مقتدر طبقات کے لیے زرّیں اصول

idara letterhead universal2c

مقتدر طبقات کے لیے زرّیں اصول

مولانا زبیر احمد صدیقی

نعمت کی قدردانی اور شکر

﴿یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَأَوْفُوا بِعَہْدِی أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ﴾․(البقرة:40)

ترجمہ:” اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو، تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں اور تم( کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو۔“

آیت مذکورہ میں اصلاً خطاب بنی اسرائیل، یعنی اولاد یعقوب علیہ السلام کو ہے، جو مذہباً یہودی تھے، انہیں روحانی مادی ہمہ قسم انعامات سے مالا مال کیا گیا تھا ،روحانی نعمت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ ان میں ہزاروں نبی مبعوث ہوئے، حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی نبی زمین کے مختلف خطوں میں بھیجے گئے سبھی اسی خاندان یعقوب علیہ السلام سے تھے، مذہبی قیادت وسیادت ہزار سال تک بنی اسرائیل کے پاس رہی، اس مذہبی قیادت وسیادت کے ساتھ بادشاہت، حکم رانی بھی انہیں عطا ہوئی، اقوام عالم پر بنی اسرائیل نے برسہا برس حکم رانی وشاہی سرانجام دی، ان مادی روحانی نعمتوں کے ساتھ عزت وعظمت ،رزق واولاد، صحت وزندگی جیسی نعمتیں بھی ان کے پاس کم نہ تھی۔

ارشاد خدا وندی ہے:﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَیٰ لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنبِیَاء َ وَجَعَلَکُم مُّلُوکًا وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِینَ﴾․(المائدہ:20)

ترجمہ:” او راس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! الله کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تمہیں حکم راں بنایا او رتمہیں وہ کچھ عطا کیا جو تم سے پہلے دنیا جہاں کے کسی فرد کو عطا نہیں کیا تھا۔“

انہی نعمتوں اور احسانات ِ خدا وندی کی تذکیر کے ساتھ مدینہ منورہ کے گرد آباد یہود کے قدیمی پیشواؤں، نوابوں، سیاسی زعماء اور با اثر لوگوں کی اصلاح کے لیے زرّیں اصول بیان کیے گئے، اس لیے کہ اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی اصلاح کے ساتھ عوام الناس کی اصلاح آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ مقولہ مشہور ہے :”الناس علی دین ملوکھم“ لوگ اپنے حکم رانوں کا طرز وطریق اختیار کرتے ہیں، سدھار کے یہی اصول تبعاً اس امت کے مقتدر طبقات کی اصلاح کے لیے بھی ذکر کر دیے گئے ہیں، امت کا بااثر طبقہ تین طرح کا ہے:

حکم راں، سیاست دان اورسرکاری افسران علماء ومشائخ۔ صنعت کار، سرمایہ دار، جاگیر دار اور زمین دار۔

ان تینوں طبقات کے بگاڑ سے پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے اور اگر یہ تین طبقات درست ہو جائیں تو پورا معاشرہ نہ صرف درست رہتا ہے، بلکہ مثالی اور پرامن وخوش حال بن جاتا ہے، آیت مذکورہ میں بارہ (12) زرّیں اصول بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ (8) اوامر (احکام) چار(4) نواہی (ممنوعات) ہیں ، چناں چہ اول اوامر او راس کے بعد نواہی اور آخر میں پھر اوامر کو بیان کیا جارہا ہے۔

آٹھ اوامر

اے یعقوب علیہ السلام کی اولاد (اور دیگر لوگو!) میری نوازشات واحسانات کو یاد رکھو، انہیں مت فراموش کرو، میں ہی تو ہوں جس نے تمہیں مذہبی قیادت، سیاسی سیادت، مال ودولت، جاہ وعزت، سرداری وحکم رانی، رعب ودبدبہ اور اقوام عالم پر تفوق وبڑائی عطا کی تھی، ایک عرصہ تک تم بلاشرکت غیر، الله کی دھرتی کے رہبر وراہ نما رہے، تم پر من وسلوا نازل کیا، تمہارے لیے پتھر سے بارہ چشمے جاری کرکے تمہیں سیراب کیا، فرعون جیسے ظالم حکم راں کی غلامی سے نجات بخشی، یہ کوئی تمہارے ذاتی وکسبی کمالات تو نہ تھے، میں نے عطا کیے تھے اور آج جن لوگوں کو علم، زہد، تقویٰ، حکم رانی، منصب وعہدے، جاگیریں وصنعتیں، تجارت ومال داری، رزق، عزت عظمت، زبان وقلم کی نعمتیں نصیب ہوئیں، سبھی میری عطا کردہ ہیں، سو میرا شکر بجالایا کرو، میری حمایت کا دم بھر اکرو۔

ایفاء عہد، خوفِ خداوندی اور قرآن کریم پر ایمان

﴿وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُونُوا أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ﴾․ (البقرة:41)

ترجمہ:” او رجو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ ،جب کہ وہ اس کتاب ( یعنی تورات) کی تصدیق بھی کر رہا ہے جو تمہارے پاس ہے اورتم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور (کسی اور کے بجائے) صرف میرا خوف دل میں رکھو۔

تم مجھ سے کیا ہواا پنا عہد نبھاؤ، میں تم سے کیا گیا اپنا عہد نبھاؤں گا۔ بنی اسرائیل نے الله تعالیٰ سے کیا وعدہ کیا تھا؟ اس کے متعلق مفسرین نے درج ذیل آراء ذکر کی ہیں:

حضور علیہ السلام کی اتباع کا عہد۔

سورة مائدہ میں ذکر کردہ یہ عہد کہ ” اگر تم نماز قائم کرو گے ، زکوٰة دو گے، میرے رسولوں پرایمان لاؤ گے اور ان کی نصرت کرو گے، الله تعالیٰ کو قرض حسنہ دو گے، تو میں تمہارے ساتھ ہوں گا، تم سے تمہارے گناہ دھو ڈالوں گا او رتمہیں اپنی جنتوں میں داخل کروں گا“۔ (مائدہ:12)

توراة میں مذکور یہ عہد کہ بنی اسماعیل سے آنے والے عظیم المرتبت نبی آخر الزمان علیہ السلام کی اتباع کرو گے۔
اسلام کی پیروی کر وگے۔

اس کی تکمیل کی صورت میں بھی حق تعالیٰ کی جانب سے وعدہ کیا گیا۔ اس عہد کے بارے میں بھی مفسرین نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں:

میں تم سے وہ مشقت اور بوجھ اٹھالوں گا جو گناہوں کے سبب تمہاری گردنوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

الله کی معیت، گناہوں کی معافی او رجنت میں داخلے کا عہد پورا کروں گا۔

حضور علیہ السلام کی اتباع پر گناہوں کی مغفرت او رہر عمل پر دوہرے اجر کا عہد۔

رضائے باری تعالیٰ اور جنت میں داخلے کا عہد…!!

تم سب سے صرف مجھ ہی سے ڈرو کہ تمبھی میری پکڑ میں اس طرح آسکتے ہو جیسے تم سے پہلے لوگوں کو عذاب کی پکڑ میں لیا گیا، چناں چہ کچھ کی شکلیں بدل گئیں، انسانوں سے جانور بنا دیے گئے، دیکھتے ہی دیکھتے کتوں، بندروں اور خنزیروں کی سی شکلیں ہو گئیں ( العیاذ بالله) کچھ پر پتھروں کی بارش ہوئی، تو کسی کو زمین میں دھنسا دیا گیا۔ لہٰذا تمہیں میرا ہی پاس رکھنا ہو گا ، گویا کہ پہلے جملے میں ترغیب او راس جملے میں ترہیب کے ذریعے اسلام کی طرف دعوت دی جارہی ہے۔

میری نازل کردہ کتاب ” قرآن کریم“ پر ایمان لاؤ، اسے دل وجان سے قبول کرو، اسی کو اپنی زندگی کا جز بناؤ او رپنے نظام کا حصہ قرار دو کہ یہ کتاب تمہارے پاس پہلے سے موجو دکتاب یعنی تورات کی تصدیق کنندہ ہے، اس کے مضامین بھی کتب سابقہ سے ملتے جلتے ہیں او راس کا ذکر بھی تورات وانجیل میں موجود ہے ، تو پھر اس کو نہ ماننے کی کیا وجہ باقی رہ جاتی ہے؟؟

چار کام ہر گز نہ کرو

﴿وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُونُوا أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ، وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾․ (البقرة:42-41)

ترجمہ:” اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ ،جب کہ وہ اس کتاب ( یعنی تورات) کی تصدیق بھی کر رہا ہے جو تمہار ے پاس ہے او رتم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور ( کسی اور کے بجائے) صرف میرا خوف دل میں رکھو ، او رحق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور نہ حق بات کو چھپاؤ، جب کہ (اصل حقیقت ) تم اچھی طرح جانتے ہو“۔

نہی اوّل

قرآن کریم اور صاحب قرآن جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تکذیب کرکے امت میں کافر اوّل نہ بنو، یہود اپنے عہد کے تعلیم یافتہ، باشعور اور آسمانی احکام سے باخبر سمجھے جاتے تھے، جب کہ مشریکن مکہ اُمّی، بے خبر اور آسمانی تعلیمات سے نابلد او رجاہل واَن پڑھ تھے۔ یہود تورات میں مذکور جناب ِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے متعلق پیشین گوئیوں، آپ کے اوصاف وکمالات، آپ کی نبوت ورسالت سے خوب واقف تھے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی بعثت سے قبل وہ نہ صرف آپ کا تذکرہ کرتے، بلکہ آپ کے واسطے سے دعائیں کرتے او راپنے مخالفین کو عنقریب ظاہر ہونے والے نبی آخر الزمان صلی الله علیہ وسلم کی دھمکیاں دیتے۔ اب جب وہ نبی آچکے تو آپ کی تصدیق کی بجائے تکذیب کرنے لگے، اس لیے حق تعالیٰ نے ان مقتدر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے باور کرایا کہ اگر تم جاننے کے باوجود نہ مانوگے تو تمہاری اولادیں، نیز تم سے متاثر دیگر لوگ تمہارے معتقدین ومتوسلین، سبھی کافر بنیں گے او راس کے ذمہ دار تم ٹھہرو گے، گویا کہ تم کافر اوّل قرار پاؤ گے… ایسا نہ کرو!

نہی ثانی

میری آیات ِ جلیلہ کو دنیا ودولت کی لالچ میں نظر انداز نہ کرو، تمہیں شاید یہ خدشہ لگا ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام کی تائید وتصدیق سے تمہیں حاصل مالی منفعت ختم ہو جائے گی۔ نیز ہدا یا ونذرانوں کا طویل سلسلہ بند ہو جائے گا، یوں روزی روٹی میں کمی ہو گی، اسی خدشہ کی وجہ سے دین ِ حق سے اعراض کرنا دین فروشی اور زرپرستی ہے۔یقینا تم حقیر وذلیل دنیا کے بدلے دین فروخت کررہے ہو؟! پوری دنیا الله کی نظر میں مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہے تو پھر کیوں کر دین فروش بنتے ہو؟ حق تعالیٰ کو رزاق جانو، آگے بڑھو اور دو ٹوک حق کا اعلان کر دو۔ الله سے ڈرتے ہوئے دنیا کو لات مار کر آخرت کو اپنا و، تو بڑی کام یابی پاؤ گے۔ الله تعالیٰ کے سوا کسی سے خوف وڈر کی ضرورت نہیں!!

نہی ثالث ورابع

حق سے روکنے اور دور رکھنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔

حق وباطل کو خلط ملط کرکے حق کو مخفی کر دینا۔ حق کو چھپانا اور ظاہر نہ کرنا۔

الله تعالیٰ نے ان دونوں طریقوں سے منع فرمایا کہ حق وباطل کو نہ ملاؤ جلاؤ، بلکہ حق کو حق کہو، باطل کو باطل کہو، حق وباطل میں تمییزکرو، تاکہ لوگ حق کی اتباع کریں اور باطل سے اجتناب! اسی طرح حق کو کسی صورت نہ چھپاؤ، بلکہ ظاہر کرو۔

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور قرآن کریم سے متعلق پیشن گوئیاں تورات میں مذکور ہیں، مدینہ منورہ میں مقیم یہود کے مذہبی راہ نما ان نشانیوں کو اپنے ذاتی اغراض وفوائد کے لیے یا تو چھپا لیتے اور ظاہر نہ کرتے، لوگوں کے پوچھنے پر انکار کر دیتے او رکبھی اننشانیوں کو گڈ مڈ کرکے حق ظاہر نہ ہونے دیتے، یوں لوگوں کی گم راہی کا سبب اور ذریعہ بنتے تھے۔ اسی پس منظر میں مذکورہ بالا دونوں امور سے نہی کی گئی۔

بدنی ومالی عبادات بجالاؤ

﴿وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَارْکَعُوا مَعَ الرَّاکِعِینَ﴾․ (البقرة:43)

ترجمہ:” او رنماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“امرِ خامس، سادس وسابع(7,6,5)

مذکور بالا آیات میں پہلے چار اوامر، پھر چار نواہی مذکور ہوئے، اس کے بعد پھر چاراوامر ذکر کیے جارہے ہیں، اس طرح کل آٹھ اوامر اور چار نواہی، یعنی آٹھ ایجابی اور چار سلبی احکام ذکر کیے گئے۔ پانچوے حکم میں نماز قائم کرنے اور چھٹے حکم میں زکوٰة ادا کرنے کا حکم ہے اورساتوے امر میں رکوع او رجماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے حکم ہے۔

اقامت ِ صلوٰة ( نماز قائم کرنا) قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے، اس سے مراد نماز کو اس کے جمیع حقوق وآداب کے ساتھ ادا کرنا ہے، قرآن کریم نے نماز پڑھنے کا حکم قطعاً نہیں دیا، بلکہ جہاں بھی نماز کا ذکر فرمایا وہاں نماز قائم کرنے کی تعبیر اختیار فرمائی۔ محققین نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن کریم جامع کتاب ہے ،الله تعالیٰ کی مراد ان احکام سے یہ ہے کہ بدنی ومالی عبادات بجالاؤ، لیکن بدنی ومالی عبادات کی بہت سی اقسام کو ذکر کرنا جامعیت واجمال کے خلاف تھا تو اس لیے حق تعالیٰ نے بدنی ومالی عبادات میں سے سب سے اہم وجامع ایک ایک عبادت کا ذکر فرما کر، باقی سب کی جانب اشارہ فرما دیا، چناں چہ بدنی عبادت میں اہم نماز ہے اورمالی عبادت میں زکوٰة ،اس لیے بطور نمونے کے ان دو کا ذکر فرما کر، باقی سب عبادات کی جانب اشارہ فرما دیا، اس لیے اقیموا الصلوٰة میں نماز کے ساتھ روزہ، حج اور دیگر بدنی طاعات، مثلاً تلاوت قرآن کریم، ذکر الله ودعا وغیرہ شامل ہیں، جب کہ اتواالزکوٰة میں صدقہ فطر، قربانی، صدقات وخیرات، والدین، اہل وعیال ، عزیز واقارب او رمہمانوں وغیرہ پر خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ رہی بات نماز کے طریقے اور زکوٰة کے طریقوں کی، یہ سب کچھ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث میں مذکور ہے، جسے فقہائے کرام نے ترتیب دے کر بیان فرما دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، اس سے ایک تو اشارہ ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرو اور دوسرا یہ کہ رکوع والی نماز ادا کرو، یعنی اسلامی طریقے کے مطابق نماز ادا کرو اس لیے کہ یہود کی نماز میں رکوع نہ تھا تو تعریضاً یہود کے طریقے کے مطابق نہیں، بلکہ اسلام کے طریقے کے مطابق نماز ادا کرو۔

﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ، وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّہَا لَکَبِیرَةٌ إِلَّا عَلَی الْخَاشِعِینَ، الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلَاقُو رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾․ (البقرة:46-44)

ترجمہ:” کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالاں کہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں؟(44) اور صبر او رنماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے، مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع ( یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں(45) جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پرورد گار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے(46)“۔

