مسجد ِاقصی کی فضیلت و اہمیت

idara letterhead universal2c

مسجد ِاقصی کی فضیلت و اہمیت
سرزمین ِ انبیاء پر واقع یہ تاریخی مسجد اسلام کا تیسر امقدس ترین مقام ہے

مولانا ابو بکر حنفی شیخوپوری

مسجد ِ اقصی تینوں آسمانی مذاہب ،یہودیت،عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں کے ہاں بہت زیادہ اہمیت و عظمت رکھتی ہے۔ اسلام میں اسے حرم کا درجہ حاصل ہے ،اس کا شمار مقدس مقامات میں ہوتا ہے،آیاتِ قرآنیہ،احادیث ِ نبویہ اور تاریخ کی معتبر روایات کی روشنی میں اس کے فضائل، مسائل،تاریخی خدوخال اور جغرافیہ وغیرہ کے اعتبار سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مسجد کے اسماء اور وجوہ ِ تسمیہ

اس عظمت و حرمت والے مقام کو ”مسجد ِ اقصی“ اور” بیت المقدس“ کہا جاتا ہے،مسجد ِ اقصی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اقصی کے معنی دوری کے آتے ہیں اور یہ مسجد بھی مسجد ِ حرام سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے اور بیت المقدس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تفسیر ِ جمل میں نقل کیا گیا ہے کہ مقدس کا معنی ہے پاکیزہ اور مطہر چیز اوراس مسجد کوبھی اللہ نے غیر اللہ کی عبادت سے پاک کیا ہے ،اس میں بتوں اور مجسموں کی عبادت نہیں کی جاتی۔ یہاں کے مقامی باشندے اسے ”حرم ِ قدسی شریف“کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

محل ِ وقوع

مسجد ِ اقصی ملک ِ فلسطین میں واقع ہے اور فلسطین کے جس شہر میں ہے وہ دو حصوں میں منقسم ہے،ایک جدید شہر ہے اور ایک قدیم ۔قدیم شہر کو ”یروشلم“بھی کہتے ہیں اور ”القدس“ بھی،مسجد ِ اقصی اور دیگر مقدس مقامات، مثلاََانبیاء کی یادگاریں ،حجرے اور گذشتہ قوموں کے آثار اسی قدیم شہر میں موجود ہیں،اس قدیم شہر کاچاروں طرف سے سولہ سو میٹر لمبی پتھر کی دیوار کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے جس میں نو بڑے بڑے دروازے ہیں۔

سرزمین ِ شام کی فضیلت

شام ایک بہت بڑا ملک تھا اور قدیم جغرافیائی تقسیم کے مطابق فلسطین الگ ملک کی حیثیت سے خطہ ارض پر موجود نہیں تھابلکہ ملک ِ شام ہی کا ایک حصہ تھا،فلسطین کے علاوہ اردن ،لبنان ،مقبوضہ فلسطین(موجودہ اسرائیل)بھی شام کی حدود میں پڑتے تھے ،اللہ تعالی نے جس طرح مسجد ِ اقصی کو عظمتوں اور برکتوں سے نوازا اسی طرح سرزمین ِشام جس میں مسجد ِ اقصی واقع ہے اس کو بھی بڑا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی ہے ،چناں چہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما(صحیح بخاری)۔اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شامنا“ یعنی ہمارا شام کہہ کر اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے جس سے اس کی عظمت دوچند ہو گئی ہے۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا:ملک ِ شام کے لیے مبارک ہو،ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ!کس وجہ سے؟ ارشاد فرمایا:رحمن کے فرشتے اس کے اوپر پر پھیلائے ہوئے ہیں(ترمذی)حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد نقل کرتے ہیں :یاد رکھو!جب فتنے آئیں گے تو ایمان ملک ِ شام میں ہو گا۔(مجمع الزوائد)

