تلاوت ِ قرآن عظمت، اہمیت اور آداب

تلاوت ِ قرآن عظمت، اہمیت اور آداب

مولانا غلام مصطفی رفیق

قرآن ِ کرم رُشد وہدایت کا سر چشمہ اور آخری آسمانی کتاب ہے، جو الله تعالیٰ کے آخری پیغمبر، امام االانبیاء، سید المرسلین، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ جس شب یہ آخری آسمانی صحیفہ نازل ہوا، الله تعالیٰ نے اسے لیلة القدر سے تعبیر کیا۔ اس سے قرآن ِ کریم کی عظمت ورفعت او ربلندیِ شان کا پتا چلتا ہے۔

قرآن ِ کریم کے ذریعے راہ ِ نجات تلاش کی جاتی ہے، اس میں شفا ہے، اس سے روحانی وجسمانی امراض سے نجات ملتی ہے۔ اس کے عجائبات وغرائب کی کوئی انتہا ہے، نہ اس کے فوائد کی کوئی حد۔ یہ وہ کتاب ِ مبین ہے جس نے اولین وآخرین، جنّ وانس کو ہدایت کی راہ دکھائی۔ جن لوگوں نے اس سے اعراض کیا اور اس سے لو لگائے بغیر راہ رو بنے، وہ کام یابی کی منزل نہ پاسکے، انہیں منزل نہ ملی۔ اور جنہوں نے کتاب الله پر اعتماد کیا وہی کام یاب ہوئے۔ جنہوں نے اس کے مطابق عمل کیا، وہ دین ودنیا کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ یہ خصوصیات اس لیے بھی ہیں کہ یہ محفوظ کتاب ہے، اس کی حفاظت کے مختلف اسباب ہیں، ایک سبب تلاوت کی کثرت بھی ہے۔ قرآن ِ کریم عام کتابوں سے ممتاز ہے، اس لیے اس کی تلاوت کے بھی کچھ آداب ہیں،جن کی رعایت لازم ہے، ذیل میں وہ آداب ذکر کیے جاتے ہیں ۔

پہلا ادب
پاکیزگی:تلاوت کرتے وقت آدمی باوضو ہو، ادب واحترام کے ساتھ تلاوت کرے، خواہ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر، اگر بلا وضو لیٹ کر تلاوت کی جائے، تب بھی ثواب ملے گا، قرآن ِ کریم میں ارشاد ہے:”جو لوگ کھڑے اور بیٹے اور لیٹے ( ہر حال میں ) الله تعالیٰ کو یاد کرتے اور آسمان وزمین کی پیدائش میں غوروفکرکرتے ہیں۔“ البتہ افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر، قبلہ رخ ہو کر، باوضو ہونے کی حالت میں، تلاوت کی جائے۔

دوسرا ادب
پڑھنے کی مقدار: مقدارِ قرأت کے سلسلے میں لوگوں کی عادتیں جدا جدا ہیں، مقدار کے سلسلے میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی سے بھی راہ نمائی ملتی ہے:

”جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیا، اس نے اسے سمجھا نہیں۔“

وجہ یہ ہے کہ اس سے کم مدت میں ختم کرنے سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی ِ کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے فرمایا: ” سات دن میں ختم قرآن کیا کرو۔“ اس سے معلوم ہوا کہ معتدل درجہ یہ ہے کہ ہفتے میں ایک قرآن ختم ہو، اس سے زیادہ یہ ہے کہ ہفتے میں دو ختم کیے جائے، اس طرح تقریباً تین دن میں ایک ختم ہو گا۔ اگر تلاوت کرنے والا عالم ہو اور قرآنِ کریم کے معانی ومضامین میں غور وفکر کرنا اس کا مشغلہ ہو تو اس کے لیے ایک مہینے میں ایک ختم ِ قرآن بھی کافی ہے۔

