سیرت کا ایک روشن پہلو

سیرت کا ایک روشن پہلو

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ الله

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بحیثیت ایک پیغمبر کے اپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا۔

کثرت ِ ذکر

نبی ِ اکرم صلی الله علیہ و سلم نے لوگوں کو خدا کی یاد او رمحبت کی نصیحت کی، صحابہٴ کرام رضی الله عنہ کی زندگی میں اس تلقین کا جو اثر نمایاں ہوا وہ تو الگ چیز ہے، خود نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کہاں تک اس کے مطابق تھی، اس پر غور کرو، شب وروز میں کب کوئی ایسا لمحہ تھا جب آپ صلی الله علیہ و سلم کا دل الله تعالیٰ کی یاد سے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان الله تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، پہنتے اوڑھتے، ہر حالت میں اور ہر وقت الله تعالیٰ کا ذکر اور اس کی حمد زبان ِ مبارک پر جاری رہتی تھی۔ آج حدیث کی کتابوں کا ایک بڑا حصہ انہی مبارک کلمات اور دعاؤں کے بیان میں ہے جو مختلف حالات او رمختلف وقتوں کی مناسبت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان ِ فیض اثر سے ادا ہوئیں ،حصن حصین دو سو صفحوں کی کتاب صرف ان کلمات اور دعاؤ ں کا مجموعہ ہے جن کے فقرہ فقرہ سے الله تعالیٰ کی محبت وعظمت، جلالت اور خشیت نمایاں ہیں اورجن سے ہر وقت زبان ِ اقدس تر رہتی تھی۔ قرآن نے اچھے بندوں کی یہ تعریف کی ہے۔

جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے، ہر وقت الله تعالیٰ کو یاد کیا کرتے ہیں۔ یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا نقشہ تھا، چناں چہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر وقت اور ہر لمحہ الله تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔

نماز سے تعلق

نبی ِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کا حکم دیا، مگر خود آپ کا حال کیا تھا، عام پیروکاروں کو تو پانچ وقتوں کی نماز کا حکم تھا، مگر خود آپ آٹھ وقت نماز پڑھتے تھے۔ طلوع آفتاب کے بعد اشراق، کچھ اور دن چڑھنے پر چاشت، پھر ظہر، پھر عصر، پھر مغرب، پھر عشاء، پھر تہجد پھر صبح۔ عام مسلمانوں پر تو صبح کو دو رکعتیں، مغرب کو تین او ربقیہ اوقات میں چار چار رکعتیں فرض ہیں، کل شب وروز میں سترہ رکعتیں ہیں، مگر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر روز کم وبیش پچاس ساٹھ رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے۔

پنج وقتہ نماز کی فرضیت کے بعد تہجد کی نماز عام مسلمانوں سے معاف ہو گئی تھی، مگر نبیِ اکرم صلی الله علیہ و سلم اس کو بھی تمام عمر شب میں ادا فرماتے رہے او رپھر کیسی نماز کہ رات بھر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے، کھڑے کھڑے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہتیں: الله تعالیٰ نے تو آپ کو ہر طرح معاف کر دیا ہے، پھر اس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں؟ فرماتے: اے عائشہ! کیا میں الله کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ یعنی یہ نماز خشیت الہٰی سے نہیں، بلکہ محبت الہٰی اس کا منشا ہے۔ رکوع میں اتنی دیر جھکے رہتے کہ دیکھنے والے کہتے کہ شاید آپ سجدہ کرنا بھول گئے۔

