غزوہ تبوک میں پنہاں تربیتی پہلو

idara letterhead universal2c

غزوہ تبوک میں پنہاں تربیتی پہلو

محترم محمد طیب حنیف

رجب سن 9ھ کا واقعہ ہے، جس میں مسلمانوں کے بالمقابل مشرکین ِعرب و یہود سے زیادہ سخت وجنگ جُو رومن سلطنت کی فوج برسرپیکار ہوئی، جنہیں نصف دنیا پر حکم رانی کا طُرّہ امتیاز حاصل تھا، جس کی مسلح افواج نے حال ہی میں سلطنت ِایران کوشکست فاش سے دو چار کیا تھا۔ جن کی وسعتِ مالی، قوت بدنی وعسکری نظام وغیرہ کو پیش نظر رکھ کرمسلمانوں کی حالت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک پرکاہ کا کوہ سے مقابلہ ہے، علاوہ ازیں عرب عیسائی قبائل لخم اورقبیلہ غسان وغیرہ بھی مقام موتہ پر ہونے والی شکست فاش کا بدلہ وانتقام لینے کے واسطے بے چین وبے تاب ان کے شانہ بشانہ شریک تھے۔

اس کے بالمقابل مسلمان کی زبوں حالی کا کچھ یوں حال تھا، جس کی تفصیل سے متعلق مشہورمؤرخ ابن اسحاق رقم طراز ہیں:

”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر أصحابہ بالتھیؤ لغزو الروم، وذلک فی زمان من عسرة الناس، وشدّة من الحرّ، وجدب من البلاد، وحین طابت الأثمار، والناس یحبون المُقام فی ثمارھم وظلالھم، ویکرھون الشخوص علی الحال من الزمان الذین ھم علیہ، وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قلما یخرج فی غزوة إلا کنی بھا، وأخبر أنہ یرید غیر الوجہ الذی یصمد لہ إلا ماکان من غزوة تبوک فإنہ بیّنھا الناس؛ لبعد الشقة وشدة الزمان وکثرة العدو الذی یصمد لہ لتأھب الناس لذلک أھبتہ․

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانثار صحابہ کو رومیوں کے خلاف جنگ کی تیاری کا حکم دیا، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ کسمپرسی کی حالت میں، سخت گرمی، قحط سالی کا شکار تھے، جب کہ مدینہ کے نخلستان میں کھجوریں پک رہی تھیں(جس کا سالہاں سال شدّت سے انتظار رہتا تھا)، جس پر اُگنے والی کھجوروں اور ان کے زیر سایہ بیٹھنے کو ہر چیز سے محبوب جانا جاتا تھا، نیز ان پیش آمدہ حالت میں خود کودھکیلنا طبیعت پر شاق وگراں معلوم ہوتا تھا،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جس سمت سے جہاد پر روانگی کا قصد فرماتے اس کو عام لوگوں پر مخفی رکھتے، اور اس کے خلاف جہت کو(توریة) بیان فرماتے تھے ، مگر غزوہ تبوک وہ واحد معرکہ تھا کہ جس میں آپ نے مسافت کی دوری، حالات کی سختی اور فریق مخالف کی کثرتِ تعداد کے سبب لوگوں کو صراحتاً سمت ِسفر سے آگاہ کیا،تاکہ لوگ حسبِ حالت زاہ راہ تیار کرلیں“۔(سیرة ابن ہشام:2/516، شرکة مکتبہ مطبعة، مصطفی البابی الحلبی)

اس معرکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانثاری اور اُخوت اسلامی کے اُن گراں قدر جذبات کا اظہار کیا کہ اوراقِ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ نیز اس میں تاقیامت کے انسانوں کے واسطے مختلف حیثیتوں سے تربیتی پہلوں نمایا ں ہوتے ہیں، جن کو مشعل راہ بناتے ہوئے انسان دینی ودنیاوی ہراعتبار سے ترقی کی منازل بآسانی طے کرسکتا ہے، جن میں سے چند فوائد ہدیہ قارئین پیش ہیں:

