رمضان کے بعد کی زندگی

idara letterhead universal2c

رمضان کے بعد کی زندگی

مفتی محمد راشد ڈسکوی

اللہ رب العزت کی جانب سے دنیا اور آخرت میں انسان کے عمل کے مختلف خوب صورت اور حوصلہ افزا ملنے والے معاوضوں کواس عمل کا ثواب کہتے ہیں۔ مثلاً: جب نماز کو اس کے مختلف مسائل کی پابندی کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے تو بدلے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے گناہوں سے رکنے اور رزق میں برکت ہونے جیسے انعامات دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان ماہ رمضان کو اس کے درست شرعی مسائل اور آداب کی رعایت سے بسر کرتا ہے تو دنیا میں اس کا ثواب یہ ہے کہ اس کے کردار میں تقوی آتا چلا جاتا ہے اور آخرت میں اللہ کی جانب سے وہ خصوصی اجر کا حق دار ہو جاتا ہے۔

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ جب ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․ (البقرة: 183)کا وعدہ موجود ہے، یعنی رمضان میں از خود یہ قوت پائی جاتی ہے کہ اس سے آدمی کے اندر تقوی پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے اعمال درست ہو جاتے ہیں تو پھر آدمی کو رمضان کے بعد کی زندگی کو سیکھنے اور اپنے اعمال کی درستی کی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

سمجھ لیا جائے کہ قرآن و حدیث کے ایسے وعدوں کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ مثلاً : رمضان کے بعد فرشتے روزہ دار کو زبردستی بازو سے کھینچ کر جوئے کے ڈیرے سے اٹھا کر نماز کے مصلےٰ پر کھڑا کر دیں گے۔ اور نہ ہی یہ ایسی سادہ بات ہے کہ جب ایک مہینہ روزانہ بار بار کچھ اعمال کو کیے جائیں تو جسم کو ان کی عادت ہو جائے گی۔ اور تقوی محض یہ بھی نہیں کہ پانچ وقت مسجد میں جانے کی عادت ہو جائے۔

دراصل تقویٰ تو قلب و روح کی پاکیزگی اور درستی کا ایک قدرتی نظام ہے۔ اس نظام میں ہر عبادت کے ذریعے اللہ پاک بندے کے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا فرماتے ہیں، جس سے اس کے لیے وہ کام کرنا آسان ہو جاتا ہے جنہیں عموماً سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چناں چہ رمضان کے روزوں سے بھی آدمی کے اندر دو ایسی صلاحیتیں قوت پاتی ہیں جو آدمی کو نیکی پر چلانے کے لیے کمان کی ڈوری کا کام کرتی ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ وہ صلاحیتیں کیا ہیں۔

رمضان میں شیاطین کے قید ہونے سے انسان میں گناہ سے بیزاری اور نیکی کا شوق بڑھتا ہے۔ اور پورے معاشرے میں جو ایک خاص ماحول اس ماہ مبارک میں بن جاتا ہے اس میں ان جذبات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ دیگر الفاظ میں، رمضان؛ انسان میں فرشتوں جیسی صِفَت کو ترقی دیتا ہے۔ فرشتوں کی اس صفت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ﴿لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾․(التحریم :6) اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس سے آدمی کے لیے اللہ کی اطاعت میں لگناقطعاًبوجھ نہیں رہ جاتااور گناہوں سے بچنا بھی مشکل محسوس نہیں ہوتا۔

