اسرائیل کے ساتھ معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ شرعی وفقہی حیثیت

idara letterhead universal2c

اسرائیل کے ساتھ معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ شرعی وفقہی حیثیت

مولاناعبیدالرحمن

تعارف وپسِ منظر

مغربی دنیا عرصہ سے تسلسل کے ساتھ ایسے اقداما ت کرتی آرہی ہے جن کی وجہ سے ان کے خلاف دینی طبقات کی جانب سے تجارتی واقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس وقت اسرائیل ”غزہ“اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر جو وحشیانہ بمباری کررہا ہے،اس کو عملی میدان میں گزندپہنچانے کا ایک طریقہ یہی تجارتی بائیکاٹ تجویز کیا گیا ہے۔ اقتصادی اور تجارتی بائیکاٹ ہی پر قناعت کرنا گو درست نہیں ہے، لیکن سنجیدگی کے ساتھ اس کو اختیار کرنا بھی بڑی غنیمت کی بات ہے اوراس سے بھی بہت کچھ فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔بہرحال ان سطور کا مقصد اس بائیکاٹ کی شرعی حیثیت اور فقہی مقام واضح کرنا ہے۔

محارب ملک کے ساتھ تجارت کافقہی حکم

جو طاقت/ملک مسلمانوں کے خلاف برسرجنگ ہو،اس کے ساتھ کوئی بھی ایسا تعلق رکھنا جس سے اس کی قوت وطاقت میں اضافہ ہو جاتاہے اورمسلمانوں کے خلاف لڑنے میں مضبوطی پیدا ہو، شرعاً جائز نہیں ۔ بلکہ اصل حکم یہی ہے کہ:

جب وہ کسی ایک مسلمان قوم /ملک کے ساتھ برسرِ جنگ ہے تو وہ تمام مسلمانوں کے خلاف محارب ہی سمجھاجائے گا،شرعی نقطہ نظر سے قومی اور وطنی فاصلے اس باب میں معتبر نہیں ہیں ۔

لہٰذا ایسے ملک وطاقت کے ساتھ دیگر تمام مسلمان ممالک کا ربط حرب ہی کاہوگا، جس درجے میں جو مسلمان لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس درجے میں لڑنا ضروری ہے اور جو بالکل استطاعت نہ رکھتے ہوں ،وہ اپنی استطاعت سے زیادہ کسی چیز کے مکلف تونہیں ہیں،تاہم ان کے ساتھ برادرانہ تعلق رکھنے کا جواز نہیں ۔

”شرح سیر کبیر“میں ہے:
ولا بأس بأن یبیع المسلمون من المشرکین ما بدا لہم من الطعام والثیاب وغیر ذلک، إلا السلاح والکراع والسبی، سواء دخلوا إلیہم بأمان أو بغیر أمان؛لأنہم یتقوون بذلک علی قتال المسلمین، ولا یحل للمسلمین اکتساب سبب تقویتہم علی قتال المسلمین، وہذا المعنی لا یوجد فی سائر الأمتعة.

ثم ہذا الحکم إذا لم یحاصروا من حصونہم، فأما إذا حاصروا حصنا من حصونہم فلا ینبغی لہم أن یبیعوا من أہل الحصن طعاما ولا شرابا ولا شیئا یقویہم علی المقام؛لأنہم إنما حاصروہم لینفد طعامہم وشرابہم حتی یعطوا بأیدیہم ویخرجوا علی حکم اللہ تعالی، ففی بیع الطعام وغیرہ منہم اکتساب سبب تقویتہم علی المقام فی حصنہم، بخلاف ما سبق، فإن أہل الحرب فی دارہم یتمکنون من اکتساب ما یتقوون بہ علی المقام، لا بطریق الشراء من المسلمین، فأما أہل الحصن لا یتمکنون من ذلک بعد ما أحاط المسلمون بہم، فلا یحل لأحد من المسلمین أن یبیعہم شیئا من ذلک، ومن فعلہ فعلم بہ الإمام أدبہ علی ذلک لارتکابہ ما لا یحل․(شرح السیر الکبیر، باب ھدیة أھل الحرب:1/1242)