راہِ خدا میں جانی ومالی قربانیاں پیش کرنے کا جذبہ

حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جب نفیر عام کا حکم دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی صرف ایک صدا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد کا ضروریات زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہاد کے لیے نکلنا ان کے پاک طینت ہونے کی بیّن دلیل ہے۔

نیز اس کسمپُرسی کی کیفیت اور مسلمانوں کی شکستہ حالی کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ وسلم نے عام تعاون کا اعلان کیا اور اس میں صدقہ خیرات کی ترغیبی مہم چلائی، جس پر شمع رسالت کے پروانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس میں حضرت ذوالنورین عثمان غنی رضی اللہ عنہ900 اونٹ، 100 گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کرکے”مجھز جیش العسرة“کے لقب سے سرفراز ہوئے، جب کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ چالیس ہزار درہم راہ ِخدا میں صرف کرکے مستحق اجر ہوئے۔(سیرة ابن ھشام، 2/518، شرکة مکتبة مطبعة مصطفی البابی الحلبی)

نیکی کے کاموں میں منافست ومسابقت مطلوب ہے

حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے سوچا کہ آج کے دن تو میں صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے بازی مار سکتا ہوں،چوں کہ میری مالی حالت ان سے قدرے خوش حال ہے، اس بنا پرانہوں نے اثاث البیت کا نصف جو ڈھائی ہزار روپیہ پر مشتمل تھا پیش خدمت کیا، مگر قربان جائیں حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی جانثاری پر، جنہوں نے گھر میں اللہ اور رسول کی محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہ چھوڑا، گھر میں جو کچھ تھا سب خدا کے نام پر نثار کردیا۔جب یہ منظرحضرت عمر نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا تو فرمایا کہ مجھے معلوم ہوگیا میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر کبھی بازی نہیں جیت سکتا۔(حیاة الصحابة 2/15، إنفاق الصحابة المال فی غزوة تبوک 2/15، مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزیع)

تعداد کی قلت وکثرت پر اعتماددھوکہ شیطانی ہے

دشمنان اسلام کی افواج کے صرف مقدمة الجیش کی تعداد تقریبا 40000تھی، جب کہ اس کے بالمقابل مسلمانوں کا پورا لشکر صرف تیس ہزارپر مشتمل تھا ،جو﴿کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة بإذن اللہ﴾کا والہانہ نعرہ بلند کیے ،عشق نبوی سے سرشار وادیوں وبستیوں کو قطع کیے جارہے تھے۔

عذر تراشی جرم میں اضافہ کا باعث ہے

مسلمانوں کے ہمراہ منافقین کی ایک بڑی تعداد اس سفر میں شریک ہوئی، مگر ان کی ایک جماعت نے مدینہ ہی میں تراشیدہ اعذار کے انبار لگاکر رخصت کا تقاضا کیا، جیسا کہ ایک منافق جد بن قیس نے یہ عذر گڑھا کہ میں نہایت حسین وجمیل ہوں، بنو اصفر کی خواتین کو دیکھ کر نفس پر قابو نہیں پاسکتا،لہٰذا اس ابتلا و فتنہ سے مجھے محفوظ رکھیں، جس کی شناعت وفتنہ میں پڑجانے کو قرآن مجید نے یوں آشکارا کیا۔ ﴿ومنھم من یقول ائذن لی ولاتفتنّی ألا فی الفتنة سقطوا﴾․(تفسیر قرطبی، 8/158، ط،دار الکتب المصریة ، القاھرة․ سورة التوبہ آیت نمبر 49)

اس کے علاوہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول اور اس کے ہم مشرب افراد مدینہ کے قریب ذُباب پہاڑی تک شریک ہوئے اور پھر موقعہ کو غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

