عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہمیت ،آداب ،تقاضے

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہمیت ،آداب ،تقاضے

محترمسفیان علی فاروقی

آج کل ہم سب کا دعویٰ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اتنا سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس سے بڑھ کر اور اس سے زیادہ عاشق رسول دنیا میں کوئی بھی نہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری زندگی کا 80 فیصد حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور احکامات کی پیروی سے یکسر خالی ہے (اور یہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی انوکھی قسم ہے)۔

ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن ہم نے پنج وقتہ نماز نہیں پڑھنی ،ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن ہم نے اپنی شادیاں ہندوانہ رسم و رواج اور انگریزوں کی پیروی کرتے ہوئے کرنی ہیں ، ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن ہمارے غمگین لمحات نفسانی خواہشات کی پیروی پر گزرتے ہیں ۔ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن ہماری معاشرتی زندگی سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور ہے ۔ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن ہمارا کاروبار احکامات نبوی سے یکسر مختلف ہے ،ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن ہمارے بچوں کا آئیڈیل انگریز ہے،ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن زندگی یورپ کی جینا چاہتے ہیں ،ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن والدین ، بہن بھائیوں، عزیزو اقارب کے حقوق کے معاملے میں نبوی احکامات کے بالکل خلاف چل رہے ہیں ،ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن ہماری عملی زندگی میں سیرت کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی ،سو عشق کا دعویٰ کرنا اور سچا عاشق بننا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں اور حقیقتاً ہم عشق کے دعوے دار تو ہیں، لیکن سچے عاشق نہیں ہیں ۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت

ایک مسلمان اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کاعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کامل نہ ہو، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا ،ہرہر قول اور ہرہر عمل سے سچا عشق نہ ہو ،زندگی کے ہر معاملے میں سب سے پہلے نبوی طرز عمل کو ڈھونڈے ،جی جان سے اس پر عمل کی کوشش کرے، احکامات نبوی کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارنے کی جدوجہد کرے،اپنے معاملات ، معاشرت ، لین دین ، خوشی و غمی ہر چیز احکامات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع کردے۔ یہی ہر مسلمان سے تقاضا ہے ،یہی اس کی زندگی کا منہج و مقصد ہے ،اسی چیز پر زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔چناں چہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ:

﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْرًا أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِینًا﴾․(سورة الاحزاب:36)

کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے، وہ صریح گم راہی میں پڑ گیا۔

سورة الحشر ، میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ﴾․(سورة الحشر:7)

جو کچھ رسول تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاو اور اللہ سے ڈر جاو، وہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

”لا یؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ․“

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔ (مشکوٰة:167)

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
وہ عشق ہی کیا، جس میں ادب آداب کا لحاظ نہ ہو، چناں چہ تاریخ کی کتابوں میں ایک مشہور واقعہ درج ہے، بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نام محمد تھا،بادشاہ اس کو اسی نام سے پکارا کرتا تھا،ایک دن خلاف معمول اسے تاج الدین کہہ کر آواز دی، وہ تعمیل حکم میں حاضر تو ہوگیا، لیکن بعد میں گھر جا کر تین دن تک نہیں آیا، بادشاہ نے بلاوا بھیجا،تین روز تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا:آپ ہمیشہ مجھے محمدکے نام سے پکارا کرتے تھے، لیکن اس دن آپ نے تاج الدین کہہ کر پکارا، میں سمجھا میرے متعلق آپ کے دل میں کوئی خلش پیدا ہوگئی ہے،اس لیے تین دن تک حاضر خدمت نہیں ہوا، ناصر الدین نے کہا واللہ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں، تاج الدین کے نام سے تو میں نے اس لیے پکارا تھا کہ اس دن میرا وضو نہیں تھا اور مجھے محمدکا مقدس نام بغیر وضو کے لینا مناسب معلوم نہیں ہوا۔

اسی طرح ہمارے محدثین کا الحمدللہ معمول رہا ہے کہ جب بھی کوئی حدیث نقل کرنے لگتے ہیں تو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ، آداب کے ساتھ، باوضو ہو کر، حدیث کو نقل کرتے ہیں ،ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ایسی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرتے جس کے متعلق انہیں علم نہ ہو کہ واقعی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمائی ہے، کیوں کہ کوئی بھی ایسی بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ فرمائی ہو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا انتہا درجے کی بے ادبی ہے ،یہ بھی انتہادرجے کی بے ادبی ہے کہ کسی ایسے شخص کو گستاخ رسول قرار دینا جس نے گستاخی نہ کی ہو ،یہ بھی انتہا درجے کی بے ادبی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام نامی آئے اور ہم درود و سلام نہ پڑھیں ،یہ بھی بے ادبی ہے کہ ایک معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل موجود ہو اور ہم اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طرز عمل اختیار کریں ۔ادب یہ ہے کہ اپنی سوچ ،فکر ،فہم ،رسم ورواج سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے تابع کرلیں ،ساری محبتیں اس ایک محبت پر قربان کردیں۔

صحابہ کرام  نے دنیا کی تمام چیزوں کی محبت کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی محبت پر قربان کردیاتھا ،آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں ماں باپ ،بہن بھا ئی ، رشتہ دار قربان کر دیے، غرض کہ سب کچھ قربان کر دیا، لیکن محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے دامن کو نہ چھوڑا ، سیدنا ابو سفیان  حالت ِ کفر میں اپنی بیٹی کو ملنے کے لیے آتے ہیں اور کملی والے آقا صلی الله علیہ وسلم کے مقدس بستر پر بیٹھنے کی کو شش کرتے ہیں تو بیٹی ام حبیبہ  یکدم بو لتی ہے ابا جان! ذرا ٹھہریئے! باپ رک گیا ۔

بیٹی! کیا بات ہے ؟بیٹی نے جلدی سے بستر لپیٹ دیا۔ سیدنا ابو سفیان  بو لے کیا یہ بستر میری شان کے لا ئق نہیں یا میں اس بستر پر بیٹھنے کے لا ئق نہیں ہوں ؟ بیٹی نے کہا یہ محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا پاک بستر ہے اور آپ اس وقت نا پاک ہیں ۔

ذرا اندا زہ لگا ئیے کہ سیّدہ ام حبیبہ  نے اپنے باپ کی ذرا پروا نہیں کی اور مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں اپنے باپ کو بھی رد کر دیا ۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے

عاشق کے وجود کا ظاہری حلیہ اور اس کے اعمال میں جھلکتا باطنی عشق اس کے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منھ بولتا ثبوت ہو، اسے اپنے عشق کے اظہار کے لیے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے نعرے نہ لگانے پڑیں، بلکہ اس کے اعمال چیخ چیخ کر دنیا کو بتادیں کہ یہ ہے سچا عاشق رسول ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔
صحابہ کرام نے یہی کیا تھا، آیئے دیکھتے ہیں ان کے عشق کی چند جھلکیاں:

موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیوں کہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمر وہاں اس لیے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضور ا کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:483)

حضرت علی بن ابی طالب سواری پر سوار ہوئے تو دعائے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا:امیرالمومنین!مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود:2602)

حضرت انس نے دیکھا کہ آں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو کدو پسند ہیں۔ تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:3177)

ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرکہ کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابر کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی:2181)

ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی، گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم!میں اسے کبھی نہیں اٹھاوں گا ۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم:(2090

کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد:5277)

سرور کا ئنات صلی الله علیہ وسلم ایک دن مرادِ رسول سیدنا عمر بن خطاب  سے پو چھتے ہیں اے عمر !تم میرے ساتھ کتنا عشق و پیار کرتے ہو فاروق اعظم  نے فرمایا اپنے ماں باپ سے، اپنی اولا دسے، اپنے رشتہ داروں سے اپنے دوستوں سے بلکہ کل کا ئنات سے زیادہ آپ سے عشق رکھتا ہوں اور عزیز سمجھتا ہوں، بجز اپنی جان کے۔ کملی والے آقا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر!اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد ( صلی الله علیہ وسلم) کی جان ہے! اس وقت تک کوئی شخص مو من نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ سمجھے۔ فاروق اعظم  نے کہا اب آپ صلی الله علیہ وسلم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! اب تو مومن ہے ۔

صحابہ کرام کا معاملہ بھی عجیب تھا ان کی محبت کا دارومدار بس عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا ،اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا تو پھر خونی رشتے بھی بے معنی تھے اور اگر کوئی ایمان لایا اور خونی رشتہ نہیں بھی تھا تو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا ،واقعی تاریخ انسانیت میں ایسا انقلاب نہ پہلے آیا اور نہ کبھی آئے گا ۔

تا ریخ کی کتا بوں میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی منا فق نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام  کے متعلق کہا

﴿یَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ﴾․(سورة المناقون، آیت:8)

یہ بات ابن ابی کے فرزند ارجمند کے کان میں پہنچ گئی، حضرت عبداللہ  تلوار لے کر مدینہ شریف کے مین گیٹ پر کھڑے ہو گئے، لوگ گزرتے گئے، جب باپ آیا تو کہنے لگا پیچھے ہٹ جا ؤ تمہیں مدینہ میں دا خل نہیں ہو نے دیا جا ئے گا جب تک رسول اللہ صلی ا لله علیہ وسلم تیرے لیے کوئی فیصلہ صادر نہ فر ما دیں۔چنا ں چہ رحمت کا ئنات تشریف لا ئے تو حضرت عبدا للہ  نے فرما یا جب تک یہ اپنے لفظ واپس نہیں لے گا اس کو گزرنے نہیں دوں گا۔

حضرت ابو عبیدہ بن جراح  نے جنگ بدر میں اپنے والد کوکافروں کی حما یت میں مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی وجہ سے قتل کردیا ۔

حضرت مصعب بن عمیر  نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کردیا ۔

حضرت عمر  ،حضرت حمزہ  ، حضرت علی  ،حضرت عبید ہ بن حارث  نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ، شیبہ ، ولید وغیرہ کو قتل کیا، غرض یہ کہ صحابہ کرام  نے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں اپنے ماں، باپ ، بہن،بھائی ،عزیزو اقارب سب کو قربان کردیا، اسی لیے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام  کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :

ترجمہ:جو لوگ اللہ پر اورقیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں ،چا ہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھا ئی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہو، ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے۔(المجا دلہ آیت نمبر 22)

صحابہ کرام  نے اپنا سب کچھ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر لٹا دیا تو پھر اللہ پاک نے بھی اپنی تمام نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دیے ،ان کے قدموں میں سلطنتیں تسبیح کے دانوں کی طرح گریں ،دنیا کے خزانے مدینہ کی گلیوں میں بکھرنے لگے ، دنیا کی قیادت و سعادت ان پر فخر کرنے لگی ، ان کے احکامات پھر چرند ،پرند ، ابحار ،اشجار سبھی نے مانے اور جب تک مسلمان نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا رہے عشق رسول صلی الله علیہ وسلم کو حرز جاں بناتے رہے اس وقت تک ساری دنیا ان کے در کی دریوزہ گر رہی اور جیسے ہی انہوں نے عشق رسول صلی الله علیہ وسلم سے منھ موڑا،اللہ پاک کی تمام نعمتوں نے مسلمانوں سے منھ موڑ لیا۔ 

سیرت سے متعلق