نبوت کے آغاز ہی سے آپ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔ کفار آپ صلی الله علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے، مگر بایں ہمہ عین حرم میں جاکر سب کے سامنے نماز پڑھتے تھے۔ کئی دفعہ نماز کی حالت میں دشمنوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کیا، مگر اس پر بھی الله کی یاد سے باز نہ آئے۔ سب سے سخت موقع نماز کا وہ ہوتا تھا، جب کفار کی فوجیں مقابل ہوتیں، تیر وخنجر چلتے ہوتے، لیکن اِدھر نماز کا وقت آیا اور اُدھر صفیں درست ہو گئیں۔ بدر کے معرکہ میں تمام مسلمان دشمنوں کے مقابل کھڑے تھے، مگر خود نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم الله کے آگے سجدہ میں جھکے ہوئے تھے۔ تمام عمر میں کوئی نماز عموماً اپنے وقت سے نہیں ہٹی اور نہ دو وقتوں کے علاوہ کبھی کسی وقت کی نماز قضا ہوئی۔ ایک تو غزوہٴ خندق میں کافروں نے عصر کی نماز کا موقع نہیں دیا اور ایک دفعہ اور کسی غزوہ کے سفر میں رات بھر چل کر صبح کو تمام لوگ سو گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دن کو نماز قضا ادا کی۔

اس سے زیادہ یہ کہ مرضِ موت میں شدت کا بخار تھا، تکلیف بہت تھی، مگر نماز حتی کہ جماعت بھی ترک نہ ہوئی۔ قوت جواب دے چکی تھی، مگر دو صحابیوں کے کندھوں پر سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے۔ وفات سے تین دن پہلے جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھنے کا قصد کیا تو غشی طاری ہوئی اور یہی حالت تین دفعہ پیش آئی، اس وقت نماز باجماعت ترک ہوئی۔ یہ تھا الله کی عبادت گزاری اور یاد کا عملی نمونہ۔

روزہ کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے معمولات

نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے روزہ کا حکم دیا۔ عام مسلمانوں پر سال میں تیس دن کے روزے فرض ہیں، مگر خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی کیفیت کیا تھی؟ کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہیں تھا۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: جب آپ صلی الله علیہ وسلم روزے رکھنے پر آتے تومعلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی افطار نہ کریں گے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دن بھر سے زیادہ روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی، مگر خود آپ کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی دو دو، تین تین دن بیچ میں کچھ کھائے پیے بغیر متصل روزہ رکھتے تھے او راس عرصہ میں ایک دانہ بھی منھ میں نہیں جاتا تھا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہ اس کی تقلید کرنا چاہتے تو فرماتے: تم میں سے کون میری مانند ہے؟ مجھ کو تو میرا آقا کھلاتا پلاتا ہے۔ سال میں دو مہینے شعبان او ررمضان کے پورے کے پورے روزوں میں گزرے۔ ہر مہینہ کے ایامِ بیض (15,14,13) میں اکثر روزے رکھتے۔ محرم کے دس دن اور شوال کے چھ دن روزں میں گزرتے۔ ہفتہ میں سوموار اور جمعرات کا دن روزوں میں بسر ہوتا۔ یہ تھا روزوں کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کا عملی نقشہ زندگی۔

زکوٰة وصدقات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا عملی نمونہ

نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو زکوٰة اور خیرات کا حکم دیا تھا، تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا کی شہادت تم سن چکے ہو کہ انہوں نے کہا: یا رسول الله! آپ قرض داروں کا قرض ادا کرتے ہیں، غریبوں اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔ گو نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم سب کچھ چھوڑ کر میرے پیچھے آؤ، نہ گھر بار لٹا دینے کام حکم فرمایا ،نہ آسمان کی بادشاہت کا دروازہ دولت مندوں پر بند کیا، بلکہ صرف یہ حکم دیا کہ اپنی کمائی میں سے کچھ دوسروں کو دے کر الله کا حق بھی ادا کرو۔

