اصلاح معاشرہ کا نبوی منہج

اصلاح معاشرہ کا نبوی منہج

محمد ابرار اختر آفریدی
متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی

زیر نظر عنوان تین الفاظ کا دل کش مجموعہ ہے، شاخ دار درخت کے ساتھ اگر تشبیہ دی جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ اصلاح اور معاشرہ شاخیں، جب کہ نبوی منہج تنے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح شاخیں تنے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں اسی طرح معاشرہ کی اصلاح نبوی منہج اور اسلوب کے بغیر ناممکن ہے۔

نبوی طریقہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یقینا وہی گھر، خاندان ، ادارے او رمعاشرے اسلامی تعلیمات پر قائم رہتے ہیں، جہاں ایسے افراد موجود ہوں جو بلا خوف و خطر، لومةلائم کی پرواہ کیے بغیر، انتہائی خلوص، محبت او رحکمت کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اور جس معاشرہ میں ایسے رجال کار نہ ہوں، تو بظاہر وہ کتنے ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوں، اپنی تمام تر مادی ترقی، وسائل اورمال ودولت کے باوجود اعمال ِ سیاہ کی دیمک انہیں اندر ہی اندر کھوکھلا کرتی چلی جاتی ہے اور اچانک بداعمالیوں کی تندوتیز سیاہ آندھی اُسے زمین بوس کر دیتی ہے۔

انسانی سماج کی اصلاح کے لیے بعثت ِ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا گیا، جو ﴿یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾․ (الجمعہ:2) کا فریضہ انجام دیتے رہے، اس لیے ہر نبی من جانب الله تربیت یافتہ ہوتا ہے او ران میں انسانوں کی اصلاح کی بہترین صلاحیت ہوتی ہے، آخری پیغمبر خاتم الانبیاء پیارے آقا صلی الله علیہ و سلم کو تمام پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے، آپ کی رسالت زمان ومکان سے ماورا ہے، اس لیے الله تبارک وتعالیٰ نے آپ کی سیرت کو انتہائی جامع ومانع بنایا ہے، آپ معلم انسانیت اور مربی اعظم ہیں، ایک کام یاب مربی او رمصلح کے لیے جن اوصاف وخصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ نے حکمت وبصیرت عطا فرمائی، ایک کام یاب مربی او رمصلح کی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ اپنے زیر تربیت افراد کو کسی بات کی نصیحت کرتا ہے، تو اس کا لب ولہجہ تحکمانہ نہیں، بلکہ مشاورانہ ہوتا ہے، پیارے آقا صلی الله علیہ و سلم کی نصیحت اسی انداز کی ہوتی تھی، ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے رات کو نگرانی شروع فرمائی کہ صحابہ عمل کیسے کرتے ہیں؟ دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اتنی آہستہ آواز میں تلاوت کر رہے ہیں کہ کوئی کان لگا کر سنے تو بمشکل سننے میں آئے۔ آقا مدنی صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے، تو حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ اتنی زور سے تلاوت کر رہے تھے کہ سارا محلہ ان کی آواز سے گونج رہاتھا، صبح کو جب مسجد نبوی میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں پڑھ رہے تھے کہ کان لگا کر بھی بمشکل سنائی دیتا تھا؟ عرض کیا یا رسول الله! میں تو اسے سنا رہا تھا، جو نہ بہرہ ہے، نہ مجھ سے غائب ہے، ہر وقت حاضر وناظر اور سننے والا ہے، تو مجھے شور مچانے کی کیا ضرورت تھی!؟ جب حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ سے پوچھا کہ اے عمر! آپ اتنا چلا چلا کر کیوں پڑھ رہے تھے؟ عرض کیا: ”یا رسول الله، اوقظ الوسنان وأطرد الشیطان“ کہ میں اس لیے زور سے پڑھ رہا تھا کہ شیطان بھاگ جائے اور سوتے ہوئے جاگ جائیں کہ تم بھی قرآن شریف پڑھوا اور نماز ادا کرو۔ پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ آواز ذرہ اونچا کریں او راے عمر! آپ آواز ذرہ، دھیمی کریں، تاکہ اعتدال پیدا ہو جائے۔ (سنن ابی، داود کتاب الصلاة)

