باہمی اختلاف اور ملت کی ذمہ داری

idara letterhead universal2c

باہمی اختلاف اور ملت کی ذمہ داری

مولانا خالد سیف الله رحمانی

الله سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو ایک جیتا جاگتا، ہنستا، بولتا اور چلتا پھرتا وجود عطا کیا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے، غور وفکر کا ملکہ ودیعت فرمایا ہے اور ارادہ واختیار کی قوت سے اسے نوازا گیا ہے، اس لیے کسی بھی انسانی سماج سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ اس میں اختلاف پیدا ہی نہ ہو او ر وہ پتھر کی مورت کی طرح خاموش اور بے زبان رہے، کیوں کہ الله تعالیٰ نے سوچنے کے انداز میں فرق رکھا ہے، ذوق ونظر کا اختلاف بھی پایا جاتا ہے اورمفادات میں ٹکراؤ بھی ، پس کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف کا وقوع پذیر ہونا فطری بات ہے او را س سے کوئی مفر نہیں، اگر یہ اختلاف خلوص اورنیک نیتی پر مبنی نہ ہو بلکہ ضد اور خود غرضی کی وجہ سے ہو، تو یہ مہذب اورشائستہ اختلافِ رائے کی حدود سے گزر کر باہمی جنگ وجدال، تہمت اندازیوں اور الزام تراشیوں کا باعث بن جاتا ہے، معاشرہ میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور پیش آتے رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی نزاع اور اختلاف کا حل کیا ہے؟ قرآن مجید الله تعالیٰ کی کتاب ہے، جو زندگی کے ہر گوشہ میں انسان کی راہ نما ئی کافریضہ انجام دیتی ہے، اس نے یقینا اس سلسلہ میں بھی راہ نمائی کی ہے، کسی بھی نزاع سے بنیادی طور پر تین طبقے متعلق ہوتے ہیں، دو فریق تو وہ جو باہم ایک دوسرے سے برسر پیکار ہوں اورتیسرا وہ سماج اور معاشرہ ،جس میں اس طرح کی نزاع پیش آتی ہو، قرآن حکیم کی نگاہ میں فریقین کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں دونوں ایک دوسرے سے قریب آنے کو تیار نہ ہوں اور وہ اپنے طور پر اس فاصلہ کو سمیٹنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں تو کسی ایک متفق علیہ شخصیت کو فیصل بنالیں یا دونوں فریق اپنی صف سے کسی مخلص، دین دار، سمجھ دار اور معاملہ فہم آدمی کا انتخاب کریں اور ان کو اپنا ”حکم“ مان لیں، ان دونوں کے حکم کا فریضہ ہے کہ وہ ان دونوں فریق کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھر پور سعی کریں، قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر حکم طرف دار بنے بغیر نیک نیتی اور صدق دلی کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے، تو ا لله تعالیٰ ضرور ان کو کام یابی سے ہم کنار فرمائیں گے :﴿إِن یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہُ بَیْنَہُمَا﴾․ (النساء:35) صلح اور باہمی اختلاف کو دور کرنے کا یہ نہایت بہترین طریقہ ہے، بلکہ یہ اختلافات سے باہر آنے کا باعزت راستہ بھی ہے، اس لیے کہ اس میں نہ کسی فریق کی فتح ہے او رنہ کسی فریق کی شکست ، اس سے سماج میں بھی انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور الله تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کی جو دولت حاصل ہوتی ہے، وہ ان سب سے بڑھ کر ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو حقیر نہ سمجھے، اس کے اندر حقائق کو قبول کرنے کی جرات ہو اور اس کی نگاہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

تیسرا طبقہ جو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتا، وہ ہمارا سماج ہے، یہ سمجھنا کہ یہ فلاں اور فلاں شخص کا اختلاف ہے، ہمیں اس میں پڑنے کی کیا ضرورت؟! صحیح فکر او رمثبت سوچ نہیں، مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ جب وہ دو افراد کے درمیان آویزش اوراختلاف محسوس کریں تو ان میں صلح کرانے اور شکستہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرا دیا کرو…﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴾․ (الحجرات:10)

یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس کہ مسلمانوں کو اس کی اہمیت اور سماج کے تئین اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادارک ہے اور نہ احساس۔