مگر خود آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمل یہ رہا کہ جو کچھ آیا الله کی راہ میں خرچ ہو گیا۔ غزوات اور فتوحات کی وجہ سے مال واسباب کی کمی نہ تھی، مگر وہ سب غیروں کے لیے تھا، اپنے لیے کچھ نہ تھا۔ وہی فقر وفاقہ تھا۔ فتح خیبر کے بعد یعنی 7ھ سے یہ معمول تھا کہ سال بھر کے خرچ کے لیے تمام ازواج مطہرات کو غلہ تقسیم کر دیا جاتا تھا، مگر سال تمام بھی نہیں ہونے پاتا تھا کہ غلہ ختم ہو جاتا تھا، کیوں کہ غلہ کا بڑا حصہ اہل حاجات کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ سخاوت آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک میں کرتے تھے۔

تمام عمر کسی سوالی کے جواب میں ” نہیں“ کا لفظ نہیں فرمایا۔کبھی کوئی چیز تنہا نہیں کھاتے تھے، کتنی ہی تھوڑی چیز ہوتی، مگر آپ سب حاضرین کو اس میں شریک کر لیتے تھے، لوگوں کو عام حکم تھا کہ جو مسلمان قرض چھوڑ کر مر جائے اس کی اطلاع مجھے دو کہ میں اس کا قر ض ادا کروں گا اور اس نے ترکہ چھوڑا ہو تو اس کے حق دار اس کے وراث ہوں گے۔ ایک دفعہ ایک بدو نے کہا: اے محمد! یہ مال نہ تیرا ہے او رنہ تیرے باپ کا ہے، میرے اونٹ پر لاد دے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے اونٹ کو جَو او رکھجوروں سے لدوا دیا اور اس کے کہنے کا برا نہ مانا۔ خود فرمایا کرتے:” میں تو بانٹنے والے اور خزانچی کی حیثیت رکھتا ہوں، اصل دینے والا تو الله ہے۔“ سیدنا ابو ذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کومیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ گزر رہا تھا، راستہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذرا! اگر اُحد کا یہ پہاڑ میرے لیے سونا ہو جائے تو میں کبھی پسند نہ کروں گا کہ تین راتیں گزر جائیں اور اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس رہ جائے، البتہ یہ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں۔

قارئین کرام! نبِی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے صرف خوش نما الفاظ نہ تھے، بلکہ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے عزم ِ صادق کا اظہار تھا، او راسی پر آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمل تھا۔ بحرین سے ایک دفعہ خراج کا لدا ہوا خزانہ آیا، فرمایا کہ صحن مسجد میں ڈال دیا جائے، صبح کی نماز کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو دیکھنے والے کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خزانہ کے انبار کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، نماز کے بعد ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم کرنا شروع کر دیا، جب سب ختم ہو گیا تو دامن جھاڑ کر اس طرح کھڑے ہو گئے کہ یہ گویا کوئی غبار تھا جو دامن مبارک پر پڑ گیا تھا۔

ایک دفعہ فدک سے چار اونٹوں پر غلہ لد کر آیا، کچھ قرض تھا وہ دیا گیا، کچھ لوگوں کو دیا۔ سیدنا بلال رضی الله عنہ سے دریافت کیا کہ بچ تو نہیں رہا؟ عرض کی اب کوئی لینے والا نہیں، اس لیے بچ رہا ہے، فرمایا جب تک دنیا کا یہ مال باقی ہے، میں گھر نہیں جاسکتا۔ چناں چہ رات مسجد میں بسر کی۔ صبح کو سیدنا بلال رضی الله عنہ نے آکر بشارت دی کہ یا رسول الله ! الله تعالیٰ نے آپ کو سبک دوش کر دیا۔ یعنی جو کچھ تھا وہ تقسیم ہو گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے الله کا شکر ادا کیا۔

ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد خلاف معمول فوراً اندر تشریف لے گئے او رپھر باہر آگئے، لوگوں کو تعجب ہوا، فرمایا مجھ کو نماز میں یاد آیا کہ سونے کا چھوٹا سا ٹکڑا گھر میں پڑا رہ گیا ہے، خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آجائے او ر وہ محمد کے گھر میں پڑا رہ جائے۔

