انفاق فی سبیل الله کی اخلاقیات

انفاق فی سبیل الله کی اخلاقیات

محمد احمد حافظ

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کَالَّذِی یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاء َ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًا لَّا یَقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیْء ٍ مِّمَّا کَسَبُوا وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ﴾․(سورة البقرہ، آیت نمبر264)
” اے ایمان والو! اپنے صدقہ وخیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر ضائع مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور الله تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ پس اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اس پر کچھ مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زور دار بارش برسے او راس (پتھر) کو بالکل صاف کر دے۔ کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کے جو انہوں نے کمایا اور الله نہیں دکھاتا سیدھی راہ کافروں کو۔“

تحقیق لغات
لاتبطلوا… الباطل: نقیض الحق وھو مالاثبات لہ عند الفحص عنہ…یہ حق کا مقابل ہے، تحقیق کے بعد جس میں پائیداری نظر نہ آئے۔

بالمن… المنُّ: مصدر، کسی پر احسان کرنا ،کسی پر احسان جتانا، جیسے کہا جاتا ہیمنَّ علیہ بکذا: کسی پر کسی کام کا احسان جتانا، یعنی حسن سلوک کرنے یا انعام دینے پر فخر کرنا۔

اذیٰ… آذی الشخص: کسی کو تکلیف پہنچانا۔الاذیٰ: تکلیف، کوفت، خرابی، عیب وغیرہ۔

کالذی…یہاں کاف محل نصب میں ہے۔ نصب یا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے ہے یا حال ہونے کی بنا پر۔

رئاء الناس… رئآء: مصدر۔ دکھاوا، خود نمائی، کسی کو دکھانے کے لیے کوئی کام کرنا۔

صفوان… الصفوان کالصفا، الوحدة: صفوانة: چکنی چٹان، صاف چکنا پتھر، اس کا واحد صفوانة ہے۔

وابلٌ… (و ب ل) المطر الثقیل القطار موسلا دھار بارش، بڑی بوندوں کا مینھ۔ کہا جاتا ہے الارض موبولة زمین خوب تر ہو گئی یا جیسے عذاب وبیل، شدید عذاب․

صلداً…(ص ل د) الموضع الذی لاشعر علیہ: صاف، سپاٹ اور سخت پتھر جس پر کچھ نہ اُگے، بنجر زمین۔

صدقہ وخیرات کے اخلاقی احکام
درج بالا آیت سورہٴ بقرہ کے چھتیسویں رکوع کی ہے، اس سورہ کے آخری رکوع سے پہلے کے چار رکوعات اسلام کے مالیاتی نظام کے متعلق احکام پر مبنی ہیں۔ جن میں ہر مسلمان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تجارت اور صدقہ وخیرات میں مذکورہ احکام کو ملحوظ رکھے، پھر صدقہ وخیرات کے فضائل بتائے ہیں، ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو صدقات کو دوسروں کی اذیت کا سبب بناتے ہیں، نیز اسی ذیل میں ان صاحبان ایمان کا ذکر بھی کیا ہے جو خالصتاً لوجہ الله صدقات کا اہتمام کرتے ہیں۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے پچھلی دو آیات کا ذکر بھی ضروری ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہے : ﴿الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًی لَّہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ، قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّن صَدَقَةٍ یَتْبَعُہَا أَذًی وَاللَّہُ غَنِیٌّ حَلِیمٌ﴾

ترجمہ:” جو لوگ الله کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ہی اذیت دیتے ہیں، انہی کے لیے اجر ہے ان کے پروردگار کے پاس اور نہ ڈر ہے( قیامت کے دن ) اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ نرمی کے ساتھ جواب دینا اور درگزر کا معاملہ کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے اذیت ہو او رالله بے نیاز او ربڑے ہی تحمل والا ہے۔“

اپنے صدقہ وخیرات کو برباد مت کرو
﴿لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم﴾… اس آیت کے ذیل میں حکم الامت حضرت تھانوی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:
جس طرح نماز کے لیے دو قسم کی شرطیں ہیں، شرائط صحت: جیسے وضو اور طہارت۔شرائط بقا: جیسے نماز میں کسی سے بات نہ کرنا، کھانے سے پرہیز کرنا وغیرہ، اسی طرح صدقات کے لیے بھی دو قسم کی شرطیں ہیں، ایک تو شرط صحت کہ اخلاص کے بغیر صدقہ صحیح نہیں ہوتا، لہٰذا جو صدقہ ریا اور نفاق کے ساتھ دیا جائے وہ شریعت میں معتبر نہیں۔ دوسری شرط بقا ہے کہ اگر سائل کو احسان جتایا یا ایذا پہنچائی تو صدقہ ضائع او رباطل ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں صدقہ وخیرات کے مفسدات میں سے ہیں۔ (خلاصہ)