ترجمہ:”مسلمان کافروں پرکھانے پینے اورلباس وغیرہ چیزیں فروخت کرسکتے ہیں،البتہ اسلحہ ،گھوڑے اورقیدی فروخت کرنا جائز نہیں، خواہ امان لے کروہاں گئے ہوں یابغیرامان کے،کیوں کہ اسلحہ وغیرہ فروخت کرنے سے مسلمانوں کے خلاف ان کی قوت میں اضافہ ہوتاہے اورمسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے والے کفارکومضبوط کریں،چوں کہ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے میں عمومایہ بات نہیں(لہٰذا عام حالات میں اس کی گنجائش ہے) البتہ اگرمسلمان ان کے کسی قلعہ کامحاصرہ کریں توپھران لوگوں پرکھانے پینے وغیرہ کی وہ چیزیں جوان کی تقویت کاباعث ہوں وہ بھی فروخت کرناجائز نہیں، کیوں کہ محاصرہ کامقصد یہ ہے کہ ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوکروہ تسلیم ہوجائیں،تو کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرناان کی تقویت اورمضبوطی کاباعث ہے(لہٰذاجائز نہیں)۔

دیگرکفارچوں کہ اپنی جگہ پردیگرذرائع کی کمائی سے گزر بسر کرتے ہیں،مسلمانوں سے خریداری ان کاباعث گزران نہیں، جب کہ محاصرہ شدہ قلعے کاگزربسرمسلمانوں سے خریدی گئی چیزوں پرہے،لہٰذاکسی بھی مسلمان کواس پرکوئی چیز فروخت کرناجائز نہیں اورجومسلمان اس کاارتکاب کرے گاتوحاکم وقت اسے اس گناہ کی پاداش میں ضرور سزادے دے۔

یہ عبارت اس باب میں واضح ہے کہ:

الف:عام حالات میں مشرکین کے ہاتھ اسلحہ اور جنگی آلات کے علاوہ اشیاء خورد ونوش وغیرہ بیچنا اوران کے ساتھ اس کی تجار ت کرنا مباح ہے۔

ب:جہاں اس خرید وفروخت کی وجہ سے ان کی قوت میں مسلمانوں کے خلاف اضافہ ہوجاتاہو،وہاں ایسا کرناجائز نہیں ہے، چناں چہ درج بالا صورت مسئلہ یہ فرض کیاگیاہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کفار سے برسرِ جنگ ہیں اوران کے کسی قلعہ وغیرہ کامحاصرہ کیاہے،اب کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائزنہیں ہے کہ وہ ان محصور کافروں کے ہاتھ کوئی چیز بیچ دے چاہے وہ کھانے پینے کی چیز کیوں نہ ہو۔

ج:اگر کوئی شخص ایسے حالات میں ان کے ساتھ تجارت کرتاہے،ان کے ہاتھ خورد ونوش کی چیزیں بیچتا ہے تو وہ تعزیر کا مستحق ہے، اسلامی حاکم وامیر اس کو اس کی مناسب سزا دے دے۔

عصری جائزہ

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت کی جنگیں بہت کچھ لاگت چاہتی ہیں، معمولی سرمایے پر جنگیں نہیں لڑی جاسکتیں۔ نیز کوئی بھی ملک اس وقت تک کوئی سنجیدہ جنگ نہیں لڑسکتا جب تک کہ دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تجارتی واقتصادی تعلقات درست نہ ہوں، از خود کوئی ملک اتنا خود کفیل نہیں رہ سکتا جو معاصر جنگوں میں باعزت مقام حاصل کرسکے۔ یہی تجارتی واقتصادی تعلقات ہی عام طور پر ملک کو طاقت ور وتوانا بناتے ہیں اور پھر اس کے بل بوتے وہ ترقی پزیر ممالک کوہڑپ کرنے کے قابل ہوجاتاہے۔

لہٰذا جب یہ بات واضح ہے کہ کوئی طاقت وملک مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کی صورت میں ملک مضبوط تر ہوتا جاتاہے ،اس کی جنگی طاقت بڑھ جاتی ہے تو ایسی صورت میں ایسے ملک /طاقت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا یا برقرار رکھنا شرعاً درست نہیں ہے ۔