مسجد ِ اقصی کی فضیلت

مسجد ِ اقصی روئے زمین پر موجود مقدس مقامات میں سے ایک اہم ترین مقام ہے، جہاں ہزاروں سال بعد بھی نماز ِ پنج گانہ،جمعہ، عیدین،اعتکاف،درس و تدریس اور تمام عبادات کا سلسلہ جاری ہے،اس کی روحانی ،وجدانی اور نورانی فضاوٴں میں آج بھی مسلمان کچھ لمحات گزار کر اپنی تسکین ِ قلبی کا سامان کرتے ہیں۔مسجد ِ اقصی کی فضیلت کے بہت سے پہلو ہیں،جن سے اس کی تقدیس عیاں ہوتی ہے، چند ایک پہلو ذیل کی سطور میں درج کیے جاتے ہیں۔

خاص ثواب کی نیت سے سفر

مسجد ِ اقصی کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا شریعت میں مندوب اور مطلوب ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (خاص ثواب کی نیت سے)صرف تین مسجدوں کی طرف رخت ِ سفر باندھا جاسکتا ہے ،وہ مسجد ِ حرام،میری مسجد(مسجد ِ نبوی) اورمسجد ِ اقصی ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کے ثواب کے اعتبار سے تمام مساجد برابر ہیں ،کسی مسجد کو کسی پر کوئی ترجیح نہیں ،لہٰذا کسی مسجد کی طرف خصوصی ثواب کا اعتقاد رکھ کر سفر کرنا جائز نہیں،البتہ یہ تین مساجد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔

دنیا کی دوسری مسجد

مسجد ِ اقصی کو یہ خصوصی اعزاز بھی حاصل ہے کہ مسجد ِ حرام کے بعد تعمیر کے اعتبار سے خطہ ارض پریہ دوسری مسجد ہے ،حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ!زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی ؟آپ ا نے فرمایا:مسجد ِ حرام۔میں نے پھر سوال کیا:اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی ؟ارشاد فرمایا:مسجد ِ اقصی۔میں نے عرض کیا:ان دونوں میں کتنا (زمانی) فاصلہ ہے؟ارشاد فرمایا: چالیس سال(سنن نسائی)۔

نماز کے ثواب میں اضافہ

مسجد ِ اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب عام مسجدوں سے زیادہ ہے،حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری مسجد(مسجد ِ نبوی) میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب مسجداقصی کی چار نمازوں سے زیادہ ہے اور وہ بہت اچھی نماز کی جگہ ہے،عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اگر لوگوں کوگھوڑے کی ایک لگام کے برابر بھی جگہ مل جائے جس سے وہ مسجد ِ اقصی کی زیارت کر سکیں تو وہ اس زیارت کو ساری دنیا سے بہتر سمجھیں گے۔(مستدرک ِ حاکم)ایک حدیث میں ہے کہ مسجد ِ اقصی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

مقام ِ حشر

مسجد ِاقصی جس جگہ پر واقع ہے ،اس جگہ روز ِ قیامت تمام لوگوں کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ!ہمیں بیت المقدس کے بارے میں آگاہ کیجیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ سرزمین(جہاں بیت المقدس ہے)حشر کی جگہ ہے۔ (ابن ِ ماجہ)

سفر ِ معراج کی ایک منزل

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب ِ معراج آسمانی سفر سے پہلے بذریعہ براق زمینی سفر فرمایا،اس سفر کی ابتدا بیت اللہ سے فرمائی اور راستے میں کئی جگہ پڑاوٴ کیا،آخری پڑاوٴ بیت المقدس میں فرمایا،اس کے بعد زمین سے آسمان کی طرف سفر شروع فرما دیا،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس براق لایا گیا،یہ ایک سفید رنگ کی لمبی سواری تھی،گدھے سے کچھ بڑی اور خچر سے کچھ چھوٹی تھی،جہاں نگاہ پڑتی تھی وہاں اس کے قدم پڑتے تھے،میں اس پر سوار ہوا،یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گیا،وہاں پہنچ کر سواری کو اس حلقے سے باندھ دیاجس حلقے سے دوسرے انبیاء (علیہم السلام) باندھا کرتے تھے،پھر میں نے مسجد میں داخل ہو کر دو رکعات ادا کیں اورباہر نکل آیا، جبرائیل میرے پاس دو برتن لائے،ایک میں دوددھ اور ایک میں شراب تھی،میں نے اس میں سے دودھ والا برتن لے لیا،جبرائیل نے کہا:آپ نے فطرت کو پسند فرمایا،اس کے بعد وہ مجھے آسمان کی طرف لے گئے(صحیح مسلم)