اجتماعی امورِ دینیہ میں رخنہ ورکاوٹ ڈالنے پرسخت تنبیہ

منافقین کی ایک بڑی تعداد ٹڈی دل ہونے کی وجہ سے خود تو شرکت سے باز رہی، جب کہ سویلم یہودی کے گھر جمع ہوکر سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد جیسے عظیم امر سے روکنے کی مہم کا آغاز کیا اور قسمہا قسم کے حربوں کو استعمال کیا، ان کو عملی جامہ پہنایا، جیسا کہ قرآن مجید نے ان کا جملہ حکایةً نقل کرکے ان کو سخت ڈانٹ پلائی:﴿قالوا لاتنفروا فی الحرّ قل نارُ جھنم أشدّ حرّاً﴾․(سورة البقرة ، آیت نمبر:81)

جب اس بات کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اس یہودی کے گھر کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا۔(سیرة ابن ھشام، 2/517، شرکة مکتبة مطبعة، مصطفی البابی الحلبی)

فرائض کی تکمیل کے اسباب مہیا نہ ہونے پر غم کا اظہار

ایک طرف تومنافقین مختلف اعذار تراش کرکے،اپنے تئیں خود کو جنگی صعوبتوں سے باز رکھ کر دانش مند ہونے پر خوشی ومسرت سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، تو دوسری جانب مالی اعتبار سے کم زور حال مسلمانوں کی ایک جماعت رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں اشک بار حالت میں حاضر خدمت ہوئی، جس کا نقشہ قرآن مجید نے یوں کھینچا ہے: ﴿ولَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَامَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآاَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْ،اوَّاَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ﴾․ (سورة البقرة، آیت نمبر:92)

ترجمہ:اور نہ ان لوگوں پر (کوئی گناہ ہے) جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انہیں کوئی سواری مہیا کردو اور تم نے کہا کہ:میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کرسکوں۔ تو وہ اس حالت میں واپس گئے کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔

ایک دوسرے کے ساتھ احسان و مالی تعاون

جب حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس سے بھی سواری و زاد راہ کا انتظام نہ ہوسکا تو ان حضرات کا نہایت افسردگی کے عالم میں حضرت ابن یامین بن عمیررضی اللہ عنہ پر گذر ہوا، ان سے رونے کی وجہ معلوم ہونے پر انہوں نے سواری کے واسطے اونٹ اور زادِراہ کے لیے کھجوریں فراہم کرکے امت کو ہمدردی کے جذبات کا منھ بولتا ثبوت دیا۔(سیرة ابن ھشام، 2/518، شرکة مکتبة مطبعة مصطفی البابی الحلبی)

سفرِ تبلیغ وجہاد روانگی سے قبل اہل وعیال کے واسطے نیابت کا اہتمام

یہ پہلا معرکہ تھا جس میں کسی زوجہ محترمہ کو ہمراہ لیے بغیر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم عازمِ سفر ہوئے، اس بناء پر اہل وعیال کی دیکھ بھالی کے لئے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور سفر پر روانہ ہوئے۔مگر منافقین نے ان کو پست ہمت وابتلائے نفاق کے طعنے دیتے ہوئے موردِ الزام ٹھہرایا، جس پر کبیدہ خاطر ہوتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا رخت سفر باندھا اور مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام جُرف پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے قافلے سے جاملے، مگر اطلاع ملنے پر آپ نے انہیں دوبارہ لوٹنے کا حکم دیا، نیز ارشاد فرمایا :”أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی؟ إِلَّا أَنَّہُ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِی․“(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة تبوک، رقم الحدیث 4416)

”کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے اس نسبت کاشرف حاصل ہو جو حضرت ھارون کو حضرت موسی علیہ السلام کے کوہ طور جانے پر (نسبتِ نیابت کا شرف) حاصل ہوا؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے“، یہ سن کر حضرت علی کرّم اللہ وجہہ مطمئن ہوکر واپس مدینہ لوٹ آئے۔

