تحفظِ انسانیت اور مدارس اسلامیہ کا کردار

idara letterhead universal2c

تحفظِ انسانیت اور مدارس اسلامیہ کا کردار

مولانا محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی

انسان اس دنیا کی سب سے اہم،اشرف ،اکرم اور خوب صورت تخلیق ہے،وہ ایک ایسی مخلوق ہے جس کا دل درد سے معمور ہوتا ہے،اس کے دل میں ایک دوسرے سے الفت ومحبت کی کسک موجود ہوتی ہے۔اس کی فطرت ایسی ہے کہ وہ خود بھی جیتا ہے اور دوسروں کو زندہ رکھنے کی فکر بھی کرتا ہے؛کیوں کہ انسانوں کی ضروریات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں؛اسی لیے بوقت ضرورت ایک انسان دوسرے انسان کی مدد کرتا ہے:روحانی مدد بھی اور مادی مدد بھی۔اور اسی الفت و محبت،دردِ دل،پاسِ وفا اور جذبہ ایمانی کو آدمیت اور انسان کا کمال اور اس کی شناخت سمجھا جاتا ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی محض کھانے پینے کا نام نہیں ہے،انسان کی زندگی صرف مادی یا حیوانی زندگی کا نام نہیں ہے،بلکہ وہ بقول بعض: ایک سماجی حیوان بھی ہے؛اس لیے ایک طرف اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو پہچانے، اس کے آگے سر جھکائے اور اسی کی مانے تو دوسری طرف وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ اپنے سماج کی تعمیر وترقی کی فکر کرے؛کیوں کہ انسانیت کی حفاظت اس کا اپنا کام ہے،یہ کام اتنا اہم ہے کہ شریعت نے اس میں مذہب و ملت کی تفریق روا نہیں رکھی ہے؛بلکہ پیامِ انسانیت کے مخاطب سبھی ہیں؛تاہم اہلِ ایمان اس کے اوروں سے زیادہ مخاطب ہیں؛کیوں کہ انھیں خلافت ارضی کا اہل بنایا گیا ہے؛ لہذا وہی اس کائنات کے گیسوئے برہم کو سنوارنے اور سلجھانے کے ذمہ دار اور پابند ہیں۔

احترام انسانیت اور تحفظ انسانیت کا مطالبہ فرد کے ساتھ جماعت،تنظیم اور اداروں سے بھی ہے،بلکہ یہ کام تنظیمی سطح پر زیادہ موثر اور پائیدار ہے؛کیوں کہ فرد جب جماعت کا جامہ زیب تن کرتا ہے تو اس میں اجتماعیت کی قوت پیدا ہوتی ہے؛اسی لیے ہر دور میں ہر ملک میں ہر قوم میں اور ہر علاقے میں ایسے افراد و ادارے موجود رہے ہیں جو انسانوں تک انسانیت کا پیغام پہنچاتے ہیں، نیز جب انسانیت کے تانے بانے بکھرتے ہیں تو وہ اس کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوجاتے ہیں،ہمارے ملک ہندستان میں بھی ایسے انسانی اور فلاحی ادارے بکثرت موجود ہیں اور اپنے مشن میں مصروف ہیں۔