اگر کسی کے دل پر اللہ کی جانب سے پردے نہ پڑ گئے ہوں توہر انسان کے دل میں نیکی سامنے آنے پر اس کے لیے رغبت اور برائی سامنے آنے پر اس سے بچنے کی یاددہانی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ یہ یاددہانی براہ راست الہام کے ذریعے ہو، کسی فرشتے کی پکار پر ہو یا خود اپنے ہی ضمیر کی بے چینی سے، ہوتی ضرور ہے۔ مثلاً: حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ ”دَعْ مَا یَرِیْبُکَ إِلَی مَا لَا یَرِیْبُکَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِیْنَةٌ وَّإِنَّ الْکَذِبَ رِیْبَة“․ (سنن الترمذي، الرقم:2518) ترجمہ: جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے، کیوں کہ سچ اطمینان (کا باعث) ہے اور جھوٹ بے چینی (کا باعث) ہے۔ اس کے بعد کسی کا دل اس یاد دہانی کو جلد قبول کر لیتا ہے، کسی کا کچھ دیر سے، کوئی اس یاد دہانی کے مطابق اپنے اعمال فوراً درست کر لیتا ہے کوئی کچھ دیر سے ۔ رمضان؛ دل کو اتنا حساس کر دیتا ہے کہ جب اللہ کا حکم سامنے آئے تو یہ فوراً اعضاء کو اس کی تعمیل کے لیے آمادہ کرتا ہے اور جب کوئی پر کشش گناہ سامنے آ جائے تو یہ دل فوراً اعضاء کو اس بچنے کی ہدایت کرتا ہے، جیسا کہ پرہیز گاروں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاہُمْ مُّبْصِرُوْنَ﴾․(الأعراف:201) جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ہے، انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو وہ (اللہ کو)یاد کرلیتے ہیں، چناں چہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

اب رمضان المبارک کے ذریعے اللہ حکیم کے اس تربیتی پروگرام کو ایک مثال سے سمجھیے۔ ایک زنگ آلود اور خستہ حال مشین کو اگر دوبارہ صاف ستھرا اور قابل استعمال بنا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب وہ از خود تمام کام کرنے لگے گی۔ بلکہ کاریگر کو ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے اور جن کاموں کے لیے اس مشین کو تیار کیا گیا ہے وہ کام اسی کو اس مشین سے لینے ہوں گے، بشرطیکہ اسے پتا ہو کہ یہ مشین کن امور کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اور اگر مشین کی کسی ضرورت، مثلاً: آئل کی تبدیلی، پانی کی کمی، شارٹ سرکٹ وغیرہ کی صورت میں کوئی میٹر یا الارم متنبِہ کرے تو یہ ضرورتیں کاریگر کو ہی متوجِہ ہو کر، پوری کرنی ہوں گی۔ اسی طرح؛رمضان کے ذریعہ ہمارے قلب و روح کی ایک تربیت درج بالا دو صلاحیتوں کی صورت میں کر دی گئی ہے، اب یہ ہمارا کام ہے کہ رمضان کے بعد، جب بھی دل میں نیکی کے لیے رغبت اور بدی کے خلاف کھٹکا پیدا ہو تو ہم پورے شعور سے متوجہ ہوں۔ اور اپنے جسم سے درست سَمت میں وہ کام لیں جن کے لیے رمضان میں اسے تیار کیا گیا ہے۔رمضان کا بنیادی ہدف انسان میں تقویٰ کی صفت کو پیدا کرنا اور اسے بڑھانا ہے۔

تقویٰ

تقوی: جس کے انعام کا وعدہ رمضان کے روزوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے، مؤمن کے کردار کے ہر پہلو کو سنوارنے اور اس کی حفاظت کرنے والی شے ہے۔ البتہ!اس کردار کے کچھ شعبے ایسے ہیں جن کی تقویت میں ان روزوں کا خاص اور براہ راست اثر ہے اور یہ شعبے پھر مؤمن کی باقی زندگی کو بالواسطہ متاثر کرتے ہیں۔ اب ہم ان شاء اللہ ذیل میں ان شعبوں کے بارے میں مختصر تعارف حاصل کریں گے، تاکہ انہیں بعد از رمضان نظر انداز نہ کیا جائے۔

