اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

حافظ عثمان علی

رسولِ کائنات فخر موجودات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو خالق ارض وسما نے نسل انسانی کے لیے نمونہ کاملہ اور اسوئہ حسنہ بنایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو فطری قراردیا ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تاب ناک اور ہر پہلو روشن ہے، یومِ ولادت سے لے کر روزِرحلت تک کے ہر ہرلمحہ کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں نے محفوظ رکھا ہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے کے حالات وواقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی برائی نہ تھی جو اس وقت قوم عرب میں نہ پائی جاتی ہو۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالہا سال لڑائیاں چلتی رہتیں، شراب نوشی، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، عورت کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنا، الغرض ہر برائی ان میں پائی جاتی تھی۔

جب اللہ کریم نے انہیں ظلمت وجہالت سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو انہیں میں سے محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اقوام عرب کی اصلاح کے لیے بطور نبی انتخاب فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی ان لوگوں کے سامنے تھی، لوگ آپ کی ہر بات پر یقین کرتے تھے۔ جب نبوت کا دعویٰ کیا تو سب سے پہلے مخالف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب ہوا۔ دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جن لوگوں نے آغازِ اسلام میں بھر پور تعاون کیا، اپنا سب کچھ اسلام پر نچھاور کیا اور اسلام کے محسن بن کر تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئے ان میں خاتون اسلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوانی کے آغاز میں ان کے مالِ تجارت کو شراکت داری میں جس محنت اور دیانت وامانت سے ثمر بار کیا تھا اسی نے سیدہ کا دل موہ لیا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقد نکاح میں عہد وفا باندھنے کے وقت انتہائی خوش تھیں کہ عرب کا سب سے زیادہ دیانت دار شخص انہیں اپنی زوجیت میں لے رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے بعد جب اپنے گھر میں آئے اور ساری کیفیت بیان کی تو سیدہ نے آپ کے جو محاسن بیان کیے ان میں آپ کی دیانت وامانت کا خصوصی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی اعلیٰ صفات کے حامل بندے کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غم خواری کی، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں گل دستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت ومحبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض وعداوت کی بیخ کنی کر کے بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے ، صحابہ اعلان کرتے ہیں”الیوم یوم الملحمة“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج شمشیر وسناں کا دن ہے، آج گزشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین وآسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میں آئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں:
”لاتثریب علیکم الیوم،اذھبوا أنتم الطلقاء․“

کہ جاوٴ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیاجائے گا۔ یہ تھے آپ کے اخلاق کریمانہ،یہ تھے آپ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ!!! جس کی مثال دینے سے دنیا قاصر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:﴿انک لعلیٰ خلقٍ عظیم﴾ ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:”إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق“ مجھے تواس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔ اسی کو سراہتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے اخلاق حسنہ کو یوں بیان کرتی ہیں:”کان خلقہ القرآن․“بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری ہوئی ہے، جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