ہندستان کی تاریخ میں جب بھی تحفظ انسانیت اور انسانی اقدار کی حفاظت کیگفت گو کی جائے گی تو اس حوالے سے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کا تذکرہ ضروری ہوگا اور جب ان کا ذکر ہوگا تو کوئی بھی منصف مزاج مورخ مدارس اسلامیہ ہندیہ کو نظر انداز نہیں کرسکتا،کیوں کہ فرد،جماعت،سماج،معاشرہ،احیاءِ انسانیت، تکریم انسانیت،بقاءِ انسانیت، تحفظِ انسانیت کے حوالے سے جتنی مثبت اور موثر تعلیمات اور راہ نمائی ہو سکتی ہیں وہ سب انہی مدارس کی مرہونِ منت ہیں،یہیں سے ملک کو تہذیب وتمدن کی سوغات ملتی ہے ،انسانی اخلاق و معاشرت کا وہ قیمتی نظام یہیں سے برپا ہوا ہے جس نے ملک کو ایک نئی سمت بخشی اور انسانوں کی انسانیت کی حقیقت معلوم ہوئی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ کی خشت اول امن کے گارے سے تیار ہوتی ہے،رحم مدارس کا بنیادی کام،امن و سلامتی اس کا عنوان اور تحفظ انسانیت ان کا نظام ہے،مدارس اسلامیہ سے نکلنے والے افراد و اشخاص صرف مذہبی رہ نما نہیں ہوتے بلکہ وہ تکریمِ انسانیت کے محافظ و معمار بھی ہوتے ہیں،وہ ایک طرف نماز روزے کے پابند ہوتے ہیں تو دوسری طرف سماجی خدمت گذار بھی ہوتے ہیں،وہ حق خدا کی ادائیگی کے ساتھ حقِ بندگانِ خدا کی فکر سے سرشار ہوتے ہیں،وہ صرف اپنی نہیں سوچتے، بلکہ سماج اور معاشرے کی اصلاح اور انسانیت کی حفاظت کا غم ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہوتا ہے،یہ انسانیت کے خلاف نہ آواز بلندکرتے ہیں اور نہ ہی حقوق انسانیت کے نام پر انسانیت کا خون بہاتے ہیں، یہاں کے فاضلین ہتھیار نہیں اٹھاتے،دہشت کے بجائے رحمت ِانسانیت کے علم بردار ہوتے ہیں،وہ اپنے گلستاں میں بم اور بندوق کی جگہ انسانیت کے لالہ و گل کھلاتے اور اسی کی خوش بو پھیلاتے ہیں ؛یہی وجہ ہے کہ ایسی تمام تنظیمیں اور ادارے جو تحفظِ انسانیت کے نام پر وجود میں آئے ہیں مدارس اسلامیہ کے فضلاء اور علماء ان کی روح اور ان کی پاس داری و پائیداری کے ضامن ہیں،چوں کہ ہندوستان کی تمام بڑی تنظیموں کی باگ ڈور علماء کے ہاتھوں میں ہے اسی لیے وہ کام یاب اور اپنے مقصد میں بامراد ہیں۔

بلا شبہ مورخ یہ لکھنے پر خود کو مجبور پائے گا کہ مدارس اسلامیہ کی بقا اور ان کا تحفظ نہ صرف مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے؛بلکہ غیر مسلموں کے لیے بہتر ہے، مدارس نے ہر دور میں انسانی خدمت اور بقائے باہم کو رواج دیا ہے۔ معاشرتی حقوق وآداب سے واقف کرایا ہے۔ ملک میں امن وامان اور سکون واطمینان کی فضا ہم وار کی ہے،اسی لیے راقم الحروف مدارس اسلامیہ کو رفاہی اور انسانی خدمات کے مراکز کی فہرست میں سب سے بالا رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم مدارس اسلامیہ کا یہ کردار برادران وطن تک نہ صرف یہ کہ پہنچائیں،بلکہ ان کے دلوں میں یہ چراغ روشن کریں، تاکہ آپسی دوری اور باہمی نفرت کی تاریکی ختم ہو سکے۔

اہلِ نظر کی شہادت

ویسے تو مدارس اسلامیہ کا مذکورہ بالا پہلو علماء کے درمیان بہت روشن اور صاف ہے؛تاہم اس حوالے سے کچھ اقتباسات سپردِ قرطاس کرنا مناسب ہوگا۔

مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رقم طراز ہیں:
”مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں مردم گری اور مردم سازی کا کام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کاوہ بجلی گھر(پاورہاوس)ہے جہاں سے اسلامی آبادی، بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ کائنات ہے جہاں سے پوری کائنات کااحتساب ہوتاہے اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کافرمان پورے عالم پرنافذ ہے،عالم کا فرمان اس پرنافذ نہیں،اس کا تعلق براہ راست نبوت محمدی صلی الله علیہ وسلم سے ہے، جوعالم گیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی،اس کا تعلق اس انسانیت سے ہے جو ہردم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جو ہمہ وقت رواں دواں ہے ہردور اور ہرزمانے میں اس نے اہم رول اداکیا ہے“۔(ماہنامہ اذان بلال ،آگرہ)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
∗…میں مدرسے کو پڑھنے پڑھانے اور پڑھا لکھاانسان بنانے کا کارخانہ نہیں سمجھتا،میں مدرسے کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں، میں اس سطح پرآنے کوتیار نہیں ہوں کہ مدرسہ اسی طریقہ سے پڑھنا لکھنا سکھائے یا یوں کہنا چاہیے کہ پڑھنے لکھنے کاہنر سیکھنے کاایک مرکز ہے،جیسے کہ دوسرے اسکول اور کالج ہیں،میں مدرسے کو نائبین رسول اور خلافت الٰہی کا فرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ وبقا کا راستہ دکھانے والے افراد پیدا کرنے والوں کاایک مرکز سمجھتاہوں،میں مدرسہ کو آدم گری اورمردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتاہوں…۔(پاجاسراغ زندگی)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
∗… تمام دینی تحریکوں، جماعتوں اور مسلم تنظیموں کو ان ہی(مدارس) سے غذا مل رہی ہے، انھوں نے عوام میں دینی جذبات ، ایمانی حمیت اور اسلامی شعور کی چنگاری کو سرد ہونے سے بچایا ہے، یہاں تک کہ مدارس ہی سے نکلنے والے افراد ہیں، جو آج ملک میں خدمت خلق ، مظلوموں کی مدد، فساد سے متاثر ہونے والے افراد کا تعاون اور ان کی عدالتی پیروی جیسے کام انجام دینے میں بھی شریک یا پیش پیش ہیں، ان مدارس کے فارغین نے مسلمانوں کو بھی اعمال صالحہ کی دعوت دی ہے اور محدود پیمانہ پر سہی برادران وطن تک بھی ایمان کی دعوت پہنچائی ہے؛ اس لیے اگر کہا جائے کہ یہ ملت اسلامیہ کی شہہ رگ ہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا…۔ (دینی مدارس:اہمیت، موجودہ دشواریاں اور حل، بصیرت آن لائن،.m.Daily hunt.in )

مولانا سہیل اختر قاسمی نے فیصلہ کن بات لکھی ہے:
∗… مدارس کی افادیت، تعمیری حیثیت، اخلاقی ساکھ، تشکیلی امیج اور بنیادی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، آج بھی وہ مشعل راہ اور نقوش ہیں، اسے اپناکر، اقدار کی اصلاح کرسکتے ہیں، اخلاقیات کی اشاعت ہوسکتی ہے، تعلیم کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے، ناخواندگی کا انسداد ہوسکتا ہے، برائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور ہر طرح کی قباحتوں کو فنا کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے۔

درحقیقت دینی مدارس کا سارا نظام، عملہ، طلبہ اور فاضلین جس کام اور مشن پر مامور ہیں وہ لاتفسدوا فی الارض کی تمثیل اطاعت پر مبنی ہے، اس کا بنیادی مشن ہی معاشرے میں امن وسلامتی کی اشاعت ہے، جس قرآن وحدیث کی تعلیم ان مدارس میں ہوتی ہے اس کی خمیر ہی معاشرہ سازی اور انسانی نسل کی اصلاح وتعمیر ہے، مدارس دینیہ کے پورے مقاصد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی اصلاح و تعمیر کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں، ان مدارس کا تعلیمی جائزہ یہ بتلاتا ہے کہ دنیا کا سب سے معتدل اور متوازن نصاب مدارس اسلامیہ میں رائج ہے، جس نصاب میں تشدد، انتہا پسندی اور غلو آمیزی کا درس نہیں ہوتاہے، بلکہ امن وسلامتی، اصلاح وتعمیر اور معاشرہ سازی کی تعلیم دی جاتی ہے، درحقیقت مدارس اسلامیہ کا نصاب وہ بہترین مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں نصاب سازی اور ازسر نو تعلیمی نظام کی تخلیق پوری دنیا کو امن وسلامتی کی راہ پر لاکھڑا کرے گا، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سورج جیسی روشن حقیقت کو سمجھا جائے اوراسے برتاجائے۔