نوٹ:اس سے معلوم چلا کہ داماد کو بھی اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا جاسکتا ہے، نیز:”أنت منی بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی“ کے الفاظ سے معلوم چلتا ہے کہ بھائی کو بھی اس خدمت پر مامور کیا جاسکتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں حیثیتوں کی جامع شخصیت تھے ۔

عذابِ الہی کا مظہر بستیوں پر سے گزرتے ہوئے خشیت کے آثار کا ظہور

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکا قافلہ جب مقام حِجر کو پہنچا، جہاں قوم ثمود کے کھنڈرات تھے، جہاں ہزاروں برس قبل حضرت صالح علیہ السلام نے توحید کی صدا بلند کی تھی، مگر ان کی دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے ظلم وتعدی کی داستان رقم کرنے پر حق تعالیٰ شانہ نے ان پر زلزلے وکڑک کا عذاب مسلط کرکے ان کا نام ونشام تک مٹادیا ، البتہ پہاڑوں میں تراشیدہ قصر ومحلات زبانِ حال سے ان کی داستانِ عبرت سنارہے تھے۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تاکید فرمائی:”ان ظالم لوگوں کی آبادی ومسکن سے گزرتے ہوئے حق تعالیٰ سے ڈرو، ایسا نہ ہو کہ وہی عذاب تم پر نازل نہ ہوجائے، کوئی شخص بھی یہاں قیام کی کوشش نہ کرے، یہاں کا پانی استعمال میں نہ لائے اور جو پانی استعمال کرکے آٹا وغیرہ گوندھا گیا ہو اسے جانور کے سامنے ڈال دیا جائے۔“ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ تبوک،رقم الحدیث 4418)چناں چہ آپ انے اس عبرت ناک مقام کو چہرہ انور پر رومال ڈالے تیزی سے عبور کیا۔

حساس اور لطیف مزاج انسان کو عذاب زدہ مقامات پر ہزارہا سال بعد بھی ایک وحشت وغضب اترتا محسوس ہوتا ہے، حضور علیہ السلام سے بڑھ کر ایسے اثرات کا احساس بھلا کس کو ہوسکتا تھا؟!(تاریخ امت مسلمہ ص 364، جلد اول، طباعت شدہ المنھل پبلشر)

غیرتِ شرعی ایمان کا حصہ ہے

حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ سفر تبوک سے گرمی کی شدت کے پیش نظر لوٹ آئے تھے، جب اپنے باغ کے سایہ فگن خیمے میں داخل ہوئے اور اہلیہ کی جانب سے ٹھنڈا پانی پیش کیا گیا تو غیرتِ ایمانی واخوت اسلامی نے جوش مارا اور فرمانے لگے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور ان کے اصحاب سخت گرمی کی تپش سے دوچار ہوں اور ابو خیثمہ یہاں ٹھنڈی چھاؤں وشیریں پانی سے لطف اندوز ہو، ضمیر نے اایسا جھنجھوڑا کہ اسی وقت قسم اٹھائی کہ اس باغ میں قدم بھی نہ رکھوں گا، حتی کہ دوبارہ ان کے ساتھ شریک نہ ہوجاؤں، بہرحال اسی وقت عازمِ سفر ہوئے اورحاضر خدمت ہوئے، تاخیر کی وجہ دریافت کیے جانے پر سارا ماجرا بیان کیا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں خوب خیر کی دعاؤں سے نوازا۔ (سیرة ابن ھشام، 2/521، شرکة مکتبة مطبعة، مصطفی البابی الحلبی)