حضرت ابودرداء رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو روزہ، صدقہ اور زکوٰة سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ ہم لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا، اصلاح ِ ذات البین، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آپس میں تعلقات کا بگاڑ مونڈ دینے والی چیز ہے ۔ (الادب المفرد، حدیث نمبر:391)، ”مونڈ دینے والی چیز“ سے مراد یہ ہے کہ یہ چیز صفایا کر دینے او رتباہ برباد کر دینے والی ہے، خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے او ران کے باہمی اختلافات کو رفع کرنے کا کس قدر پاس ولحاظ تھا، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ باوجودیکہ نماز میں جماعت کا آپ صلی الله علیہ وسلم کو حد درجہ اہتمام تھا، عین میدان جنگ میں بھی غیر معمولی حالات کے بغیر آپ صلی الله علیہ وسلم کی جماعت نہیں چھوٹتی تھی او رمرض وفات میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے جماعت میں شرکت کا اہتمام فرمایا، جب خود چلنے کی طاقت باقی نہیں رہی، تب بھی رفقاء کی مدد سے شریک جماعت ہونے کی کوشش فرمائی، لیکن اس کے باوجود قبیلہٴ بنی عمر وبن عوف میں ایک جھگڑا رفع کرنے اور مصالحت کرانے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے رفقا کے ساتھ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور اس فریضہٴ مصالحت میں اتنی تاخیر ہو گئی کہ حضرت بلال رضی الله عنہ نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا، نماز شروع ہونے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے۔ (بخاری شریف:269)

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی نگاہ میں مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کی کیا اہمیت تھی۔

مدینہ منورہ میں انصار کے دو مشہور خاندان اوس اور خزرج آباد تھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے یہ ہمیشہ باہم دست وگریباں رہتے تھے، اسلام ان کے لیے ابر رحمت بن کر آیا، صدیوں سے عداوت کی جو آگ بجھائے نہبھجتی تھی، وہ لمحوں میں سرد ہو کر رہ گئی اور دونوں قبیلے اُخوت ِ اسلامی کے رشتہ سے شیر وشکر ہو کر رہنے لگے، یہودیوں کو ان قبائل کا اتحاد اور آپسی محبت ایک آنکھ نہ بھاتا تھا، ایک بار ایک سن رسیدہ یہودی اُوس وخزرج کے لوگوں کے پاس سے گزرا او ران کی باہمی محبت کو دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوا، چناں چہ اس نے اوس وخزرج کی لڑائی کے پرانے قصے چھیڑ دیے او راس زمانے میں دونوں قبیلے کے شعراء نے ایک دوسرے کے خلاف جو اشعار کہے تھے، ان کا بھی ذکر نکالا ، نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں خاندانوں کے نوجوان اُٹھ کھڑے ہوئے او ران کی جاہلی حمیت لوٹ آئی، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی، بہت تیز تیز تشریف لائے، لوگوں کو شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے باخبر کیا، اسی موقع سے سورہٴ آل عمران کی یہ آیتیں نازل ہوئیں:”اے ایمان والو! الله سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے او رتم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہیے، سب مل کر الله کی رسی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو او راپنے الله کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر الله نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا او رتم الله کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے، تو الله تعالیٰ نے تم کو اس سے نکالا ، الله تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتے رہتے ہیں، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو۔“ (آل عمران:103-102)

زبان ِ مبارک سے ان آیتوں کا سننا تھا کہ دلوں کی کایا پلٹ گئی، لوگوں نے ہتھیار پھینک دیے او رایک دوسرے سے گلے مل کر خوب روئے۔ (طبرانی:4/20)

غرض، کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف ونزاع کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے، جس سے بچنا ممکن نہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ جہاں آگ لگے وہاں پانی ڈالنے والے لوگ بھی موجود ہوں، جہاں سیلاب آتا ہے تووہاں ہر شخص پانی کی ظالم موجوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتا ہے ورنہ آگ پوری بستی کو اپنا لقمہ بنا لے گی اور سیلاب پوری آبادی کو غرقاب کرکے رہے گا، اس لیے مسلمانوں میں جو ”ارباب ِ حل وعقد“ ہوں، یعنی ذمہ دار سمجھ دار،بااثر، اہل علم ودانش، علماء ومشائخ، مذہبی اور سماجی قائدین ان کی، نیز ملی تنظیموں او رجماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں اُبھرتے ہوئے اختلاف کی بروقت تشخیص کریں، اس کے اسباب وعوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں او ران کے تدارک کی طرف متوجہ ہوں، ورنہ یقینا عندالله وہ اس سلسلے میں جواب دہ ہوں گے۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ مسلمانوں کے جتنے تعلیمی واصلاحی اور دعوتی ادارے ہیں یا مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اور اصلاحی تحریکیں ہیں، وہ سب اکثراختلاف وانتشار سے دو چار ہیں، یہ جماعتیں او رتنظیمیں دولخت بلکہ سہ لخت ہو چکی ہیں، ایک تنظیم کے دو ٹکڑے اور پھر ان ٹکڑوں کی کئی ٹکڑیاں، یہ اختلاف وانتشار اور صلاحیتوں کا بٹوارہ بحیثیت مجموعی ملت کی طاقت کو کم زور اور بے اثر کر دیتا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ہر سطح پر مسلمانوں کی پس ماندگی اور زبوں حالی کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کر رہے ہیں۔

مقالات و مضامین سے متعلق