غزوہٴ احزاب اور موجودہ عالمی حالات

غزوہٴ احزاب اور موجودہ عالمی حالات

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ کا ایک اہم واقعہ غزوہ احزاب کا ہے، اہل مکہ کو مسلمانوں کا مدینہ میں سکھ چین کے ساتھ رہنا کسی طرح گوارا نہیں تھا، وہ بار بار اس چھوٹی سی نو آباد بستی پر یلغار کرتے تھے اورچاہتے تھے کہ کسی طرح اس کی اینٹ سے اینٹ بج جائے، ہجرت کے دوسرے ہی سال انہوں نے بدر کے میدان میں کار زار گرم کیا، تیسرے سال احد کے میدان میں معرکہ گرم کیا، جس میں ستر مسلمان شہید ہوئے، چوتھے سال پھر اہل مکہ کی دعوت پر دوبارہ جنگ کی تیاری تھی، لیکن مسلمانوں کی جرأت دیکھ کر انہیں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی، اس سازش کا اصل نقشہ بنو نضیر کے یہودیوں نے بنایا، جنہیں ان کی مسلسل سازشوں کی وجہ سے خیبر کی طرف جلا وطن کر دیا گیا تھا، یہودیوں نے قریش مکہ اور قبیلہ بنی غطفان کو تیار کیا، بنوا سد غطفان کے اور بنو سلیم قریش کے حلیف تھے اور بنو سعد سے خود یہود کا معاہدہ تھا، اس طرح یہود اور تمام قبائل عرب مل کر مدینہ کی طرف سے بڑھے، مدینہ میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد کل تین ساڑھے تین ہزار کے قریب تھی، جب کہ یہ لشکر جرار دس ہزار آزمودہ کار فوجیوں پر مشتمل تھا، سردارِ مکہ ابوسفیان بن حرب اس فوج کے سپہ سالارِ اعظم تھے ، ادھر مسلمانوں کی صف میں منافقین بھی گھسے ہوئے تھے، جو عین جنگ کے وقت آکر حضور صلی الله علیہ وسلم سے رخصت ہونے کی اجازت چاہتے تھے اور گویا یہ بھی نفسیاتی طور پر دشمن فوج کو تقویت پہنچارہے تھے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب صحابہ رضی الله عنہم سے مشورہ کیا، تو حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے مشورہ دیا کہ خندق کھودی جائے، مدینہ میں تین طرف سے مکانات اور کھجور کے گھنے باغات تھے، جو فصیل شہر کا کام کرتے تھے، صرف شام کی سمت سے کھلا ہوا تھا، خندق کھودی جاتی تو اس جانب سے بھی محفوظ ہو جاتا، اس لیے اس رائے کو سبھوں نے پسند کیا، خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خندق کی حدود قائم فرمائیں اور خط کھینچ کر دس دس آدمی پر دس دس گز زمین تقسیم کر دی، خندقیں اتنی گہری کھودی گئیں کہ تری نکل آئی، یہ عجیب وقت تھا، جاڑے کا موسم، سرد ہوائیں، مسلمانوں پر کئی دنوں کے فاقے، لیکن جوش جنوں میں کوئی کمی نہیں، جاں نثارانِ اسلام خندقیں کھودتے، مٹی اُٹھا اُٹھا کر لاتے اور یہ شعر پڑھتے جاتے #
          نحن الذین بایعوا محمداً
          علی الجھاد ما بقینا أبداً

ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی الله علیہ وسلم کے دست مبارک پر، جب تک جان میں جان ہے، جہاد کی بیعت کی ہے۔

آقا صلی الله علیہ وسلم غلاموں کے اس جوش وطرب کا جواب اس طرح دیتے:
          اللھم لا عیش إلا عیش الاٰخرہ
          فاغفر للأ نصار والمھاجرہ
اے الله! زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، پس انصار ومہاجرین کی مغفرت فرما دیجیے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم خود بھی بنفیس نفیس اس خندق کو کھودنے میں شریک تھے، راوی کہتے ہیں کہ شکم مبارک گرد آلود تھی، صحابہ جوش سے کام کرتے اور رفقاء کے حوصلے کو بلند کرنے کے لیے رجزیہ اشعار بھی پڑھتے جاتے، جن کا ترجمہ اس طرح ہے:

خدا کی قسم! اگر الله کی توفیق نہ ہوتی توہم نہ ہدایت پاتے، نہ صدقہ دیتے او رنہ نماز پڑھتے، خداوندا! ہم پر سکون نازل فرما اور مقابلہ کے وقت ہمیں ثابت قدم رکھ، ان لوگوں نے ہم پر بڑی زیادتی کی ہے، جب کبھی یہ فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔

خندق میں ایک سخت چٹان آگئی، جوکسی سے توڑے نہ ٹوٹتی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس وار فرمایا اور وہ ریزہ ریزہ ہوگئی،چھ دن میں یہ وسیع وعریض خندق تیار ہوئی، خندق مکمل ہوئی اور اعدائے اسلام کا لشکر آپہنچا ، بیس دنوں تک مدینہ کا محاصرہ جاری رہا، زیادہ تر دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوتا، ایک دن اس جگہ سے دشمن فوج نے آگے بڑھنے کی کوشش کی، جہاں خندق کی چوڑائی نسبتاً کم تھی، عرب کے چند مانے ہوئے بہادروں نے خندق کو عبور بھی کر لیا، لیکن مسلمانوں کی ہمت مردانہ کے مقابلہ ٹھہر نہیں سکے، دونے تو راہ فرار اختیار کی اور دو حیدرِ کرار اور صاحب ذوالفقار حضرت علیرضی الله عنہ کے ہاتھوں کیفرکردار کو پہنچے، اس نازک وقت میں بنو قریظہ نے بھی عہد شکنی کی اور دشمنوں سے جاملے، اس معرکہ میں ایک دن تو ایسا سخت گزرا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا ہو گئیں۔

اسی دوران کہ جنگ اپنے شباب پر تھی، الله تعالیٰ نے نعیم بن مسعود اشجعی، جو قبیلہ بنو غطفان کے رؤسا میں تھے ، کے دل میں ایمان کا بیج ڈال دیا، وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے اہل قبیلہ میرے ایمان لانے سے واقف نہیں ہیں تو اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس محاصرہ کو ختم کرنے کی کوئی تدبیر کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی او رانہوں نے ایسی تدبیر کی کہ اہل مکہ اور یہودیوں کے درمیان پھوٹ پڑ گئی، ادھر الله تعالیٰ کی طرف سے ایسی زور دار آندھی آئی کہ خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، گردوغبار نے لوگوں کو مضطرب کر دیا، موسم کی سختی اور دن بہ دن غذائی اشیاء میں ہونے والی قلت اس سے سوا تھی، ان حالات میں عربوں کے پاؤں اکھڑ گئے او ران کے لیے واپس جانے کے سوا چارہ نہیں رہا، اس طرح ایک بہت بڑی آزمائش سے مسلمانوں کو نجات ملی، بیس دن کے محاصرہ کے بعد رات کے اندھیرے میں یہ فوج واپس ہوئی اور صبح کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف کوچ فرمایا، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات تھے:

خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں، نہ کوئی اس کا شریک ہے، اسی کے لیے حکومت ہے اور وہی قابل تعریف ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم الله کی طرف لوٹنے والے، اسی کی بندگی کرنے والے او راسی کوسجدہ کرنے والے ہیں، ہم اپنے پروردگار کی ستائش کرتے ہیں، الله نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا، اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا پورے لشکر کو شکست دی۔

خندق کی مناسبت سے اسے غزوہٴ خندق اور تمام دشمنان ِ اسلام کے یکجا ہو جانے کی وجہ سے سے غزوہٴ احزاب کہتے ہیں، یہ جنگ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں اسلام کے خلاف موجود اس وقت کی تمام باطل طاقتیں یکجا ہوگئی تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صورت ِ حال کے پیش نظر جرأت وہمت کے ساتھ ساتھ حکمت ِ عملی اور تدبیر ومصلحت سے کام لیا، اس وقت بھی صورت َ حال یہ ہے کہ اسلام کے خلاف یہود ونصاریٰ اورمشرکین دوش بدوش اور قدم بہ قدم کھڑے ہیں، اُس وقت بھی ان سب کو یکجا کرنے کا کام یہودی دماغ نے کیا تھا اور آج بھی یہودی دماغ ہی اس کے پیچھے کارفرماہے، جیسے اس وقت فوج کی تعداد او راسلحہ کے اعتبار سے مسلمان کم زور موقف میں تھے، اسی طرح آج بھی دفاعی ٹیکنالوجی میں مسلمان پیچھے ہیں، اس لیے موجودہ حالات میں مسلمان ایک نئی جنگ احزاب سے گزر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہمیں وہی اسوہ اختیار کرنا ہو گا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے عہد میں اختیار کیا تھا اوراس میں تین باتیں بنیادی طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔

∗..اول: یہ کہ مسلمان خود متحدہوں، وہ اپنی صفوں میں کوئی انتشار وبکھراؤ نہ پیدا ہونے دیں، جیسا کہ اس وقت مہاجرین وانصار نے شیر وشکر ہو کر اس کا نمونہ پیش کیا، اس وقت اس اُمت کا سب سے بڑا روگ اس کی باہمی نااتفاقی اور انتشار اور افتراق ہے، جو قوم بھکری ہوئی حالت میں ہوتی ہے، وہ یکے بعد دیگرے دشمن کا لقمہ تربنتی جاتی ہے۔

∗.. دوسرے: اعدائے اسلام کے درمیان افتراق واختلاف کی جو بنیادیں ہیں، مسلمان انہیں نمایاں کریں او رموجودہ ایک قطبی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کریں؛ کیوں کہ دو مختلف طاقتوں کی عدم موجودگی طاقت ور کو ظالم وجابر اور خود سربنا کر رکھ دیتی ہے، جنگ ِ عراق کے موقع سے امریکا وبرطانیہ کے مقابلہ روس و چین اور فرانس وجرمنی کا ایک گونہ اُٹھ کھڑاہونا ایک سے زیادہ عالمی طاقتوں کی موجودگی کی طرف ایک مؤثر قدم ہے، عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ اس رحجان کو تقویت پہنچائیں او ران کی سیاسی، معاشی، اخلاقی مدد کریں، تاکہ مخالف اسلام اتحاد میں شگاف پڑ سکے اور دنیا میں طاقت کا توازن قائم ہو۔

∗.. تیسرے: اس وقت مسلم ممالک کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے، یہ ایک دوسرے کے لیے حصار اور دشمن کے مقابلہ خندق کا درجہ رکھتے ہیں، مسلم ملکوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی سرحدوں کی فکر پر قناعت کرنے کے بجائے پورے عالم اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کوئی متحدہ نظم قائم کریں او راپنے دشمنوں کا متفقہ طور پر مقابلہ کریں، اس طرح وہ سرکش سے سرکش دشمنوں کو بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
یہ ہیں غزوہ احزاب کے اسباق آج کے عالمی حالات کے پس منظر میں!