امر سابع: بے عمل عالم کو تنبیہ

امر سابع میں بے عمل عالم کو زجرو توبیخ کی جارہی ہے کہ لوگوں کو نیکی کو حکم دیتے ہو اور خود کو فراموش کر دیتے ہو حالاں کہ تم تورات کے ماننے والے ہو؟! یہ خطاب دراصل یہودِ مدینہ کو ہے، جو تورات پر ایمان لانے کے دعوے دار تھے۔ تورات میں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارات موجود تھیں۔ وہ لوگوں کو تو اتباعِ تورات کی دعوت وتلقین کرتے، لیکن خود نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم پر ایمان نہ لاتے تھے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ان علمائے یہود سے خلوت میں جناب رسول الله صلی الله علیہ و سلم کے متعلق سوال کرتا، تو یہ دبے دبے لفظوں میں کہا کرتے تھے کہ سچے نبی ہیں لیکن خود اپنے دنیوی مفادات کی وجہ سے ایمان نہ لاتے تھے۔ اس پر انہیں کہا گیا کہ عقل وسمجھ سے کام لو، ایسا نہ کرو۔ مذکورہ بالا آیات میں علماء کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنے علم پر عمل کریں، نیز اپنے وعظ وتبلیغ تقریر وتحریر کی لاج رکھیں۔ احادیث طیبہ میں بے عمل عالم کے لیے سخت تنبیہات وارد ہوئی ہیں۔

امام طبرانی  نے اپنیمعجم کبیرمیں حدیث نقل کی ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”جو عالم دوسروں کواچھائی کی تعلیم دیتا ہے اور خو داس پر عمل نہیں کرتا، اس کی مثال اُس چراغ کی سی ہے جو دوسروں کو تو روشنی پہنچاتا ہے، لیکن اپنے آپ کو جلاتا ہے۔“ امام احمد بن حنبل نے اپنی مُسند میں حدیث ذکر کی ہے:

”شبِ معراج جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ دوزخ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے استفسار کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جواب ملا کہ یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں، جو دوسروں کو نیکی کا حکم کرتے او راپنے آپ کو فراموش کر دیتے تھے، حالاں کہ وہ کتاب کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ کیا بھلا تم عقل نہیں رکھتے؟“

ابن عساکر نے ولید بن عقبہ کیحالات میں ذکر کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”کچھ جنتی حضرات جھانک کر دوزخ کو دیکھیں گے اور دوزخیوں سے کہیں گے کہ تم دوزخ میں کیوں کر داخل ہوئے، حالاں کہ تمہاری تعلیمات کی وجہ سے تو ہم جنت میں آئے؟! وہ جواب دیں گے کہ ہم کہتے تو تھے، لیکن عمل نہیں کرتے تھے۔“ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ آمین

امرِ ثامن: علاجِ حُبِّ جاہ ومال

اہل کتاب باوجود حق جاننے کے مانتے نہ تھے، جیسا کہ آج بھی بہت سے لوگ حق جاننے کے باوجود حق تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے دو اسباب ہوتے ہیں:

1.. حُبِّ جا… (مقام ومنصب کی محبت)

2.. حُبِّ مال… ( مال ودنیا کی محبت)

بلاشبہ یہ دونوں امراض روحانیہ ہیں او رنہایت ہی خطر ناک امراض ہیں۔ اس لیے حق تعالیٰ نے ان دنوں امراض کے علاج تجویز فرمائے۔ حُبِّ جاہ کا علاج” نماز“ ہے۔ اس لیے کہ نماز سے عبودیت، عاجزی او رخشوع پیدا ہو گا او راس سے حب جاہ کا خاتمہ ہو گا، جب کہ صبر سے حب مال کا خاتمہ ہو گا۔ بلاشبہ یہ نماز وصبر کے ساتھ استعانت مشکل اور گراں ہیں، لیکن جن لوگوں کا الله تعالیٰ کی ملاقات پر ایمان ویقین ہے اور وہ حق تعالیٰ کی جانب پلٹ جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان کے لیے صبر ونماز کے ساتھ استعانت کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ 

مقالات و مضامین سے متعلق