مسلمانوں کا قبلہ اول

نماز میں جب تک بیت اللہ کی طرف منھ کرنے کا حکم نہیں آیا تھا تب تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منھ کر کے نماز پڑھتے تھے،حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے سولہ یا سترہ مہینے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منھ کر کے نمازیں پڑھیں،پھر کعبة اللہ کو ہمارے لیے قبلہ مقرر کر دیا گیا۔(صحیح بخاری)

انبیاء اور اولیاء کا مسکن

مسجد ِاقصی کوہزاروں نبیوں اور اولیاء اللہ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے،خدا کے نیک بندے اپنی روحانی تسکین کے لیے یہاں وقت گذارا کرتے تھے،بہت سے انبیاء کو اسی مسجد میں منصب ِ نبوت سے نوازا گیا،حضرت مریم علیہا السلام کے والد حضرت عمران اسی مسجد کی امامت وخطابت اور تولیت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ،ان کے بعد یہ ذمہ داری حضرت زکریا علیہ السلام نے اٹھائی،حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش کے اول روز سے ہی ان کی والدہ حضرت حنہ انہیں مسجد اقصی کے منتظمین کے حوالہ کر آئیں، جہاں حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی پرورش کی جو رشتے میں ان کے خالو لگتے تھے۔یہیں بیت المقدس کے حجرے میں حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ سے بیٹے کا سوال کیا ،اللہ تعالی نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خوش خبری دی،تمام انبیائے کرام علیہم السلام معراج کی شب یہاں تشریف لائے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امت فرمائی، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت لوط علیہ السلام او ر ان کی زوجہ حضرت سارہ علیہا السلام نے عراق کے شہر بابل سے یہیں ہجرت فرمائی۔اسی بنا پر مسجد ِ اقصی کو سرزمین ِ انبیاء کہا جاتا ہے۔

دجال سے حفاظت

مسجد ِ اقصی کے تقدس کے پیش ِ نظر اس میں دجال کو داخلے کی اجازت نہ ہو گی اور وہ اپنے ناپاک قدموں سے اس پاک گھر کو آلودہ نہیں کر سکے گا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:دجال زمین میں پھرے گا،مگر چار مسجدوں تک نہ جا سکے گا،وہ مسجد ِ حرام ،مسجد ِ نبوی ،مسجد ِ طور اور مسجد ِاقصی ہیں۔(طبرانی)

انبیاء کے ہاتھوں تعمیر

مسجد ِ اقصی کی تعمیر کا عمل انبیائے کرام کے مبارک ہاتھوں سرانجام پایا،بعض اہل ِ علم نے حضرت آدم علیہ السلام کو اور بعض نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس مسجد کا بانی قرار دیا ہے ،لیکن سب سے درست اور قرین ِ قیاس قول یہ ہے کہ اسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کی مدد سے تعمیر کروایاہے،جب کہ اس کی تعمیر کی تجویز حضرت سلیمان علیہ السلام کے والد ِ بزگوار حضرت داوٴد علیہ السلام نے دی اور ان کی بزرگی اور شرافت کی وجہ سے انہیں سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے سنگ ِ بنیاد رکھوایا،حدیث میں ہے: حضرت داوٴد علیہ السلام بیت المقدس کی بنیادیں پتھروں سے بھر رہے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد ِ اقصی کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں مکمل کرواوٴں گا۔(مستدرک ِ حاکم)

مقالات و مضامین سے متعلق