ایک ادھوری تعبیر

بسا اوقات اس مسئلہ کے لیے ایک اور تعبیر اختیار کی جاتی ہے،اس کاحاصل یہ ہے کہ ”مسلمانوں کے خلاف برسرِ جنگ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنا ایمانی غیرت کے خلاف ہے، دینی حمیت کا تقاضایہ ہے کہ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات نہ رکھے جائیں“۔ یہ تعبیر فی نفسہ بالکل درست ہے اور واقعةً دینی غیرت وحمیت کا تقاضایہی ہے کہ ایسے ممالک کے خلاف ہوجایاجائے، تجارتی تعلقات بالکل ختم کیے جائیں، لیکن عام طور پر یہ تعبیر اس پس منظر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ”فقہی نقطہ نظر سے توتجارتی تعلقات میں مضائقہ نہیں ،بلکہ مباح ہے، تاہم دینی غیرت کے تقاضے کے خلاف ہے“ حالاں کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔

اس کے درست نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ:خود فقہی نقطہ نظر سے بھی ایسے تعلقات رکھنا درست نہیں، چناں چہ”شرح سیر کبیر“کی جو عبارت اوپر ذکر کی گئی ہے،اس میں اس کو ناجائز قرار دیاگیاہے۔

غلط فہمی کی پہلی بنیاد

اس باب میں غلط فہمی کی بنیاد بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”فقہی نقطہ نظر“کو طے کرنے کے لیے صرف عقد کے منعقد اور صحیح ہونے کی شرائط کو مدنظر رکھاجاتاہے کہ اسلحہ کے علاوہ جس ساز وسامان کا ان جیسے ممالک کے ساتھ تبادلہ کیاجاتاہے،ان میں چوں کہ بیع کے منعقد ہونے اور منعقد ہونے کے بعد صحیح ہونے کی شرائط موجود ہیں ،اس لیے ”فقہی نقطہ نظر“سے یہ عقد درست ہونا چاہیے ۔حالاں کہ یہ تصور ادھورا ہے ، اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ فقہی نقطہ نظر سے کسی چیز کا صحیح یا مشروع ہونا اس کے عملاً جائز ہونے کو مستلزم نہیں ہے ،بہت مرتبہ ایسا ہوسکتا ہے کہ عقد ”صحیح “ہو لیکن جائز نہ ہو ، موجب گناہ ہو،چناں چہ فقہی اصطلاح میں جن معاملات کو ”بیوع مکروہہ“قرار دیاجاتاہے،ان کے تصور کی بنیاد ہی یہ ہے کہ معاملہ میں صحت کی تمام تر شرائط موجود ہوں، لیکن ان کے بعد کراہت کا کوئی سبب پایاجائے۔

ممانعت کی دو بنیادیں

یہاں زیرِ بحث مسئلہ میں بھی کراہت کی ایک بنیادی وجہ ”تعاون علی الاثم“ہے جو یہاں پایاجاتاہے، لہٰذا جس طرح اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت کرنا، جھوٹ ودھوکہ دہی کے ساتھ خرید وفروخت کرنا جائز نہیں، بلکہ گناہ اور ممنوع ومذموم ہے ، ان دونوں معاملات کو صرف دینی غیرت کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیاجاتا یوں ہی مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ممالک کے ساتھ خرید وفروخت کرنا بھی ناجائز ہے اور صرف دینی غیرت کے تقاضے کے خلاف نہیں۔

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ محارب کفار(افراد،اقوام وممالک) کے ساتھ تعلقات رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ”عدم تعلق“رکھنا ہی کافی نہیں ،(اپنی حد تک)عداوت رکھنا ضروری ہے اور بہت سے اہل علم نے اس بات کی صراحت بھی فرمائی ہے ، مثال کے طور پر امام جصاص رازی رحمہ اللہ”سورة مائدة“کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

قولہ تعالی:﴿یا أیہا الذین آمنوا لا تتخذوا الیہود والنصاری أولیاء بعضہم أولیاء بعض﴾وفی ہذہ الآیة دلالة علی أن الکافر لا یکون ولیا للمسلم، لا فی التصرف ولا فی النصرة، ویدل علی وجوب البراء ة من الکفار والعداوة لہم؛ لأن الولایة ضد العداوة فإذا أمرنا بمعاداة الیہود والنصاری لکفرہم فغیرہم من الکفار بمنزلتہم، ویدل علی أن الکفر کلہ ملة واحدة، لقولہ تعالی:﴿بعضہم أولیاء بعض﴾.( أحکام القرآن للجصاص ت قمحاوی، سورة المائدة آیة 51 ، ج4 ص99)