سیدہ ام سلمہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ : ایک دفعہ آپ ملول اور رنجیدہ اندر تشریف لائے، میں نے سبب دریافت کیا، فرمایا: ام سلمہ ! کل جو سات دینار آئے تھے شام ہو گئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے۔ اس سے بڑھ کر نبی ِاکرم صلی الله علیہ وسلم مرض الوفات میں ہیں، بیماری کی سخت تکلیف ہے، نہایت بے چینی ہے، لیکن اسی وقت یاد آتا ہے کہ کچھ اشرفیاں گھر میں پڑی ہیں، حکم ہوتا ہے کہ انہیں خیرات کردو، کیا محمداپنے رب سے اس طرح ملے گا کہ اس کے پیچھے اس کے گھر میں اشرفیاں پڑی ہوں؟ یہ تھی اس باب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کی عملی مثال۔

زہد وقناعت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل

نبِی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے زہد وقناعت کی تعلیم دی، لیکن اس راہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرزِ عمل کیا تھا؟ پڑھ چکے ہو کہ عرب کے گوشہ گوشہ سے جزیہ، خراج، عشر اور زکوٰة وصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے، مگر امیرِ عرب کے گھر میں وہی فقر تھا اور وہی فاقہ تھا۔ نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہا کرتی تھیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر دو وقت بھی سیر ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کو کھانا نصیب نہ ہوا۔ وہی بیان کرتی ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے وفات پائی تو گھر میں اس دن کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جَو کے سوا کچھ موجو دنہ تھا اور چند سیر جو کے بدلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے ہاں رہن تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ فرزندِ آدم کو ان چند چیزوں کے سوا کسی چیز کا حق نہیں:

رہنے کو ایک جھونپڑا، تن ڈھانپنے کو ایک کپڑا، پیٹ بھرنے کو رکھی سوکھی روٹی او رپانی۔ یہ محض الفاظ کی خوش نما بندش نہ تھی، بلکہ یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرزِ زندگی کا عملی نقشہ تھا ،رہنے کا مکان ایک حجرہ تھا ،جس میں کچی دیوار اور کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں کی چھت تھی۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدن مبارک پر ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی او رکپڑاہی نہیں ہوتا تھا جو تہہ کیا جاتا۔

ایک دفعہ ایک سائل خدمت ِ اقدس میں آیا او ربیان کیا کہ سخت بھوکا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے پاس کہلا بھیجا کہ کچھ کھانے کو ہو تو بھیج دیں، ہر جگہ سے یہی جواب آیا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سیدنا ابو طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ مسجد میں زمین پر لیٹے ہیں اور بھوک کی تکلیف سے کروٹیں بدل رہے ہیں۔ ایک دفعہ صحابہٴ کرام رضی الله عنہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں فاقہ کشی کی شکایت کی اور پیٹ کھول کر دکھائے کہ ان پر ایک پتھر بندھا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے شکم مبارک کھولا تو ایک کے بجائے دو پتھر بندھے تھے، یعنی دو دن سے فاقہ تھا۔ اکثر بھوک کی وجہ سے آواز میں کم زوری اور نقاہت آجاتی تھی۔ ایک دن دولت خانے سے نکلے تو بھوکے تھے، سیدنا ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ کے گھر تشریف لے گئے وہ نخلستان سے کھجور توڑ لائے اور کھانے کا سامان کیا، کھانا جب سامنے آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک روٹی پر تھوڑا سا گوشت رکھ کر فرمایا یہ فاطمہ کے گھر بھجوا دو، کئی دن سے اس کو کھانا نصیب نہیں ہوا ہے۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اپنی صاحب زادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا اور سیدنا حسنین رضی الله عنہما سے بڑی محبت تھی، مگر یہ محبت امیر عرب نے بیش قیمت کپڑوں اور سونے چاندی کے زیوروں کے ذریعہ سے ظاہر نہیں فرمائی۔ ایک د فعہ سیدنا علی رضی الله عنہ کا دیا ہوا ایک سونے کا ہار سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کے گلے میں دیکھا تو فرمایا: اے فاطمہ !تم کیا لوگوں سے یہ کہلوانا چاہتی ہو کہ محمد کی بیٹی گلے میں آگ کا طوق ڈالے ہوئے ہے؟ سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا نے اسی وقت وہ طوق اتار کر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کیا۔