تعلق مع اللہ

کہتے ہیں جس چیز کے لیے جان، مال اور وقت لگتا ہے اس کی اہمیت اور محبت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ مسلسل پورا ماہ جن مشقوں اور مشقتوں سے مسلمان گزرتا ہے یہ اس کی، اللہ کی ذات سے محبت و تعلق کو قوی تر کر دیتی ہیں۔ اللہ کی رِضا کے لیے بھوک برداشت کرنا، پیاس سہنا، بے آرام ہونا، سونے جاگنے میں اوقات کی بے ترتیبی اور روزمرہ کے گھر بار کے دھندوں کے ساتھ لمبی لمبی رکعتیں پڑھنا اور بسا اوقات یہ سب کچھ کرنے میں اپنے اَمراض کا بھی کچھ خیال نہ کرنا- یہ سب مشقتیں دیکھیے کہ ہمیں کس چیز کے لیے تیار کر رہی ہیں۔ اعتکاف کے زمانہ میں ساری دنیا اور اس کے ظاہری اَسباب سے کٹ کر اللہ ہی کا ہو رہنا اور طاق راتوں میں لیلة القدر کی تلاش بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، بلکہ یہ اس تعلق کو عروج پر پہنچانے والے اعمال ہیں۔

اچھا، پھر ان سب کے ساتھ ایک بڑی اہم بات! آدمی جسمانی تکالیف تو پھر بھی برداشت کر لیتا ہے، البتہ !ذہنی تکلیف اٹھانا اور وہ بھی ایسی جو سمجھ سے باہر ہو، یہ بہت مشکل کام ہے۔ اور جب ایسی تکلیف بلا سوچے سمجھے کسی کی محبت میں اٹھائی جائے تو پھر وہ محبت انتہائی اعلی درجے پر جا پہنچتی ہے۔ ذرا غور کیجیے؛ ایک عجیب سے وقت پر اٹھ بیٹھنا اور اس وقت نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ کھانا، پھر سارا دن اپنے حلال رزق اور حلال بیوی سے دور رہنا اور پھر سارے دن کے بعد عین آرام کے وقت ٹوٹے ہوئے جسم کو لے کر ایک طویل نماز کے لیے کھڑے ہو جانا؛ کیا اس میں بظاہر جان، مال اور وقت کا حرج نظر نہیں آتا؟ کیا عموماً ایسے طرز و ترتیب والے کو بے وقوف نہیں کہا جاتا؟ کیا پھر بھی اس ماہ میں یہ سب کچھ خوشی سے نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ سب باتیں سمجھ میں آنے والی ہیں؟ نہیں، تو کیا ایسا نہیں ہے کہ اس ماہ مقدس میں انسان کی عقل و سمجھ کو اللہ تعالی کی منشا کے تابع کر دیا گیا ہے اور ایک گوشت پوست کے کم زور خاکی جسم کو حیرت انگیز توانائیاں عطا کر کے اس رحیم و کریم دوست کی دوستی پر سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار کر دیا گیا ہے؟

اب رمضان کے بعد بھی اس تعلق کو ہمہ وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے اور ذاتی خواہشات سے اس کو بچاتے رہنے کی ضرورت ہے۔ یعنی: ہم ہر معاملے میں اللہ رب العزت کی منشا کو ترجیح دیں گے، اگرچہ بظاہر اپنا نقصان ہوتا ہوا نظر آئے اور اس کے دین کو ، سنت طریقے پر، اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں لانے کی کوشش کریں گے۔

اخلاص

اخلاص کا معنی ہے کسی شے کو ہر دوسری شے کی آمیزش سے پاک کر دینا۔ اصطلاحاً : امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ تعالی نے اخلاص کی تعریف فرمائی ہے کہ”فَحَقِیْقَةُ الْإخْلَاصِ؛ التَّبَرِّيْ عَنْ کُلِّ مَا دُوْنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ“․ (المفرادت في غریب القرآن: 1/293) یعنی اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی)کے علاوہ ہر ایک کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی)سے بری ہو جائے۔ اخلاص تمام اعمال کی بنیاد ہے؛ اس کے بغیر کوئی عمل میزان تک نہیں پہنچ سکتا۔

کسی کام میں عدمِ اخلاص کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اس کام کے کرنے میں دوسروں سے ممتاز معلوم ہو اور ایک دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اپنے کام کا بہتر معیار لوگوں کو دکھانے کا موقع ملے؛ وگرنہ دل میں یہ خیال ہی نہیں گزرتا کہ لوگ میری تعریف کریں۔ایک وجہ عدم اخلاص کی یہ بھی ہوتی ہے کہ آدمی کا کوئی دنیوی نفع اس کام سے جڑا ہوا ہو۔ اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

دیکھیے!سبحان اللہ کہ رمضان ؛کیسے ان تینوں وجوہات کو مٹاکر انسان کو اخلاص نیت کا موقع فراہم کرتا ہے:

ہر کوئی اسی ایک (روزہ رکھنے والے)کام میں لگا ہے۔ کوئی اپنی کارکردگی کی خوبی نہیں دکھا سکتا ۔ کام کے اختتام پر اللہ کے علاوہ کسی سے کچھ ملے گا بھی نہیں۔

دیکھیے!کیسے ایک مسلمان کو، صرف اللہ پاک کی رِضا کے لیے، مخلِص ہو جانے کی مشق سے گزارا جاتا ہے اور یہی کیفیت غیررمضان کا تقاضا بن جاتی ہے۔ یعنی اب جو بھی کام کیا جائے ، محض اللہ تعالی کو راضی کرنے کی غرض سے ہی کیا جائے۔ اور جب بھی کسی کام کے کرنے میں کوئی اور غرض سامنے آئے، ہم فوراً چوکنے ہو کر اپنی اصلاحِ نیت کی کوشش میں لگ جائیں۔ ہم ہر کام میں سے عدم اخلاص کی درج بالا تینوں وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ باقی ان شاء اللہ جب آدمی اخلاص کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ پاک بڑی رہ نمائی فرماتے ہیں۔

عبادات

اس سالانہ تربیتی پروگرام میں مؤمنین کی کام یابی کے لیے اللہ رب العزت نے ایک دل چسپ اُسلوب اختیار فرمایا ہے۔اللہ جل جلالہ نے مسلمان کو نیکیوں پر لانے اور گناہوں سے ہٹانے کے لیے ان سے متعلق ایسے امور کو بنیاد بنایا ہے جو عموماًبہت چھوٹے سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہ کہ نیکیوں کی تربیت کے لیے مسلمان کو ایسے امور پر کھڑا کیا ہے جو فرض نوعیت کے نہیں اور بعض گناہوں کی شدت کے پیش نظر اسے جائز اور حلال امور سے بھی روک دیا ہے۔ مثلاً:
آپ جانتے ہیں کہ نماز کی دین میں کتنی اہمیت بتلائی گئی ہے، چناں چہ اس کے قبیل سے تراویح کی نماز، جو کہ فرض درجہ کی نہیں، کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر حیثیت دے دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ پابندی لگا دی کہ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے متوجہ ہو کرغور سے سنو۔ اس طرح عبادتِ نماز کے ساتھ ایک قلبی لگاؤ پیدا کر دیا۔ بات صرف اتنی ہی نہیں، بلکہ نماز کو تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے دین میں ایسا بتلایا ہے جیسے جسم پر سرہوتا ہے: عن ابْن عمر رَضِی اللہ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”……إِنَّمَا مَوضِع الصَّلَاة من الدّین کموضع الرَّأْس من الْجَسَد“․ (الترغیب والترھیب، الرقم: 813) سو، جسے پورا ماہ روزانہ اس عبادت میں سے گزرتے ہوئے نماز کا شوق ہو گیا ہو اور رکوع و سجود کی لذت سے وہ آشنا ہو گیا ہو اور پھر رمضان گزرتے ہی وہ اس سے لاپروائی برتنے لگے تو اپناہی نقصان اور اپنی ہی کم بختی ہے۔

