نمازتراویح سے متعلق ضروری مسائل

نمازتراویح سے متعلق ضروری مسائل

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔کل تروایح حنفیہ کے نزدیک بیس رکعت ہیں اوران کو جماعت سے پڑھنا سنت ہے ،اگر تمام اہلِ محلہ تراویح چھوڑ دیں تو سب ترکِ سنت کے وبال میں گرفتار ہوں گے ۔

قال العلامۃ الحلبي:''(تنبیہ)...إن التراویح...عندنا عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات،وھو مذہب الجمہور''.(الحلبي الکبیر، فصل في النوافل،التراویح ،ص:٤٠٦،سہیل اکیڈمی، لاہور)
إن الجماعۃ فیھا سنۃ (علی سبیل الکفایۃ، حتی لو ترک أھل محلۃ کلھم الجماعۃ) وصلوا في بیوتھم فقد ترکوا السنۃ وقد أساؤا في ذلک ؟(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل: التراویح :ص ٤٠٦،سہیل اکیڈمی،لاہور)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔گھر پر تراویح کی جماعت کرنے سے بھی فضیلت حاصل ہو جائے گی لیکن مسجدمیں پڑھنے کا جو ستائیس درجہ ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔
وإن صلی (أحد في بیتہ بالجماعۃ) حصل لھم ثوابھا وأدرکوا فضلھا، ولکن (لم ینالوا فضل الجماعۃ) التي تکون (في المسجد) لزیادۃ فضیلۃ المسجد، وتکثیر جماعتہ، وإظھار شعائر الإسلام؟ (الحلبي الکبیر: فصل في النوافل: التراویح، ص٤٠٢، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ تراویح کی جماعت عشاء کی جماعت کے تابع ہے (لہٰذا عشاء کی جماعت سے پہلے جائز نہیں)اور جس مسجد میں عشاء کی جماعت نہیں ہوئی وہاں تراویح کو بھی جماعت سے پڑھنا درست نہیں۔
''قال العلامۃ الحلبي:: وفي القنیۃ :لوترکوا الجماعۃ في الفرض ،لیس لھم أن یصلوا التراویح جماعۃ؛ لأنھا تبع للجماعۃ''.(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل: فروع:ص٤١٠، سھیل اکیڈمی لاہور)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ایک شخص تراویح پڑھ چکا امام بن کر یا مقتدی ہو کر، اب اسی شب میں اس کو امام بن کر تراویح پڑھنا درست نہیں ، البتہ دوسری مسجدمیں اگر تراویح کی جماعت ہو رہی ہے تو وہاں (نفل کی نیت سے ) شریک ہونا بلا کراہت جائز ہے ۔
ولو أم رجل في التراویح ثم اقتدی بآخر في تراویح تلک اللیلۃ أیضا لا یکرہ لہ ذلک کما لوصلی المکتوبۃ إمام ثم اقتدی فیھا متنفلا بإمام آخر وھذا لأن صلوۃ النفل غیر التراویح ولوأم في التراویح مرتین في مسجد واحد کرہ، وکذا لو صلاہا مرتین مأموما في مسجد واحد، وإن في مسجدین اختلف فیہ حکي عن أبي بکر الإسکاف أنہ لایجوز:یعني لایجوز تروایح أھل المسجد الثاني، واختارہ أبو اللیث رحمہ اللّٰہ تعالی.وقال أبوالنصر: یجوز لأھل  المسجدین جمیعا کما لو أذن وأقام ولم یصل، فکذا في التراویح والظاہر أن ھذا بناء علی صحۃ التراویح بنیۃ النفل المطلق وعدمھا''. (الحلبي الکبیر ،فصل في النوافل والتراویح، ص:٤٠٨، سھیل اکیڈمی، لاہور)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ایک امام کے پیچھے فرض اور دوسرے کے پیچھے تراویح اور وتر پڑھنا بھی جائز ہے ۔
کما لو صلی المکتوبۃ إمام ثم اقتدیٰ فیھا متنفلا بإمام آخر وھذا لأن صلاۃ النفل غیر التراویح. (الحلبي الکبیر، فصل في النوافل والتراویح: ص ٤٠٨، سھیل اکیڈمی، لاہور)
وفي الھندیۃ:جازأن یصلي الفریضۃ أحدھما والتراویح الآخر وقد کان عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ،یؤمھم في الفریضۃ والوتر وکان أبيّ رضي اللّٰہ عنہ، یؤمھم في التراویح،کذا في السراج'.(الھندیۃ: فصل في التراویح:١/١١٦؛ رشیدیہ)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔کسی مسجد میں ایک مرتبہ تراویح کی جماعت ہو چکی تو دوسری مرتبہ اسی شب میں وہاں تراویح کی جماعت جائز نہیں لیکن تنہا تنہا پڑھنا درست ہے ۔
ولو صلو التراویح ،ثم أرادوا أن یصلوا ثانیا ،،یصلون فرادی،انتھی.(البحر الرائق ،باب الوتر والنوافل: ٢/١٢٠، رشیدیہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔نابالغ کو تراویح کے لیے امام بنانا درست نہیں ۔ البتہ اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو جائز ہے۔
(وإذا بلغ الصبي عشر سنین فأم) البالغین (في التراویح یجوز وذکر في بعض الفتاوی أنہ لا یجوز وھو المختار) وقال شمس الأئمہ السرخسی: ھوالصحیح''۔ (الحلبي الکبیر: فصل في النوافل والتراویح، ص:٤٠٨، سھیل اکیڈمی لاہور)
وإن أم (أي الصبي) الصبیان یجوز، لأن صلاۃ الإمام مثل صلاۃ المقتدي. (فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم فصل في إمامۃ الصبیان في التراویح: ١/٢٤٣،رشیدیہ)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر اپنی مسجد کا اما م قرآن شریف غلط پڑھتا ہو تو دوسری مسجد میں تراویح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔

قال الإمام: إذا کان إمامہ لحانا،لابأس بأن یترک مسجدہ ویطوف.(الفتاویٰ العالمگیریۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح: ١/١١٦، رشیدیہ)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اجرت مقرر کر کے امام کو تراویح کے لیے بلانا مکروہ ہے ۔
ویکرہ للرجال أن یستأجروا رجلا یؤمہم في بیتہم؛ لأن استئجار الإمام فاسد .(الفتاوی العالمکیریہ: الباب التاسع فصل في التراویح: ١/١١٦، رشیدیہ)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ہر ترویحہ پر یعنی چار رکعت پڑھ کر اتنی ہی دیر یعنی چار رکعت کے موافق جلسہ استراحت مستحب ہے، (اسی طرح پانچویں ترویحہ کے بعد وتر سے پہلے بھی جلسہ مستحب ہے، لیکن اگر مقتدیوں پر اس سے گرانی ہو تو نہ بیٹھے ۔
ویستحب الجلوس بین الترویحتین قدر ترویحۃ وکذا بین الخامسۃ والوتر. کذا في الکافي، وہکذا في الہدایۃ. ولو علم أن الجلوس بین الخامسۃ والوتر یثقل علی القوم لا یجلس، ہکذا في السراجیۃ. (الفتاویٰ الھندیۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح: ا/١١٥، رشیدیہ)
اور اتنی دیر تک اختیار ہے کہ تسبیح ،قرآن شریف،نفلیں جو دل چاہے پڑھتا رہے ،اہلِ مکہ کا معمول طواف کرنے اور دو رکعت نفل پڑھنے کا ہے اور اہلِ مدینہ کا معمول چار رکعت پڑھنے کا ۔
فیجلس بین کل ترویحتین مقدار ترویحۃ وھو مخیر فیہ إن شاء جلس ساکتا وإن شاء ھلل أو سبّح أوقرأ أوصلی نافلۃ منفردا۔۔۔۔۔۔، فإن عادۃ أھل مکۃ أن یطوفوا بعد کل أربع أسبوعا ،ویصلوا رکعتي الطواف، وعادۃ أھل المدینۃ أن یصلوا أربع رکعات: (الحلبي الکبیر: فصل في النوافل، التراویح: ص ٤٠٤، سھیل اکیڈمی لاہور)
اور یہ دعا بھی منقول ہے :
''سبحان ذي الملک والملکوت،سبحان ذي العزۃ والعظمۃ والقدرۃ والکبریاء والجبروت،سبحان الملک الحي الذي لایموت،سبوح، قدوس،رب الملائکہ والروح ، لا إلہ إلا اﷲ، نستغفر ﷲ نسألک الجنۃ، ونعوذ بک من النار''.(ردالمختار: کتاب الصلاۃ، باب الوتر النوافل مبحث صلاۃ التراویح: ٢/٤٦، سعید)

مسئلہ ۔۔۔۔۔۔دس رکعت پر جلسہ  استراحت کرنا مکروہ تنزیہی ہے ۔
(وإن استراح علی خمس لتسلیمات: أي عقب عشر رکعات(قال بعضھم: لابأس بہ): أي لایکرہ(وقال أکثر المشایخ: لایستحب) ذلک لمخالفۃ عمل أھل الحرمین. وقولہ: لایستحب کنایۃ عن الکراھۃ التنزیھیۃ.(الحلبي الکبیر: فصل في النوافل، التراویح، ص: ٤٠٤، سھیل اکیڈمی لاھور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ہر شفعہ کے بعد دو رکعت علیحدہ علیحدہ پڑھنا بدعت ہے۔
ومن المکروہ ما یفعلہ بعض الجھال من صلوۃ رکعتین منفردا بعد کل رکعتین؛ لأنھا بدعۃ. (الحلبي الکبیر، فصل في النوافل: التراویح، ص: ٤٠٤، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔کوئی شخص مسجد میں ایسے وقت پہنچا کہ تراویح کی جماعت شروع ہو گئی تھی تو اس کو چاہیے کہ پہلے فرض اور سنتیں پڑھے  اس کے بعد تراویح میں شریک ہو ۔
لودخل بعد ما صلی الامام الفرض وشرع في التراویح، فإنہ یصلي الفرض أولاً وحدہ ثم یتابعہ في التراویح. (الحلبي: فصل في النوافل، التراویح ص ٤١٠، سھیل اکیڈمی، لاہور)
اور چھوٹی ہوئی تراویح دو ترویحوں کے درمیان جلسہ کے وقت پوری کر لے ،اگر موقعہ نہ ملے تو وتروں کے بعد پڑھے اور وتروں یا تراویح کی جماعت چھوڑ کر تنہا نہ پڑھے۔
وإن فاتتہ مع الإمام(ترویحۃ أو ترویحتان)أوأکثرھل یقضیھاقبل الوترأو یوترثم یقضیھا؟(ذکرہ في الذخیرۃ)فقال:اختلف المشایخ في زماننا قال بعضھم:یوتر مع الإمام ثم یقضي مافاتہ من التراویح إحرازا لفضیلۃ الوتربالجماعۃ مع أن التراویح تجوزبعدہ،(وقال بعضھم: یصلي التراویح المتروکۃ ثم یوتر)بناء علی أن وقتھا قبل الوتر، فیلزم تقدیمھا علیہ(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل،التروایح،ص:٤٠٤، سھیل اکیڈمی،لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر بعد میں معلوم ہوا کہ کسی وجہ سے عشاء کے فرض صحیح نہیں ہوئے،مثلاً: امام نے بغیر وضو کے پڑھائے یا کوئی رکن چھوڑ دیا تو فرضوں کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرنا چاہیے،اگر چہ یہاں وہ وجہ موجود نہ ہو۔
