یہودیوں کی خباثت اور ان پر اللہ کا عذاب- تاریخ کے آئینہ میں

idara letterhead universal2c

یہودیوں کی خباثت اور ان پر اللہ کا عذاب- تاریخ کے آئینہ میں

مولاناامدادالحق بختیار قاسمی

قرآن کریم نے پچھلی تمام امتوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ قومِ یہود کا تذکر ہ کیا ہے، ان کی شرارتوں، گندے کرتوتوں اور ان پر اللہ تعالی کے عتاب اور عذاب کی ایک لمبی تفصیل قرآن میں بیان کی گئی ہے، حضرت موسی علیہ السلام جو ان کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے گئے، ان کے زمانے میں بھی اور ان کے بعد بھی اس قوم کی شرارتوں اور خباثتوں کا سلسلہ دراز رہا، چناں چہ خود حضرت موسی علیہ السلام سے انہوں نے بت پرستی کے انتظام کا مطالبہ کیا، جیسا کہ نویں پارے میں مذکور ہے کہ جب اللہ تعالی نے انہیں فرعون سے نجات دی اور یہ دریا پار کر گئے اور انہوں نے ایک بت پرست قوم کو دیکھا تو موسی علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا بُت بنا دیں، جس کی ہم عبادت کریں۔(سورہ اعراف:148) اسی طرح موسی علیہ السلام جب چالیس دن کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے، تو ان کی غیر موجودگی میں انہوں نے بچھڑے کی عبادت شروع کردی اور ہارون علیہ السلام کی بات ماننے سے انکار کر دیا، جس کی پاداش میں اللہ تعالی نے ان کی توبہ یہ مقرر کی کہ جتنے لوگ بُت پرستی میں مبتلا ہوئے تھے، ان سب کو وہ لوگ قتل کریں، جو اس شرک میں شامل نہیں تھے۔(سورہ بقرہ:54)

حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور سے جب تورات لے کر تشریف لائے تو انہوں نے پہلے اس کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کر دیا، اور کہا کہ جب تک اللہ تعالی ہم سے آمنے سامنے خود نہیں کہتا، ہم نہیں مانیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس پر بھی ان کی پکڑ ہوئی اور انہیں عبرت حاصل ہوئی (سورہ نساء: 153)؛ لیکن پھر اس کے بعد انہوں نے بہانے بنائے کہ اس کے احکام سخت ہیں، ہم عمل نہیں کر سکتے، تو اللہ تعالی نے ان پر پہاڑ کو معلق کر دیا کہ یا تو عمل کرو یا پھر اس پہاڑ کو تم سب پر گِرا دیا جائے گا۔(سورہ بقرہ: 93)

بعدِ ازاں جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے جنگ کے لیے تیار ہوجائیں تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اے موسی! آپ اور آپ کے اللہ جنگ کرنے کے لیے جائیں، ہم نہیں جائیں گے، ہم یہیں بیٹھے ہیں، جس پر چالیس سال تک ”میدان تیہ“ میں سزا کے طور پر یہ بھٹکتے رہے۔(سورہ مائدہ: 45-46)

ان کے اندر ہٹ دھرمی، شرارت، بغاوت اور خباثت اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ انہوں نے خود اپنے بہت سے انبیاء اور اولیاء اللہ کو قتل کیا، حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کا اقدام کیا، گستاخی اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ خود اپنے معبود کے بارے میں نازیبا کلمات استعمال کرتے ہیں، کہیں اللہ تعالی کو بخیل اور کہیں اللہ تعالی کے لیے فقیر تک کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (سورہ آل عمران: 181، سورہ مائدہ: 64)

سود خوری، جھوٹ، فریب اور منافقت ان کی سرشت میں پیوست ہے، ان کی انہی شرارتوں اور بغاوتوں کی وجہ سے اللہ تعالی نے متعدد مرتبہ انہیں عبرت ناک سزا دی، چناں چہ اللہ تعالی اپنی کتاب کے ذریعہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

﴿وَقَضَیْْنَا إِلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ فِیْ الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیْراً، فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً، ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْْہِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً، إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ لِیَسُوؤُواْ وُجُوہَکُمْ وَلِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوہُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِیُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِیْراً، عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْراً﴾