اسی طرح زبانِ رسالت سے مختلف الفاظ وانداز میں قرآن مجید کی تلاوت اوراذکار و استغفار کو اس مہینے سے مخصوص کر کے بڑی خوبی سے مسلمان کے قلب و زباں کو اللہ رب العزت کی یاد سے مانوس کر دیا گیا ہے۔مثلاً فرمایا: ”اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أَيْ رَبِّ! مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہَوَاتِ بِالنَّہَارِ، فَشَفِّعْنِي فِیْہِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ، فَشَفِّعْنِيْ فِیْہِ، قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ“. (مسند أحمد بن حنبل: 6626) ترجمہ: ”روزہ اور قرآن (دونوں) بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشِ نفس سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکے رکھا (اور تراویح میں یہ مجھے پڑھتا یا سنتا رہا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دونوں کی شفاعت (اس بندے کے حق میں)قبول کر لی جائے گی۔“

پھر اس یاد کے پھل کا سب سے بڑا حصہ اس فرد بشر کے لیے رکھا گیا ہے جو اس اللہ کریم کے عفو و کرم کی تلاش اور امید میں اپنے گھر، کارو بار، آرام اور ہر شے سے الگ ہو کراسی ذات کے توکل پر رمضان کے آخری عشرہ میں خود کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ اعتکاف اس کے لیے نفلی تھا، لیکن اس کی ترغیب اور پھراس کے شروع ہونے کے بعداس کے احکام کے ذریعہ اس کی اہمیت اتنی بڑھا دی گئی کہ یہ روزہ دار اب ان دِنوں میں مکمل طور پر اللہ پاک ہی کا ہو رہے، اسی کی لو لگی رہے۔ اس قرب کی لذت، جسے اللہ پاک عطا فرما دیں، الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔
اور یہی اس مشق کا تقاضا ہے کہ ماہِ رمضان کے علاوہ اپنی عمومی زندگی میں بھی ،ایمان والے ربِ کائنات پر مکمل توکل کرتے ہوئے دنیا اور اس کے دھندوں میں بقدر ضرورت ہی لگیں، اللہ اپنے غیب کے خزانوں سے ان شاء اللہ ان کے سب کام بنائے گا۔

انفاق فی سبیل اللہ

اسی طرح دین نے رمضان المبارک میں صدقة الفطر یعنی فطرانہ متعارف کرایا۔ یہ صدقہ صاحبِ حیثیت افراد پر، نماز عید الفطر سے پہلے پہلے، مستحقین کو ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ معاشرے میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور غرباء کی حاجت روائی کی عمومی فضا قائم کرنے کے لیے ، زکوة اور عام صدقہ سے ہٹ کر، شریعت ِمطہرہ نے فطرانہ میں چار دلچسپ خوبیوں کا اضافہ فرما دیا ہے۔

ایک یہ کہ اس صدقہ کے وجوب کے لیے صاحبِ مال کے مال پر ایک سال گزرنا ضروری نہیں؛ عید الفطر کے دن صبح صادق کے وقت حسب نصاب مال ملکیت میں آگیا، تو فطرانہ واجب ہو گیا۔

دوسری یہ: کہ شریعتِ حکیمانہ نے اس بات کی بھر پور ترغیب دی ہے کہ وہ لوگ جن پر فطرانہ واجب نہیں ہوتا وہ بھی اس کی ادائیگی کر دیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔

تیسری یہ کہ ادا کرنے والا محض اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اپنے زیر ِکفالت تمام افراد کی جانب سے صدقہ ادا کرے۔
اور چوتھی یہ: کہ اسی لیے لوگوں کی مختلف مالی حیثیت کے پیش نظر فطرانہ کی مختلف مقداریں مقرر فرمائی ہیں، تاکہ کوئی بھی کمانے والا اس صدقہ کی ادائیگی سے محروم نہ ہو۔ چناں چہ، جب زیادہ سے زیادہ لوگ اس صدقہ کی ادائیگی میں سے گزرتے اور مستحقین کی تلاش میں کھپتے ہیں تو یہ بھلائی محض امراء کے دائرہ تک محدود نہیں رہ جاتی، بلکہ پورے معاشرہ میں رواج پاتی ہے۔ ان مستحقین کے اندرونی حالات ان لوگوں پر بھی کھل جاتے ہیں جو پہلے ان سے بے خبر تھے۔ یہ خبر پھر رمضان کے بعد بھی ان کی دل جوئی، غم گساری اور مالی تعاون کے لیے معاشی طور پر ان سے بہتر طبقے کو ضرور اُکساتی رہتی ہے۔

انفاق فی سبیل الله کی صفت کو اندر پیدا کرنے کے لیے رمضان میں ہی ایک اور مشق، جو اس سلسلے میں مال دار مسلمان کو غریب مسلمان کے لیے فکر مند کرتی ہے، یہ ہے کہ اُس مالدار کو روزے کی حالت میں اُس کے اپنے رزق سے ہی گھنٹوں دور رکھ کر بھوک کے احساس میں سے گزارا جاتا ہے۔ اِس احساس میں سے غریب آدمی سارا سال گزرتا ہے، حالاں کہ اللہ پاک نے مالداروں کے رزق میں اس کے لیے ایک حصہ مقرر فرما رکھا ہے، فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ﴾ (المعارج: 24)”اور جن کے مال و دولت میں ایک متعین حق ہے،سوالی اور بے سوالی کا“۔ البتہ قانوناً یہ غریب آدمی اپنی مرضی سے اپنے اُس حصہ کو لے بھی نہیں سکتا۔ اب مال دار کو بھی اس غریب اور مستحق بندے کی طرح اِس احساس کا تھوڑا سا ذائقہ دیا جا رہا ہے کہ اِس مال دار روزے دار کے سامنے اِس کے اپنے گھر میں وہ رزق موجود ہے جس پر اِس کا اپنا مالکانہ حق ہے ،مگر روزہ کی وجہ سے یہ اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

سو، رمضان کی برکت سے پیدا ہونے والی اس مبارک کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے رمضان کے بعد والی زندگی میں بھی، حتی المقدور اللہ کے راستے میں، اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔

حیاء اور شائستگی

یہی مندرجہ بالا انداز معاشرے سے بے حیائی کے عمومی خاتمہ کے لیے اختیار کیا گیا ہے؛ یعنی: لوگ اپنے جائز ازدواجی تعلق میں بھی خود پر ایسا قابو حاصل کریں کہ کسی نامحرم کی طرف نظر نہ اٹھے۔ یہی ایک دل ہے جس میں نفسانی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہی ایک جسم ہے جس سے ان جذبات کی تکمیل ہوتی ہے۔ اب یہ جذبات مُثبت ہوں یا منفی، ان کا اظہار جائز راستہ سے ہو یا ناجائز راستہ سے، ہر صورت میں یہ جذبات پیدا اسی دل میں ہوں گے اور ان کا اظہار بھی اسی جسم سے ہو گا۔ لہٰذا جو شخص، مرد ہو یا عورت، با حیا بننا چاہے، وہ اپنے اندرونی اسی نظام پر قابو پانا اور اسے درست رخ پر استعمال کرنا سیکھے۔

ایک دوسری بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگر روزے کی حالت میں مثلاً: میاں بیوی حدود سے آگے بڑھیں تو کیا ان پر بجلی آ گرے گی یا وہ زمین میں دھنس جائیں گے؟ نہیں، اللہ کا عمومی ضابطہ تو ایسا نہیں۔ توپھر ان دونوں میاں وبیوی کو باوجود تنہائی کے کئی مواقع ملنے کے ان کے حدود سے آگے بڑھنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ توجان لیجیے کہ یہ تو دراصل اس ذاتِ اکبر کی ناراضی کا خوف ہے ،جو ہر کسی کو نا فرمانی سے روکے رکھتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ سارا سال یہ خوف ہر نا فرمانی کے موقع پر قائم رہنا چاہیے۔