ولو صلی العشاء بإمام أي مع إمام أو مقتدیا بإمام (وصلی التراویح بإمام آخر، ثم علم أن الإمام) الأول کان قد (صلی العشاء علی غیر وضوئ) أو علم فسادھا بوجہ من الوجوہ فإنہ (یعید العشائ) لفسادھا (و) یعید (التراویح) تبعا لھا کما یعید سنتھا، ولا یلزمہ إعادۃ الوتر''. (الحلبي الکبیر: فصل في النوافل، التراویح، ص:٤٠٣، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔قیامِ لیلِ رمضان یا تراویح یا سنتِ وقت یا صلوۃ امام کی نیت کرنے سے تراویح ادا ہو جائیں گی۔
إن نوی التراویح أو سنۃ الوقت أو قیام اللیل في رمضان جاز.(فتاوی قاضیخان علی ھامش الھندیۃ:کتاب الصوم،فصل في نیۃ التراویح:١/٣٣٦،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔مطلقاً نماز یا نوافل کی نیت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔
إن التراویح لا تتأدی إلا بنیۃ التراویح أو بنیۃ السنۃ في ھذا الوقت.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم،فصل في نیۃ التراویح: ١/٢٣٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر کسی نے عشاء کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں اور امامِ تراویح کے پیچھے سنتِ عشاء کی نیت کر کے اقتدا کی، تو یہ جائز ہے۔
ولو اقتدی بإمام في التراویح والمقتدي نوی سنۃ بأن لم یکن صلی السنۃ بعد العشاء حتی قام الإمام إلی التراویح جاز.(فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم، فصل في نیۃ التراویح: ١/٢٣٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر اما م دوسرا یا تیسر ا شفعہ پڑھ رہا ہے اور کسی مقتدی نے اس کے پیچھے پہلے شفعہ کی نیت کی،تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ولو اقتدی بإمام یصلي التسلیمۃ الثانیۃ أو العاشرۃ والمقتدي نوی التسلیمۃ الأولی أو الخامسۃ جاز؛لأن الصلوۃ واحدۃ، ولیس علیہ أن ینوي التسلیمۃ الأولی أو الثانیۃ .(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ،کتاب الصوم،فصل في نیۃ التراویح: ١/٢٣٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر تراویح کسی وجہ سے فوت ہو جائیں تو ان کی قضاء نہیں ،نہ جماعت کے ساتھ،نہ بغیر جماعت کے ،اگر کسی نے قضاء کی تو تراویح نہ ہوں گی،بلکہ نفلیں ہوں گی۔
وإذا فاتت التراویح لا تقضی بجماعۃ والأصح أنھا لاتقضی أصلا، فإن قضا ھا وحدہ ،کان نفلا مستحبا لاتراویح کسنۃ المغرب والعشائ.(البحر الرائق،کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل: ٢/١١٩، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر یاد آیا کہ گذشتہ شب کوئی شفعہ تراویح کا فوت ہو گیا یا فاسد ہو گیا تھا تو اس کو بھی جماعت کے ساتھ تراویح کی نیت سے قضاء کرنا مکروہ ہے۔
وإن تذکر في اللیل أنہ فسد علیھم شفع من اللیلۃ الماضیۃ فأرادالقضاء بنیۃ التراویح ،یکرہ.(فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم، فصل في وقت التراویح:١/٢٣٦،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا،بلکہ چار پڑھ کر قعدہ کیا تو یہ اخیر کی دو رکعت تراویح میں شمار ہوں گی اور پہلی والی دو رکعتوں میں جو قرآن کریم کا حصہ پڑھا گیا تھا اسے دوبارہ پڑھا جائے۔اس لیے کہ پہلی والی دو رکعتیں ادا نہیں ہوئیں۔
(وإن صلی أربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ) والحال (أنہ لم یقعد علی رکعتین) منھا قدر التشھد (تجزي) الأربع (عن تسلیمۃ واحدۃ): أي عن رکعتین عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف (وھو المختار) فإذا ترکھا،کان ینبغي أن تفسد صلاتہ أصلا۔۔۔۔۔۔ وھوالقیاس، وإنما جاز استحسانا، فأخذنا بالقیاس في فساد الشفع الأول، وبالاستحسان في حق بقاء التحریمۃ، وإذا بقیت صح شروعہ في الشفع الثاني، وقد أتمہ بالقعدۃ، فجاز عن تسلیمۃ واحدۃ. (الحلبي الکبیر، فصل في النوافل، التراویح، ص: ٤٠٨، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر وتر پڑھنے کے بعد یاد آیا، ایک شفعہ مثلاً رہ گیا،تو اس کو بھی جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔(کبیری)
(ولو تذکروا تسلیمۃ کانوا قد سھواعنھا، فتذکروھا(بعد)ماصلوا صلاۃ(الوتر)قال أبوبکر بن الفضل:لایصلون بجماعۃ؛لأنھا فاتت عن محلھا، والجماعۃ إنما شرعت في التراویح إذا کانت في محلھا وقال الصدر الشھید:یجوزأن یقال:تصلي تلک التسلیمۃ بجماعۃ؛ لأن وقتھا باق؛ لأنہ اللیل کلہ بعد العشاء وبعد الوتر.(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل،التراویح،ص: ٤٠٩،سھیل اکیڈمی لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر بعد میں یاد آیا کہ ایک مرتبہ صرف ایک ہی رکعت پڑھی گئی اور شفعہ پورا نہیں ہوا اور کل تراویح انیس ہوئی ہیں تو دو رکعت اور پڑھ لی جائے ،یعنی صرف شفعہئ فاسدہ کا اعادہ ہوگا اور اس کے بعد کی تمام تراویح کا اعادہ نہ ہوگا۔