چھوٹوں کی رائے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا

روایت میں آتا ہے کہ سفر کے دوران بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے سواری کے جانور ذبح کرکے کھانے پر مجبور تھے، جب یہ سارا منظر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دیکھا تو دربار نبوی میں حاضرہوکر عرض کیا کہ اس عمل سے اصحاب کو روک دیجیے، اس طرح تو سفر سے واپسی میں شدید دِقت پیش آئے گی، حضور نے فرمایا کہ پھر اس کے علاوہ دوسری راہ کیا ہے؟ اس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے زیرکی ودانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ سب کے پاس موجود زاہ ِراہ جمع فرمالیں، اور آپ اس پر برکت کی دعا کیجیے، امید ہے کہ اللہ کی طرف سے راہ ہموار ہوجائے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کو یہ مشورہ پسند آیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان کیا، تمام صحابہ نے اپنے پاس جو تھوڑا بہت محفوظ تھا سب ایک چمڑے کے دسترخوان پر جمع کیا ،پھر آپ نے اس پر برکت کی دعا کی، اور فرمایا:”خُذُوا فِی أوعیتکم“سب اپنے توشہ دان کو مکمل بھر لو، سب نے توشہ دان کو بھرا،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اب تم لوگ کھاؤ، راوی کہتے ہیں کہ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا ،حتی کہ بہت سارا کھانا اب بھی باقی رہا، جس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللَّہِ لَا یَلْقَی اللَّہَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شاکٍّ فیحجبَ عَن الْجنَّة․“ (دلائل النبوة للبیھقی 5/229، ط۔دار الکتب العلمیة، بیروت)

مشکل مراحل طے کرتے وقت اکابر کی مخالفت سے احتراز

کسی نبی کے ہاتھ پر خرق عادت امر کا ظہور معجزہ، جب کہ ولی کے ہاتھ پر وہ کرامت کہلاتا ہے۔ دورانِ سفر پانی کی قلت و سخت گرمی کے باعث پیاس سے بُرا حال تھا، اثناء سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل ہم مقام تبوک عین زوال کے وقت پہنچیں گے،لیکن یاد رکھنا کہ مجھ سے سبقت کرکے چشمہ سے کوئی شخص پانی استعمال نہ کرے، صحابہ نے آپ کی بات پر لبیک کہا، لیکن چند منافقین نے سبقت کرکے پانی استعمال کیا، جس سے پانی میں گدلا پن آنے لگا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی سے ہاتھ منھ دھوکر دوبارہ اسی میں انڈیل دیا، اللہ کی شان اس میں معجزاتی طور پر خوب پانی بھر آیا۔ (دلائل النبوة للبیھقی 5/236، ط۔دار الکتب العلمیة، بیروت)

مخلص دوست کبھی پیٹھ نہیں پھیرتا

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی سواری لاغر وکم زوری کی بنا پر لشکر سے کوسوں دور رہ گئی، جس کو دیکھ کر آپ رضی الله عنہ نے اپنا سامان کمر پر لادکر پاپیادہ لشکر کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا،دوسری جانب حضرات صحابہ نے آپ کی عدم موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، آپ نے فرمایا :”چھوڑدو، اگر اس میں خیر ہوگی تو اللہ اسے تم سے ملادیں گے، وگرنہ وہ شامل نہ ہوسکے گا“، ابھی یہ جملہ مکمل ہی ہوا تھا کہ اچانک دور سے ایک پیادہ حالت کمر پر سامان لادے شخص کو آتا دیکھا گیا ، جس پر بے ساختہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوا”کُن أباذر“( یہ جملہ دعائیہ بصورت امر ہے، ملاحظہ ہو ،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیة، 4/83، دار الکتب العلمیة) (اے اللہ، یہ ابوذر کا آنا مقدر فرمادے)،اللہ کی شان وہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہی تھے، جنہوں نے اپنی رفاقت کاملہ کا عملی ثبوت پیش کیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں تنہا اس حال میں آتا دیکھ کر فرمایا:رحم اللہ أبا ذر،یمشی وحدہ، یموت وحدہ، ویبعث وحدہ“(اللہ رحم فرمائے ابوذر پر، تن ِتنہا سفر کرتا ہے، سب سے دور علیحدہ موت کی آغوش میں سلایا جائے گا اورآخر میں اکیلا قبر سے اٹھایا جائے گا) چناں چہ ایسا ہی ہوا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر مقام ربذہ کو اہلیہ وخادم سمیت اپنا مسکن وموطن بنایا اور عراق سے واپسی پر حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا اس مقام سے گزر ہوا، آپ کی نعش کو اس طرح تنہا دیکھ کر نماز جنازہ پڑھائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کو یاد کرکے آب دیدہ ہوگئے۔(الکامل لابن الأثیر 2/149، دار الکتب العربی ، بیروت، لبنان)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بحیثیت حاکم کا کردار

مقام تبوک پر دورانِ قیام مختلف قبائل کے زعماء ِ نے خدمت نبوی میں حاضر ہوکر جزیہ قبول کرنے کی درخواست پیش کی، جن میں ایلة مقام کے سربراہ یوحنّا بن روبہ کا نام سرفہرست ہے، آپ نے ان تمام کی درخواست کو صلح وامن پسندی کے قیام کی خاطر قبول کیا۔

نیز حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو دومة الجندل کے حاکم اُکیدر نصرانی کی گرفتاری کا حکم دیا اور پیش گوئی فرمائی کہ وہ جانور کا شکار کرتے ہوئے شکار ہوگا،، چناں چہ یوں ہی ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کی تلاش میں روانہ ہوئے، تو دوسری طرف اُکیدر فلک بوس محل کی چھت پر اہلیہ سمیت شہر کے اطراف و اکناف کا نظارہ کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کی نگاہ نیل گائے پر پڑی، شکار کی محبت وفریفتگی کا یہ عالم تھا کہ خود پر قابو نہ پاسکا اورخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ گرفتار ہوا۔ چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے جانے کے بعد ادائیگی جزیہ پر مصالحت سمیت لوٹا۔(سیرة ابن ھشام، 2/527، شرکة مکتبة مطبعة، مصطفی البابی الحلبی)

دنیا کی عدم ثباتی کا ہر دم استحضار

جب اُکیدر نصرانی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو بعض صحابہ نے اس کے قباء کا حسن ،رعنائی وملائمت کو دیکھا تو از راہ تعجب اس کو چھونے لگے، اس موقع پر آپ ا نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب کرکے پوری امت کے رُخ کو درست کیا اور فرمایا کہ تم اس پر حیرت وفریفتگی میں مبتلا ہو ،بخدا! جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا جانے والا رومال اس سے بھی کئی گنا زیادہ خوب صورت وملائم ہے۔(صحیح مسلم، باب من فضائل سعد بن معاذ 2489)

درحقیقت یہی فرق ہوتا ہے کہ ایک مصلح نبی اور عام لیڈر کے مابین، عین اس وقت جب کہ معرکہ کار زار گرم ہو، تیروں کا مینہ برس رہا ہو،ہاتھ پاؤں اس طرح کٹ کٹ کر گررہے ہوں جس طرح موسمِ خزاں میں پتے جھڑتے ہیں، دشمن کی فوجیں سیلاب کی طرح بڑھی آرہی ہوں، عین اس وقت بھی حاکم نبی اپنے اصحاب کی تربیت کا کوئی معمولی پہلو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔

رفقاء کے ساتھ ایک غم خوار امیر کارواں کا کردار

سفر تبوک میں ایک مخلص صحابی حضرت ذوالبجادین رضی اللہ عنہ(آپ کا نام عبداللہ تھا، والد کا سایہ عاطفت بچپن ہی میں اٹھ گیا تھا، پھر آپ کے چچا نے پرورش وکفالت کا ذمہ لیا، حضرت ذوالبجادین جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹ، بکریاں اور غلام دے کر ان کی حیثیت کو درست کیا، بہرحال دعوتِ اسلام سے متعلق سنا تو دل میں توحید کا مخفی بیج امڈ آیا اور اسلام قبول کرنا چاہا، مگر چچا نے گھر سے علیحدہ کردینے کی دھمکی دی، ایمان وتوحید کی سُلگتی آگ کو اب بجھنا تو دور، دبنا بھی نہ تھا، یہی وجہ ہے آپ رضی اللہ عنہ گھر، مویشی وقرابت سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر ابتلا وآزمائش کے پہاڑ ٹوٹے، بے سروسامانی کے عالم میں اصحاب صفہ کی طرح دنیاوی مال و متاع کے بالمقابل تعلیم وتعلم اور آخرت کی دائمی نعمتوں کو ترجیح دی۔حیات الصحابہ)کا بخار کی شدت کے باعث انتقال ہوا، نبی ا خود بنفس نفیس ان کے تکفین وتدفین کے مراحل میں شریک رہے، حتی کہ اپنے دست اقدس سے ان کو سپرد خاک کرکے ایک غم خوار امیر کے کردار سے روشناس کیا اور ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا:”اللھم إنی أمسیت راضیا عنہ فارض عنہ“․( رحمة للعالمین ص 118، حصہ اول، طبع شدہ دار الاشاعت)