آج اس ہمہ گیر معاشرتی بگاڑ سے انسانی سماج کو کیسے نجات دلائی جائے؟ اس کا حاصلصرف اس مصلح اعظم اور پیغمبر انقلاب صلی الله علیہ و سلم کی سیرت میں مل سکتا ہے، جس نے ایک ایسے وقت میں انسانی معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا، جب فساد پھیلنے لگا، جہالت کا یہ عالم ہوا کہ ہر چیز کو جانتے تھے، مگر خدا کو نہیں، ہر چیز کی پرستش کرتے تھے مگر خدائی عبادت سے محروم تھے ،بد اخلاقی کا یہ عالم ہوا کہ زنا کاری، ڈکیتی دن رات کامشغلہ تھا، بے دردی اور قساوت قلبی کا یہ عالم ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب اولاد ہوتی ہے، لیکن ان کے ہاں یہ صورت ہوتی تھی کہ اگر لڑکی پیدا ہوتی، تو باپ اسے اپنے ہاتھ سے زمین میں زندہ دفن کر دیتا، اسے عار آتی تھی کہ میرا کوئی داماد کہلائے، روزی کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے، جس کو قرآن نے رد فرمایا:﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ﴾․ (بنی اسرائیل:31) اب خود سوچیے کہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے، تو وہ مسافر اور دوسرے خاندان والوں پر کیا رحم کرسکتے تھے؟ ڈکیتی، مار دھاڑ، قتل وغارت اور بدامنی پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھی، نہ ان کا کوئی نظام تھا، نہ ان کا کوئی بادشاہ اور امیر مقرر تھا، دنیا کی قومیں ان کو ذلت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں، کوئی کہتا تھا :اونٹوں کے چرانے والے، کوئی کہتا تھا: مینگنی میں کھیلنے والے، کوئی کہتا تھا: گندگیوں میں بسر کرنے والے، جس طرح حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ نے شاہ حبش کے سامنے خطاب کرتے ہوئے اس منظر کی عکاسی کچھ یوں فرمائی کہ : اے بادشاہ! ہم بتوں کو پوجتے تھے، نجاست میں آلودہ مردار کھاتے تھے، بے ہودہ بکا کرتے تھے، ہم میں انسانیت او رایمان داری کا نشان تک نہ تھا، ہمسایہ کی رعایت نہ تھی، کوئی قاعدہ اور قانون نہ تھا، اسی حالت میں خدا نے ہم میں سے ایک بزرگ کو مبعوث کیا، جس کے حسب ونسب، سچائی، ایمان داری ودیانت داری،تقو ی اور پاکیزگی سے ہم خوب واقف ہیں، اس ذات نے ہم کو توحید کی دعوت دی۔ (رحمة للعلمین:1/66)

ایسے ہمہ گیر معاشرتی بگاڑ کی حالت میں نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے قلیل عرصہ میں جزیرہ العرب کی کایا پلٹ دی، معاشرے کی اصلاح کے لیے وہ گر استعمال فرمائے کہ انسان نما بھیڑئے آپس میں شیروشکر ہو گئے اور اعلیٰ انسانی صفات کے ایسے کامل نمونے بن گئے کہ رہتی دنیا تک انسانیت اس کا نمونہ پیش نہیں کرسکتی۔ درج ذیل سطور میں اصلاح معاشرہ کے ان نبوی نسخوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جن سے موجودہ بگڑے ہوئے انسانی معاشرے کی بھرپور اصلاح ہو سکتی ہے، دور حاضر کے سارے دانش ور اور اصحاب قلم کا اتفاق ہے کہ آج معاشرہ پھر جاہلی معاشرے کی طرف لوٹ رہا ہے، وہ ساری خرابیاں جوجاہلی معاشرے کا طرہٴ امتیاز سمجھی جاتی تھیں، موجودہ معاشرے میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، ایسے میں عصر حاضر کے معاشرتی بگاڑ کی اصلاح اسی طریقہ سے ممکن ہے، جو طریقہ مصلح اعظم صلی الله علیہ وسلم نے اپنایا تھا، اس کے بغیر کوئی تدبیر کار گر نہیں ہوسکتی۔

پہلا قدم آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو اٹھایا تھا وہ ایمان راسخ اور یقین کامل کی محنت تھی، تیرہ سالہ مکی زندگی میں حضرات صحابہ رضی الله عنہم کے قلوب میں ایمان کو ایسا راسخ کیا گیا کہ ان کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو گیا، حضرت بلال رضی الله عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے، ٹھیک دوپہر کے وقت جب دھوپ تیز ہو جاتی اور پتھر آگ کی طرح تپنے لگتے، تو غلاموں کو حکم دیتا کہ بلال کو تپتے ہوئے پتھروں پر لٹا کر سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا جائے، تاکہ جنبش نہ کرسکے او رپھر کہتا: تو اسی طرح مر جائے گا۔ اگر نجات چاہتا ہے تو محمد ( صلی الله علیہ و سلم) کا انکار کر اور لات وعزی کی پرستش کر، لیکن بلال کی زبان سے ”احد احد“ ہی نکلتا۔( سیرة ابن ِ ہشام:1/317) یہ اسی ایمان راسخ کا نتیجہ تھاکہ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی سے حد درجہ احتیاط کرتے تھے او رگناہوں سے بالکلیہ اجتناب کیا کرتے تھے، ان صحابہ سے تو اول شاذ ونادرحکم عدولی ہوتی تھی او رجب کوئی مسئلہ پیش آتا تو جب تک سچی توبہ نہ کر لیتے چین وسکون کا سانس نہ لیتے تھے۔ حضرت ماعز رضی الله عنہ کا واقعہ معروف ہے۔