ان دونوں باتوں کی مشق رمضان میں کرائی جاتی ہے، یعنی: دل میں اللہ پاک کی ناراضی کا خوف رکھنا اور اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ یہ اس تفصیل کا موقع نہیں ہے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ افراد کے لیے اس سلسلہ میں روزے کے مکروہات و مفسدات کے کیا کیا احکام ہیں؛ یہاں بس یہ اشارہ دینا مقصود ہے کہ ان احکام سے اللہ تعالی ہمارے لیے سختی نہیں، بلکہ ہماری تربیت فرمانا چاہتے ہیں۔ چناں چہ ہم سارا سال اپنی زندگیاں پاکیزہ طور پر گزارنے کے لیے اس تربیت میں سے شعوری طور پر گزریں، صرف یہی نہیں کہ جناب! بڑی مشکل سے کچھ ضابطوں کی پابندی کر لی ہے اور ہر دفعہ کی طرح بس روزے رکھ لیے ہیں ۔ اب سوچیں کہ اس مشق کے اعلی تربیت یافتہ شخص کے سامنے جب رمضان کے بعد کسی شیطانی حملے کے موقع پر اندر سے یہ آوازیں پیدا ہوں گی کہ:﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾․ (النور:30)مؤمن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔ اور﴿وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی․ فَاِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَاْوٰی﴾․ (النازعات:40) لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا؛ تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی ، تو کیا یہ شخص ان شاء اللہ اس امتحان سے کام یابی سے گزر نہیں جائے گا؟! یہ تربیت ان شاء اللہ اس وقت کام آئے گی اور یہ اندر کی آواز کو پہچاننا، سمجھنا اس تربیت کے لیے مفید ہو گا۔ کسی معاشرے کا حسن، اس کی صفت ”حیا“ ہے، جب کہ اس کی کمی اللہ تعالی کے غضب کو متوجہ کرنے کا سبب ہے اور مذکورہ طریقے سے ان شاء اللہ اس غضب کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔

اَخلاق اور حسن معاشرت

زیر مطالعہ یہی اسلوبِ تربیت ایک مسلمان کے انفرادی اَخلاق کی تعمیر اور اجتماعی حسن معاشرت میں بھی کارفرما ہے۔ ایک بہت چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائی جائے ۔ عام دنوں کی طرح رمضان میں بھی لوگوں کے گھر اور کاروبار کی ذمہ داریوں کے اوقات کار مختلف ہی ہوتے ہیں، پھر بھی اس ماہ میں روزانہ ہر کھانے کے وقت گھر کے تمام افراد اکٹھے ایک دستر خوان پر موجود ہوتے ہیں۔ تو کیا اس ترتیب کو اپنی عمومی زندگی میں لاگو کرنے سے ہر کنبے کے افراد میں باہمی محبت اور تعلق میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہو گا؟!

اسی طرح اس ماہ عظیم میں بظاہر معمولی دِکھنے والی کوتاہیوں کو بنیاد بنا کر بڑی بڑی اَخلاقی برائیوں کی صفائی کر دی گئی ہے۔ مثلاً: غیبت؛ ایک عام مسلمان سات پردوں میں بھی شراب کو ہاتھ نہیں لگاتا، مگر اس کے لیے غیبت کرنا، بیت اللہ میں بیٹھ کر بھی آسان ہے۔ غیبت کے متعلق قرآن وسنت عَلٰی صَاحِبِہِمَا الصَّلٰوةُ وَالسَّلَام میں واضح ارشادات موجود ہیں، پھر بھی اسے رمضان کے ساتھ خصوصی طور پر جوڑا کیا گیا۔ دو صحابیات رضی اللہ عنہما کو روزہ میں حالت غیر ہونے کے باعث قے کروائی گئی اور ان کے اندر سے تازہ گوشت کے لوتھڑے نکلے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی اس حالت کا سبب یہ بتایا کہ وہ دونوں سارا دن لوگوں کی غیبت میں مصروف رہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ حکم دیا کہ وہ ایک دن روزہ رکھیں اور جب تک میں اجازت نہ دوں اس وقت تک کوئی روزہ افطار نہ کرے۔ لوگوں نے روزہ رکھا جب شام ہوئی تو ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کی : میں سارے دن روزے سے رہا ہوں، آپ مجھے افطار کی اجازت دیں، آپ نے اس کو افطار کی اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا آپ کے گھر کی دو کنیزیں صبح سے روزے سے ہیں، آپ انہیں بھی افطار کی اجازت دیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص سے اعراض کیا۔ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا روزہ نہیں ہے، ان لوگوں کا روزہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتے رہے ہوں، جاؤ انہیں جاکر کہو اگر وہ روزہ دار ہیں تو قے کریں، انہوں نے قے کی تو ہر ایک سے جما ہوا خون نکلا۔ اس شخص نے جاکر حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :” اگر وہ مرجاتیں اور وہ جما ہوا خون ان میں باقی رہ جاتا تو دونوں کو دوزخ کی آگ کھاتی“۔(مسند أبي داوٴد الطیالسي، الرقم: 2221)

گویا قرآن مجید نے جو اس گناہ کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا قرار دیا ہے، تو روزے کے دوران اس واقعہ سے اس بات کی عملی تشریح لوگوں کے سامنے آ گئی۔ یہ واقعہ اور ایسے ہی کچھ دیگر واقعات کی بنا پر کچھ فقہا یہاں تک گئے ہیں کہ غیبت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

پھر اتنا ہی نہیں کہ آدمی کسی سے بد زبانی نہ کرے، بلکہ یہاں تک ترغیب دی گئی کہ اگر کوئی تم سے جھگڑنے لگے تو اس سے کہہ دو کہ بھئی! میرا روزہ ہے؛ یعنی مجھ سے جھگڑا نہ کرو یا یہ کہ میں جھگڑنا نہیں چاہتا۔ اس کے ساتھ ساتھ روزے کی اپنی کیفیات میں ایسا تأثر رکھ دیا کہ خود ہی کسی سے زائد بات کرنے سننے کو جی نہ چاہے۔
اس کے علاوہ خصوصی حکم جاری کیا گیا کہ رمضان میں روزہ داروں کی مشقت کم کر دی جائے۔ اس کا معنی محض یہ نہیں ہے کہ اپنے ملازمین کے اوقات کار کم کر دیے جائیں، بلکہ اس کی وسعت میں تھوڑا غور کر کے دیکھیں؛ باہمی احسان و شکر گزاری، ہم دردی، ایثار، محبت، رشتوں کی قدر و قربت اور احساس کی مٹھاس اس حکم میں پائی جاتی ہے۔ مختصر اشارے سے یوں سمجھیے کہ اپنے گھر میں اور گھر سے باہر اپنے تمام ماتحتوں سے ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ جتنا ہو سکے ہلکا کر دیجیے اور اپنے سر پرستوں سے مطالبات جتنا ہو سکے کم کر دیجیے۔ شاید یہ ہے روزہ دار کی مشقت کم کرنے کا مفہوم اور اگر یہی ہے تو ان لوگوں کا تصور کیجیے جو ان اخلاق کو اپنے مزاج کا حصہ بنا کر رمضان کلاس سے نکل رہے ہیں کہ وہ کیسا خوب صورت معاشرہ تشکیل دیں گے۔

شریعتِ حَسَنہ کی یہ چھوٹی چھوٹی ترغیبات ہم سے تقاضا کر رہی ہیں کہ ہم یکم شوال سے اپنی زندگی کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنت کی روشنی میں ان صفات کے مطابق ڈھالیں۔

یہ کچھ معروضات اپنے منتشر خیالات میں سے ایک جگہ ترتیب دے دی گئی ہیں۔ یہی نہیں، اہل علم و تقوی تھوڑی سی جستجو کر لیں تواس سمندر کی تہوں سے اور بھی کئی گوہر نکالے جا سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد تو محض اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ ہم اس پر غور کریں کہ یہ مبارک و محترم مہینہ کن کن طریقوں سے ہماری تربیت کرتا ہے۔ اور پھر اس تربیت کی روشنی میں یہ غور کریں کہ اب آئندہ کے زمانہ میں یعنی: رمضان کے بعد اگلے رمضان تک کے زمانہ میں ہم پر عمومی طور پر ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں کے بارے میں کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی حکمتوں سے آشنا فرمائے اور اخلاص و احسان سے پُر اعمال کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔

مقالات و مضامین سے متعلق