تفرقہ بازی و فسادات کی دینِ اسلام میں بالکل گنجائش نہیں

واقعہ تبوک کی روانگی سے قبل منافقین نے مسلمانوں کے مابین باہمی پھوٹ ڈالنے اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنے کی غرض سے ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا ، جس کو ضرورت ومصلحت کے دل فریب جلی عنوان کے ساتھ سرکاری حیثیت دینے کی غرض سے حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف آوری کی درخواست پیش کی گئی، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے سفرِ تبوک سے واپسی پر حاضری کا وعدہ کیا، مگر اللہ رب العزت نے منافقین کے عزائم اور اس نام نہاد مسجد کی قلعی کھول کر حقیقتِ حال سے آگاہ کیا، چناں چہ اس سلسلہ میں ان آیات کا نزول ہوا :﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ مِنْ قَبْلُ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ،لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا) …﴾․

ترجمہ:اور کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد اس کام کے لیے بنائی ہے کہ (مسلمانوں کو) نقصان پہنچائیں، کافرانہ باتیں کریں، مومنوں میں پھوٹ ڈالیں اور اس شخص کو ایک اڈہ فراہم کریں جس کی پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے۔ اور یہ قسمیں ضرور کھا لیں گے کہ بھلائی کے سوا ہماری کوئی اور نیت نہیں ہے، لیکن اللہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں۔(اے پیغمبر!) تم اس (نام نہاد مسجد) میں کبھی (نماز کے لیے) کھڑے مت ہونا۔ ( تفسیر قرطبی، 8/253، ط۔دار الکتب المصریة ، القاھرة)

اعترافِ جرم صفاء ِقلب کی علامت ہے

اس سفر میں صرف دس افراد بغیر کسی شک وارتیاب وعذر شرعی پابہ رکاب نہ ہوسکے، جن میں کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم کے نام نمایاں تھے، البتہ حق و صداقت سے معمور دل نے ان حضرات کو منافقین کی طرح حیل و حجت پیش کرکے عذر خواہی کی جسارت سے باز رکھا، چناں چہ ندامت وپشیمانی کے ساتھ اپنے غلطی کا اعتراف کیا، مگر تکوینی نظام ومصلحت کے تحت ان حضرات سے مقاطعت کلامی کا حکم دیا گیا،چناں چہ تقریبا ًدن مقاطعت کے بعد ان تینوں حضرات کی قبولیتِ توبہ سے متعلق ان آیات کا نزول ہوا:﴿وعَلَی الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَ ظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾․( سورة التوبہ آیت نمبر 118)

ترجمہ: اور ان تینوں پر بھی ( اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے) جن کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب ان پر یہ زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی، ان کی زندگیاں ان پر دو بھر ہوگئیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ (کی پکڑ) سے خود اسی کی پناہ میں آئے بغیر کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی، تو پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا، تاکہ وہ آئندہ اللہ ہی سے رجوع کیا کریں۔ یقین جانو اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ا طاعت تمام رشتوں سے مقدم ہے