(ولو سلم الإمام علی رأس رکعۃ ساھیاً في الشفع الأول) من التراویح (ثم صلی مابقي) منھا (علی وجھھا) قیل: أن یعید ذلک الشفع (قال مشایخ بخاري: یقضی الشفع الأول لاغیر؛ لأن کل شفع صلوۃ علی حدۃ. (الحلبي الکبیر: فصل في النوافل، التراویح، ص: ٤٠٩، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔جب شفعہ  فاسدہ کا اعادہ کیا جائے تو اس میں جس قدر قرآن شریف پڑھا تھا،اس کا بھی اعادہ کرنا چاہیے تا کہ تمام قرآن شریف صحیح نماز میں ختم ہو۔
وإذا فسد الشفع من التراویح وقت قرأ فیہ ھل یعتد بما قرأ؟ قال بعضھم: لا یعتد، لیحصل الختم في الصلوٰت الجائزۃ.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم، فصل في مقدار القراء ۃ في التراویح:١/٢٣٨، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر تمام نمازیوں اور امام کو شک ہوا کہ 18تراویح ہوئی ہیں یا بیس پوری ہوگئیں تو دو رکعت بلا جماعت اور پڑھ لی جائیں۔
(وإذا ا شکوا): أي الإمام والقوم (في أنھم) ھل (صلوا تسع تسلیمات) ثمانیۃ عشر رکعۃ (أو عشر تسلیمات؟ ففیہ اختلاف:والصحیح أنھم یصلون بتسلیمۃ)أخریٰ (فرادی) للاحتیاط في الموضعین إکمال التراویح بیقین والاحتراز عن التنفل الزائد علیھا بالجماعۃ، ھذا إذا اتفق الکل علی الشک.(الحلبي کبیر:فصل في النوافل التراویح: ص ٤٠٥، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر تمام مقتدیوں کو تو شک ہوا،لیکن امام کو شک نہیں ہوا،بلکہ کسی ایک بات کا یقین ہے تو وہ اپنے یقین پر عمل کرے اور مقتدیوں کے قول کی طرف کوئی توجہ نہ کرے ۔
وإذا کان الإمام وحدہ في طرف وھومتیقین عمل بماعندہ ولایلتفت إلی قول الجماعۃ.(الحلبي الکبیر،فصل في النوافل،التراویح، ص:٤٠٦، سھیل اکیڈمی،لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر بعض کہتے ہیں کہ بیس پوری ہوگئیں اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں ،بلکہ اٹھارہ ہوئی ہیں ،تو جس طرف امام کا رجحان ہو اس پر عمل کرے ۔
فإن اختلفوا وکان الإمام مع بعضھم ،رجح إذا ادعی کل فریق الیقین.(الحلبي الکبیر، فصل في النوافل، التراویح، ص: ٤٠٥، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر اٹھارہ پڑھ کر امام سمجھا کہ بیس پوری ہوگئیں اور وتروں کی نیت باندھ لی ،مگر دو رکعت پڑھ کر یاد آیاکہ ایک شفعہ تراویح کا باقی رہ گیا ہے ،جب ہی دو رکعت پر سلام پھیر دیا ،تو یہ شفعہ تراویح کا شمار نہ ہوگا۔
ولو صلی من التراویح تسع تسلیمات، وشرع في الوتر فاقتدی بہ رجل في الوتر، ثم علم الإمام أنہ صلی تسع تسلیمات،لم یجز للمقتدي مانوی؛لأنہ نوی التراویح، والإمام نوی الوتر۔۔۔ھذا بناء علی أن التراویح لا تتأدی إلا بنیۃ التراویح أو بنیۃ السنۃ في ھذا الوقت. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ،کتاب الصوم، فصل في نیۃ التراویح: ١/٢٣٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر کسی کی صبح کی نماز قضاء ہوگئی تھی ،اس کی نیت سے تراویح پڑھی ،تو یہ تراویح ادا نہ ہوں گی۔
ولو صلی التراویح بنیۃ الفوائت من صلاۃ الفجر لم تکن محسوبۃ عن التراویح. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ، کتاب الصوم، فصل في نیۃ التراویح:١/٢٣٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر تین رکعت پر سلام پھیر دیا تو دو رکعت پر اگر بیٹھ چکا تھا تب تو ایک شفعہ صحیح ہوگیا(یعنی دو رکعتیں ہوگئیں)اور چوں کہ دوسرا شفعہ شروع کر چکا تھا ،اس لیے اس کی قضاء ہوگی۔
وإن صلی ثلاث رکعات بتسلیمۃ واحدۃ، فھو علی وجھین: إما إن قعد في الثانیۃ أولم یقعد،فإن قعد جاز عن تسلیمۃ واحدۃ ویجب علیہ قضاء رکعتین؛ لأنہ شرع في الشفع الثاني بعد إکمال الشفع الأول فإذا أفسد الشفع الثاني بترک الرابعۃ،کان علیہ قضاء رکعتین.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ؛ کتاب الصوم، فصل في السھو: ١/٢٤٠، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر وہ دو رکعت پر نہیں بیٹھا تو پہلا شفعہ بھی صحیح نہیں ہوا(یعنی پڑھی گئی دورکعتیں نہیں ہوئیں)،لہٰذا اس کی قضاء ضروری ہے۔
وإن لم یقعد في الثانیۃ ساھیاً أو عامداً تفسد صلاتہ، ویلزمہ قضاء رکعتین لا غیر. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ، کتاب الصوم، فصل في السھو:١/٢٤١، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے سے تراویح ادا ہو جائے گی ،مگر ثواب نصف ملے گا۔