ترجمہ:”اے ایمان والو! یہود ونصاری کودوست مت بناؤ، کیوں کہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں”اس آیت کریمہ میں یہ بات ذکرہے کہ کافرمسلمان کادوست نہیں بن سکتا،نہ معاملات میں نہ مدد میں،نیز یہ آیت کفارسے بے زاری اوران سے دشمنی رکھنے کی بھی تلقین کرتی ہے، کیوں کہ دوستی دشمنی کی ضد ہے،جب ہمیں یہود ونصاری کے ساتھ کفرکی بنیاد پردشمنی اورنفرت کرنے کاحکم ملاتوباقی کفارکابھی یہی حکم ہے،کیوں کہ تمام کفرایک ملت اوردین ہے،خداتعالیٰ فرماتے ہیں کہ:وہ آپس میں دوست ہیں(مسلمانوں کے دوست نہیں)۔

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کفار کے ساتھ(خاص کر محارب کفار) صرف عدم تعلق ہی کافی نہیں ہے، بلکہ (ضرورت کے موقع پر ) اظہار عداوت وبراء ت بھی ضروری ہے۔

غلط فہمی کی دوسری بنیاد

زیر بحث مسئلہ کی جو تعبیر اوپر ذکر کی گئی اور جس کو یہاں ادھورا قرار دیاگیا، اس کی ایک دوسری بنیاد بھی ہے،یہ بنیاد وہ جزئیات ہیں جن میں یہ صراحت ہے کہ اہل حرب کے ہاتھ کھانے پینے وغیرہ کی چیزیں فروخت کرنا جائز ہے اور روایات سے ثابت ہے، صرف اسلحہ وغیرہ جنگی سامان کا فروخت کرنا ہی ممنوع ہے، مثال کے طور پر”بدائع“میں ہے:

”ویکرہ بیع السلاح من أہل البغی وفی عساکرہم؛ لأنہ إعانة لہم علی المعصیة، ولا یکرہ بیع ما یتخذ منہ السلاح کالحدید ونحوہ؛ لأنہ لا یصیر سلاحا إلا بالعمل، ونظیرہ أنہ یکرہ بیع المزامیر․“(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب الغصب ، ج7 ص142)

ترجمہ:”باغی لوگوں پراوران کے لشکروں میں اسلحہ فروخت کرناجائزنہیں،کیوں کہ یہ گناہ کے کام میں ان کی امدادہے،البتہ لوہا وغیرہ چیزیں جن سے اسلحہ بنتاہے وہ فروخت کرسکتے ہیں،کیوں کہ وہ بنانے کے بعد ہی اسلحہ بنے گا(اوربناناان کاذاتی عمل ہوگا،بیچنے والے کی طرف اس کی نسبت نہ کی جائے گی)۔

”ہدایہ“میں ہے: ”ولا ینبغی أن یباع السلاح من أہل الحرب ولا یجہز إلیہم، لأن النبی علیہ الصلاة والسلام نہی عن بیع السلاح من أہل الحرب وحملہ إلیہم ولأن فیہ تقویتہم علی قتال المسلمین فیمنع من ذلک وکذا الکراع لما بینا وکذا الحدید لأنہ أصل السلاح وکذا بعد الموادعة لأنہا علی شرف النقض أو الانقضاء، فکانوا حربا علینا وہذا ہو القیاس فی الطعام والثوب إلا أنا عرفناہ بالنص فإنہ علیہ الصلاة والسلام أمر ثمامة أن یمیر أہل مکة وہم حرب علیہ.(الہدایة فی شرح بدایة المبتدی، کتاب السیر، ج2 ص382)

ترجمہ:”حربی کفارپراسلحہ بیچنا یاان کے لیے تیار کرنا ناجائز ہے، آپ صلی الله علیہ وسلمنے اہل حرب پراسلحہ فروخت کرنے، ان کے لیے لے جانے سے منع فرمایاہے،اسلحہ اورگھوڑے فروخت کرنامسلمانوں کے خلاف اسے مضبوط کرناہے لہٰذاجائزنہیں اورلوہے کابھی یہی حکم ہے،کیوں کہ اسلحہ اس سے ہی بنتاہے،صلح کے بعد اسلحہ فروخت کرنے کابھی یہی حکم ہے، کیوں کہ صلح کاکیابھروسہ؟! کل وہ اسے ہمارے خلاف استعمال کریں گے،قیاس کاتقاضا یہ ہے کہ کھانے پینے کے اشیاء کابھی یہ حکم ہو،تاہم نص میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ثمامہ کواہل مکہ کوبحالت حربی ہونے کے کھانافراہم کرنے کافرمایاتھا(اس وجہ سے عام حالات میں اہل حرب کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کی تجارت کی جاسکتی ہے)۔