ترجمہ: ہم نے کتاب (تورات) میں بنی اسرائیل سے پختہ طور پر یہ بات کہہ دی تھی کہ تم دنیا میں دو بار فساد مچاؤگے اور بڑی سرکشی کرو گے، چناں چہ جب ان دو میں سے پہلی میعاد آئی تو ہم نے اپنا سخت جنگ جو بندہ ان پر مسلط کر دیا، جو ان کے ملک اور گھروں کے اندر تک گھس گیا اور یہ ایسا وعدہ تھا جو ضرور ہوکر رہنا تھا، پھر ہم نے تمہیں ان پر دوبارہ غلبہ عطا کیا اور مال اور بیٹوں کے ذریعہ تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اگر تم اچھا کام کروگے تو اپنے لیے کروگے اور بُرا کروگے تو اپنے لیے۔ پھر جب دوسری میعاد آئی (تو ہم نے ان پر اپنا ایک بندہ مسلط کیا) تاکہ وہ ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑا دے اور پہلے کی طرح مسجد (اقصی) میں داخل ہوجائے اور جہاں جہاں قدرت پائے بڑی غارت گری کرے۔ امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ لیکن اگر تم دوبارہ (شرارت) کرو گے، تو ہم بھی دوبارہ (تمہارا مواخذہ کریں) گے۔ (اور آخرت میں تو) ہم نے کافروں کے لیے جہنم کا حصار تیار کر رکھا ہے۔

رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ان آیتوں میں درج واقعات کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔

حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ بیت المقدس اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظیم القدر مسجد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دنیا کے سب گھروں میں ایک ممتاز عظمت والا گھر ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے لیے سونے چاندی اور جواہرات، یا قوت و زمرد سے بنایا تھا اور یہ اس طرح کہ جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر شروع کی تو حق تعالیٰ نے جنات کو ان کے تابع کردیا، جنات نے یہ تمام جواہرات، سونے اور چاندی جمع کر کے ان سے مسجد بنائی۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر بیت المقدس سے یہ سونا چاندی اور جواہرات کہاں اور کس طرح گئے؟ تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور گناہوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوگئے، انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر بادشاہ کو مسلط کردیا، جو مجوسی تھا،اس نے سات سو برس بیت المقدس پر حکومت کی اور قرآن کریم میں (آیت) ﴿فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ اُوْلٰیہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ﴾ سے یہی واقعہ مراد ہے۔ بخت نصر کا لشکر مسجد قدس میں داخل ہوا، مردوں کو قتل اور عورتوں، بچوں کو قید کیا اور بیت المقدس کے تمام اموال اور سونے چاندی جواہرات کو ایک لاکھ ستر ہزار گاڑیوں میں بھر کرلے گیا اور اپنے ملک بابل میں رکھ لیا اور سو برس تک ان بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا کر طرح طرح کی بامشقت خدمت ذلت کے ساتھ ان سے لیتا رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو اس کے مقابلے کے لیے کھڑا کردیا، جس نے بابل کو فتح کیا اور باقیماندہ بنی اسرائیل کو بخت نصر کی قید سے آزاد کرایا اور جتنے اموال وہ بیت المقدس سے لایا تھا، وہ سب واپس بیت المقدس میں پہنچا دیے اور پھر بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اگر تم پھر نافرمانی اور گناہوں کی طرف لوٹ جاؤ گے تو ہم بھی پھر قتل وقید کا عذاب تم پر لوٹا دیں گے۔ آیت قرآنی (آیت)﴿ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ، وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا﴾ سے یہی مراد ہے۔

پھر جب بنی اسرائیل بیت المقدس میں لوٹ آئے (اور سب اموال و سامان بھی قبضہ میں آگیا) تو پھر معاصی اور بداعمالیوں کی طرف لوٹ گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر شاہ روم قیصر کو مسلط کردیا (آیت) ﴿فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْئا وُجُوْہَکُمْ﴾ سے یہی مراد ہے۔ شاہ روم نے ان لوگوں سے بری اور بحری دونوں راستوں پر جنگ کی اور بہت سے لوگوں کو قتل اور قید کیا اور پھر تمام اموال ِبیت المقدس کو ایک لاکھ ستر ہزار گاڑیوں پر لاد کرلے گئے اور اپنے کنیسة الذہب میں رکھ دیا۔ یہ سب اموال ابھی تک ہیں اور وہیں رہیں گے؛ یہاں تک کہ حضرت مہدی تشریف لائیں گے،پھر ان کو بیت المقدس میں ایک لاکھ ستر ہزار کشتیوں میں واپس لائیں گے اور اسی جگہ اللہ تعالیٰ تمام اولین وآخرین کو جمع کردیں گے۔ (تفسیر قرطبی، دار الکتب المصریہ، قاہرہ، اشاعت دوم(1384ھ/ 1967ء) ج10، ص223-222)

جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور یہود مایوس ہوگئے کہ نبی آخر الزماں ان کی قوم بنی اسرائیل سے نہیں ہوئے اور بنی اسرائیل میں نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا، تو بغض، عداوت اور حسد سے ان کا کلیجہ پھٹنے لگا اور انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، صحابہ اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنی شروع کردیں، ان سازشوں کی شدت، بڑے اور خطرناک پیمانہ پر ان کا عملی ظہور اس وقت سے شروع ہوا، جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے، مدینہ کے اطراف میں ان کے تین بڑے قبیلے رہتے تھے: بنو نضیر بنو قریظہ بنو قینقاع۔ ان تینوں کی غداری، بد عہدی، نفاق اور سازشوں کی قلعی قرآن کریم نے کھول دی ہے، جس کی پاداش میں ان میں سے بہت سوں کو تہِ تیغ کیا گیا، بہت سوں کو گرفتار کیا گیا اور ایک بڑی تعداد کو جلا وطنی کی سزا دی گئی، جس کے بعد یہ خیبر میں جمع ہونے لگے اور وہاں بھی اپنی خباثت اور حق کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آئے تو پھر ان پر چڑھائی کر کے، انہیں جزیہ دے کر رہنے پر مجبور کیا گیا۔

اس باغیِ خدا اور مخالف ِ حق قوم کی شرارتوں اور خباثتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے ”مَغضُوبِ عَلَیہِم“، ”ملعون“، ”ذلیل“ اور ”فقیر“ قوم قرار دیا ہے اور اس کے بارے میں قرآن کریم میں پیشین گوئی کردی گئی ہے کہ اللہ کا غضب، لعنت، اللہ کی طرف سے ذلت اور فقر قیامت تک اس قوم کے ساتھ چمٹا رہے گا؛ ارشاد باری ہے:

﴿ضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّةُ أَیْْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُواْ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللّہِ وَیَقْتُلُونَ الأَنبِیَاء َ بِغَیْْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ﴾․

ترجمہ: ان پر ذلت کی مار رہے گی؛ چاہے وہ جہاں بھی رہیں؛ الّا یہ کہ وہ اللہ کی رسّی کو تھامیں یا لوگوں کا سہارا لیں اور وہ اللہ کے غضب کے مستحق رہیں گے اور ان پر فقر کی مار رہے گی اور یہ سب اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے احکام کا انکار کیا، انبیاء کو ناحق قتل کیا اور اس لیے کہ انہوں نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کیا۔ (سورہ آل عمران)
ان پر اللہ تعالی کا غضب اور اس کی لعنت ہر وقت نازل ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ قوم ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتی رہی ہے، اسلام سے پہلے بھی اس قوم کو دنیا کے کسی خطہ میں نہ عزت مل سکی اور نہ سکون حاصل ہو سکا، جہاں بھی رہے محکوم، ماتحت اور غلام بن کر رہے۔ ہر جگہ انہیں مارا گیا، وہاں سے بھگایا گیا، اسلام کے بعد بھی مخالفت اور عناد کی وجہ سے ذلت والی زندگی ہی ہاتھ آئی؛ حتی کہ حضرت عمر فاروق  کے عہد میں انہیں خیبر سے بھی نکال کر، جزیرة العرب سے باہر بھگا دیا گیا، اس کے بعد بھی یہ قوم اپنی بد طینتی اور بد باطنی کی وجہ سے ہمیشہ اور ہر جگہ ذلیل وخوار اور مغلوب ومقہور ہوتی رہی۔جرمنی کے ہٹلر نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔

البتہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اسلام دشمن عیسائیوں کے تعاون سے”اسرائیل“ کے نام سے ایک ”ناجائز ریاست“ قائم کی گئی؛ جہاں ان کی کچھ ظاہری اجتماعیت، کچھ طاقت، کچھ امن اور کچھ خوش حالی نظر آتی ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن کی پیشین گوئی اب صادق نہیں آرہی ہے اور اس قوم سے ذلت اور مسکنت ختم ہوگئی ہے، ہرگز نہیں! یہ قوم قیامت تک ذلیل وخوار رہے گی؛ جن لوگوں کے سامنے سے عالمی تاریخ اور عالمی منظر نامہ ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ”قومی سطح“ پر دنیا کی تمام قوموں کے مقابلہ میں یہ قوم اس وقت بھی سب سے زیادہ غریب ہے؛اگر چہ اس قوم کے بعض افراد کے پاس بے شمار دولت ہے؛ لیکن وہ انفرادی (Individual) ہے، قومی اعتبار سے نہیں ہے۔نیز دنیا کی تمام قوموں کے درمیان اس وقت بھی یہ قوم سب سے زیادہ ذلیل قوم شماری کی جاتی ہے اور اس کی موجودہ ریاست اور حکومت کا راز یہ ہے کہ:

دنیا کی دیگر قوموں؛ بالخصوص عیسائیوں نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر اور ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے انہیں فلسطین میں لاکر جمع کر دیا، تاکہ یہ سب یہیں رہیں اور وہ (عیسائی) ان کی خباثتوں اور سازشوں سے مامون ومحفوظ رہ سکیں۔اور عیسائی اپنی اس ناجائز، خبیث اور شریر اولاد کی پرورش بھی کرتے ہیں، ہر موقعہ پر اس کا تعاون کرتے ہیں، تاکہ وہ وہیں پر رہیں۔

چناں چہ اسرائیل کی موجودہ ریاست کا وجود بھی مغرب کی وفاداری اور اس کی بیساکھی کے سہارے قائم ہے، اگر مغربی ممالک اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں، تو بیت المقدس کی مبارک سرزمین پر لگے اس ”صہیونی داغ“ کو مٹنے میں شاید ایک سال کا بھی عرصہ نہ لگے؛ لیکن اس کا وجود اپنے مغربی آقاؤں کے رحم وکرم پر کھڑا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ اس کی موجودہ حالت بھی ذلت کی حالت ہی ہے۔

اسرائیلی اسٹیٹ کے لیے اسلام دشمن طاقتوں نے فلسطین کے خطہ کا انتخاب اس لیے کیا؛ تاکہ وہ عرب ممالک کے بیچ اور عربوں کے جسم میں ”اسرائیل“ کی شکل میں کینسر پیدا کر سکیں، جس کینسر سے عرب میں ہمیشہ کشیدگی کی فضا چھائی رہے، نہ عربوں کا اتحاد ہو سکے اور نہ انہیں امن وسکون مل سکے، جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ کبھی متحد ہوکر، اسلام دشمن طاقتوں کے بارے میں کوئی صحیح موقف اختیار نہیں کر سکتے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق، اس قوم کے ایک خطہ میں جمع ہونے کے پیچھے تکوینی راز یہ ہے کہ قیامت کے قریب جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے، اور وہ یہودیوں کو قتل کریں گے، تو یہ سب یا ان کی بڑی مقدار حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک جگہ ہی مل جائے گی اور یہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا؛ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ریاست تشکیل نہیں دے رہے ہیں؛ بلکہ اپنا مقتل تیار کر رہے ہیں؛ جہاں وہ قتل کیے جائیں گے۔چناں چہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس قوم کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے:

﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْْہِمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَن یَسُومُہُمْ سُوء َ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾

ترجمہ:اور آپ کا رب آپ کو یقینی خبر دیتا ہے کہ وہ ان (یہودیوں) پر قیامت تک ایسے لوگ مسلط کرتا رہے گا، جو انہیں بری سزا دے، یقینا آپ کا رب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور غفور رحیم بھی ہے۔ (سورہ اعراف)

اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی شرارتوں کی وجہ سے ہر زمانے میں اللہ تعالی ان پر کسی نہ کسی بندے کو مسلط کرتا رہے گا، جو انہیں سزا دے گا اور ذلیل وخوار کرے گا، جس کے آخری سلسلے کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام ان سب کو قتل کریں گے؛ لہٰذا یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی قتل گاہ، اسرائیلی ریاست کی شکل میں تعمیر کر رہے ہیں۔

اللہ تعالی اس خبیث قوم کی شرارتوں، سازشوں اور ناپاک عزائم سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین!

مقالات و مضامین سے متعلق