اتَّفَقُوا عَلَی أَنَّ أَدَاء َ التَّرَاوِیحِ قَاعِدًا لَا یُسْتَحَبُّ بِغَیْرِ عُذْرٍ وَاخْتَلَفُوا فِي الْجَوَازِ قَالَ بَعْضُہُمْ : یَجُوزُ وَہُوَ الصَّحِیحُ إلَّا أَنَّ ثَوَابَہُ یَکُونُ عَلَی النِّصْفِ مِنْ صَلَاۃِ الْقَائِمِ.(الھندیۃ الباب التاسع في النوافل فصل في التراویح: ١/١١٨، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر امام کسی عذ کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھائے ،تب بھی مقتدیوں کو کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔(خانیہ)
یصح اقتداء القائم بالقاعد في التراویح عند الکل ،وھو الصحیح۔۔۔۔۔۔ الحاصل أن الإمام إذا کان قاعدا یستجب القیام للقوم.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم، فصل في أداء التراویح قاعدا: ١/٢٤٣، ٢٤٤، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔جماعت ہو رہی ہے اور ایک شخص بیٹھا رہتا ہے، جب امام رکوع میں جاتا ہے تو فوراً یہ بھی نیت باندھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جاتا ہے ،یہ فعل مکروہ ہے اور تشبہ بالمنافقین ہے۔
ویکرہ للمقتدي أن یقعد في التراویح، فإذا أراد الإمام أن یرکع یقوم؛ لأن فیہ إظہار التکاسل والتشبہ بالمنافقین. (الحلبي الکبیر، فصل في النوافل، التراویح، ص:٤١٠، سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔جس شخص پر نیند کا غلبہ ہو اس کو چاہیے کہ کچھ دیر سو رہے،اس کے بعد تراویح پڑھے۔
قال في التاتار خانیۃ: وکذا إذا غلبہ النوم یکرہ لہ أن یصلي،بل ینصرف حتی یستیقظ.(ردالمختار،باب الوتر و النوافل،مبحث صلاۃ التراویح:٢/٤٨، سعید)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔تراویح کو شمار کرتے رہنا مکروہ ہے ،کیوں کہ یہ اکتا جانے کی علامت ہے ۔
ویکرہ عدالرکعات في التراویح لما فیہ من إظہار الملالۃ.(الخانیۃ علی الھامش الھندیہ،کتاب الصوم،فصل في أداء التراویح قاعدا: ١/٢٤٤،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔مستحب یہ ہے کہ شب کا اکثر حصہ تراویح میں خرچ کیاجائے۔
ویستحب تأخیر التراویح إلی ثلث اللیل والأفضل استیعاب أکثر اللیل بالتراویح.(البحر الرائق:باب الوتروالنوافل:٢/١١٩،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ایک مرتبہ قرآن شریف ختم کرنا(پڑھ کر یا سن کر)سنت ہے ،دوسری مرتبہ فضیلت ہے اور تین مرتبہ افضل ہے،لہٰذا اگر ہر رکعت میں تقریباً دس آیتیں پڑھی جائیں، تو ایک مرتبہ بسہولت ختم ہو جائے گا اور مقتدیوں کو بھی گرانی نہ ہوگی۔
وقال بعضھم وھو روایۃ الحسن عن أبي حنیفۃ: یقرأ في کل رکعۃ عشر آیات وھو الصحیح؛ لأن فیہ تخفیفا علی الناس وبہ تحصل السنۃ وھي الختم مرۃ واحدۃ۔۔۔۔۔۔ فإذا قرأ في کل رکعۃ عشر آیات یحصل الختم في التراویح والفضیلۃ في الختم مرتین. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ:کتاب الصوم، فصل في مقدار القرأۃ: ١/٢٢٧، رشیدیۃ)
(وکذا في الھندیۃ: السنۃ في التراویح إنما ھو الختم مرۃ والختم مرتین فضیلۃ والختم ثلاث مرات أفضل. فصل في التراویح ١/١١٧،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔جو لوگ حافظ ہیں ان کے لیے فضیلت یہ ہے کہ مسجد سے واپس آکر بیس رکعت اور پڑھا کریں تا کہ دو مرتبہ ختم کرنے کی فضیلت حاصل ہوجائے۔(خانیہ)
ینبغي للإمام وغیرہ إذا صلی التراویح وعاد إلی منزلہ وھو یقرأ القرآن أن یصلي عشرین رکعۃ في کل رکعۃ عشر آیات إحرازً للفضیلۃ وھي الختم مرتین. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ:کتاب الصوم ،فصل في مقدار القراء ۃ في التراویح: ١/٢٣٨،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ہر عشرہ میں ایک مرتبہ ختم کرنا افضل ہے ۔
وثلاث مرات، في کل عشر مرۃً أفضل.(البحر الرائق: کتاب الصلاۃ باب الوتر والنوافل: ٢/١٢١، رشیدیۃ)
السنۃ في التراویح إنما ھو الختم مرۃ۔۔۔۔۔۔ والختم مرتین فضیلۃ، والختم ثلاث مرات أفضل، کذا في اسراج الوھاج.(الھندیۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح: ١/١١٧، رشیدیہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر مقتدی اس قدر ضعیف اور کاہل ہوں کہ ایک مرتبہ بھی پورا قرآن شریف نہ سن سکیں بلکہ اس کی وجہ سے جماعت تک چھوڑ دیں تو پھر جس قدر سننے پر وہ راضی ہو ں اس قدر پڑھ لیا جائے ،یا”ألم ترکیف”سے پڑھ لیا جائے ۔
وذکر في المحیط والاختیار أن الأفضل أن یقرأ فیہامقدارمالا یؤدي إلی تنفیر القوم في زماننا؛ لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ وفي المجتبی: والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ حتی لا یمل القوم ولا یلزم تعطیلہاوہذا حسن وبعضھم اختاروا قراء ۃ سورۃ الفیل إلی آخر القرآن، وھذا حسن.(البحرالرائق:کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل:٢/١٢١، رشیدیۃ)
