دشمنانِ اِسلام کے مکروفریب سے بچاؤ کی تدابیر

idara letterhead universal2c

دشمنانِ اِسلام کے مکروفریب سے بچاؤ کی تدابیر

مولانا زبیر احمد صدیقی

﴿إِن تَمْسَسْکُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْہُمْ وَإِن تُصِبْکُمْ سَیِّئَةٌ یَفْرَحُوا بِہَا وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا إِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ﴾․(آل عمران:120)

ترجمہ:”اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو اُ ن کو برا لگتا ہے اوراگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اُس سے خوش ہوتے ہیں۔ اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو اُن کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں ، وہ سب الله کے ( علم اور قدرت کے ) احاطے میں ہے۔“

مذکورہ بالا آیت کے آغاز میں منافقین اور دشمنان ِ اسلام کی فطرت وسرشت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ لوگ اہل اسلام اور اسلام کی ترقی وخوش حالی، کام یابی وکام رانی پر دل گرفتہ اور پریشان ہوتے ہیں۔ اُنہیں یہ سب کچھ بُرا لگتا ہے، یہ کبھی نہیں چاہتے کہ تم نفع مند ہو جاؤ۔ دوسری جانب ان لوگوں کو اہل اسلام کی تکلیف ومصیبت، پریشانی اور حوادث اچھے لگتے ہیں، یہ مسلمانوں کی تکلیف پر خوش وخرم ہو جاتے ہیں۔ گویا منافقین، اسلام اوراہل اسلام کے سخت ترین دشمن اور متعصب ترین مخالف ہیں۔ آیت میں دشمنان ِ اسلام کے مکروفریب سے حفاظت کا طریقہ کار بھی بتایا جارہا ہے۔

آج بھی اسلام او راہل اسلام دشمنان اسلام کے نرغے میں ہیں۔ دنیا بھر میں اسلام دشمن قوتیں اہل اسلام پر عسکری، معاشی، اقتصادی، سیاسی اور تہذیبی جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی جان ومال، عزت وآبرو، ایمان وعمل، تہذیب وتمدن سبھی خطرہ میں ہیں۔

ایک جانب اُمت ِ محمدیہ کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، دوسری جانب ان کو معاشی طور پر کم زور کیاجارہا ہے، ان کے وسائل ختم یا محددو کیے جارہے ہیں، نیز ان کے وسائل کو بے وقعت بھی بنایا جارہا ہے، مشرق وسطی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ تیسری جانب اسلامی ممالک کی سرحدوں کو کم زور، انہیں فرقہ وارانہ، علاقائی ، لسانی، قومی تنازعات میں اُلجھا کر، ان ممالک میں دہشت گردی کو پروان چڑھا کر ،انہیں تقسیم کرنے اور توڑنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ چوتھی جانب اسلام کے عقائد واحکام کے خلاف منظم تحریک چلا کر مسلمانوں کے بچوں کو گم راہ کرنے او رمرتد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ احکام اسلام پر اعتراضات ِ فاسدہ کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں تشکیک پیدا کی جارہی ہے ۔ حضرت انبیاء علیہم السلام، حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین عظام کی توہین وتنقیص کے ذریعے ایمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ پانچویں جانب اسلامی تہذیب واقدار کا خون کرتے ہوئے حیاباختہ عادات، رسوم ورواج، فحاشی، عریانی، بے راہ روی اور غیر اسلامی تہذیب وثقافت کو فروغ دیا جارہا ہے۔

الله تعالیٰ نے کفار ومنافقین کی ان ریشہ دوانیوں سے حفاظت کے لیے دو چیزوں کا اَمر فرمایا:
1.. صبر کا دامن تھام لو۔
2.. تقوی اختیار کرو۔

مذکورہ دونوں صفات کے ساتھ دشمن کا مکروفریب کا فور ہو جائے گا اور مسلمانوں کو کوئی گزند نہ پہنچے گی۔ صبر سے مراد، اسلام اور احکام شریعت پر چلتے رہنا، کسی بھی صورت اپنے دین ومذہب سے روگردانی ، پسپائی نہ اختیار کرنا، بلکہ اسلام پر پوری قوت کے ساتھ ڈٹ جانا ہے۔

اہل علم نے صبر کے تین درجے بیان کیے ہیں:
1.. صبر علی الطاعات:
الله تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور طاعات وفرماں برداری کرتے رہنے او رترک نہ کرنا۔

2.. صبر علی المعاصی:
گناہوں، حق تعالیٰ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرتے رہنا اور پرہیز کرنا۔

3.. صبر علی المصائب:
مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے اگر مشکلات درپیش ہوں، نیز تکالیف کا سامنا کرنا پڑے، تو ایسی تکالیف او رمشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنا۔

ذکر کردہ آیت میں دوسرا حکم ”تتقوا“ یعنی ”تقویٰ“ اختیار کرنے کا ہے۔ تقوی کا معنی ”پرہیز اور بچاؤ“ کے آتے ہیں۔ قرآن کریم اور سنت نبویہ کی اصطلاح میں تقویٰ الله تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے اجتناب کا نام ہے۔ تقویٰ میں کفر وشرک، گناہ کبیرہ، گناہ صغیرہ اور مشتبہ ومشکوک اشیاء سے مجتنب ہونا سبھی شامل ہیں۔ تقوی قرآن کریم کا ایک جامع لفظ ہے، جو بہت سے پرہیزوں اور احتیاطوں کو شامل ہے۔ حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں اورجناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے احادیث میں کثرت سے تقویٰ کا حکم بھی دیا ہے او رتقویٰ کے ثمرات وبرکات بھی بیان فرمائے ہیں۔ تقوی کے حصول کی جانب متوجہ کرنے کے ساتھ اُن اَعمال کی بھی نشان دہی فرمائی، جو تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ نیز متقین کے انجام کار او رکام یابیوں کا بھی ذکر فرمایا۔

تقویٰ کے فوائد میں ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ تقویٰ کی برکت سے مسلمان الله تعالیٰ کی حفاظت ونصرت کے مستحق بن جاتے ہیں، اُن کے دشمن اُن کے خلاف کارروائیاں کرکے بھی ناکام ہوتے ہیں۔ اس کا عملی نمونہ غزوہ بدر اور صحابہ کرام کی دیگر مہموں کی صورت میں عیاں ہے اور تقوی میں کمی کے باعث الله تعالیٰ کی نصرت وحفاظت کارُک جانا بھی کسی سے مخفی نہیں۔

مقالات و مضامین سے متعلق