ان جزئیات سے استدلال کرنا درست نہیں ، اسباب جنگ کے علاوہ اشیاء کی تجارت بہر صورت مباح نہیں ہے، بلکہ اس میں وہی تفصیل ہے جو”شرح سیر کبیر“کی ذکر کردہ عبارت سے معلوم ہوتی ہے۔

کافر کامال مسلمان خریدار سے خریدنا

بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جوکافر ممالک مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار ہوں،ان سے اسلامی ممالک کا کوئی مسلمان فرد/ادارہ مال خریدتا ہے اور پھر وہی وہ مال مسلمان ملک میں لوگوں کو فروخت کرتاہے، اب بہت سے لوگ اس سے مال خریدنے اور آگے فروخت کرنے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن غور کیاجائے تو ایسے مال خریدنے سے بہرحال ہی احتراز واحتیاط کرنا ہی مناسب معلوم ہوتاہے، کیوں کہ یہاں براہ راست تو کافر حربی سے عام مسلمانوں کو خریدنے کی نوبت نہیں آتی، لیکن انجام کار اس سے خریداری کا سلسلہ مضبوط ہوجاتاہے اور تجارتی بائیکاٹ نہ کرنے کی صورت میں جو شرعی خرابی سامنے آرہی تھی اور جس کی وجہ سے بائیکاٹ کرنے کو ضروری قرار دیاجارہاتھا، وہ یہاں بھی پوری طرح متحقق ہے، چناں چہ جب خریدار ملیں گے اور مال فروخت ہوتارہے گاتو متعلقہ مسلمان فرد یا ادارہ مزید مال خریدتارہے گا۔

حضرات فقہائے کرام نے فی الجملہ متعدد مسائل میں اس پہلو کا بھی لحاظ رکھا اور اس بنیاد پر متعدد معاملات کو ممنوع قرار دیاہے، چناں چہ جو شخص شاہراہ عام پر مال فروخت کرنا شروع کرے اور اس سے گزرنے والوں کو تکلیف ومشقت کا سامنا کرنا پڑے،اس سے اسی بنیاد پر کچھ خریدنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، ”فتاویٰ غیاثیة“میں ہے:
”من یبیع ویشتری علی الطریق ولم یضر قعودہ للناس لسعة الطریق لا بأس بہ، وإن أضر بہم فالمختار أنہ لا یشتری منہ لأنہ إذا لم یجد مشتریا لا یقعد فکان الشراء منہ إعانة علی المعصیة․“( الفتاوی الغیاثیة، کتاب البیوع،قبیل الباب السادس فی الاستقراض،ص153،مطبع بولاق)

”وکذافی الفتاوی الہندیة․“(الفتاوی الہندیة، الباب العشرون،البیاعات المکروہة ، ج3 ص210)

ترجمہ:”جوشخص راستے میں خریدوفروخت کرتاہے اوراس کااس مقصد سے بیٹھنالوگوں کے لیے باعث کلفت نہ ہوتوگنجائش ہے ،ورنہ صحیح قول کے مطابق اس سے خریداری درست نہیں،کیوں کہ جب کوئی خریداری نہیں کرے گاتووہ نہیں بیٹھے گا،لہٰذااس سے خریداری کرناگناہ کے کام میں اس کی مدد کرناہے“۔

ماضی کا ایک اہم فتوی

آج سے تقریباً پچاس سال پہلے”مجلس عمل“نے ایک سوال نامہ تیار کیا، جس کا تفصیلی جواب ملک کے مشہور صاحبِ علم وافتاء شخصیت حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ نے مرتب فرمایا، اس کے بعد برصغیر کے سینکڑوں اہل علم نے اس فتوی پر تائیدی دستخط فرمائے تھے۔ یہ سوال وجواب اصلاً تو قادیانی جماعت اوران کے ساتھ تعلقات رکھنے سے متعلق تھا لیکن اس فتوی سے زیر بحث مسئلہ کے بھی متعدد پہلو بالکل واضح ہو جاتے ہیں، اس فتویٰ میں یہ بھی تحریر فرمایاگیاہے:

”یہ واضح رہے کہ کفار محاربین جو مسلمانوں سے برسر پیکارہوں، انہیں ایذا پہنچاتے ہوں، اسلامی اصطلاحات کو مسخ کرکے اسلام کا مذاق اُڑاتے ہوں اور مارآستین بن کر مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے کے درپے ہوں، اسلام اُن کے ساتھ سخت سے سخت معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رواداری کی ان کافروں سے اجازت دی گئی ہے جومحارب اور موذی نہ ہوں۔” ورنہ کفار محاربین“ سے سخت معاملہ کرنے کا حکم ہے۔

علاوہ ازیں بسا اوقات اگر مسلمانوں سے کوئی قابل نفرت گناہ سرزد ہوجائے تو بطور تعزیر و تادیب ان کے ساتھ ترک تعلق اور سلام و کلام ونشست و برخاست ترک کرنے کا حکم شریعت مطہرہ اور سنت نبوی میں موجود ہے ،چہ جائیکہ کفار محاربین کے ساتھ… لیکن اگر مسلمان حکومت اس قسم کے لوگوں کو سزا دینے میں کوتاہی کرے یا اُس سے توقع نہ ہو تو خود مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ بحیثیت جماعت اُس قسم کی سزا کا فیصلہ کریں جو ان کے دائرہ اختیار میں ہو، الغرض ارتداد، محاربت، بغاوت، شرارت، نفاق،ایذا، مسلمانوں کے ساتھ سازش ،یہود و نصاریٰ وہنود کے ساتھ ساز باز ان سب وجوہ کے جمع ہوجانے سے بلاشبہ مذکور فی السوال فرد یا جماعت کے ساتھ مقاطعہ یا بائیکاٹ نہ صرف جائز، بلکہ واجب ہے، اگر مسلمانوں کی جماعت بہیئتِ اجتماعی اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے مقاطعہ یا بائیکاٹ جیسے ہلکے سے اقدام سے بھی کوتاہی کرے گی تو وہ عند اللہ مسئول ہوگی“۔( فتاوی بینات جلد 1ص 220)

تحریک ترک ِ موالات کا پس منظر

تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جو”تحریک ترکِ موالات“قائم ہوئی تھی جس میں مسلمانوں کے تقریباً تمام طبقات نے کسی نہ کسی حد تک حصہ لیاتھا اور جس کی سرپرستی اکابر علماء ِ ہند فرمارہے تھے، اس کے پس منظر میں بھی یہ بات موجود تھی، چناں چہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”رہا یہ شبہ کہ موالات اور چیز ہے اور معاملہ اور چیز ہے ۔آیات موالات کو منع کرتی ہے، تو میں کہوں گا کہ ہاں موالات اور معاملہ میں مفہوم کے لحاظ سے فرق ضرور ہے، لیکن موالات کے مفہوم میں قربت اور نزدیکی پیدا کرنے والے تعلقات اور باہمی نصرت اور معاونت کے تمام ارتباطات لغوی معنی کے لحاظ سے داخل ہیں، پس تمام ایسے معاملے جن کی وجہ سے دشمن کے ساتھ میل جول ربط واتحاد بڑھے، ایسے معاملے جو ان کی معاندانہ طاقت کو بڑھا ئیں، ایسے تعلقات (فوجی ملازمت وغیرہ)جو مسلمانوں کی ہلاکت اور شوکت اسلامیہ کے مٹانے میں دخل رکھتے ہوں، ایسے روابط جن کی وجہ سے انہیں موقع ملے کہ مسلمانوں کی رضامندی پر استدلال کرسکیں، ایسے مراسم جن سے ان کے ساتھ محبت اور الفت کا اظہار ہوتا ہے، براہ راست یا بالواسطہ موالات ممنوعہ محرمہ میں داخل ہیں ،حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو بغور دیکھا جائے اور فاروق اعظم کی ایمانی عینک سے مشاہدہ کیا جائے تو پھر کوئی شبہ واقع نہیں ہوسکتا۔“(خطبات جمعیت علماءِ ہند ،صفحہ:68)
واللہ اعلم بالصواب

مقالات و مضامین سے متعلق