تین روحانی بیماریاں
زیر درس آیت میں تین لفظآئے ہیں: ”من، اذیٰ، رئا (ریا)… “ یہ دراصل روحانی بیماریاں ہیں او رمتعدی ہیں۔ ان بیماریوں کا مریض نہ صرف خود تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے، بلکہ اپنے قول وعمل اور رویے سے دوسروں کی اذیت کا سبب بھی بنتا ہے۔

”من “کا معنی ہے، جس پر احسان کیا ہے اس پر اپنا احسان جتانا، اس پر احسان شماری کرنا، قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، حدیث شریف میں ہے، حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: احسان جتانے والا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (نسائی)

”اذیٰ“ کا معنی ہے کہ جس پر مال خرچ کیا ہے اس پر یا سائل پر اپنی برتری جتانے کے لیے اسے کہنا کہ تو مجھ سے کتنا مانگے گا؟ یا کہے کہ مجھے کتنا ستائے گا؟ یا اپنے دیے ہوئے کا ایسے لوگوں کے سامنے تذکرہ جن کے واقف ہونے پر لینے والے کو ناگواری ہو۔

ریا کا مطلب ہے کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی نیک عمل کرنا، تاکہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔ امام ماوردی فرماتے ہیں : جب عطا اس ارادہ پر ہو کہ وہ جزا اور شکر کی طلب سے خالی ہو، احسان جتانے اور شہرت سے بھی پاک ہو تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے انتہائی اعلیٰ واشرف ہے اور قبول کرنے والے کے لیے باعث برکت ہے، لیکن جب عطا کرنے والا اپنی عطا سے جزا کا خواہش مند ہواوراس کے عوض شکر اور ثنا کا طالب ہو تو وہ شہرت کا طالب اور ریا کاری کرنے والا ہے ۔ (بحوالہ قرطبی)

مذکورہ آیات میں غور وفکر سے انسان پر واضح ہوتا ہے کہ صدقہ وخیرات جس طرح تطہیر ِ مال کا ذریعہ ہیں اسی طرح تزکیہٴ باطن کا سبب بھی ہیں، الله تبارک وتعالی کی بارگاہ میں صرف حلال وطیب مال پیش کر دینا ہی کافی نہیں، بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے کی نیت کا خالص ہونا بھی ضروری ہے اور یہ تب ہے جب صدقہ کرتے وقت ریا کاری نہ ہو، احسان نہجتایا جائے اور نہ ہی سائل کو جھڑک کر یا کسی دوسرے ذریعے سے اذیت پہنچائی جائے، جو شخص ایسا کرتا ہے اس کے صالح اعمال باطل ہو جاتے ہیں، اسی طرح ریاکاری اتنی خطرناک روحانی بیماری ہے کہ جہاں اس کا شائبہ بھی پایا جائے عمل صالح برباد ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خصلت کو کفار کا شیوہ بتایا گیا ہے …﴿کَالَّذِی یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاء َ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾․

ریا کاری کی مذمت احادیث میں بھی بہت صراحت کے ساتھ مذکور ہے، چناں چہ حدیث شریف میں ہے: حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إیاکم والامتنان بالمعروف، فانہ یبطل الشکر ویمحق الأجر…“ تم نیکی کے ساتھ احسان جتانے سے بچو، کیوں کہ یہ شکر کو باطل کر دیتا ہے او راجر کو مٹا ڈالتا ہے … ۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ﴾ (الآیة)

حضرت جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص شہرت طلبی کے لیے عمل کرتا ہے الله بھی اس کے عمل کو شہرت طلبی کے لیے قرار دیتا ہے اور جو ریا کاری کرتا ہے الله بھی اس کے کام کو ریا کاری قرار دیتا ہے۔ ( بخاری ومسلم)

حضرت محمود بن لبید رضی الله عنہ راوی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ خطرہ شرک ِ اصغر سے ہے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله! شرک اصغر کیا ہے؟ فرمایا:”ریا کاری“(رواہ احمد) بیہقی نے اتنا مزید نقل کیا ہے کہ جزا وسزا کے دن الله تعالیٰ ریا کاری کرنے والے سے فرمائیں گے کہ ان کے پاس جاؤ جن کو تم دنیا میں اپنے اعمال دکھایا کرتے تھے، جا کر دیکھ لو ان سے تمہیں جزا ملتی ہے (کہ نہیں)۔

