ہے مگر تیری محبت کا تقاضا کچھ اور

ہے مگر تیری محبت کا تقاضا کچھ اور

میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے ایک غور طلب پہلو
عبدالرشیدطلحہ نعمانی

لیجیے!ایک بار پھر ماہ ربیع الاول ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے،اسلامی ہجری کیلنڈر کے مطابق یہ سال کا تیسرا مہینہ ہے؛ جس کے ایک معنی عربی زبان میں ”بہار“ کے آتے ہیں،یہ مہینہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے نہ صرف امت مسلمہ؛بلکہ بنی نوع انسانی اور اس سے بڑھ کر تمام مخلوقات وجہانوں کے لیے موسمِ بہار اور فصلِ گل کی حیثیت رکھتاہے؛ اس لیے اِسے ربیع کا مہینہ کہاجاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی بعثت جہالت کے ظلمت کدے میں روشنی کی بہار ہے، افراط وتفریط کے زہرناک ماحول میں اعتدال و توازن کی بہار ہے،انتشار و خلفشار کے عہدنامسعود میں وحدت و یک جہتی کی بہار ہے اور ظلم و عدوان کی خونیں سرزمین پر امن و انصاف کی بہار ہے۔کہنے والے نے سچ کہاہے#
          حضور(ﷺ) آئے تو سرِّآفرینش پاگئی دنیا
          اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا
          سُتے چہروں سے زنگ اترا، بجھے چہروں پہ نور آیا
          حضور(ﷺ)آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا

ماہ ربیع الاول اور میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کی مناسبت سے ایک مختصر؛مگر اہم رسالے کی تلخیص قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مقصود ہے؛جس کے مرتب جناب سید میر سعید صاحب(دبیرپورہ حیدرآباد) ہیں،جوایک دین دار تاجر اور فکر مند ومتشرع آدمی ہیں،انہوں نے پچھلے کئی سالوں سے غور و فکر اور علمائے کرام سے رجوع و تحقیق کے بعد مستند مفتیان کرام کی معاونت سے ایک رسالہ بہ نام“میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم میں پیر کے دن کا اعتبار ہے یا…؟؟”مرتب کیا ہے ،جومختلف ذیلی عناوین کے تحت پاکٹ سائزکے قریباً30/ صفحات پر مشتمل اور اکابر علما کی تقریظات سے آراستہ و مزین ہے۔

موصوف کی اس سعی مشکور کا حاصل جہاں تک راقم السطور سمجھ سکاہے صرف اور صرف یہ ہے کہ میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے مقدس عنوان کے تحت پچھلے چندسالوں سے جو ہلڑ بازی،ہنگامہ آرائی اور ناجائز ونامناسب امور کا ارتکاب دیکھنے میں آرہاہے،ان پر قدغن لگائی جائے اور نئی نسل کو بتایا جائے کہ حب نبوی کا اصل تقاضا کیا ہے اورآپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کن مقاصد کے لیے ہوئی ہے؟نیز میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم میں بارہ ربیع الاول کی تاریخ کو اہمیت دے کر صرف ایک دن کے لیے جلسے جلوس کی بہار دکھانے او رسال بھر کے لیے فارغ ہوجانے کے بجائے پابندی کے ساتھ ہر پیرکو روزہ رکھنے یا کم ازکم ربیع الاول میں پیر کے روزوں کا خصوصی اہتمام کرنے کی ترغیب دی جائے،گویا دودھ پینے والے مجنوں تیارکرنے کے بجائے گوشت و خون دینے والے مجنوں تیارکیے جائیں؛تاکہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم سے حقیقی عشق ومحبت کاکچھ اندازہ ہوسکے۔

دودھ پینے والے مجنوں

مؤرخین کے مطابق ”لیلی اور مجنوں“ کا واقعہ پہلی صدی ہجری یعنی 24 ھ سے 68 ھ (645ء سے 688ء) کے درمیان پیش آیا۔یہی وہ زمانہ تھا جسے خلافت راشدہ کے اختتام اور اموی حکومت کے نقطہٴ آغاز کا زمانہ کہاجاسکتا ہے۔لیلیٰ اور مجنوں کی وارفتگی و محبت صرف افسانہ نہیں؛بلکہ ناقابل فراموش حقیقت ہے اور ان کے حالات و واقعات نے ہمیں حقیقی عبادت، سچی محبت،مسلسل جدوجہد، اور خلوصِ دل کا درس دیا ہے۔

یوں تو لیلی اور مجنوں کے عشق و محبت کی بہت سی داستانیں تاریخ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ان میں کچھ تو حقیقی ہیں اور کچھ فرضی؛مگر ایک واقعہ جو بعض بزرگوں سے سناگیاہے، عبرت و موعظت کے لیے پیش خدمت ہے:

کہتے ہیں کہ لیلیٰ کے تعلق سے جب مجنوں نے محبت کا دعویٰ کیا، تو بہت سارے نقلی مجنوں جمع ہوگئے اور لیلیٰ کے گھر کے سامنے بہت بڑی لائن لگ گئی،اب ایک مجنوں نہیں، سینکڑوں مجنوں بیٹھے لیلیٰ لیلیٰ کہہ رہے ہیں اور انہیں صبح و شام زندہ رہنے کے لیے دودھ مل رہاہے۔ ان میں معلوم نہیں کہ کون سچا عاشق ہے اور کون جھوٹا۔لیلیٰ نے کہاکہ اس کا ابھی فیصلہ کرتے ہیں،چناں چہ اس نے ایک چاقواور ایک برتن دیا اور کہا کہ سب سے جاکر کہو! لیلیٰ نے تمہارے جسم کا گوشت منگایا ہے، جیساہی کہنے والے نے یہ کہا سب دعوے داروں نے منھ پھیر لیے اور سب پر سکوت طاری ہوگیا۔جب اصلی مجنوں نے سنا کہ لیلا نے گوشت مانگا ہے تو فوراً چاقو سے اپنے جسم کا گوشت کاٹ کاٹ کر رکابی بھردی اور کہا :جاؤ! لے جاؤ! اس نے یہ نہیں پوچھا کہ کہاں کا گوشت چاہیے؟کیوں چاہیے؟کس قدر چاہیے؟وغیرہ۔ تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ اصلی مجنوں تو یہ ہے۔

اس واقعے سے معلوم ہوا کہ جو عاشق صادق ہوتا ہے وہ گفتار کا مجاہد نہیں ہوتا، وہ کردار کا غازی ہوتاہے اور طاعت و فرماں برداری کے ذریعہ اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتا ہے،صرف زبانی دعووں اور ڈھکوسلوں سے دل بہلائی نہیں کرتا۔
القصہ:میلاد کے سلسلے میں مرتبِ رسالہ نے رسومات و خرافات کے بجائے عبادت و خدمت کی طرف نوجوانوں کاذہن منتقل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں کچھ دلائل بھی جمع کیے ہیں۔اُن کا ماننا ہے کہ ربیع الاول کی مناسبت سے اگر خلوص دل کے ساتھ خدمت خلق اور نفل روزوں کا اہتمام کیاجائے گا تو نہ صرف ان کارہائے خیر سے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی روح خوش ہوگی؛بلکہ دیگر برادرانِ وطن تک اسلام کی امن پسند تعلیمات پہنچیں گی اوربہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گا۔ذیل میں آں محترم کی فہمائش پر اس رسالے کی تلخیص پیش خدمت ہے۔

تمہیدی بات

اسلام ایک جامع اور کامل و مکمل دین ہے، اس دین کی یہ خصوصیت ہے کہ جتنی باتیں ضروری اور لازمی تھیں، وہ سب پہلے ہی بیان کردی گئیں، کسی بھی چیز کو ادھوری اور نا مکمل نہیں رکھا گیا، چاہے وہ عقائد کے بارے میں ہویا عبادات کے بارے میں، معاملات کے بارے میں ہو یا رہنے سہنے اور حسنِ سلوک کے بارے میں، اخلاق کے بارے میں ہو یا کسی اور چیز کے بارے میں، یہاں تک کہ دکھ درد، خوشی اور غم ہر چیز کے بارے میں اسلام میں واضح ہدایات ملتی ہیں، اس لیے ہمیں ہر کام میں اسلامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلہ میں جب ہم قرآن وحدیث اور اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کے سلسلہ میں اپنے بندوں کو کسی بھی حکم کا پابند نہیں کیا اور سرکارِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم نے بھی اُمت کو اپنی پیدائش کے متعلق سوائے روزہ کی ترغیب کے کچھ اور کرنے کی ہدایت نہیں دی، وہ بھی یوم ولادت یعنی پیر (Monday) کو، نہ کہ تاریخ ولادت یعنی 12/ربیع الاوّل کو۔

قرآنِ مجید میں ولادت کے حوالے سے دن کا تذکرہ

میلاد کے سلسلے میں یومِ ولادت یعنی پیدائش کے دن کا اعتبار ہے، نہ کہ پیدائش کی تاریخ کا۔جیساکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”سلامتی ہو اس دن، جس دن حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے“۔ (مریم:15) اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ’ سلامتی ہو‘ فرمارہے ہیں پیدائش کے دن، پرنہ کہ پیدائش کی تاریخ پر، معلوم ہوا کہ ولادت میں دن کا اعتبار ہے، نہ کہ تاریخ کا۔اسی طرح دوسرے مقام پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا نقل کی گئی ہے،وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں”سلامتی ہو میری پیدائش کے دن پر“۔(مریم:33) اس آیت سے بھی پتہ چل رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اپنی پیدائش کے دن پر سلامتی مانگ رہے ہیں ،نہ کہ پیدائش کی تاریخ پر۔

احادیث مبارکہ میں بھی یومِ ولادت کا ذکر ہے

حضرت ابو قتادہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پیر (Monday) کے دن کے روزے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میری پیدائش کا دن ہے اور اِسی دن میری پیدائش ہوئی۔(مسلم:197)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں دن کا اعتبار ہے،تاریخ کا اعتبار نہیں۔

اسی طرح ایک موقع پرجمعہ (Friday) کے دن کی اہمیت اور فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا بھی ذکر فرمایا،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا کے دنوں میں سب سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے، کیوں کہ اس میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اس دن ان کو جنّت میں داخل کیا گیا اور اسی دن ان کوایک خاص مقصد کے تحت جنّت سے دنیا میں بھیجا گیا،۔(مسلم: 1410)اس حدیث سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش میں دن کا اعتبار ہورہاہے اور جمعہ کے دن کی وضاحت بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کے سلسلہ میں پیر (Monday) کے دن کا لحاظ رکھاہے۔اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب ابو لہب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کی خبر سنی تو اس نے اپنی اُس باندی کوآزاد کردیا جس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کی خوش خبری ابو لہب کو دی تھی، تو باری تعالیٰ نے اُس کے اس عمل سے خوش ہوکر ہر پیر کو اُس کے عذاب میں تخفیف کردی، یعنی عذاب کم کردیا اور یہ عمل اس کے لیے ہر پیر کو ہوتا ہے، نہ کہ 12/ربیع الاوّل کو۔ (عمدة القاری شرح بخاری، باب دودھ پلانے والی ماں کا بیان)اس حدیث سے بھی صاف ظاہرہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی یومِ ولادت میں دن کا لحاظ رکھا ہے؛کیوں کہ ابولہب کے عذاب میں کمی پیر (Monday) کو ہورہی ہے، نہ کہ کسی متعین تاریخ کو۔

المختصر:قرآن مجید کی آیات اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یوم ولادت میں دن کا اعتبار ہے، نہ کہ تاریخ کا۔یہی اسلامی نقطہٴ نظر ہے؛مگراس کے برعکس اسلام کے علاوہ جتنے مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں وہ پیدائش کے حوالے سے تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، جیساکہ کرسمس اور برتھ ڈے کی تقاریب سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔لہذا جو لوگ سال بھر میں صرف ایک دن 12/ربیع الاول کومیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منارہے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کہیں انجانے میں عیسائیوں کی مشابہت تو اختیار نہیں کر رہے ہیں؟؟

آپ ﷺ کو دوسرے مذاہب کی مشابہت پسند نہیں تھی

آپ صلی الله علیہ وسلم محرم کی 10 تاریخ کا روزہ پہلے سے رکھتے تھے،مدینہ منورہ میں آپ نے دیکھا کہ یہودی لوگ 10محرم کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیاتو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کوفرعون سے نجات دی تھی، اسی خوشی میں وہ 10 محرم کو روزہ رکھتے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ  سے کہا تم 9 یا 11 محرم کا روزہ ملاکر اُن یہودیوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بچو۔ (بیہقی: 8406) ایک موقع پررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہم مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کی مشابہت اختیارکرے گا وہ ہم میں سے نہیں۔ (ترمذی: 2619)ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان نے کسی غیر قو م کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہوگا۔(ابوداؤد: 3514)

جب ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے حوالے سے پیر (Monday) کا اعتبار کریں گے تو ہم اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہوں گے اور اگر ہم سال میں صرف ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم کا یوم ولادت کے بجائے تاریخ ولادت منائیں گے تو ہماری مشابہت عیسائیوں سے ہوجائے گی۔

پیر کا روزہ

جیساکہ ابھی روایت سے معلوم ہواکہ یوم ولادت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ ہر پیر (Monday) کو روزہ رکھنے کا تھا،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہر پیر کو روزہ رکھیں، اگر ہم ہر پیرکوروزہ نہیں رکھ سکتے تو کم ازکم زندگی میں کسی بھی ایک پیر کو یا جب جب موقع ملے پیر کو روزہ رکھ لیا کریں۔اگر پیر (Monday) کو روزہ رکھیں گے تو اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی اتباع تو ہوگی ہی،ساتھ میں روزہ رکھنے کا اجر بھی ملے گا،نیز روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی برکت سے پانچوں نمازوں کی توفیق ملتی ہے، زکوة اداکرنا بھی آسان ہوجاتا ہے، جھوٹ، غیبت اور دیگر گناہوں سے حفاظت بھی ہوجاتی ہے،اور روزہ امّتی کو اجر کے اعتبار سے اس مقام پر پہنچاتا ہے جس کی احادیث صحیحہ میں خبر دی گئی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ کا بدلہ میں خود ہوں، یا میں خود دوں گا۔نیزآپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ بندوں کے اعمال پیر اور جمعرات کو باری تعالیٰ کے دربارمیں پہنچتے ہیں۔ (مسلم:5643)اس لئے جب پیر کو روزہ رکھیں توایک نیت تو یہ کرلیں کہ ہمارے اعمال روزہ کی حالت میں باری تعالیٰ تک پہنچیں گے اور دوسری نیت یہ کرلیں کہ اس دن ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، ہم اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنے کے لئے روزہ رکھ رہے ہیں، اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔نبیصلی الله علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں روزے کی سنت پر عمل کرنے سے امید ہے کہ پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت جو تقریبا متروک ہوچکی ہے، ہم اس کوزندہ کرنے والے ہوجائیں گے، اور اس خوش خبری کے بھی مستحق ہوجائیں گے جورسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سنت کے زندہ کرنے والوں کے لیے ارشاد فرمائی ہے:حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: جس نے میری کسی سنت (پر عمل کرکے اس) کوزندہ کیا تو اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی تو وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (طبرانی: 11496)

خلاصہٴ کلام یہ کہ (احادیث کی روشنی میں)ہر پیر کو روزہ رکھ کر ولادت رسول صلی الله علیہ وسلم پر شکر اداکرنا چاہیے اور یہی مستحسن ہے اور اسی میں سرکاردوعالم صلی الله علیہ وسلم سے محبت، مطابقت، اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع ہے، اس کے برخلاف دن کے بجائے تاریخ (12/ربیع الاوّل) کو جشن ولادت منانامناسب نہیں معلوم ہوتا؛کیوں کہ اس میں غیروں کی مشابہت ہے، جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیاہے اور خلاف شریعت امور جیسے اسراف وتبذیر، نمازوں کا ضیاع، جماعت کا ترک اور راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا وغیرہ کا ارتکاب ہے جو انتہائی مذموم عمل اور گناہ کے کام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم اور فہم مستقیم عطافرمائے ۔آمین!

سیرت سے متعلق