تیسرا ادب
قرآنی سورتوں کی تقسیم: جو شخص ہفتے میں ایک قرآن ختم کرے، اُسے قرآنی سورتوں کو سات منزلوں میں تقسیم کر لینا چاہیے۔ احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت عثمان رضی الله عنہ جمعہ کی شب قرآن ِ پاک کی تلاوت شروع کرتے اور سورہٴ مائدہ کے آخر تک تلاوت فرماتے، ہفتے کی شب میں سورہٴ انعام سے سورہٴ ہود تک، اتوار کی شب میں سورہٴ یوسف سے سورہٴ مریم تک، پیر کی شب میں سورہٴ طہٰ سے سورہٴ قصص تک، منگل کی شب میں سورہٴ عنکبوت سے سورہٴ ص تک، بدھ کی شب میں سورہٴ زمر سے سورہٴ رحمن تک او رجمعرات کی شب ( شب ِ جمعہ) میں سورہٴ واقعہ سے آخر تک تلاوت فرماتے۔

چوتھا ادب
ترتیل کے ساتھ پڑھنا: قرآن پاک کو اچھی طرح ترتیل کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔ قرآن کا مقصد تدبر اور تفکر ہے، ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے تدبر میں مدد ملتی ہے، چناں چہ حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تلاوت کے متعلق بیان فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک ایک حرف کو واضح کرکے پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: پورا قرآن جلدی جلدی پڑھنے کے مقابلیمیں میرے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہے کہ میں صرف سورہٴ بقرہ وآلِ عمران کی تلاوت کروں۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ترتیل صرف تدبر کی وجہ سے مستحب نہیں ہے، بلکہ اس آدمی کے لیے بھی ترتیل مستحب ہے، جو قرآن کے معانی نہ سمجھتا ہو، اس لیے کہ ٹھہر کر پڑھنے سے دل پر بھی زیادہ اثر ہوتا ہے۔

پانچواں ادب
تلاوت کے دوران کیفیت: تلاوت کرتے وقت انسان قرآنِ کریم کی وعید او رتہدید، عذاب واحوال ِ قیامت اور سابقہ قوموں کی ہلاکت کی آیات پر غور کرے اور اس دوران رونا بھی مستحب ہے۔ چناں چہ حدیث شریف میں ہے”قرآن پڑھو اور روؤ، اگر نہ روسکو تو رونی صورت ہی بنالو۔“ رونا نہ آئے تو انسان اپنے دل پر غم طاری کر لے اور یہ سوچے کہ قرآن نے مجھے کس چیز کاحکم دیا اور کس چیز سے روکا ہے؟ اس کے بعد قرآنی اوامرو نواہی کی تعمیل میں اپنی کوتاہی پر نظر ڈالے، اس سے یقینا غم پیدا ہو گا اور غم سے ہی رونے کو تحریک ملتی ہے، رجا وامید کی آیت گزرے تو دعا مانگے اور خوف کی آیت گزرے تو پناہ مانگے۔

چھٹا ادب
قرآن ِ کریم کی آیات کا حق ادا کرنا: دوران ِ تلاوت آیات کے حقوق کے رعایت کرے، جب کسی آیت ِ سجدہ سے گزرے یا کسی دوسرے سے سجدہ کی آیت سنے تو سجدہ کرے، بشرطیکہ پاکی کی حالت میں ہو، اگر زبانی تلاوت کر رہاہو اور تلاوت کرتے وقت یا سنتے وقت پاکی نہ ہو تو پاک ہونے کے بعد سجدہ ادا کرلے۔

ساتواں ادب
آواز کے ساتھ تلاوت کرنا: اتنی آواز کے ساتھ تلاوت کرنا آداب ِ تلاوت میں شامل ہے کہ خود سن سکے، اس لیے کہ پڑھنے کے معنی یہ ہیں کہ آواز کے ذریعے حرف ادا ہوں، اس لیے آواز ضروری ہے اور آواز کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ خود سن سکے۔ جہاں تک زیادہ بلند آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کا معاملہ ہے تو یہ محبوب بھی ہے او رمکروہ بھی، بعض روایات میں بلند آواز سے تلاوت کرنے کو سراہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اسے ناپسند کیا گیا ہے۔

تطبیق کی صورت یہ ہے کہ آہستہ پڑھنے میں ریا کاری وتصنع کا اندیشہ نہیں ہے، جس شخص کو ریا کا اندیشہ وخوف ہو، اسے آہستہ پڑھنا چاہیے، لیکن اگر اس کا خوف نہ ہو اور دوسرے کی نماز میں یا کسی دوسرے عمل میں خلل بھی نہ پڑتا ہوتو بلند آواز میں پڑھنا افضل ہے، کیوں کہ اس میں عمل زیادہ ہے اور جہر قرأت دل کو بیدار کرتی ہے، اس کے افکار مجتمع کرتی ہے، نیند دور کرتی ہے، پڑھنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔

آٹھواں ادب
تحسین ِ قرأت: قرآن ِ کریم کو خوب صورت آواز میں پڑھا جائے، تحسین ِ قرأت پر پوری توجہ دی جائے، لیکن حروف اتنے نہ کھینچے جائیں کہ الفاظ بدل جائیں اور نظم قرآنی میں خلل واقع ہو، اگر یہ شرائط ملحوظ رکھی جائیں تو تحسین ِ قرأت سنت ہے۔ حدیث شریف میں ہے:” قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو۔“ ایک اور حدیث میں ہے:” الله تعالیٰ نے کسی اور چیز کا اس قدر حکم نہیں دیا، جتنا قرآن کے ساتھ خوش الحانی کا نبی کو حکم دیا ہے۔“

نواں ادب
تلاوت کے بعد دعا: تلاوت سے فارغ ہو کر دعا بھی مانگنی چاہیے او راگر اختتام تلاوت پر وہ دعا جو اکثر قرآنی نسخوں کے اخیر میں تحریر ہے:”اللّٰھم ارحمنی بالقرآن العظیم“ پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہے، بعض کتب میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بھی تلاوت کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

دسواں ادب
عظمت ِ قرآن کا استحضار: کلام الله کی عظمت وعلوِ شان او راس کے مرتبہ ومنزلت کا دل وجان سے اعتراف کرے اور اس بات کا تصور کرے کہ نزول ِ قرآن بلاشبہ الله تعالیٰ کے فضل واحسان کا ایک عظیم نمونہ ہے کہ اس نے عرشِ بریں سے اپنا کلام اپنے بندوں کی رشد وہدایت کے لیے اتارا، ورنہ اس کتاب کے روحانی بوجھ او رتجلی کا عالم یہ ہے کہ اگر عالم مثال میں ظاہر ہو جائے تو سخت ترین پہاڑ بھی اسے برداشت نہ کرسکیں۔

گیارہواں ادب
الله تعالیٰ (صاحب ِ کلام) کا استحضار: اس ادب کا تعلق صاحب ِ کلام کی عظمت سے ہے۔جب تلاوت کرنے والا تلاوت کرے تو اپنے دل میں متکلم (الله تعالیٰ) کی عظمت ورفعت ِ شان کا استحضار ضرور کرے اور یہ یقین رکھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے، بلکہ خالقِ کائنات کا کلام ہے اوراس کی تلاوت کے بہت آداب وتقاضے ہیں۔ ہر دل اس کا اہل نہیں کہ قرآن کی حکمتوں اور اس کے عظیم الشان معانی کا بارگراں برداشت کرسکے، اس لیے ضروری ہے کہ آدمی کا دل پاک اور عظمت وتوقیر کے نور سے منور ہو۔ حضرت عکرمہ رضی الله عنہ جب قرآن ِ پاک کھولتے تو بے ہوش ہو جاتے اور فرماتے یہ میرے رب کا کلام ہے ، یہ میرے رب کا کلام ہے۔

بارہواں ادب
قرآنی خطاب کو اپنے لیے خاص سمجھنا: ایک ادب یہ ہے کہ قرآن ِ کریم کے ہر خطاب کو اپنے لیے خاص سمجھے۔ جب کوئی آیت ِ نہیِ یا آیت ِ امر سامنے آئے تو یہ سوچے کہ مجھے ہی حکم دیا گیا ہے او رمجھے ہی منع کیا گیا ہے۔ وعدوہ وعید کی آیات تلاوت کرے تو اُنہیں اپنے حق میں فرض کرے۔ انبیاء علیہم السلام کے قصے پڑھے تو یہ سمجھے کہ یہاں قصے مقصود نہیں، بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا مقصود ہے کہ الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی آزمائش، صبر، نصرت اور ثابت قدمی کے جو واقعات اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں، ان سے ہماری تعلیم او راپنے دین پر ثابت قدمی مقصود ہے۔ قرآنی خطابات کو اپنے لیے فرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ِ پاک کسی ایک شخص کے لیے نازل نہیں ہوا، بلکہ تمام دنیا کے لیے شفا، ہدایت، رحمت وپیغام ِ خدا وندی ہے، اسی لیے الله تعالیٰ نے تمام لوگوں کو نعمت ِ کتاب پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا، تمام لوگ قرآن کے مخاطب ہیں، اس لیے ہر شخص کو فرض کرنا چاہیے کہ قرآن کا مقصود میں ہوں۔