اس سماجی بائیکاٹ کے باعث نہایت رنج والم کی کیفیت کا سماں تھا، زمین باوجود اپنی وسعت کے تنگی محسوس ہورہی تھی، خویش واقارب ، دوست واحباب سب بیگانے نظر آنے لگے تھے، حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا نہایت قریبی دوست وِ چچیرا بھائی ابو قتادہ بھی مجھے جواب نہ دیتا تھا، خود نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ آپ محبت بھری نگاہوں سے گوشہ چشم سے میری شکستہ حالت کو مشاہدہ فرماتے، مگر ان کی جانب نگاہ اٹھتے ہی معرضانہ رویہ دل چیر دیتا تھا۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة تبوک،رقم الحدیث 4418)، یہ سب اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے سرنگوں ہونے کا نتیجہ تھا۔

باطل واغیار کی جانب سے دنیاوی حشم وخدم کی پیشکش کو ٹُھکرانا

رئیسِ غسان کو جب اس تمام واقعہ کی اطلاع پہنچی، اس نے شام سے ایک قاصد حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، جس سے دنیاوی آسائش و آرائش کے دل فریب تخیلاتی مناظر کو بصورتِ خط پیش کیا، اس خط کا مندرجہ یہ تھا ”ہم نے سنا کہ محمد( صلی الله علیہ وسلم)نے تمہاری قدر نہ کی،اس لئے تم میرے پاس چلے آؤ، میں تمہاری شان کے موافق تم سے برتاؤ کروں گا“ حضرت کعب رضی اللہ عنہ معتوب نبوی ہونے کے باجود شدید برہم ہوئے اور خط کو تنور میں جھونک دیا۔

مسلمانوں کے مابین محبت و تعلق کے جذبات

ان پاک طینت افراد کے قلوب ایمان و ایقان سے معمور تھے، لہٰذا اللہ کی طرف سے اجابت توبہ کی نوید سنائی جانے پرتمام مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔جس کی بشارت سلع نامی پہاڑ سے ایک بلند آواز شخص نے سنائی، روایت میں آتا ہے کہ وہ بلند آواز شخصیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ اس خوش کُن خبر کو سنتے ہی حضرت کعب رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے مسجد نبوی حاضر خدمت ہوئے، صحابہ کرام جوق درجوق مبارک باد دینے لگے، اور خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ اس سلسلہ کی ایک یادگار گھڑی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے سب سے پہلے حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے کھڑے ہوکر میرا استقبال کیا، مجھ سے مصافحہ کرکے گلے لگایا، میں ان کے اس احسان کوکبھی نہیں بھلا سکتا ۔ ( صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ تبوک،رقم الحدیث 4418)

راست گوئی باعث نجات ہے

حضرت کعب رضی اللہ عنہ توبہ کی قبولیت پر فرماتے ہیں:”اللہ رب العزت نے اسلام کی دولت سے سرفرازی کے بعد دوسری عظیم دولت راست گوئی کی اہمیت کو دل میں پیوستہ کیا، جس کی بدولت مجھے اس ابتلا سے خلاصی نصیب ہوئی“۔،چناں چہ پھرعزم کیا کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور اس عہد کو تادمِ حیات بخوبی نبھایا۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ تبوک،رقم الحدیث 4418)۔

نیز حدیث شریف میں آتا ہے:”إن الصدق بر وإن البر یھدی إلی الجنة، وإن الکذب فجور وإن الفجور یھدی إلی النار“(سچی بات نیکی ہے اور جنت کی جانب رہنما ہے،جب کہ جھوٹ گناہ ہے،اور گناہ جہنم کی جانب لے جانے والا ہے)۔

ان تمام تربیتی پہلوؤں میں پوری امت کو غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے، جن کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے ایک پُرسکون وپائیدار اخوت وبھائی چارگی کے جذبات پر قائم معاشرہ میں ایک دوسرے کے حقوق کو بآسانی پورا کیا جاسکتا ہے، اللہ رب العزت ہمیں ان باتوں کو سمجھنے وعملی زندگی میں زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)

مقالات و مضامین سے متعلق