لیکن اس صورت میں ختم کی سنت کے ثواب سے محروم رہیں گے۔
ولو قرأ بعض القرآن في سائر الصلوٰت بأن کان القوم یملون من القراء ۃ في التراویح، فلا بأس بہ لکن یکون لھم ثواب الصلاۃ لا ثواب الختم. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم، فصل في مقدار القراء ۃ في التراویح: ١/٢٣٨ رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔ستائیسویں شب کو ختم کرنا مستحب ہے۔
ویختم في اللیلۃ السابعۃ والعشرین لکثرۃ الأخبار أنھا لیلۃ القدر. (البحر الرائق،کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل:٢/١٢٠،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر اپنی مسجد کا امام قرآن شریف ختم نہ کرے تو پھر کسی دوسری مسجد میں جہاں پر ختم ہو،تراویح پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔کیوں کہ ختم کی سنت وہیں حاصل ہوگی۔
وإذا کان إمام مسجدحیۃ لایختم،فلہ أن یترک إلی غیرہ، انتھی. (الحلبي الکبیر،فصل في النوافل،التراویح:ص،٤٠٧،سھیل اکیڈمی، لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔تراویح میں ایک مرتبہ سورت کے شروع میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم”کو بھی زور سے تمام قرآن شریف کی طرح پڑھنا چاہیے،آہستہ پڑھنے سے امام کا تو قرآن شریف پورا ہوجائے گا مگر مقتدیوں کا پورا نہ ہوگا۔
ولو قرأ تمام القرآن في التراویح ولم یقرأ البسملۃ في ابتداء سورۃ من السور سوا ما في''النملۃ''لم یخرج من عہدۃ السنیۃ ولو قرأھا سرا خرج من العھدۃ لکن لم یخرج المقتدون من العہدۃ.(أحکام القنطرۃ في أحکام البسملۃ، مجموعۃ رسائل اللکنوی: ١/٧١، إدارۃ القرآن کراچی)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی آیت چھوٹ گئی اور کچھ حصہ آگے پڑھ کر یاد آیا کہ فلاں آیت چھوٹ گئی ہے تو اس کے پڑھنے کے بعد آگے پڑھے ہوئے حصہ کا اعادہ بھی مستحب ہے ۔
وإذا غلط في القراء ۃ في التراویح فترک سورۃ أو آیۃ وقرأ ما بعدہا فالمستحب لہ أن یقرأ المتروکۃ ثم المقروء ۃ لیکون علی الترتیب. (الھندیۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح: ١/١١٨، رشیدیۃ) (وکذا في قاضي خان علی ھامش الھندیۃ: فصل في مقدار القراء ۃ في التراویح: ١/٢٣٨، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔امام نے جب سلام پھیرا تو مقتدیوں میں اختلاف ہوا کہ دور کعت ہوئی ہیں،یاتین؟ تو جس طرف امام کا رجحان ہو اس پر عمل کریں۔
إذا سلم الإمام في ترویحۃ فقال: بعض القوم:صلی ثلاث رکعات وقال بعضہم:صلی رکعتین یأخذ الإمام بما کان عندہ في قول أبي یوسف ـرحمہ اللّٰہ تعالی ـ ولا یدع علمہ بقول الغیر.(فتاویٰ قاضي خان علی ھامش الھندیۃ:فصل في الشک في التراویح:١/٢٣٩،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔کسی چھوٹی سورت کا فصل کرنا دورکعت کے درمیان فرائض میں مکروہ ہے، تراویح میں مکروہ نہیں۔
ولیس فیہ کراہۃ في الشفع الأول من الترویحۃ الأخیرۃ بسبب الفصل بین الرکعتین بسورۃ واحدۃ؛ لأنہ خاص بالفرائض،کما ہو ظاہر الخلاصۃ وغیرہا.(البحر الرائق: کتاب الصلاۃ باب الوتر النوافل: ٢/١٢١،رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر مقتدی ضعیف اور سست ہوں کہ طویل نماز کا تحمل نہ کرسکتے ہوں،تو درود کے بعد دعاء چھوڑ دینے میں مضائقہ نہیں ،لیکن درود کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔
السنۃ في التراویح إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم، کذا في الکافي، بخلاف ما بعد التشہد من الدعوات، فإنہ یترکہا إذا علم أنہ یثقل علی القوم لکن ینبغي أن یأتي بالصلاۃ علی النبي ـ علیہ السلام ـ، ہکذا في النہایۃ. (الھندیۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح: ١/١٧١، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔کوئی شخص ایسے وقت جماعت میں شریک ہوا کہ امام قراء ت شروع کر چکا تھا،تو اب اس کو ”سبحانک اللّٰھم”نہیں پڑھنا چاہیے۔
وإذا أدرک الشارع في الصلاۃ عند شروعہ (الإمام وھو یجھر) بالقراء ۃ (لا یأتی بالثناء بل یستمع وینصت) للآیۃ. (الحلبي الکبیر: صفۃ الصلاۃ: ص ٣٠٤، سھیل اکیڈمی،لاہور)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر مسبوق نے امام کے ساتھ یا امام سے کچھ پہلے بھول کرسلام پھیر دیا تو اس پر سجدہئ سہو واجب نہیں اور امام کے لفظ ”السلام”کہنے کے بعد سلام پھیرا ہے تو اس پر سجدہئ سہو واجب ہے۔