چناں چہ موجودہ معاشرے میں معاملات واخلاقیات اور معاشرتی زندگی میں جو حکم عدولیاں ہو رہی ہیں، اس کی بنیادی وجہ ایمان بالغیب میں کم زوری اور وعیدوں کے متعلق بے یقینی ہے۔ تیرہ سالہ مکی زندگی میں ایمان پر محنت کا نتیجہ تھا کہ پاکیزہ مدنی معاشرہ وجود میں آیا، ہجرت کے بعد جب تفصیلی ہدایت اورا وامرو نواہی اترنے لگے تو مسلمان ان پر خوشی خوشی عمل کرنے لگے، جب شراب کی حرمت آئی تو برسہا برس کی شراب ایسی بہائی گئی کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب ہی بہنے لگی تو معلوم ہوا کہ اصلاح معاشرہ کا آغاز درستگی ایمان سے ہونا چاہیے۔

اصلاح معاشرہ کے لیے دوسرا قدم آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ اٹھایا کہ ہر مسلمان کی تربیت اُخروی جواب دہی کی بنیاد پر فرمائی، آسمانی ہدایات میں انسانوں کو بتایا کہ دنیا ان کے لیے دارالامتحان ہے، یہاں کیے جانے والے ہر ہر عمل کا انہیں حساب دیناہو گا، قیامت کے دن ہر شخص کے اعمال کا دفتر اس کے سامنے ہو گا اور اعلان ہو گا:﴿اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا﴾․(بنی اسرائیل:14) ایک او رجگہ ارشاد فرمایا:﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَہُ، وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَہُ ﴾․(الزلزال:8-7)

آخرت میں جواب دہی کا احساس آدمی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبو رکرتا ہے، دورِ حاضر میں جرائم میں اضافہ کی بنیادی وجہ احساس وجواب دہی کی کمی ہے ، لوگ دوسرے کی حق تلفی یا دوسرے پرظلم وزیادتی کا یہ احساس نہیں کرتے کہ آخرت میں صاحب حق کو اس کا حق دلایا جائے گا۔

حقوق العباد میں ہر قسم کی کوتاہیوں سے معاشرے کو پاک رکھنے کے لیے نبی رحمت صلی الله علیہ و سلم نے ایمانی بھائیوں کے درمیان اسلامی اخوت کو خوب فروغ دیا کہ کلمہ کی بنیا دپر ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔(ترمذی:2/789 باب ماجاء شفقة المسلم علی المسلم) مزید فرمایا کہ آپسی رحمت و مودت میں تم مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح پاؤ گے، جس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف محسو س کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة…:3/1596) مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد آپ نے ان تمام جڑوں کو اکھاڑ پھینکا جس سے اسلامی مواخات متاثر ہوتی ہے، چناں چہ حسد، کینہ بغض، عداوت، غیبت اور چغل خوری جیسے رذائل سے بچنے کی تاکید فرمائی، جو آپسی محبت کو ختم کر دیتے ہیں:”لا یحل لمسلم أن یھجرأخاہ فوق ثلاث أیام“ (ترمذی، باب ماجاء فی المتھاجرین)

آپس میں حسد نہ کرو، آپس کے تعلقات نہ توڑو، بھائی بھائی بن جاؤ او راپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق نہ رکھو۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ اپنے پڑوسیوں کے متعلق فرمایا:”لیس المؤمن الذی یشبع وجارہ جائع“․ (الأدب المفرد، باب لایشبع دون جارہ)

مسلم معاشرے میں اخوت وبھائی چارگی کے یہ جذبات فروغ پائیں، تو کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی کیوں کر حق تلفی کرے گا؟ اس وقت ظلم وتعدی، قتل وغارت گری اور حق تلفی کی جتنی شکلیں معاشرے میں عام ہیں وہ اسلامی اخوت سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ ایک خاندان سے وابستہ افراد تک باہم دست وگریباں ہیں۔ اسی طرح رشتہ انتخاب کے موقع پر بچوں کے لیے نیک ماں کے انتخاب کی تاکید فرمائی تاکہ اس کے گود میں پلنے والی اولاد نیک وصالحبن سکے۔ ایک موقع پر والدین کو تربیت اولاد پر اور ماتحتوں کو دینی نگرانی پر توجہ دلاتے فرمایا:”ہر شخص سے اس کے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔“ (بخاری باب المرأة راعیة…52)