اسی طرح ایک دفعہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے سونے کے کنگن پہنے، تو اُتروا دیے کہ محمد کو یہ زیبا نہیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے لیے دنیا میں اتنا ہی کافی ہے جس قدر ایک مسافر کو زادِ راہ۔ یہ قول تھا او رعمل یہ تھا کہ ایک دفعہ کچھ جان نثار ملنے آئے تو دیکھا کہ پہلو میں چٹائی کے نشان پڑ گئے ہیں، عرض کی یا رسول الله! ہم لوگ ایک نرم گدا بنا کر حاضر کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا مجھ کو دنیا سے کیا غرض؟ مجھ کو دنیا سے اسی قدر تعلق ہے جس قدر اس سوار کو جو راستہ چلتے تھوڑی دیر کے لیے کہیں سایہ میں آرام کرتا ہے او رپھر آگے بڑھ جاتا ہے۔

9ھ میں جب اسلام کی حکومت یمن سے شام تک پھیلی ہوئی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے توشہ خانہ کی مالیت یہ تھی، جسم مبارک پرایک تہبند، ایک کھدری چارپائی، سرہانے ایک تکیہ، جس میں خرمے کی چھال بھری تھی، ایک طرف تھوڑے سے جو، ایک کونے میں ایک جانور کی کھال، کھونٹی میں پانی کے مشکیزے۔ یہ تھا زہد وقناعت کی تعلیم کے ساتھ اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمل۔

ایثار اور صحیفہ سیرت

قارئین ِ کرام! ایثار کا وعظ کہنے والوں کو تم نے بہت دیکھا ہو گا، مگر کیا کسی ایثار کے وعظ کہنے والے کے صحیفہ سیرت میں اس کی مثال بھی دیکھی ہے؟ اس کی مثال مدینہ کی گلیوں میں ملے گئی۔ نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو ایثار کی تعلیم دی تو ساتھ ہی ا ن کے سامنے اپنا نمونہ بھی پیش کیا۔ سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا سے آپ کو جو محبت تھی وہ ظاہر ہے، مگر ان ہی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کی عسرت اور تنگ دستی کا یہ عالم تھا کہ چکی پیستے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں اورمشک میں پانی بھر بھر کر لانے سے سینہ پر نیل کے داغ پڑ گئے تھے۔ ایک دن انہوں نے حاضر ہو کر پدر بزرگوار سے ایک خادمہ کی خواش ظاہر کی، ارشا دہوا: اے فاطمہ! اب تک صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہوا ہے تو تمہاری در خواست کیوں کر قبول ہو؟ دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا: فاطمہ! بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست کرچکے۔

ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس چادر نہ تھی، ایک صحابیہ رضی الله عنہا نے لا کر پیش کی۔ اسی وقت ایک صاحب نے کہا کیسی اچھی چادر ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فوراً اتار کر ان کے نذر کر دی۔ ایک صحابی رضی الله عنہ کے گھر کوئی تقریب تھی، مگر کوئی سامان نہ تھا، ان سے کہا عائشہ کے پاس جا کر آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ ،وہ گئے او رجاکر لے آئے، حالاں کہ آپ کے گھر میں آٹے کے سوا رات کے کھانے کو کچھ نہ تھا۔ ایک دن صفہ کے غریبوں کو لے کر سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: جو کچھ کھانے کو ہو لاؤ، پکا ہوا کھانا حاضر کیا گیا، وہ کافی نہ ہوا، کوئی اور چیز طلب کی تو چھوہارے کا حریرہ پیش ہوا، پھر پیالہ میں دودھ آیا، مگر یہی سامان مہمانی کی آخری قسط گھر میں تھی۔

توکل واعتماد کی روشن مثال

الله پر اعتماد، توکل او ربھروسہ کی شان دیکھنا ہو تو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں دیکھو۔ حکم تھا جس طرح اولو العزم پیغمبروں نے صبر واستقلال دکھایا تو بھی دکھا۔

نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ایسی جاہل اور اَن پڑھ قوم میں پیدا ہوئے تھے، جو اپنے معتقدات کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی تھی اور اس کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہو جاتی تھی، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی کبھی پروانہ کی۔ عین حرم میں جاکر توحید کی آواز بلند کرتے تھے اوروہاں سب کے سامنے نماز ادا کرتے تھے۔ حرم محترم کا صحن قریش کے رئیسوں کی نشست گاہ تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے سامنے کھڑے ہو کر رکوع وسجود کرتے تھے۔ جب آیت 🙁 اے محمد! جو تم کو حکم دیا جاتا ہے اس کو علیٰ الاعلان سنا دو) نازل ہوئی تو آپ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر تمام قریش کو پکارا اور الله تعالیٰ کا حکم پہنچایا۔

قریش نے آپ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا۔ کس کس طرح کی اذیتیں نہیں پہنچائیں۔ جسم مبارک پر صحن حرم کے اندر نجاست ڈالی۔ گلے میں چادر ڈال کر پھانسی دینے کی کوشش کی۔ راستے میں کانٹے بچھائے، مگر آپ کے قدم کو راہِ حق سے لغزش ہونی تھی نہ ہوئی۔ ابو طالب نے جب حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے کا اشارہ کیا تو آپ نے کس جوش اور ولولہ سے فرمایا کہ چچا جان! اگر قریش میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب او ربائیں ہاتھ پر ماہتاب بھی رکھ دیں تب بھی میں اس فرض سے باز نہ آؤں گا۔ آخر آپ کو مع بنی ہاشم کے پہاڑی درہ میں تین سال تک گویا قیدر کھا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کا مقاطعہ کیا گیا۔ اندر غلہ جانے کی روک تھام کی گئی۔ بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔ جوان درخت کے پتے کھا کھا کر زندگی بسر کرتے تھے۔ آخر آپ کے قتل کی سازش ہوئی، یہ سب کچھ ہوا، مگر صبر واستقلال کا سرشتہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ ہجرت کے وقت غار ثور میں پناہ لیتے ہیں، کفار آپ کا پیچھا کرتے ہوئے غار کے منھ تک پہنچ جاتے ہیں، بے یارو مدد گار، نہتے محمد صلی الله علیہ وسلم او رمسلح قریش کے درمیان چند گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے، سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ گھبرا اٹھتے ہیں کہ یا رسول الله! ہم دو ہی ہیں، لیکن ایک تسکین سے بھری ہوئی آواز آتی ہے: ابو بکر ہم دو نہیں تین ہیں:﴿لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّہَ مَعَنَا ﴾گھبراؤ نہیں۔ ہمارا الله ہمارے ساتھ ہے۔

اسی ہجرت کے زمانہ میں اثنائے راہ میں نبیِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گرفتاری کے لیے سراقہ بن جعشم نیزہ ہاتھ میں لیے گھوڑا دوڑاتا ہوا آپ کے پاس پہنچ جاتا ہے، سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ کہتے ہیں یا رسول الله! ہم پکڑ لیے گئے۔ مگر وہاں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لب بدستور قرآن خوانی میں مصروف ہیں اور دل کی سکینت کا وہی عالم ہے۔

مدینہ پہنچ کر یہود کا، منافقین کا اور قریش کے غارت گروں کا ڈر تھا، لوگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مسکن کا راتوں کو پہرہ دیتے تھے کہ ایک دفعہ یہ آیت نازل ہوئی: ” یعنی الله تعالیٰ تجھ کو لوگوں سے بچائے گا۔“ اس وقت خیمہ سے سر باہر نکال کر پہرے کے سپاہیوں سے فرمایا لوگو! واپس جاؤ، مجھے چھوڑ دو کہ میری حفاظت کی ذمہ داری خود الله نے لے لی ہے۔

غزوہٴ نجد سے واپسی میں آپ صلی الله علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے آرام فرماتے ہیں، صحابہٴ کرام رضی الله عنہم اِدھر اُدھر ہٹ گئے، ایک بدو تلوار کھینچ کر سامنے آتا ہے، آپ بیدار ہوتے ہیں ،موقع کینزاکت دیکھو! بدو پوچھتا ہے بتاؤ اے محمد! اب کون تم کو میر ے ہاتھ سے بچاسکتا ہے؟ اطمینان او رتسکین سے بھری ہوئی آواز آتی ہے کہ الله۔ اس پراثر جواب سے دشمن متأثر ہو جاتا ہے او رتلوار نیام میں پہنچ جاتی ہے۔

بدر کا معرکہ ہے، تین سو نہتے مسلمان، ایک ہزار لوہے میں غرق قریشی لشکر سے نبرد آزما ہیں، مگر ان تین سو سپاہیوں کا سپہ سالار خو دکہاں ہے؟ معرکہ کا رزار سے الگ الله کی بارگاہ میں دست بدعا ہے ،کبھی پیشانی زمین پر ہوتی ہے او رکبھی ہاتھ آسمان کی جانب اٹھتے ہیں کہ اے الله! اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت صفحہ عالم سے مٹ گئی تو پھر کوئی تیرا پرستار اس دنیا میں باقی نہ رہے گا۔

ایسے مواقع بھی آئے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ پیچھے ہٹ گئے، مگر الله کی نصرت او رمدد پر اعتماد کامل او رپورا بھروسہ رکھنے والا، پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہا۔ اُحد میں اکثر مسلمانوں نے قدم پیچھے ہٹا لیے، مگر محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ پر تھے، پتھر کھائے، تیروں، تلواروں اور نیزوں کے حملے ہو رہے تھے، خود کی کڑیاں رخسار ِمبارک میں دھنس گئی تھیں، دندان مبارک شہید ہو چکا تھا، چہرہٴ اقدس زخمی ہو رہا تھا، مگر اس وقت بھی اپنا ہاتھ لوہے کی تلوار پر نہیں رکھا، بلکہ الله ہی کی نصرت پر بھروسہ اوراعتماد رہا، کیوں کہ اس کی حفاظت کی ذمے داری کا پورا یقین تھا۔

حنین کے میدان میں ایک دفعہ دس ہزار تیروں کا جب مینہ برسا تو تھوڑی دیر کے لیے مسلمان پیچھے ہٹ گئے، مگر ذات اقدس اپنی جگہ پر تھی۔ اِدھر سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی اور اُدھر سے : ” میں پیغمبر ہوں جھوٹ نہیں ہے، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔“ کا نعرہ بلندتھا، سواری سے نیچے اتر آئے اور فرمایا میں الله کا بندہ او رپیغمبر ہوں اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔

قارئین کرام! تم کو کسی اور ایسے سپہ سالار کا حال بھی معلوم ہے جس کی بہادری او راستقلال کا یہ عالم ہو کہ فوج کتنی ہی کم ہو، کتنی غیر مسلح ہو وہ اس کو چھوڑ کر پیچھے بھی کیوں نہ ہٹ گئی ہو، مگر وہ نہ تو اپنی جان کے بچانے کے لیے بھاگتا ہے او رنہ اپنی حفاظت کے لیے تلوار اٹھاتا ہے، بلکہ ہر حال میں زمین کی طاقتوں سے غیرمسلح ہو کر آسمان کی طاقتوں سے مسلح ہونے کی درخواست کرتا ہے۔

سیرت سے متعلق