إذا سلّم المسبوق حتی سلام الإمام سہیا بنی علی صلاتہ، وعلیہ سجود السھو۔۔۔۔۔۔وأما سجود السھو فلأنہ متی سلم الإمام صار ھو کالمنفرد وقدسھا حتی یسلم قبل ھذا، فتلزمہ سجدۃ السھو قبل ھذا إذا سلم بعد الإمام، فأما إذا سلم مع الإمام فلا سھو علیہ؛ لأن الإمام لم یخرج عن الصلاۃ بعد، فکان کأنہ سھا خلف الإمام. (المحیط البرھاني،کتاب الصلاۃ،الفصل السابع عشر في سجود السھو،نوع آخر في المتفرقات: ٢/٧٩، عفاریۃ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔مسبوق اپنی نماز تنہا پوری کرنے کے لیے نہ اٹھے،جب تک کہ امام کی نماز ختم ہونے کا یقین نہ ہوجائے ۔
ولاینبغي للمسبوق أن یقوم إلی قضاء ماسبق بہ قبل سلام الإمام (المحیط البرھاني: کتاب الصلاۃ الصلوٰۃ: الفصل السادس عشر في التغني والألحان: ١/٤٢٨، غفاریہ کوئٹہ)
کیوں کہ بعض دفعہ امام سجدہئ سہو کے لیے سلام پھیرتا ہے اور مسبوق اس کو ختم کا سلام سمجھ کر اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوجاتاہے ،ایسی صورت میں فوراً لوٹ کر امام کے ساتھ شریک ہو جانا چاہیے۔
''ثالثھا''أنہ لو قام إلی قضاء ما سبق بہ وعلی الإمام سجدتا السھو قبل أن یدخل معہ،کان علیہ أن یعود فیسجد معہ مالم یقید الرکعۃ بسجدۃ. (العالمکیریۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق: ١/٩٢، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص ایسے وقت آیا کہ امام رکوع میں تھا،یہ فوراً تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رکوع میں شریک ہوا اور جب ہی امام نے رکوع سے سر اٹھالیا،پس اگر سیدھا کھڑا ہو کر تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رکوع میں گیا تھا اور رکوع میں جھکنے سے پہلے پہلے اللہ اکبر کہہ چکا تھا اور کمر کو رکوع میں برابر کرلیا تھااس کے بعد امام نے رکوع سے سر اٹھایا ہے تب تو رکعت مل گئی،تسبیح اگر چہ ایک مرتبہ بھی نہ کہی ہو، اگر امام کے سر اٹھانے سے پہلے رکوع میں کمر کو برابر نہیں کر سکا، تو رکعت نہیں ملی۔اور اگر تکبیر سیدھے کھڑے ہو کر نہیں کہی،بلکہ جھکتے ہوئے کہی اور رکوع میں پہنچ کر ختم کی ہے، تو یہ شروع کرنا ہی صحیح نہیں ہوا۔
قال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ لو وقع تکبیرۃ الافتتاح قائما وھومستوی أیضا صح الشروع، وإن وقع وھو منحط عنہ غیر مستوی لایجوز، وإن رکع المسبوق وسوی ظہرہ صار مدرکا للرکعۃ قدر علی التسبیح أولم یقدر، وإن لم یقدر علی تسویۃ الظہر في الرکوع حتی رفع الإمام رأسہ،ثم رکع ھو لم یصر مدرکا للرکعۃ. (المحیط البرھاني:کتاب الصلوٰۃ ، الفصل الثالث و الثلاثون في بیان حکم المسبوق واللاحق:٢/٣٤٧، غفاریۃ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص رکوع میں آکر شریک ہوا،مگر رکوع اس کو نہیں ملا،تب سجدہ میں امام کے ساتھ شریک ہونا اس پر واجب ہے لیکن اگر سجدہ میں شریک نہ ہوا،بلکہ سجدہ کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوا، تب بھی اس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّہُ إذَا لَمْ یَکُنْ مُدْرِکًا لِلرَّکْعَۃِ فَإِنَّہُ یَجِبُ عَلَیْہِ أَنْ یُتَابِعَ الْإِمَامَ فِی السَّجْدَتَیْنِ وَإِنْ لَمْ یَحْتَسِبَا لَہُ کَمَا لَوْ اقْتَدَی بِالْإِمَامِ بَعْدَمَا رَفَعَ الْإِمَامُ رَأْسَہُ مِنْ الرُّکُوعِ۔۔۔۔۔۔وَصَرَّحَ فِی الذَّخِیرَۃِ بِأَنَّ الْمُتَابَعَۃَ فِیہِمَا وَاجِبَۃٌ ، وَمُقْتَضَاہُ أَنَّہُ لَوْ تَرَکَہُمَا لَا تَفْسُدُ صَلَاتُہُ. (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ باب إدراک الفریضۃ: ٢/١٣٥، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر رکوع میں امام کے ساتھ آکر شریک ہوا اور صرف ایک ہی تکبیر کہی،تب بھی نماز صحیح ہوگئی، اگر چہ اس تکبیر سے رکوع کی تکبیر کی نیت کی ہو اور تکبیرِ تحریمہ کی نیت نہ کی ہو،اس نیت کا اعتبار نہ ہوگا۔بشرطیکہ تکبیر کھڑے ہو کر کہی ہو رکوع میں نہ کہی ہو۔
ومدرک الإمام في الرکوع لایحتاج إلی تکبیرتین خلافا لبعضھم ولو نوی بتلک التکبیرۃ الواحدۃ الرکوع، لا الافتتاح، جاز ولغت نیتہ.(فتح القدیر: کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ: ١/٤٢٠، رشیدیۃ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔آیتِ سجدہ پڑھنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے۔