الغرض مدارس اسلامیہ کا مکمل تعلیمی، تربیتی، اخلاقی، انتظامی، معاشی اور سماجی نظام اعتدال و توازن کا مظہر ہے ،اس کا ہرحصہ قابل اعتماداور ہر شعبہ اعتدال وامن پسندی کا داعی ہے۔ مدارس کے صرف وبذل میں جس اعتدال کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ اقتصاد وتوازن کا اعلیٰ ترین مظہر ہے ،جس میں عیاشی، عیش کوشی اور سامان عیش وطرب کی فراہمی کے لیے سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا، بلکہ بنی نوع انسان کے لیے سامان درس ہوتاہے،اس کا متوازن معاشی نظام ان تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو یہ درس دیتا ہے کہ کھربوں اور کروڑوں روپے خرچ کرنے اور سامان تزئین کے بے پناہ استعمال کرنے کی وجہ سے آنے والے تعلیمی خرچ میں جو اچھال پیدا ہے اور جس طرح تعلیم کو مہنگا بناکر پیش کیا گیا ہے جس کی بنا پر ہزاروں اور لاکھوں غریب بچوں کی دست رس سے تعلیمی حصولیابی دور ہوگئی ہے وہ افسوس ناک ہے، کاش کہ یہ عیاشی اور دھماچوکڑی ختم کی جائے! تاکہ غریب سے غریب بچہ تعلیمی اسلحہ سے لیس ہوسکے اور علوم وفنون کا حاصل کرنا آسان ہوسکے۔

مدارس دینیہ کا انتظامی نظام وقار وسنجیدگی اور عدل ومساوات کا بہترین نمونہ ہے، اگر یہ نقوش ہماری عصری یونی ورسٹیاں اپنالیں توطلباء کی جانب سے ہونے والے احتجاجات اور ان کے نقصان سے محفوظ رہنا آسان ہوجائے گا،مدارس اسلامیہ کا اخلاقی نظام، اخلاق ومروت کے مظاہرہ کی دعوت دیتا ہے، سچ یہ ہے کہ طلبائے علوم دینیہ کا حسن سلوک اور طرز معاشرت اتنا بلند اور ارفع ہے کہ اسے ہم سماوی رفعتوں سے تعبیر کرسکتے ہیں، آج ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے ان نقوش کو اپنایا جائے اور انتہا پسندی، جوکہ دہشت گردی کی ہی ایک نوع ہے، اس کا سدباب کیا جاسکے۔

الغرض دینی مدارس، سراپا امن وسلامتی ہیں، ان کا کردار ماضی میں بھی صاف ستھرا اور روشن تھا، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا ،درحقیقت دینی مدارس، ایک ایسا مشعل ہیں جس کی روشنی میں امن کا شہر قائم کیاجاسکتا ہے اور پرامن معاشرہ کی تکمیل ہوسکتی ہے، آج اس کی ضرورت ہے، اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس ضرورت کو ضروری اور لازم سمجھاجائے۔(اجتماعی اقدار کی تشکیل میں دینی مدارس کا کردار ،ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ :10,9 جلد93،رمضان شوال 1430ھ مطابق ستمبر۔اکتوبر2009ء)

مقالات و مضامین سے متعلق