موجودہ معاشرے کے نوجوانوں کے بگاڑ اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ بچپن میں دینی تربیت کا فراہم نہ ہونا ہے۔ اگر ہمیں معاشرے کی اصلاح مطلوب ہے تو تربیت اولاد پر توجہ دینی ہوگی، جلسوں اور اصلاحی پروگراموں سے وقتی ہلچل تو پیدا ہو سکتی ہے، لیکن ٹھوس کام ممکن نہیں۔

معاشرے کی اصلاح کے لیے چوتھا اقدام معاشرے کو حرام خوری سے محفوظ رکھا گیا، حرام غذا کا عادی معاشرہ کبھی نیک وصالح نہیں بن سکتا، قرآن مجید میں پیغمبروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا: ﴿یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ﴾․ (المؤمنون:51)

اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھاؤں اور نیک عمل کرتے رہو۔ آیت میں صاف اشارہ ہے کہ نیک بننے کے لیے حلال اور پاکیزہ غذا ضرور ی ہے۔ عصر حاضر میں اصلاحی کوششوں کی ناکامی کی ایک وجہ حرام غذا کا ہونا ہے، والدین اولاد کی بے راہ روی پر فکر مند ہوتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے کہ وہ خود اپنے بچوں کی حرام غذا سے پرورش کر رہے ہیں۔

نبوی اصلاح معاشرہ مہم کی کام یابی کا پانچواں اقدام اصولِ اصلاح کی رعایت ہے، اصلاح کے خواہش مندوں کو چاہیے کہ وہ اصول اصلاح کی مکمل رعایت کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم اصلاح میں تدریج کا لحاظ فرماتے تھے، سارے احکام ایک دفعہ لاگو نہیں کرتے تھے، نیر مخاطب کے حالات اور نفسیات بھی ملحوظ رکھتے تھے، سارے افراد کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکتے تھے، ہرایک کے ساتھ اس کے حسب حال گفت گو فرماتے تھے، فرد کی اصلاح جماعت کی موجودگی میں نام لے کر نہیں فرماتے تھے، کتب احادیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کے نمونے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ایک دیہاتی مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا، صحابہ رضی الله عنہم نے کہا: ارے ارے! کیا کرتا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: چھوڑ دو، اسے چھوڑ دیا، وہ فارغ ہوچکا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بلا کر فرمایا: مسجد پیشاب اور نجاست کی جگہ نہیں ہے، یہ تو الله کے ذکر اور قرآن کی تلاوت کے لیے ہے، پھر ایک شخص کو حکم دیا، جو ایک ڈول پانی لایا اور اس پر بہا دیا۔ (مسلم، کتاب الطہارة:285)

نفس کا تزکیہ اور اخلاق کی تہذیب ایک کٹھن اور صبر آزما عمل ہے، اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنے کے لیے ایک طرف عزم پیہم او رجہد مسلسل ضروری ہے تو دوسری طرف اس کے نشیب وفراز سے بھی واقف ہونا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت سے راہ نمائی لینے کی ضرورت ہے، بلکہ طریق کار کو اسوہ او رنمونہ بنانا ضرور ی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریق اصلاح میں حکمت ودانائی تھی، اگر بعض لوگوں کی کچھ کوتاہیوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم باخبر ہوتے تو اجتماعی طور پر خطاب کرتے اورنامناسب عمل کی اصلاح فرما دیتے، اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ عام حضرات کے سامنے بھی اسلام کا صحیح طریقہٴ عمل آجاتا اور اگر کبھی اس بات کی ضرورت ہوتی کہ غلطی پر فوراً براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو انتہائی نرمی او رنہایت دل سوزی او رمحبت کے انداز میں سمجھاتے، تاکہ مخاطب حق بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے، لہٰذا عصر حاضر کے مربی اور مصلح حضرات، خواہ کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں، آپ علیہ السلام کے تربیت واصلاح کے طرق کو ذہن نشین کریں اور ان طریقوں کے مطابق نسل نوکی اصلاح اوران کے اخلاق وکردار کی تہذیب کا عمل انجام دیں، اس سے ان شاء الله ایک صالح اور خوش گوار معاشرہ وجود میں آئے گا اور اس کے زیر سایہ پوری انسانیت کو امن وسکون اور چین واطمینان کا سانس نصیب ہو گا۔

سیرت سے متعلق