فنقول: التالي لآیۃ السجدۃ تلزمہ السجدۃ بتلاوتہ إذا کان أھلا لوجوب الصلاۃ علیہ وکذٰلک الحکم في حکم السامع من کان أھلا بوجوب الصلاۃ علیہ تلزمہ السجدۃ بالسماع، ومن لا یکون أھلا لوجوب الصلاۃ علیہ نحو الحائض، أو الکافر، أو المجنون، لاتلزمہ السجدۃ بالسماع. (المحیط البرھانی: الفصل الحادي والعشرون في سجدۃ التلاوۃ، کتاب الصلاۃ،من تجب علیہ ھذہ السجدۃ: ٢/١٠٢، غفاریۃ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔سورہ حج میں پہلا سجدہ واجب ہے ،دوسرا نہیں۔
عندنا سجدتا التلاوۃ في سورۃ الحج واحدۃ وھي الأولی. (المحیط البرھانی: الفصل الحادي والعشرون في سجدۃ التلاوۃ، کتاب الصلاۃ، سجدۃ التلاوۃ: ٢/١٠٢، غفاریہ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر خارج نماز آیتِ سجدہ کی تلاوت کی،مگر سجدہ نہیں کیا،نماز میں وہی آیت پڑھی اور سجدہ کیا تو یہ سجدہ دونوں دفعہ کی تلاوت کے لیے کافی ہے اگر پہلے سجدہ کر لیا تھا تو اب دوبارہ بھی سجدہ کرنا چاہیے۔
وإذا قرأھا في غیر صلاۃ وسجد، ثم افتح الصلاۃ في مکانہ، فقرأھا، فعلیہ سجدۃ أخری۔۔۔۔وإن لم یکن سجد أولاً ثم شرع في الصلاۃ في مکانہ، فقرأھا، یسجد لھما جمعیاً أجزأہ عنھما في ظاہر الروایۃ. (المحیط البرھاني، کتاب الصلاۃ، الفصل الحادی والعشرون في تکرار آیۃ السجدۃ : ٢/١١٢، غفاریۃ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر امام نے آیتِ سجدہ پڑھ کر سجد ہ کیا اور کوئی شخص آیتِ سجدہ سن کر امام کے ساتھ اس سجدہ اس سجدہ کے بعد اسی رکعت میں شریک ہوگیا،تو اس کے ذمہ سے یہ سجدہ ساقط ہوگیا، اگر اس رکعت میں شریک نہیں ہوا تو اس کو خارجِ صلوۃ علیحدہ سجدہ کرنا چاہیے۔
إذا قرأ الإمام آیۃ السجدۃ، سمعھا رجل لیس معہ ثم دخل الرجل في صلاۃ الإمام، فھذہ المسئلۃ علی وجھین: الأول: أن یکون اقتداؤہ قبل أن یسجد الإمام، وفي ھذا الوجہ علیہ أن یسجد مع الإمام۔۔۔۔۔۔ وإذا سجد مع الإمام، سقط عنہ لزمہ بحکم سماعہ قبل الإمام؛ لأنہ لما اقتدی بہ صارت قراء ۃ الإمام قراء ۃ لہ. الوجہ الثاني: إذا اقتدی بعد ما سجد، فلیس علیہ أن یسجدھا في الصلاۃ کیلا یصیر مخالفا للإمام۔۔۔۔۔۔ فأما إذا أدرک الإمام في الرکعۃ الأخری کان علیہ أن یسجدھا بعد الفراغ. (المحیط البرھاني: کتاب الصلاۃ،نوع آخر في سماع المصلي آیۃ السجدۃ ممن معہ في الصلاۃ۔۔۔۔۔۔: ٢/١١٥،غفاریۃ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔آیتِ سجدہ کے بعد فوراً ہی سجدہ کرنا افضل ہے،لیکن اگر نماز میں آیتِ سجدہ کے بعد سجدہ نہ کیا، بلکہ رکوع کیا اور اس میں اس سجدہ کی نیت کرلی،تب بھی سجدہ ادا ہوجائے گا،اگر رکوع میں نیت نہیں کی ،تو اس کے بعد سجدہ نماز سے بلا نیت بھی ادا ہو جائے گا،یہ جب ہے کہ آیتِ سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ نہ پڑھا ہو، اگر آیتِ سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ پڑھ چکا ہو ،تو اب اس سجدہ کا وقت جاتا رہا،نہ نماز میں ادا ہو سکتا ہے نہ خارج نماز ،توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
قال في الأصل: وإذا قرأ آیۃ السجدۃ وھي في آخر السورۃ إلا آیات یعني، وفإن شاء رکع لھا،وإن شاء سجد لھا، وأعلم أن ھذہ المسئلۃ علیٰ أوجہ أما إن کانت السجدۃ قریبۃ من آخر السورۃ وبعد ھا آیتان إلی السورۃ، فالجواب ماذکر أنہ بالخیار إن شاء رکع لھا وإن شاء سجد، والحکم في ھذہ الوجوہ کلھا ما ذکرنا في الوجہ الأول، فلوأنہ في ھذہ الوجوہ لم یرکع لھا ولم یسجد علی الفور،ولکن قرأ ما بقي من السورۃ أو خرج إلی سورۃ أخری و قرأ منھا شیأا آخر إن قرأبعد ھا أنہ ۔۔۔۔۔۔یجزئہ الرکوع و سجدۃ الصلاۃ عن سجدۃ التلاوۃ، أما إذا قرأ بعدھا ثلاث آیات أو کانت السجدۃ في وسط السورۃ، لم یجز الرکوع عن السجود؛ لأنہ إذا قرأ ثلاث آیات بعد آیۃ السجدۃ، فقد صارت السجدۃ دینا في ذمتہ، لفوائت محل الأدائ؛ لأن وقتھا وقت وجوبھا. (المحیط البرھاني، کتاب الصلاۃ، نوع آخر فیھا إذا تلا آیۃ السجدۃ وأراد أن یقیم رکوع الصلاۃ: ٢/١١٦، ١١٨، غفاریہ کوئٹہ)
مسئلہ ۔۔۔۔۔۔اگر آیتِ سجدہ (جو کہ سورت کے ختم پر ہے)پڑھ کر سجدہ کیا تو اب سجدہ سے اٹھ کر فوراً رکوع نہ کیا جائے (اس خیال سے کہ سورت تو ختم ہو ہی گئی)بلکہ تین آیت کی مقدار پڑھ کر رکوع کرنا چاہیے۔
ولو سجد یعود الی القیام، لأنہ یحتاج إلی الرکوع، والرکوع لھا یکون من القیام ویقرأ بقیۃ السورۃ۔۔۔ لیس۔۔۔ ثم یرکع إن شاء کیلا یصیر ثان الرکوع علی السجدۃ، ولو شاء ضم إلیھا من السورۃ الأخری آیۃ حتی یصیر ثلاث آیات،قال الحاکم الشھید: وھوأحب إلی،وھذہ القراء ۃ بعد السجدۃ بطریق الندب لا بطریق  الوجوب، حتی أنہ لولم یقرأ جعلھا.(المحیط البرھاني: کتاب الصلاۃ: ٢/١١٦، غفاریۃ کوئٹہ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی