سید البشر صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی چند جھلکیاں

سید البشر صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی چند جھلکیاں

مولانا احمد علی لاہوری رحمة الله علیہ

حلم اور مسکین نوازی
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا اور آپ نجران(مقام کا نام ہے) کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، جس کے کنارے موٹے تھے۔ راستہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کوایک دیہاتی ملا، جس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی چادر پکڑ کر اس قدر سختی سے اپنی طرف کھینچی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس کے سینے کے قریب کھینچ کر آگئے۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی چادر کے کنارے نے آپ صلی الله علیہ و سلم کی گردن پرنشان ڈال دیا، پھر اس دیہاتی نے کہا: اے محمد! الله کا وہ مال جو تیرے پاس ہے مجھے اس میں سے دلا۔ آپ اس طرف متوجہ ہوئے، پھر ہنسے، پھر آپ نے اس کو کچھ دیے جانے کا حکم دیا۔

بے مثال بردباری
کہاں سید الانبیاء علیہ الصلوٰة والسلام او رکہاں ایک جاہل، آداب سے نا آشنا دیہاتی اور پھر یہ بے ادبی کہ زبان سے تو عرض نہیں کرتا اور پچھلی طرف چادر مبارک اس قدر شدید جھٹکا دے کر کھینچتا ہے کہ حضور انور صلی الله علیہ و سلم اس کی چھاتی سے آکر لگ جاتے ہیں او راتنا شدید جھٹکا دیا کہ حضور انور صلی الله علیہ وسلم کی چادر مبارک کے سخت کناروں کی رگڑ سے حضور کے کندھے پرنشان پڑ گئے۔ اس کے علاوہ یہ بے ادبی کہ روکھا نام، یا محمد، کہہ کر پکارتا ہے۔ اتنی شدید بے ادبی کرنے کے بعد امر کے لفظ سے مطالبہ کرتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص اپنے ما تحت کو حکم دیتا ہے کہ مجھے وہ مال دلا جو تیرے پاس ہے۔ بے ادبی وہ اور مطالبہ یہ۔ حضور انور صلی الله علیہ وسلم اسے دیکھ کر ہنس پڑے، گویا چہرے پر رنجیدگی کا ذرا اثر بھی ظاہر نہیں ہونے دیا اورایسے بے ادب گنوار کی شفقت سے فرمائش پوری کر دی۔

برادران اسلام! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیے، اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھیے! پھر فیصلہ کیجیے کہ ہم میں سے کتنے کھرے محمدی ہیں اورکتنے جھوٹے ہیں او رکتنے اصلی محمدی ہیں او رکتنے نقلی؟ اورکتنے سچے محمدی ہیں اور کتنیجھوٹے؟

بے نظیر سخاوت
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اتنی بکریاں مانگیں کہ جو دو پہاڑوں کے درمیانی نالہ کو بھر دیں۔آپ نے اس کو اتنی ہی بکریاں دے دیں، پھر وہ شخص اپنی قوم میں آیا او رکہا اگر مسلمان ہو جاؤ تو خدا کی قسم! محمد اتنا دیتے ہیں کہ پھر افلاس کاڈر نہیں رہتا۔

کیا حضور انور صلی الله علیہ وسلم کے سوا کوئی شخص اتنے مال سے محض حسبةًلله دست بردار ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں! کیوں کہ مال میں دنیا دار کی جان ہوتی ہے۔ یہپیغمبر کی شان ہوسکتی ہے کہ سب کچھ راہ خدا میں دے کر ،خالی ہاتھ، محض الله تعالیٰ پر بھروسہ کرکے مطمئن ہو کر بیٹھ جائے۔

دوسروں کی خاطر مشقت اٹھانا
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو مدینہ کے ( لوگوں کے) خادم اپنے برتن لے کرآجاتے تھے، جن میں پانی ہوتا تھا پھر جو برتن بھی لاتے تھے آپ اس میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے ،پھر بعض اوقات سردی کی (موسم کی) صبح کو آپ کے پاس آتے، پھر بھی ان پانی کے برتنوں میں ہاتھ ڈبو دیتے تھے۔

باوجود یہ کہ سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈبونے سے کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟ اور یہ بھی پتا نہیں کہ وہ برتن کتنے ہوتے تھے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور صلی الله علیہ وسلم محض خلق الله کے دل کو خوش کرنے کے لیے اپنی جان کو یہ تکلیف پہنچاتے تھے۔

امور خانہ میں ہاتھ بٹانا
حضرت اسود رضی الله عنہ سے روایت ہے ۔ کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رسول الله صلی الله علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب میں کہا: گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے، یعنی اپنے گھر والوں کی خدمت کیا کرتے تھے او رجب نماز کا وقت آجاتا تو نماز کو چلے جاتے۔

حاصل یہ ہے کہ باوجود اس مقام اعلیٰ پر پہنچنے کے، جس کے متعلق یہ کہا جائے تو صحیح ہو گا” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ پھر حضور انور صلی الله علیہ وسلم کے مزاج میں کوئی تعلی وتکبر نہیں ہے کہ اپنے گھر والوں کی کسی خدمت کو اپنے حق میں کسرشان سمجھیں۔ الله تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایسے ہی حسن سلوک سے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔ ورنہ یاد رکھیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد سن لیجیے: تم میں سے بھلا وہ آدمی ہے جو اپنے بال بچوں کے حق میں بھلا ہو۔ یعنی اپنے بال بچوں کے ساتھ جس کا حسن سلوک اچھا نہیں وہ شریف یا بھلا انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔

ماتحتوں کو ملامت کرنے سے گریز
حضورانور صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق اتنے بلند تھے کہ اگر خادم سے نقصان بھی ہو جاتا تو بھی اسے کچھ نہ کہتے، بلکہ یوں فرماتے کہ جب کوئی بات ہونے والی ہوتی ہے تو ہو کر رہتی ہے۔ حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آٹھ سال عمر سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کی ہے اور دس سال تک آپ کی خدمت کرتا رہا ہوں، لیکن آپ نے کبھی کسی چیز کے ضائع ہونے پر بھی مجھ کو ملامت نہیں کی اور آپ کے گھر والوں میں سے کوئی بھی اگر مجھ کو ملامت کرتا تو آپ فرما دیتے اسکو چھوڑ دو (ملامت نہ کرو) جب کوئی بات ہونے والی ہے ضرور ہو کر رہتی ہے۔

لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صفات اس طرح بیان کرتے تھے کہ آپ بیمار پرسی کرتے، جنازہ کے ساتھ جاتے، غلام کی دعوت قبول فرمالیتے اور گدھے پر سوار ہوتے تھے۔ خیبر کے دن میں نے آپ کو ایک گدھے پر سوار دیکھا، جس کی باگ کھجور کے پوست کی تھی۔

حاصل یہ ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے مزاج میں نہ فخر تھا،نہ کبرتھا،نہ مغلوب الغضب تھے، بلکہ تمام مسلمانوں کے ساتھ نشست وبرخاست رکھنا اور ان کی ہر ممکن خدمت کرنا یہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا عام معمول تھا۔