجود ہے تو فرع کو اصل پر قیاس کرتے تھے۔
منکرین قیاس اور ان کا موقف
شیعہ امامیہ، اصحاب ظواہر، نظام معتزلی، داؤد اصفہانی کے نزدیک قیاسحجت نہیں ہے۔ (دیکھیے تفصیل، المحصول:5/22-21، احکام الإحکام للآمدی:4/9) ان کے بقول عہد رسالت میں دین کی تکمیل ہوچکی ہے۔ نیز قرآن وسنت کے کئی احکام ایسے ہیں جو محض تعبدی ہیں، ان میں عقل وقیاس کی گنجائش نہیں، نیز قیاس سے اخذ کیا جانے والا حکم ظن اورتخمینہ پر مبنی ہوتا ہے۔ اور بذریعہ قیاس استخراج بھی ایک ظنی عمل ہے، ظنی عمل سے حکم شریعت ثابت نہیں کیا جاسکتا ، منکرین قیاس کی تردید کے لیے جواز قیاس پر قائم کیے گئے دلائل کافی ہیں، منکرین قیاس کے شبہات بے وزن اور حقیقت واقعہ کے خلاف ہیں۔
قرآن وسنت میں اصول ومبادیات کی تکمیل ہے، تا قیامت پیش آنے والے مسائل کی تکمیل نہیں ہے، بلکہ اس کے اصول کی طرف راہ نمائی ہے اور وہی قیاس ہے۔ لہٰذا اسے قرآن وسنت سے خارج سمجھنا ہی غلط ہے۔ قیاسی مسائل کو ظنی کہنے کی ایک مخصوص فقہی اصطلاح ہے، اس بنیاد پر اگر قیاس کو رد کردیا جائے تو پھر کئی شرعی دلائل سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، کیوں کہ شرعی دلائل میں اصل الاصول قرآن کریم ہے، قرآن کریم اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہے۔ لیکن قرآنی آیات اپنے مقصود اور مصداق پر دلالت کرنے کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہیں اور بعض آیات ایک سے زائد معنی کا احتمال رکھنے کی وجہ سے باعتبار مصداق ظنی ہوتی ہیں تو کیا انہیں دلیل شرعی نہ بنایا جائے؟
آیت کریمہ سے تقلید کے جواز کا استدلال﴿وَإِذَا جَاء َہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِہِ … الخ﴾
یہ آیت کریمہ اگرچہ ایک خاص پس منظر میں نازل ہوئی ہے، لیکن اصول تفسیر اور اصول فقہ کی روسے آیت کریمہ اپنے شان نزول اور واقعے، مصداق کے اعتبار سے خاص ہوسکتی ہے، مگر احکام کے استنباط واستخراج کے اعتبار سے اپنے معنی میں عام ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ بنیادی ہدایت دی جارہی ہے کہ جو لوگ تحقیق ونظر کی استعداد اور صلاحیت نہیں رکھتے انہیں اہل استنباط کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اہل استنباط اپنے اجتہاد سے جو رخ متعین کریں، دیگر لوگوں کو ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اسی کا نام تقلید ہے۔ چناں چہ علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
”لنقول:الآیة دالة علی امور… ثالثھا أن العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث․“(تفسیر کبیر، النساء، ذیل آیت:83)
ہم کہتے ہیں یہ آیت چند امور پر دلالت کرتی ہے … تیسرا امر یہ ہے کہ عام آدمی پر نئے پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید کرنا واجب ہے۔
علاوہ ازیں ان آیات سے بھی تقلید کے جواز پر استدلال کیا ہے۔﴿فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾․ (النحل:43)
اس آیت میں علم دین سے ناواقف شخص کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے۔ اس کا نام تقلید ہے۔ چناں چہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے فرمایا:”واستدل بھا ایضاً علی وجوب المراجعة للعلماء فیما لا یعلم، وفی الإکلیل للجلال السیوطی: أنہ استدل بھا علی جواز تقلید العامی فی الفروع“․(روح المعانی:النحل، ذیل آیت:43)
”اس آیت سے ان مسائل میں جن کا علم لوگوں کو نہ ہو، علما سے رجوع کرنے اور ان سے پوچھ گوچھ کرنے کے وجوب پر استدلال کیا گیا ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الإکلیل میں اسی آیت سے عامی کے لیے فروعات میں تقلید کے جواز پر استدلال فرمایا ہے“۔
﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَائِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ﴾․ (توبہ:122)
اس آیت کریمہ میں ایک اہم ہدایت دی گئی ہے کہ جہاد میں تمام مسلمان شریک نہ ہوں، بلکہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا رہنا چاہیے جو خود کو تحصیل علم کے لیے وقف کردے اور جہادی سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے مسلمانوں کو احکام شریعت سے آگاہ کرتا رہے۔ گویا اس آیت میں ایک گروہ پر تحصیل علم اور آگاہی کا فریضہ عائد کیا گیا، دوسرے گروہ پر ان سے راہ نمائی اور اس پر عمل کرنے کا فریضہ عائد کیا گیا۔ اس کا نام تقلید ہے۔( دیکھیے احکام القرآن للجصاص)۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ﴾․ (النساء:59)
آیت کریمہ میں ”اولو الأمر“سے کیا مراد ہے؟ بعض کے نزدیک مسلمان خلفا اور امرا مراد ہیں اور بعض کے نزدیک علمائے شریعت مراد ہیں۔ امام ابو بکر جصاص رازی نے ان اقوال میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا: دونوں مراد ہیں۔ ملکی، انتظامی امور میں حکام اور دینی امور میں علمائے کرام واجب الاطاعت ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، النساء، ذیل آیت:59) دینی امور میں علما کی اطاعت ہی کو اصطلاحا ”تقلید“کہا جاتا ہے۔
اس آیت کے اگلے ٹکڑے سے اشکال ہوتا ہے کہ:﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ﴾
میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے اختلافی امور میں فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو، یعنی اختلافی امور میں فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو، یعنی قرآن کریم اور احادیث شریفہ کی طرف، علما کی طرف رجوع کرنے حکم نہیں دیا جا رہا ،اس سے تو عدم تقلید ثابت ہوتی ہے۔ اس کا جواب اہل حدیث کے معروف عالم دین نواب صدیق حسن خان دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”الظاھر أنہ خطاب مستقل موجہ للمجتھدین․“ (تفیسر فتح البیان، النساء ذیل آیت:59)
”ظاہر یہی ہے کہ اس آیت میں مجتہدین کو مستقل خطاب کیا جارہا ہے۔“
گویا آیت کے پہلے حصے میں عامی کو حکم دیا گیا ہے کہ تم اللہ، رسول، اولوالامر کی اطاعت کرو اور دوسرے ٹکڑے میں علمائے مجتہدین کو خطاب کیا گیا ہے کہ جن نت نئے مسائل میں اختلاف رونما ہوتو ان کے حل کے لیے اللہ اور رسول صلی الله علیہ وسلم یعنی قرآن وحدیث میں رجوع کر کے اس کی نظائر تلاش کرو اور علت مشترکہ کی بنا پر اس کا حکم متعین کرو۔ لہٰذا آیت کریمہ کے پہلے ٹکڑے سے عامی کے لیے تقلید اور دوسرے ٹکڑے سے مجتہدین کے لیے اجتہاد کا جواز ثابت ہوا۔
احادیث سے تقلید کا جواز
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے:أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:”إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء، حتی إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جھالا، فسئلوا فأفتوا بغیرعلم، فضلوا وأضلوا․“ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:100)
”آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ اسے بندوں سے چھین لے، بلکہ وہ علما کو اٹھا کر علم اٹھا لیتا ہے، یہاں تک کہ جو کوئی عالم باقی نہیں رہتا تو لوگ جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیتے ہیں۔ اور ان سے کچھ پوچھا جاتا ہے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیتے ہیں، خود بھی گم راہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گم راہ کرتے ہیں“۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا:”اس حدیث میں واضح طور سے فتوی دینا علما کا کام قرار دیا گیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں، وہ ان کا حکم بتائیں اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی تقلید کا حاصل ہے۔“ (تقلید کی شرعی حیثیت ص :28)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کنا جلوسا عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال:”إنی لا ادری ما بقائی فیکم، فاقتدوا بالذین من بعدی، وأشار إلی أبی بکر وعمر“.(جامع الترمذی، رقم الحدیث:3663)
ہم سب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا:میرے علم میں نہیں ہے کہ میں تم میں کب تک زندہ رہوں گا، اس لیے تم میرے بعد والوں کی اقتدا کرنا (یہ کہتے ہوئے) آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ فرمایا۔اقتدا کا معنی اطاعت ہی ہے، اور یہاں اقتدا کا حکم عام ہے، خواہ انتظامی امور میں ہو یا دینی امور میں۔
آثار صحابہ سے تقلید کا جوازعن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما قال: خطب عمر بن الخطاب الناس بالجابیة، وقال: أیھا الناس، من أراد أن یسأل عن القرآن فلیأت أبی بن کعب، ومن أراد أن یسال عن الفرائض فلیأت زید بن ثابت، ومن اراد أن یسأل عن الفقہ فلیات معاذ بن جبل، ومن اراد أن یسئل عن المال فلیاتنی، فإن اللّٰہ جعلنی لہ والیا وقاسما.(الطبرانی فی الأوسط:127،المعجم الأوسط لأبی القاسم، رقم الحدیث:3783)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقام جابیہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:لوگو!جو شخص قرآن کریم کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہے وہ اُبی بن کعب کے پاس جائے۔ اور جو فرائض کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہے وہ زید بن ثابت کے پاس جائے، جو فقہ کے متعلق مسئلہ پوچھنا چاہتا ہے وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے، جو مال کا طلب گار ہے وہ میرے پاس آئے، کیوں کہ مال کا سرپرست اور تقسیم کا فریضہ اللہ تعالی نے مجھ پر ڈالا ہے۔
اس اثر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مختلف مسائل میں مخصوس افراد سے پوچھنے کا حکم دیا ہے۔ اسی کا نام تقلید ہے۔
چناں چہ تقلید کی تعریف میں: ”التقلید قبول قول الغیر من غیر حجة کأخذ العامی من المجتھد․“ (شرح مسلم الثبوت 2/400)
تقلید دوسرے کا قول بلا دلیل قبول کرنے کا نام ہے، جس طرح جاہل مجتہد سے جواب لیتا ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے فرمایا:”التقلید ھو أخذ قول الغیر بغیر معرفة دلیلہ“․(شرح عقود رسم المفتی:74)
غیر کے قول کو دلیل جانے بغیر اختیار کر لینے کا نام تقلید ہے۔
عامی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد کے پاس دلیل ہے، مگر وہ دریافت نہیں کرتا، اعتماد کرتا ہے، کیوں کہ عموما عامی اس دلیل کی معرفت کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔(جاری)