اسوہٴ نبوی او راصلاحِ معاشرہ

اسوہٴ نبوی او راصلاحِ معاشرہ

مولانا زبیر احمد صدیقی

بلا شبہ انسانیت ایک بار پھر سے ہوا وہوس، حرص وطمع، اخلاقی گراوٹ، معاشی ناہم واری، معاشرتی جبر، ظلم واستبداد، مکر وفریب،قتل وغارت گری، لوٹ مار، نا انصافی، جہالت، اعتقادی زبوں حالی، شیطان پرستی اور باطل پرستی کا شکار ہوچکی ہے۔ لوگ درندگی پر اُتر آئے ہیں، عزتیں تارتار ہو رہی ہیں، خواہشات نفسانیہ کی تکمیل کے لیے چار، چار، پانچ، پانچ سال کی معصوم بچیوں کو تختہ مشق بنا کربے دردی سے قتل کیا جارہا ہے، چند روپوں کے حصول کے لیے بے دریغ انسانی خون بہایا جارہا ہے، دونو الوں کی خاطر ماں اپنی ممتا کو چیر پھاڑ رہی ہے، روٹی مانگنے پر سنگ دل باپ اپنی اولاد کو قتل کر رہا ہے، قوم کے راہ نما لٹیرے بنتے جارہے ہیں، استاذ کا مقدس رشتہ طمع ولالچ اور درندگی کے ساتھ آلودہ ہو گیا ہے، فراڈ، ناپ تول میں کمی، بددیانتی او رخیانت کو مہارت، جب کہ حیوانیت کو انسانی عروج سمجھا جارہا ہے، حق گو اور سچ بولنے والوں کو نادان وبے وقوف سمجھا جاتا ہے، الله ورسول کی بات کرنے والوں کو دیوانہ اور خبطی کہا جانے لگا ہے، زر اور زور کام یابی کے ہتھیار بن گئے ہیں، دنیا کی ایک دوڑ ہے، مرنے کے بعد زندہ ہونے اورجواب دہ ہونے کو بھلایا جاچکا ہے۔

حکم ران بے رحم، گونگے، بہرے او راندھے نظر آتے ہیں، تھانے عقوبت خانوں اور رشوت کدوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، عدالتیں ظلم کدہ بن گئی ہیں۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر بنتا جارہا ہے۔ سود اور جوئے جیسی لعنتیں معاشرے کے رگ وریشہ میں پیوست نظر آتی ہیں، شراب پانی کی طرح عام ہوچکی ہے۔ مذہب کے نام پر فرقہ واریت او رجہاد کے نام پر فساد بپا ہے۔ پیری مریدی کے نام پر مال وعزت کی لوٹ مار بھی کسی سے مخفی نہیں۔ تعلیم جیسی بنیاد ی اور ضروری چیز کو صنعت وتجارت بنا دیا گیا ہے۔ صحت کا حصول عنقا ہو چکا ہے۔ غریب بے چارہ علم او رصحت سے محروم نظر آتا ہے۔ آزادی کے نام پر آوارگی او رانسانی حقوق کے نام پر مذہب بیزاری پھیلائی جارہی ہے۔

الغرض! یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر زمانہ جاہلیت لوٹ کر آیا ہے۔ اس جہالت سے نجات بھی صرف اور صرف اسوہٴ نبوی سے ہی ممکن ہے۔ ” جہالت اولیٰ“ کا وہ عہد جو بعثت نبوی سے قبل تھا۔ اس میں بھی حالات اس قدر زیادہ برے تھے، انسانیت کے لیے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات نہ دولت کے ذریعہ ممکن تھی، نہ کسی فلسفہ اور نہ ہی کسی انسانی فکر ونظریہ سے۔ ان مایوس کن حالات میں حق تعالیٰ نے شمع نبوت کو روشن کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انقلاب بپا ہو گیا۔

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے ساتھ ہی ایمان واخلاق کی ایسی مبارک ہوائیں چلیں، جن سے بد اعتقادی، بد عملی، بے حیائی، طمع ولالچ ، جنگی جنون، ہوا پرستی، شہوات ولذات کی حرص، اولاد سے نفرت، ماں باپ سے بغاوت، بے حسی، خود غرضی، قتل وغارت گری، معاشی ناہم واری، لوٹ مار، درندگی، فتنہ وفساد، شراب وسود، جوئے بازی ، حرام خوری ، شیطان کی پوجا، بتوں کی پرستش، اوہام پرستی، سبھی کا خاتمہ ہو گیا۔ برائیوں کی جگہ نیکیوں نے لے لی۔ طمع وخود غرضی کے خاتمہ کے ساتھ نئے معاشرے میں ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا ہوا۔ خدا خوفی اور تقویٰ سے لوگ مزین ہو گئے ۔ گم راہ لوگ ہادی بن گئے۔ مدینہ منورہ میں ایک مثالی اور فلاحی ریاست قائم ہوئی، جس کے نتیجہ میں انسانیت نے امن اور سکون کا سانس لیا۔

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی انسانیت کی ہدایت کے لیے خدائی ہدایت نامہ، یعنی قرآن کریم کا نزول شروع ہو گیا۔ کتاب خدا وندی کی تشریح، تفسیر، توضیح اور عمل درآمد کے لیے، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قلب اطہر پر ” وحی غیرمتلو“ کا فیضان بھی جاری کیا گیا۔ وہی الہیٰ کے علوم سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے علم ومعرفت کے دریا جاری فرما کر پیاسی انسانیت کو سیراب فرما دیا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے دو حصے ہیں: مکی زندگی اور مدنی زندگی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مکی زندگی کا حاصل وخلاصہ نظریات وعقائد کی تطہیر، حق تعالیٰ کی معرفت ، تعلق بالله، نبوت کی ضرورت اورعقیدہ آخرت کی اہمیت وتفصیلات تھیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دلائل وبراہین، آیات بینات، حیران کن طرز کلام اور مسکت دلائل سے شرک کے ماحول میں توحید خدا وندی کو کھول کھول کر بیان فرمایا اور اس بات پر زور دیا کہ بندہ کا تعلق خدا تعالیٰ سیکیسا ہونا چاہیے؟ اس کی بندگی وعبادت کے بغیر اس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ذات واحد عبادت وریاضت کے لائق ہے۔ وہ وحدہ لاشریک، نفع ونقصان کی مالک ذات ہے۔ ان کے سوا کوئی معبود والہ نہیں ہے۔یہی جملہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا حاصل اور خلاصہ ہے اور یہ عقل ودانش کا تقاضا ہے۔

معبود کے لیے ضروری ہے کہ وہ جملہ مخلوقات کے حالات سے واقف اور باخبر ہو، نیز اسے ہر چیز پر قدرت ہو، وہ نیست کوہست اور بود کونابود، عدم کو وجود اور وجود کو عدم میں تبدیل کر سکتا ہو۔ اسے کسی کی احتیاج نہ ہو، اس کی حرمت بھی کامل اور فیاضا نہ ہو۔ ہمہ صفات صرف الله تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ اس کا علم کامل ہے، اس سے کوئی خبر مخفی نہیں، باقی ساری کائنات کا علم محدود ہے، اس کا علم غیر محدود ہے۔ وہ علی کل شیٴ قدیر ہے، وہ ارحم الراحمین ہے، لہٰذا معبود برحق صرف الله ہے۔ اسی سے لو لگاؤ، اسی پر توکل کرو، اس کا تقوی ٰاختیار کرو، اسی کے لیے زندہ رہو، اسی کے لیے جیو، اسی کے لیے مرو۔ اسی کا ہر لمحہ وہردم لحاظ رکھو۔ ہر نعمت اس کی عطا ہے، لہٰذا اس کا شکر کرو۔ اسی سے اپنا رشتہ ناطہ جوڑو، باقی سب ناطے توڑ و۔ یہ عقیدہ توحید کا خلاصہ ہے۔ جسے مکی زندگی میں پیش کیا گیا۔ اس مبارک عقیدہ کو اختیار کرتے ہی بندے سے آدھی برائیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ تقوی اور خوفِ خدا کی برکت سے ہمہ قسم کی برائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بندہ قانون سزا اور خوف خدا کے سبب جرائم سے باز آجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسوہٴ نبوی میں ہمہ وقت ذکر خدا وندی کی تلقین ہے۔ اذان ، نماز، تلاوت قرآن کریم اور تسبیحات مختلف اوقات ومواقع کی دعائیں… سبھی یہی درس یاد دلاتی ہیں کہ اسی سے ڈرو، اسی کا حکم مانو، اس کی نافرمانی سے بازآجاؤ، مخلوق کی بجائے خالق کی پوجا کرو۔

عقیدہٴ توحید کے ساتھ عقیدہ آخرت بھی جڑا ہوا ہے، اس لیے قرآن کریم نے توحید اور عقیدہٴ قیامت کو یکساں ایک ساتھ بیان کیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد الله تعالیٰ نے قبر عطا کی ہے، قبر ایک انتظار گاہ ہے، قبر میں سوال وجواب ہونا ہے، نیز دنیا کے حسن اعمال کی وجہ سے قبر جنت کا باغ اور سوئے اعمال کی وجہ سے قبر دوزخ کا گڑھا بن جاتی ہے، پھر ایک روز صور پھونکا جائے گا، جس سے پوری کائنات ہلاک ہو جائے گی، دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا، تو سب لوگ زندہ ہو جائیں گے او رانہیں وہی رب زندہ کرے گا، جس نے انہیں پہلی بار پیداکیا تھا اور یہ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں، پھر سب لوگوں سے ان کی زندگی سے متعلق حساب وکتاب ہو گا، سبھی کے اعمال ان کے اعمال نامہ میں محفوظ ہوں گے اور ہر چھوٹا بڑا عمل اس میں مکتوب ہو گا، ان اعمال کا وزن ہو گا، کام یاب لوگ دائمی زندگی حاصل کرکے جنت میں اور ناکام دوزخ میں جائیں گے، جنت ہر خواہش کی تکمیل کا نام اور دوزخ دکھ، درد، خطرناک آگ، دھویں، گرم پانی اور خار دار جھاڑیوں کا نام ہے۔

عقیدہٴ آخرت کی برکت سے انسان بد عملی ، ظلم وستم، حق تلفی جیسے جرائم سے باز آجاتا ہے، اسے یقین ہوتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں، کل مجھے اس کا جواب دینا ہے، میری خلوت ساری دنیا کے سامنے جلوت میں بدل جائے گی، میرا ہر ہر عمل مکتوب ہے، نیز میں الله تعالیٰ کی قدرت سے نکل نہیں سکتا، الله تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہ تو سفارش ہو گی، نہ فدیہ وزور چل سکے گا اور نہ ہی دولت وہاں پر کام آئے گی۔

جناب رسول الله صلی علیہ وسلم نے ان نظریات کو دلوں میں پیوست فرماکر، عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح فرمائی، اس کے ساتھ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے عقیدہ رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت کو واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا۔ مدینہ منورہ میں ایک نئی ریاست قائم فرمائی، یہاں عرب کے مختلف قبائل کو جمع فرمایا، ان میں بیشتر قبائل وہ تھے، جو صدیوں سے ایک دوسرے سے برسر پیکار اور کئی نسلوں سے کشت وخون کر رہے تھے، یہ لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو بھی تیار نہ تھے، لیکن جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی برکت سے شِیر وشکر ہو گئے۔

مدینہ منورہ میں ریاست کے قائم ہوتے ہی اسلام کے لیے ہجرت لازمی قراردے دی گئی، اس کے نتیجہ میں اطراف عرب سے لوگ اپنا گھر بار ترک کرکے مدینہ منورہ جان گزین ہو گئے۔ ان نئے خالی ہاتھ مہاجرین کی سکونت ، روز گار او رگھر بار کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بے گھر اور بے روز گار مہاجرین کے لیے مدینہ منورہ کی مقامی آبادی میں اس قدر جذبہ ایثار وخدمت پیدا فرما دیا کہ انصار مدینہ نے ایک ایک مہاجر کو اپنا بھائی قرار دے کر اپنی جائیداد او راپنی رہائش میں حصہ دار بنا دیا۔ ان میں اس قدر ”اخوت“ قائم فرمائی کہ ابتدا میں تو ان میں باہمی طور پر وراثت کو بھی جاری فرما دیا، یعنی مہاجر وانصار ایک دوسرے کے وارث بھی قرار دیے جاتے تھے، بعد میں وراثت کا حکم منسوخ ہو گیا۔اس اخوت کی برکت سے ان میں باہمی رقابت، عصبیتیں، جاہلانہ حمیت وغیرت سبھی ختم ہو کر رہ گئیں۔ یوں فتنہ و فساد ، قتل وغارت گری، جنگوں کا لامتناہی سلسلہ ، جیسے مسائل دنوں میں قابو میں آگئے۔

اس سب کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تعلیم، تربیت ، تزکیہ اور تطہیر اخلاق کی بھرپور جدوجہد فرمائی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت مبارکہ کی برکت سے روز افزوں اخلاقی ترقیات نصیب ہوتی گئیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایذائے مسلم کی حرمت، دوسروں کو نفع پہنچانے کی اہمیت، سلام کے پھیلانے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، ننگوں کو کپڑے پہنانے، صلہرحمی کرنے، پڑوسیوں کا خیال کرنے، اسلامی اخوت وبھائی چارے، ظلم نہ کرنے، دوسروں کی حاجات کو پورا کرنے، رحم ونرمی کرنے، دوسروں کی پردہ پوشی کرنے، گالم گلوچ سے دور رہنے، تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے ہٹانے، صبر وقناعت، حلم وحوصلہ جیسے انسانی کمالات کو لوگوں کے دل ودماغ میں پیوست فرما دیا۔ حب جاہ او رحب مال جیسے موذی امراض، ان کے قلوب ِ مبارکہ سے کھرچ لیں۔ انہیں اخلاقی عالی کا پیکر بنا دیا، وہ خدا کے عبادت گزار اور مخلوق کے خدمت گزار بن گئے۔ بزدلی او ربخل کو بہادری اور سخاوت میں بدل کر انہیں اعلی اقدار مرحمت فرمائیں ،ساتھ ہی ساتھ جاہلانہ عصبیتیں، رنگ ونسل کا امتیاز، دولت وسطوت کا غرور، سبھی کا خاتمہ فرمایا اور یہ حقیقت دل ودماغ میں پیوست فرما دی کہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے تخلیق ہوئے، کسی عربی کو عجمی پر اورگورے کو کالے پر اور سرخ کو سفید پر کوئی فضیلت نہیں، فضیلت صرف اورصرف تقوی، خوف خدا، الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ و سلم کی اطاعت کی وجہ سے ہے۔

تقویٰ اور خوف خدا کے احیاء کے علاوہ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جزا اور سزا کا منصفانہ نظام جاری فرمایا۔ اس نظام میں نہ تو رشوت کا تصور تھا، نہ سفارش کا، نہ ہی انتقام کا عنصر اور نہ ہی کسی کی رعایت کا۔ انصاف فوری ہر ایک کے لیے جاری فرما دیا۔ سنگین جرائم کی سزائیں بھی سنگین مقرر کی گئیں۔ معمولی جرائم کی سزائیں حاکم وقت کی صواب دید پر چھوڑ دی گئیں۔ معاشی لحاظ سے سود سے پاک معیشت کا اجرا کیا گیا۔ تجارت کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی۔ مدینہ منورہ میں یہودی تسلط سے آزاد مارکیٹ قائم کرائی گئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی کی۔ تجارت میں صداقت، امانت، ناپ تول میں برابری کو رواج دیا۔ ملاوٹ اور دھوکہ دہی کی حرمت کو واضح فرمایا۔ اس سب کی برکت سے تنگ دستی، خوش حالی میں بدل گئی۔

انصار مدینہ کا پیشہ زراعت تھا۔ زراعت کو بھی بہترین اصولوں پر استوار فرمایا۔ دھوکہ پر مبنی زراعت کو ناجائز قرار دیا۔ باغات اور فصلوں کے اُگنے سے پہلے خرید وفروخت کو ناجائز قرار دیا، تاکہ کسی فریق کا نقصان نہ ہو، پھلوں کو اس وقت تک درختوں پر فروخت کرنے سے منع فرمایا، جب تک کہ وہ کار آمد نہ ہو جائیں۔ مزدوری ہڑپ کر انے پر سخت وعیدیں ارشاد فرمائی۔ اس سب سے معیشت مضبوط ہوئی۔

تعلیمی میدان میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عروج بخشا، قرآن وسنت کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے لکھنے پڑھنے اور دوسری زبانیں سیکھنے کی جانب راغب فرمایا۔ تعلیم کے لیے باقاعدہ ادارے قائم فرمائے۔ علم کی اہمیت کو واضح فرمایا۔ معملین او رمتعلمین کے فضائل بیان فرمائے۔ اہل علم کی برتری اور فضیلت کو بیان فرمایا۔ یوں اعلیٰ نظام ونصاب تعلیم کی وجہ سے معاشرہ میں انقلاب بپا ہو گیا۔

آج بھی انہیں اصولوں کو اختیار کرکے ملک میں عدل وانصاف سے بہرہ مند، بامقصد تعلیم سے آراستہ، روز گار کی فراہمی کا ضامن، صحت مند او رجرائم سے پاک معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ امت اپنے محبوب آقا کی سنت مطہرہ کی بجائے، اغیار کے طور وطریق کو اختیار کرکے روز ا فزوں تنزلی کی جانب گام زن ہے۔ والی الله المشتکی․

سیرت سے متعلق