ریا کاری کا نقصان
الله تعالیٰ نے انسانوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال بھی بیان فرما دی کہ : جیسے پتھر کی ایک چٹان ہو، جس پر کچھ مٹی وغیرہ بھی پڑی ہو، اس پر موٹے قطرے کی بارش برسے او راس چٹان کو بالکل صاف کر دے تو جس طرح یہ بارش ایک پتھر کو صاف کر دیتی ہے اسی طرح ریا کاری بھی نیک اعمال کو لوح عمل سے صاف کر دیتی ہے۔

ریا کاری کا شر صرف صدقات تک محدود نہیں، بلکہ دیگر عبادات، مثلاً نماز، حج، جہاد، ذکر واذکار، تلاوت ِ قرآن، تبلیغ دین کو بھی شامل ہے،جہاں بھی ریا پایا جائے گا ،عمل خواہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، باطل ہو جائے گا۔

اخلاص نیت سے صدقہ کرنے والوں کی مثال
زیر درس آیت سے اگلی آیت میں الله تعالیٰ نے ان لوگوں کی مثال او ران کے بلند درجے کا ذکر بھی فرمایا ہے جو انفاق فی سبیل الله کے وقت نام ونمود کا اشتہار نہیں بنتے، بلکہ خالص الله کی رضا اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَمَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاء َ مَرْضَاتِ اللَّہِ وَتَثْبِیتًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ﴾․

”اور ان لوگوں کی حالت جو اپنے اموال کو الله تعالیٰ کی خوش نودی اور الله تعالیٰ کے وعدہٴ جزا اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے خرچ کرتے ہیں اس جیسی ہے کہ ہموار اونچے میدان کا باغ ہو، اس پر موٹے قطروں کی بارش خوب برسے، پھر اس کے پھلوں کو دوگنا کر دے، پس اگر بارش نہ بھی ہو صرف پھوار پڑ جائے تو بھی کافی ہو اور الله تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھتاہے۔“ (سورہ البقرہ، آیت:265)

اعمال خیر کی تشہیر کے جدید طریقے
خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی نیک عمل کے ساتھ خلوص نیت کا سرمایہ ہو تو بھلے وہ عمل حجم کے اعتبار سے کتنا ہی چھوٹا اور کم کیوں نہ ہو الله کے ہاں مقبول ہے، دکھلاوے، ریا کاری اور ایذا کے ساتھ کیا گیا نیک عمل حجم کے اعتبار سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو مردود ونامقبول ٹھہرتا ہے۔ لیکن آج کل لوگوں کا مزاج ہی دیگر ہو گیا ہے، اپنے معمولی سے خیر کے کام کی یوں تشہیر کی جاتی ہے کہ الامان!… کسی غریب کا بھلا کرتے ہوئے تصویریں بنائی جاتی ہیں ، اشتہاروں میں، اخباروں میں اور سوشل میڈیا پر اپنی سخاوت کے ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں، تاکہ لوگ تعریف کریں۔ اس میں کبھی دوسروں کی واہ واہ حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، کبھی یہجتانا مقصودہوتا ہے کہ ہم بہت صدقہ وخیرات کرنے والے ہیں … الامن رحم الله! کیا کوئی شریف النفس جومحتاج ہو، وہ چاہے گا کہ اس کی محتاجی کو برسرعام رسوا کیا جائے؟ عادی مانگنے والوں کی بات دوسری ہے، لیکن جو حقیقی محتاج ہوں وہ کبھی نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ مدد اور تعاون کو عام لوگوں پر ظاہر کیا جائے۔ اس طرح کا اظہار بھی شرفاء کے حق میں اذیت کا سبب ہے۔

قبولیت صدقہ کی چھ شرائط
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات سے قبولیت صدقہ کی چھ شرطیں مستنبط فرمائی ہیں:
1..اول اس مال کا حلال ہونا جو الله کی راہ میں خرچ کیا جائے۔
2..دوسرے طریق ِ سنت کے مطابق خرچ کرنا۔
3..صحیح مصرف میں خرچ کرنا۔
4..خیرات دے کر احسان نہ جتانا۔
5..ایسا کوئی معاملہ نہ کرنا جس سے ان لوگوں کی تحقیر ہو جن کو یہ مال دیا گیا ہے۔
6..جو کچھ خرچ کیا جائے اخلاص نیت کے ساتھ خالص الله کی رضا کے لیے ہو، نام ونمود کے لیے نہ ہو۔

دعا کرنی چاہیے کہ الله تعالیٰ ہمیں اخلاص کی نعمت سے نوازیں اور ایذاء واحسان اور ریا کاری جیسے روحانی امراض سے بال بال محفوظ رکھیں۔ آمین !