تیرہواں ادب
تأثر ِ قلبی: ایک ادب یہ ہے کہ قرآنی آیات سے متاثر ہو۔ جس طرح کی آیت تلاوت کرے، اس طرح کاتأثر دل میں ہونا چاہیے۔ اگر آیت ِ خوف ہے تو خوف طاری کرے اور آیت ِ حزن ہے تو غمگین ہو جائے، آیت ِ رجا ہے تو امید کی کیفیت پیدا کرے، جب جنت کا ذکر ہو تو دل میں اس کا شوق پیدا ہونا چاہیے، دوزخ کے بیان پر دل میں خوف کی کیفیت پیدا ہونی چاہیے۔ چناں چہ روایات میں ہے کہ سرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے فرمایا: ”قرآن سناؤ! حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے سورہٴ نساء کی تلاوت شروع کی، جب میں اس آیت پر پہنچا”سو اس وقت بھی کیا حال ہوگا جب کہ ہم ہر ہر امت میں ایک ایک گواہ حاضر کریں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے حاضر لائیں گے۔ تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اب ٹھہر جاؤ۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ کیفیت اس لیے پیدا ہوئی کہ آپ کا قلب ِ مبارک پوری طرح اس منظرکے مشاہدے میں مصروف تھا۔ غرض مؤمن کو تلاوت کے دوران ہر آیت کے مضمون کے مطابق اس طرح تأثر لینا چاہیے کہ اس کے ظاہر وباطن پر وہ اثر محسوس بھی ہو۔

چودہواں ادب
تلاوت میں ترقی وکمال: تلاوت میں اتنی ترقی وکمال حاصل کرے کہ گویا اپنے بجائے خو دمتکلم ( الله عزوجل) سے اس کا کلام سن رہا ہے۔ پڑھنے کے تین درجات ہیں: ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ یہ تصور کرے کہ میں بار ی تعالیٰ کے سامنے

دست بستہ کھڑا تلاوت کر رہا ہوں اور باری تعالیٰ دیکھ رہا اور سن رہا ہے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ احساس پیدا کرے کہ الله تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور اپنے لطف وکرم سے اسے مخاطب کر رہا ہے او راپنے انعام واحسان کا ذکر فرما رہا ہے۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ کلام میں متکلم کا اور کلمات میں صفات متکلم کا مشاہدہ کرے، اپنے اوپر او راپنی قرأت پر نظر نہ رکھے، بلکہ فکر وخیال کا مرکز باری تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے، گویا وہ متکلم کے مشاہدے میں اس قدر مشغول ہے کہ اس کے علاوہ ہر شے اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔

پندرہواں ادب
خود کو ہیچ سمجھنا: اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت وقوت سے برأت کرتا رہے او رکسی بھی لمحہ اپنے نفس کو اہمیت نہ دے، مثلاً قرآن ِ پاک کی وہ آیات پڑھے، جن میں نیک بندوں کی مدح کی گئی ہے تو یہ خیال نہ ہو کہ میں بھی ان میں شامل ہوں، بلکہ یہ سمجھے کہ یہ درجہ تو بہت بلند ہے اوراونچے لوگوں کا ہے، ان نیک بندوں میں اپنی شمولیت کی امید رکھتے ہوئے پڑھے۔ اور جب وہ آیات پڑھے جن میں گناہ گار بندوں کا ذکر ہے اورعذاب سے ڈرایا گیا ہے تو یہ سمجھے کہ ان آیات کا میں بھی مخاطب ہوں۔ اس موقع پر الله کے غضب سے ڈرے اور فسق وفجور، کفروشرک میں مبتلا ہونے سے الله کی پناہ مانگے۔
جو شخص دوران ِ تلاوت اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں سرتاپا تقصیر ہوں تو اسے الله کا قرب نصیب ہو گا، جب قرب ِ خدا وندی نصیب ہوا تو گویا تلاوت کا مقصود بھی حاصل ہو گیا۔